قواعد فقہی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
قواعد فقہی سے مراد وہ احکامِ کلی ہیں جو
فقہ کے متعدد ابواب میں جاری ہوتے ہیں۔ فقیہ ان قواعد کو
حکم شرعی کے استنباط کے لیے استعمال کرتا ہے۔
[ترمیم]
قواعد فقہی کے مقابلے میں
قواعد اصولی آتے ہیں۔ قواعد فقہی ان کلی احکام کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو فقہ کے متعدد ابواب میں جاری ہوتے ہیں اور احکامِ جزئی کے استنباط کا سبب بنتے ہیں، مثلا قاعدہِ
لا ضرر کہ ہر مورد جہاں ضرر کا اندیشہ ہو اس
قاعدہ کو وہاں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ علم فقہ کے متعدد ابواب خصوصا
بیع،
اجارہ،
طلاق وغیرہ میں اس قاعدہ کو جاری کیا جاتا ہے۔
[ترمیم]
القواعد الفقہیۃ میں وارد ہوا ہے:
إن القواعد الفقهية هى احكام عامة فقهية تجرى فى ابواب مختلفة و موضوعاتها؛ قواعد فقہیہ حقیقت میں وہ عمومی فقہی احکام ہیں جو مختلف ابواب اور موضوعات میں جاری ہوتے ہیں۔
[ترمیم]
قواعد فقہی اور قواعد اصولی میں بڑے پیمانے میں فرق پایا جاتا ہے۔ بعض معتقد ہی، کہ قواعدِ فقہی خود احکامِ شرعی پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ اکثر و بیشتر قواعدِ اصولی حکم شرعی پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ فقط حکم شرعی کے
استنباط کے طریق میں واقع ہوتے ہیں۔ بعض دیگر قائل ہیں کہ قاعدہ اصولی اور فقہی میں سے ہر دو استنباط میں کبری واقع ہوتے ہیں لیکن ان میں تفاوت و اختلاف درج ذیل امور میں ہے:
۱. مسئلہِ اصولی فقط حکمِ کلی کے استنتاج کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ قاعدہِ فقہی
حکم جزئی کے استنتاج کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔
۲. مسئلہ اصولی مجتہد کے لیے فائدہ مند ہیں اور
مقلد اس سے بے بہرہ رہتا ہے۔ اس کے برخلاف قاعدہِ فقہی ہر دو مجتہد اور مقلد کے لیے مفید اور فائدہ مند ہوتا ہے۔
مرحوم
شیخ انصاری و
آقا ضیاء عراقی قواعدِ اصولی اور قواعدِ فقہی کے درمیان فرق کے بارے میں جداگانہ نظر رکھتے ہیں۔
[ترمیم]
=مأخذ==
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۶۴۸، یہ تحریر مقالہ قواعد فقہی سے اخذ کیا گیا ہے۔