محمد بن ابراہیم نعمانی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ابن ابی زینب نعمانی کا شمار بزرگ شیعہ محدثین و مفسرین میں ہوتا ہے۔


ابن ابی زینب کا تعارف

[ترمیم]

آپ کا نام محمد بن ابراہیم بن جعفر، کنیت ابو عبد اللہ، لقب الکاتب اور نسبت نعمانی ہے۔ ابن ابی زینب کے عنوان سے آپ معروف ہیں۔ آپ کی تاریخِ ولادت معلوم نہیں کی جا سکی۔ آپ کی وفات ۳۶۰ ھ/۹۷۱م‌ میں ہوئی۔ آپ کا شمار علماءِ تشیع کے نامور ادیب، متکلم، محدث، اور مفسر میں ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق نُعمانیہ سے ہے جس کی وجہ سے آپ کو نعمانی کہا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے مختلف احتمالات دیئے جاتے ہیں کہ آپ کی ولادت مصر کے نُعمانیہ شہر میں ہوئی یا حجاز میں ہوئی۔
[۱] مامقانی، حسن، تنقیح المقال، ج ۲، ص ۵۵، نجف‌، ۱۳۵۲۔
صحیح یہ ہے کہ آپ کی ولادت عراق کے شہر نعمانیہ میں ہوئی جوکہ بغداد اور واسط کے درمیان ایک قدیمی شہر ہے۔
آپ کی زندگی کے بارے میں اتنا ملتا ہے کہ آپ ۳۱۳ ق‌/۹۲۵م‌ مبں شیراز تشریف لائے اور اس شہر میں ابو القاسم‌ موسی‌ بن‌ محمد اشعری‌ قمی‌ سے حدیث کو سیکھا اور احتمال دیا جاتا ہے کہ قم میں آپ نے علی‌ بن‌ حسین‌ بن‌ بابویہ (د ۳۲۹ق‌/ ۹۴۱م‌) سے حدیث کو سُنا۔ اس کے بعد آپ نے بغداد کا سفر کیا۔ یہاں آب نے متعدد معروف علماء و محدثین و فقہاء سے کسبِ علم کیا جن میں سرفہرست محمد بن‌ ہمام‌ اسکافی، احمد بن‌ محمد بن‌ سعید بن‌ عقدة کوفی (د ۳۳۳ ق‌/۹۴۵ م‌) اور محمد بن‌ یعقوب‌ کلینی (د ۳۲۹ ق‌) ہیں۔ آپ نے ان تین بزرگان سے علم حدیث اور احادیث مبارکہ کو حاصل کیا۔

بغداد میں چند محدثین و فقہاء کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کے بعد آپ نے بغداد سے شام کا سفر کیا اور ۳۳۳ ق‌ میں اُردن کے ایک شہر طبریہ میں محمد بن‌ عبد الله‌ طبرانی ‌ اور عبد الله‌ بن‌ عبد الملک‌ بن‌ سہل‌ طبرانی ‌سے سماعِ حدیث کیا۔ اس کے بعد آپ نے شام میں محمد ابن‌ عثمان‌ بن‌ علان‌ دہنی‌ بغدادی ‌سے حدیث کو لیا۔ زندگی کے آخری ایام میں آپ حلب تشریف لے گئے جوکہ اس ایام میں شیعہ نشین علامہ شمار ہوتا تھا اور اس جگہ زندگی کے آخری لمحات کاٹے اور یہاں حدیث و معارف کو نشر کیا اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج کی یہاں تک کہ ان خدمات کو انجام دیتے ہوئے شام ہی میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔
[۵] علی‌اکبر غفاری‌، غیبت ابن ابی زینب پر مقدمہ، ج۱، ص ۱۴- ۱۸۔


← اساتیذ کرام


شیخ نعمانی نے ایران، عراق اور شام میں متعدد مشائخِ حدیث اور فقہاء و اعلام سے کسب علم و حدیث کیا۔ ان میں سے بعض دیگر اساتیذ درج ذیل ہیں:
۱۔ احمد بن‌ نصر بن‌ ہوذة باہلی
‌۲۔ ابو علی‌ احمد بن‌ محمد بن‌ یعقوب‌ بن‌ عمار کوفی
‌۳۔ حسین‌ بن‌ محمد باوری
‌۴۔ سلامۃ ابن‌ محمد بن‌ اسماعیل‌ ارزنی
‌۵۔ عبد العزیز بن‌ عبد الله‌ بن‌ یونس‌ موصلی
‌۶۔ عبد الواحد بن‌ عبد الله‌ بن‌ یونس‌ موصلی
‌۷۔ علی‌ بن‌ احمد بندنیجی
‌۸۔ محمد ابن‌ حسن‌ بن‌ محمد جمہور قمی‌ و محمد بن‌ عبد الله‌ بن‌ جعفر حمیری۔
[۶] علی‌ اکبر غفاری‌، ج۱، ص ۱۶-۱۷، مقدمہ بر غیبت‌ ابن‌ ابی‌ زینب‌۔


← شیخ نعمانی کے استاد ابن‌ عقدة کوفی‌ اور کلینی


شیخ نعمانی نے سب سے زیادہ علمی استفادہ ابن‌ عقدة کوفی‌ اور محمد بن یعقوب کلینی ‌سے کیا اور ان کے محضرِ علمی سے بہرہ مند ہوئے۔ ابن عقدۃ سے آپ نے متعدد احادیث اپنی کتاب غیبت میں نقل کی ہیں اور ہر جگہ کا نام انتہائی عزت اور احترام سے لیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان کے قول کو خصوصی اہمیت دیتے اور اس کو قبولیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
[۷] ابن‌ عقده‌، ص‌ ۳۹۔


اسی طرح شیخ نعمانی ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی کے انتہائی موردِ اعتماد شاگردوں میں سے تھے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ آپ نے جناب کلینی کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جو وہ شہرِ رے میں تھے یا اس وقت ان کے محضر میں حاضر ہوئے جب وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں بغداد تشریف لائے اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ البتہ تاریخی منابع میں ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ آپ نے شیخ کلینی سے رے میں ملاقات کی ہو۔ اسی طرح یقینی طور بر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ جب شیخ کلینی بغداد میں موجود تھے تو اس وقت شیخ نعمانی بھی بغداد میں زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ شیخ کلینی کی الکافی آپ نے لکھی اور اس کی نسخہ برداری کی جس کی وجہ سے آپ کو الکاتب کے لقب سے خصوصی شہرت حاصل ہوئی کیونکہ نسخہ برداری اور کتابت کی ذمہ داری معتمد اور با وثوق شاگرد کو عنایت ہوتی تھی خصوصا الکافی جیسی اہم کتاب کی کتابت ایک امتیاز شمار کیا جاتا ہے۔ الکافی کے متعدد نسخوں میں نسخہِ کافی نعمانی مشہور ترین نسخہ شمار کیا جاتا ہے۔۔

← شیخ نعمانی کا کتبِ رجالیہ میں تذکرہ


پہلی شخصیت جنہوں نے شیخ نعمانی کے مختصر حالات قلمبند کیے وہ نجاشی (متوفی ۴۵۰ ق‌/۱۰۵۸م‌) ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب رجال میں درج ذیل کلمات سے شیخ نعمانی کو یاد کیا ہے: محمد بن‌ إبراهيم‌ بن جعفر أبو عبد الله الكاتب، النعماني، المعروف بابن زينب، شيخ من أصحابنا، عظيم القدر، شريف المنزلة، صحيح العقيدة، كثير الحديث. قدم بغداد و خرج إلى الشام و مات بها. له كتب، منها: كتاب الغيبة؛ محمد بن ابراہیم بن جعفر، ابو عبد اللہ، الکاتب، نعمانی، ابن زینب کے عنوان سے معروف ہیں، ہمارے اصحاب کے شیخ، عظیم قدر و منزلت کے مالک، شرافت کی منزلت پر فائز، صحیح عقیدہ رکھنے والے اور کثرت سے حدیث نقل کرنے والے ہیں۔ آپ بغداد تشریف لائے اور پھر شام کی طرف جل دیئے اور وہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کی متعدد کتابیں ہیں جن میں سے ایک کتابِ غیبت ہے۔ علامہ مجلسی (۱۰۳۷-۱۱۱۰ق‌/۱۶۲۷- ۱۶۹۸م‌) نے آپ کو فاضل، کامل اور پاکیزہ ترین علماء میں سے قرار دیا ہے۔

← شیخ نعمانی سے حدیث نقل کرنے والے


شیخ نعمانی سے حدیث کو نقل کرنے والے افراد کم ہیں جن میں ایک معروف شخصیت ابو الحسین‌ محمد بن‌ علی‌ شجاعی‌ جوکہ الکاتب کے لقب سے معروف ہیں، انہوں نے حلب میں شیخ نعمانی سے کسب علم کیا اور ان کی کتاب الغَیۡبَۃ کو ان سے نقل کیا۔ اسی طرح ایک اور معروف شخصیت ابو غالب‌ زراری‌ (متوفی ۳۶۸ ق‌/ ۹۷۸م‌) ہیں جنہوں نے شیخ نعمانی سے ملاقات کی اور ان سے حدیث کو نقل کیا ہے۔

← علمی آثار


ابن ابی زینب نعمانی کی کے اہم ترین آثار درج ذیل ہیں:
۱۔ الغیبۃ
۲۔ الرد علی الاسماعیلیۃ
۳۔ الفرائض
۴۔ التفسیر والتسلی۔
شیخ نعمانی کی کتاب تفسیر کو سید مرتضی علم الہدی نے تلخیص کیا ہے اور اس کو ایک رسالہ میں ڈھال کر اس کا نام محکم و متشابہ رکھا ہے۔ نیز اس کا تذکرہ علامہ مجلسی نے بحار میں بھی کیا ہے۔
[۱۵] قمی، عباس‌،فوائد الرضویۃ، تہران‌، ۱۳۲۷ ش‌۔


شیخ نعمانی کی مشہور ترین کتاب الغیبۃ ہے جو مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور اصل عربی متن کے ساتھ یہ ترجمہ چھپتا ہے۔ شیخ نعمانی نے یہ کتاب حلب میں ۳۴۲ق‌/۹۵۳م‌ میں تالیف کی۔ یہ کتاب امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کے موضوع پر ہے جوکہ ۲۶ ابواب پر متشمل ہے جس میں کل احادیث ۴۴۵ ہیں۔ غیبت کے موضوع پر تحریر کی جانے والی یہ پہلی کتاب ہے جو ہم تک پہنچ پائی ہے ورنہ اس موضوع پر اس سے پہلے بھی متعدد کتب موجود تھیں جو ہم تک نہیں پہنچی۔
[۱۶] صدر، سید حسن، تأسیس الشیعۃ، ج ۱، ص ۳۳۶۔


← کتاب الغَیۡبَۃ


چوتھی صدی ہجری کے آغاز میں امام مہدی علیہ السلام کی غیبتِ صغری ان کے آخری نائب ابو الحسن‌ علی بن محمد سمری (متوفی ۳۲۹ق‌/۹۴۰م‌) کی وفات کے ساتھ ختم ہوئی۔ غیبتِ صغری کے اختتام کے بعد مختلف طرح شکوک و شبہات جنم لینے لگے اور عوام الناس کے بعض حلقہ جات میں عقائدی تزلزل کے آثار دکھائی دینے لگے جس کی وجہ سے بعض افراد نے غیبت کا انکار شروع کر دیا۔ ایسے میں شیخ نعمانی نے آئمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث میں سے غیبت کے متعلق احادیث کا استخراج کیا اور ان کو ایک کتاب میں ڈھال کر غیبت کے نام سے موسوم کیا۔اس کتاب کی احادیث سے متزلزل افکار کو اہل بیتؑ سے متمسک ہونے کی فرصت مہیا ہوئی اور غیبتِ امام مہدیؑ محکم دلیل منظم صورت میں سامنے آ گئی۔ اس کتاب میں متعدد احادیث کو شیعہ کتب کے علاوہ اہل سنت طرق سے بھی نقل کیا گیا ہے۔ شیخ نعمانی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں قرآن کریم اور اہل بیت ؑسے متمسک ہونے اور شک و عقائدی تزلزل پر احادیث کو پیش کرنے کے علامہ اپنی کتاب کی ابواب بندی کا بھی تذکرہ کیا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مامقانی، حسن، تنقیح المقال، ج ۲، ص ۵۵، نجف‌، ۱۳۵۲۔
۲. خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ج ۶، ص ۱۲۷۔    
۳. علی‌ اکبر غفاری‌، کتاب غیبت کا مقدمہ، ۱، ص ۱۴۔    
۴. نجاشی، احمد، رجال النجاشی، ج ۱، ص ۲۷۱۔    
۵. علی‌اکبر غفاری‌، غیبت ابن ابی زینب پر مقدمہ، ج۱، ص ۱۴- ۱۸۔
۶. علی‌ اکبر غفاری‌، ج۱، ص ۱۶-۱۷، مقدمہ بر غیبت‌ ابن‌ ابی‌ زینب‌۔
۷. ابن‌ عقده‌، ص‌ ۳۹۔
۸. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۸۳۔    
۹. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱، ص۱۴۔    
۱۰. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۸۳۔    
۱۱. زراری، احمد ابو غالب، رسالۃ آل اعین، ص۸۱۔    
۱۲. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۸۳۔    
۱۳. خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ج ۶، ص ۱۲۸۔    
۱۴. خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات، ج ۶، ص ۱۲۸۔    
۱۵. قمی، عباس‌،فوائد الرضویۃ، تہران‌، ۱۳۲۷ ش‌۔
۱۶. صدر، سید حسن، تأسیس الشیعۃ، ج ۱، ص ۳۳۶۔
۱۷. نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ، ص‌ ۲۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

دانشنامہ بزرگ اسلامی، مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، مقالہِ ابن ابی زینب، شماره ۸۱۸ سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    






جعبه ابزار