غیبت صغری

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



غیبت صغری سے مراد امام مہدیؑ کی پہلی غیبت ہے جس کی مدت قلیل اور مختصر تھی۔ معتبر احادیث کے مطابق مشیئت الہٰی یہ تھی کہ امام مہدیؑ کے یے دو طرح کی غیبت قرار دی جائے۔ پہلی غیبت کو غیبتِ صغری کہتے ہیں جوکہ قلیل مدت اور مختصر دور پر مشتمل ہے۔ جبکہ دوسری غیبت کو غیبت کبری کہا گیا جس کا دورانیہ ظہورِ امامؑ تک ہے۔ غیبت کے اس دور میں امام مہدیؑ امت کی رہنمائی نظام نیابت و نظام وکالت کے ذریعے فرما رہے ہیں۔ امت کے افراد اسی نظام نیابت کے توسط سے امام زمانؑ سے مربوط ہیں۔


غیبت صغریٰ کا آغاز

[ترمیم]

آئمہ اہل بیتؑ سے تواتر کے ساتھ احادیث وارد ہوئی ہیں جن کے مطابق امام مہدیؑ کی ولادت با سعادت ۲۵۵ ھ میں ہوئی اور امام حسن عسکریؑ کے مختلف قریبی اصحاب نے ان کے فرزند امام مہدیؑ کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اللہ تعالی کی مشیئت سے آپؑ کے لیے دو قسم کی غیبتیں رکھی گئیں جن میں سے پہلی مختصر تھی، اس لیے اس کو غیبت صغری کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری غیبت طولانی اور قبل از ظہور تک ہے۔ اس کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کو غیبت کبری کہا جاتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام مہدیؑ کی غیبت صغری کا آغاز کب سے ہوا؟ اس بارے میں ہمیں دو قول ملتے ہیں:
۱. پہلے قول کے مطابق امام مہدیؑ کی غیبت صغری اس دن شروع ہوئی جس دن آپؑ کی ولادت ہوئی۔

۲. دوسرے قول کے مطابق امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے بعد غیبت صغریٰ کا آغاز ہوا۔ یہ قول علماء میں معروف اور مقبول ہے۔ غیبت صغریٰ کا یہ مختصر دورانیہ امت کو امامؑ کی طولانی غیبت کے لیے آمادہ کرنے کے لیے تھا۔ اس بناء پر ہم غیبت کبری کو ظہور کا مقدمہ اور امت کو عالمی سطح پر عدل و انصاف کے قیام کے لیے آمادہ کرنے سے موسوم کر سکتے ہیں۔ اس طویل دورانیے میں امت خود کو امام مہدیؑ کی نصرت اور ان کے اہداف کو اپنا ہدف قرار دے کر ظہور کی زمینہ سازی کو عمل شکل دینے کی کوشش کرتی رہے گی یہاں تک کہ امامؑ کا ظہور پُر نور ہو جائے اور زمین عدل و انصاف سے بھر جائے۔

غیبت صغریٰ کے دورانیے کی خصوصیات

[ترمیم]

اگر غیبت صغریٰ کی خصوصیات کو ملاحظہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ غیبت صغری کا ہونا ضروری تھا جس میں اللہ سبحانہ کی حکمت یہ تھی کہ امام زمانؑ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہیں یہاں تک کہ لوگ اپنے آپؑ کو طولانی غیبت کے لیے آمادہ کر سکیں۔ اگر اچانک امامؑ کی غیبت کبری واقع ہوتی تو مسئلہ پیچیدہ تر ہو جاتے۔ غیبت صغریٰ کے دورانیے کی بعض خصوصیات ذیل میں درج ہیں:
۱. غیبت صغریٰ کا دورانیہ محدود تھا جوکہ ۶۹ سال اور کچھ مہینوں پر مشتمل تھا۔ اس مدت کو اپنے اختصار کی وجہ سے صغریٰ کہا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف غیبت کبری ہے جس کا دورانیہ طولانی ہے۔

۲. غیبت صغری میں امام مہدیؑ کا سب سے پوشیدہ نہ ہونا، اگرچہ غیبت صغریٰ میں امام عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھے لیکن آپؑ اس غیبت میں بعض افراد کے ساتھ ارتباط میں تھے، مثلا نواب خاص اور امام کے بعض وکلاء جو آپؑ سے مل سکتے تھے۔ یہ وکلاء امام مہدیؑ سےسوال جواب کرتے اور لوگوں کے خطوط اور ان کے اموال امامؑ تک پہنچاتے۔ اس کے برخلاف غیبت کبری میں امامؑ کلی طور پر سب افراد کی نظروں سے اوجھل ہو گئے اور کوئی ان کے ساتھ براہ راست رابطہ میں نہیں تھا اور نہ ہی امامؑ سے خط و کتابت کی جا سکتی تھی۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی شخص امامؑ کو نہیں دیکھ سکتا یا ان سے ارتباط قائم نہیں کر سکتا بلکہ ممکن ہے بعض افراد کو امامؑ کی شرفِ زیارت یا شرف ملاقات حاصل ہو۔

۳. غیبت صغری میں امام مہدیؑ کا لوگوں سے رابطہ اپنے قابل اعتماد افراد کے ذریعے تھا۔ امامؑ نے اپنے نمائندوں کو مقرر کر کے ان کو مخصوص علاقوں میں اپنا نائب مقرر فرمایا تاکہ وکلاء علاقوں کے لوگوں کے مسائل امامؑ تک پہنچائیں اور امامؑ سے رہنمائی حاصل کریں۔ ان وکلاء اور سفراء کی چند مخصوص ذمہ داریاں ہوا کرتی تھیں جو خود امامؑ ان کے ذمہ لگاتے۔ اس کے برخلاف غیبت کبری میں ایسا نہیں ہے۔

غیبت صغری کا احادیث میں تذکرہ

[ترمیم]

امام مہدیؑ کی امامت کا پہلا مرحلہ غیبت صغری ہے۔ آپؑ کی امامت کے آغاز سے ہی عام لوگوں آپؑ تک پہنچنے سے قاصر تھے۔ مصلحتِ الہٰی کے تحت امامؑ کی زیارت اور ملاقات سے لوگ عمومی طور دور تھے۔ اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی نے امام مہدیؑ کی زیارت یا ملاقات کا شرف حاصل نہیں کیا بلکہ خواص شیعہ اس سعادت سے بہرمند ہوتے تھے جیساکہ معتبر احادیث میں وارد ہوا ہے۔معتبر روایات اہل بیتؑ میں امام مہدیؑ کی غیبت صغری کا تعارف کروایا گیا ہے۔ احادیث کے مطابق امام مہدیؑ کے لیے اللہ تعالی نے دو قسم کی غیبت رکھی ہے جس میں پہلی مختصر اور دوسری طولانی غیبت ہے۔ امام صادقؑ سے صحیح السند روایت میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ فرماتے ہیں: لِلْقَائِمِ‌ غَيْبَتَانِ‌ إِحْدَاهُمَا قَصِيرَةٌ وَ الْأُخْرَى طَوِيلَةٌ الْغَيْبَةُ الْأُولَى لَا يَعْلَمُ بِمَكَانِهِ فِيهَا إِلَّا خَاصَّةُ شِيعَتِهِ وَ الْأُخْرَى لَا يَعْلَمُ بِمَكَانِهِ فِيهَا إِلَّا خَاصَّةُ مَوَالِيه‌؛ قائمؑ کے لیے دو غیبتیں ہیں جن میں سے ایک مختصر مدت کی ہے اور دوسری طولانی، پہلی غیبت (جوکہ مختصر ہے) میں ان کے خاص شیعہ کے علاوہ کوئی ان کی جگہ کو نہیں جانتا ہو گا اور دوسری غیبت (جوکہ طولانی ہے) میں ان کے خاص موالی میں سے کوئی بھی ان کی جگہ کا نہیں جانتا ہو گا۔ غیبت نعمانی میں صحیح السند روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: إِنَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ غَيْبَتَيْنِ‌ إِحْدَاهُمَا تَطُولُ حَتَّى يَقُولَ بَعْضُهُمْ مَاتَ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ قُتِلَ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ ذَهَبَ فَلَا يَبْقَى عَلَى أَمْرِهِ مِنْ أَصْحَابِهِ إِلَّا نَفَرٌ يَسِيرٌ‌؛ بے شک اس صاحب الامرؑ کے لیے دو غیبتیں ہیں جن میں سے ایک غیبت طولانی ہے یہاں تک کہ لوگوں میں سے بعض کہیں گے: امامؑ وفات پا گئے ہیں، جبکہ بعض دیگر کہیں گے: وہ قتل کر دیئے گئے ہیں اور بعض کہیں گے: وہ کہیں چلے گئے ہیں، اس امر (امامتِ امام مہدیؑ) پر ان کے اصحاب میں سے چند افراد کے علاوہ کوئی باقی نہیں رہے گا۔

فلسفہِ غیبت صغریٰ

[ترمیم]

ممکن ہے کوئی یہ اعتراض کرے کہ غیبت صغریٰ کا کیا فائدہ تھا!! جب امام مہدیؑ کو غیبت میں ہی جانا تھا تو شروع ہی سے غیبت کبری اختیار کر لیتے۔ اس شبہ کا جواب دیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر امام مہدیؑ شروع سے طولانی غیبت اختیار کرتے تو امت کے لیے غیبت پر اعتقاد قائم کرنا مشکل ہو جاتا اور مختلف شبہات جنم دے کر لوگوں کا امامت سے رخ موڑا جا سکتا تھا۔ لہٰذا پہلے ستّر (۷۰) امام مہدیؑ نواب اربعہ کے ذریعے لوگوں سے وابستہ رہے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات دتیے تھے۔ اب اگر اچانک امام زمانؑ غائب ہو جاتے تو لوگ افراتفری اور تفرقہ کا شکار ہو جاتے۔ غیبت کا موضوع اس وجہ سے لوگوں میں اہم مسئلہ شمار ہونے لگا اور مختلف شکوک شبہات نے فضاء میں جنم لے لیا جس کے ازالہ کے لیے علماء کرام نے آئمہ اہل بیتؑ کی معتبر احادیث کو جمع کر کے غیبت کے موضوع پر کتاب لکھیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی حقیقی تعلیمات کو آئمہ اطہارؑ کے طریق سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ ان کاوشوں کے نتیجے میں لوگ تدریجی طور پر غیبت سے مانوس ہو گئے اور شکوک و شبہات کا ازالہ کر کے قوی عقیدہ سے وابستہ ہوتے چلے گئے۔ غیبت صغری میں امام مہدیؑ نے لوگوں سے اپنے خاص وکلاء کے ذریعے رابطہ رکھا ہوا تھا اور لوگ انہی وکلاء کے ذریعے اپنے سوالات کے جوابات پاتے اور مسائل کا حل دریافت کرتے۔
[۹] شہید صدر، سید محمد باقر، رہبری بر فراز قرون، ص۱۰۱۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شیخ مفید، محمد، الارشاد، ج۲، ص۳۴۰۔    
۲. شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ، ص۱۵۷۔    
۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۴۱۔    
۴. نعمانی، محمد بن إبراہیم، الغیبۃ، ص۱۴۹۔    
۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۴۰۔    
۶. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۲، ص ۳۲۱۔    
۷. نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبۃ، ص ۱۷۲۔    
۸. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۲، ص ۳۲۳۔    
۹. شہید صدر، سید محمد باقر، رہبری بر فراز قرون، ص۱۰۱۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ مہدویت، سلیمیان، خدامراد، ص۳۲۵-۳۲۷، یہ تحریر مقالہ غیبت صغرا سے مأخوذ ہے۔    
بعض حوالہ جات اور مطالب محققین ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار