مال فیء کا حکم

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



فیء کے معنی رجوع کے ہیں۔ لغت میں یہ جنگی غنائم کے معنی میں بھی وارد ہوا ہے۔ ایسا مال جوکہ بغیر جنگ و قتال کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں آئے مالِ فیء سے تعبیر کیا جاتا ہے۔


لغوی معنی

[ترمیم]

فیء عربی زبان کا لفظ ہے جو فَاءَ یَفِي سے مصدر ہے۔ اس کے لغوی رجوع کرنے کے ہیں۔ فقہی اصطلاح کے مطابق وہ اموال جو بغیر جنگ و قتال کے کفار سے غنیمت کے طور پر مال آئے مالِ فیء کہلاتا ہے۔

فیء کے مصادیق

[ترمیم]

کیا مالِ فیء کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلمانوں کے لشکر کے خوف سے کفار نے بغیر جنگ کے مال دیا ہو یا وہ مسلمانوں سے گھبرا کر فرار کر گئے ہوں اور فرار کے نتیجے میں غنیمت کے طور مال آیا ہو، کیا یہ مال بھی مالِ فیء شمار ہو گا یا نہیں؟ کیونکہ مسلمانوں کے لشکر نے پیش قدمی کی اور ان کے خوف سے دشمن بھاگ کھڑا ہوا اس لیے یہ مال غنیمت کہلائے گا یا مالِ فیء؟ اس بارے میں فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ نیز کیا مالِ فیء فقط زمین کے ساتھ مختص ہے کہ کفار سے بغیر جنگ کے زمین قبضے میں آئے تو وہ مالِ فیء کہلائے گی یا نہیں بلکہ مالِ فیء اس سے اعم تر ہے اور منقول و غیر منقول ہر دو قسم کے اموال کو شامل ہے؟ اس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ قولِ مشہور پہلا قول ہے۔ مالِ فیء پر مطلقِ غنیمت کا اطلاق بھی ہوتا ہے اور انفال کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے۔

فقہی استعمال

[ترمیم]

علم فقہ میں فیء سے کتاب خمس اور انفال کے ذیل میں بحث کی جاتی ہے۔

فیء کا مالک

[ترمیم]

مالِ فیء کو انفال میں شمار کیا جاتا ہے اور انفال کے بارے میں سورہ انفال کی پہلی آیت میں صراحت کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ انفال فقط اللہ اور اس کے رسولؐ کا ہے۔ انفال میں کسی غیر کا کسی قسم کا کوئی حق موجود نہیں۔ پس مالِ فیء چونکہ انفال میں سے ہے اس لیے یہ اموال رسول اللہؐ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کی رحلت کے بعد ان کے برحق جانشین آئمہ اطہارؑ کے سپرد ہو گا۔

فیء کہنے کی وجہ

[ترمیم]

اس کو فیء کہنے کی وجہ یہ ہے کہ مالِ انفال میں سے ایک حصہ کو فیء کہتے ہیں جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مال کافروں سے بغیر جنگ و قتل کے حاصل ہوا ہے۔ حقیقت میں یہ مال پہلے ہی سے رسول اللہؐ اور ان کے بعد آئمہ اہل بیتؑ کا تھا لیکن اس پر یہود و نصاری قابض تھے، جب یہ اموال ان سے مسلمانوں کے ہاتھوں میں آئے تو معلوم ہوا کہ حقیقت میں یہ اصل مالک کی طرف لوٹا ہے۔ فیء کا لغوی معنی رجوع یعنی پلٹنے کے ہیں، اس کو اس لیے مالِ فیء کہا جاتا ہے کیونکہ یہ دوسروں کے قبضے سے نکل کر اصل مالک یعنی رسول اللہؐ تک پلٹ کر آ گیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
۱. شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج۲، ص۶۴۔    
۲. علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، ج۹، ص۱۱۹۔    
۳. علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، ج۹، ص۱۲۰۔    
۴. محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، ج۳، ص۴۰۱۔    
۵. خوئی، سید ابو القاسم، المستند فی شرح العروة الوثقی، ج ۱۵، ص ۳۶۰۔    
۶. میرزا قمی، ابو القاسم، غنائم الایام فی مسائل الحلال والحرام، ج۴، ص۳۷۱۔    
۷. شیح طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، ج۲، ص۶۴۔    
۸. علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، ج۹، ص۱۱۹۔    
۹. طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، ج ۳، ص ۴۴۱۔    


ماخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۵، ص۷۳۱، مقالہ فیء سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار