قیامِ فخ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
شیعیان حیدر کرار ہمیشہ سے ہی ظلم و ستم کے خلاف قیام کرتے رہے ہیں۔ انہیں قیاموں میں سے عباسیوں کے دور میں انجام پانے والا ایک مشہور قیام
حسین بن علی بن حسن کا
قیام ہے جو سال ۱۶۹ہجری میں
فخ کے مقام پر
ہادی عباسی کی خلافت کے زمانہ میں انجام پایا۔
[ترمیم]
اس قیام کے رہبر کا
نسب حسین بن علی بن حسن بن حسن بن حسن المجتبی(علیہ السلام) ہے۔
قیام کے رہبر
امام حسن(علیہ السلام) کے نوادگان میں سے ہیں جو
فضل و
جہاد و
علم و
عبادت میں معروف اور
اہل بیت(علیہم السلام) اسلام کا معروف خاندان ہے۔
[ترمیم]
اس قیام کی خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس قیام کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ہی
صاحبِ فخ کی مقام و منزلت کا ذکر روایات میں وارد ہوا ہے جو بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت یہ ہے؛
امام باقر(علیہ السلام) سے روایت ہے کہ ایک دن
رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ) فخ کی سرزمین سے گزرے تو وہاں اپنی سواری سے اترے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ نماز کی دوسری رکعت میں بے اختیار گریہ کرنے لگے، آپؐ کو دیکھ کر اصحاب بھی گریہ کرنے لگے۔ بعد میں آپؐ نے اپنے گریہ کی وجہ یوں بیان کی: نماز کی پہلی رکعت میں
جبرئیل(علیہ السلام) مجھ پر نازل ہوۓ اور انہوں نے مجھے خبر دی: «اے
محمد! آپ کے فرزندان میں سے ایک مرد اس جگہ قتل ہوگا اس کی ہمراہی میں جو شخص شہید ہوگا اس کا اجر و ثواب دو شہیدوں کے برابر ہوگا»۔
امام کاظم(علیہ السلام) نے
حسین بن علی معروف بہ
صاحب فخ کی
شہادت کے بعد ان کی قداست اور پاکی بیان کرتے ہوۓ فرمایا: خدا کی قسم وہ رخصت ہو گئے اور اس حال میں شہید ہوۓ کہ وہ
صالح، روزہ دار،
امر بالمعروف کرنے والے،
نہی از منکر کرنے والے مسلمان تھے۔ ان کے جیسا پورے خاندان میں کوئی نہیں تھا۔
امام تقی جواد(علیہ السلام) نے فخ کے دلخراش حادثہ کے متعلق فرمایا: «
واقعہ کربلا کے بعد فخ کے حادثہ سے بڑا حادثہ ہمارے لیے کوئی نہیں»۔
[ترمیم]
کیا
قیام فخ کا
قیام امام حسین(علیہ السلام) سے کوئی ربط ہے یا نہیں؟ ممکن ہے کہا جا سکے کہ چونکہ دونوں قیاموں میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور قیام
کربلا ۶۱ ہجری اور یہ قیام ۱۶۹ ہجری میں وقوع پذیر ہوا اس لیے شاید دونوں قیاموں میں براہ راست ربط نہیں۔ لیکن بغیر کسی شک و شبہہ کے یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ قیام بھی قیام کربلا کا ہی ایک نمونہ تھا۔
[ترمیم]
معروف
مؤرخ یعقوبی اس قیام کی علت بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
حکومت عباسی کا طالبیان کو دھڑا دھڑ زندانوں میں ڈالنا باعث بنا کہ وہ
حسین بن علی سے قیام کا مطالبہ کریں۔ اگرچہ حسین بن علی کو ان کی ہمراہی کا اطمینان نہیں تھا اس کے باوجود
حج پر آۓ چند افراد نے ان کے ہاتھ پر
بیعت کی۔ ان افراد کی تعداد پانچ سو سے کم تھی انہوں نے
مکہ مکرمہ کے نزدیک فخ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور
ہادی عباسی کی فوج سے روبرو ہوۓ۔ شدید جنگ میں بہت سے افراد پراکندہ ہوگئے اور صاحب فخ اپنے چند ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔
ظالم عباسی حکومت نے
یزید بن معاویہ کی جسارت اور ناجوانمردی کی یاد تازہ کرتے ہوۓ قیام فخ کے شہدا کے سروں کو نیزوں پر بلند کیا اور انہیں حجاج کرام اور زائرین
خانہ خدا کے معرض دید میں قرار دیا۔ سو سے زائد شہدا کے سر نیزوں پر موجود تھے اور ان میں سب سے آگے
قیام فخ کے رہبر
حسین بن علی اور
سلیمان بن عبداللہ کا سر تھا۔
[ترمیم]
یہ
قیام بروز ہفتہ ۸ ذی الحجہ سال ۱۶۹ ہجری ظہر کے وقت حسین بن علی اور ان کے وفادار ساتھیوں کی
شہادت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
شہر سؤال۔