امام حسن عسکریؑ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسن عسکریؑ گیارہویں امام معصوم اور اللہ تعالی کی جانب سے امت پر اس کے خلیفہ و ہادی و رہنما ہیں۔


امام عسکری کا مختصر تعارف

[ترمیم]

نام: حسن بن علی بن محمد
ولادت: ۸ ربیع‌ الثانی، ۲۳۲ھ
جائے ولادت: مدینہ
والد گرامی: امام ہادی نقی ؑ
والدہ ماجدہ: آپ کی والدہ کے متعدد نام ہیں: حُدیث، سوسن
القاب: ابن‌ الرضا، صامت، ہادی، رفیق، زکی، نقی
کنیت: ابو محمد
زوجہ: نرجس
اولاد: امام مہدی ؑ
امامت: گیارہویں امام
مدت امامت: ۶ سال (۲۵۴ ھ سے ۲۶۰ ھ تک)
شہادت: ۸ ربیع‌ الاول، ۲۶۰ھ
مدفن: سامراء، عراق حرم عسکریین
جائے سکونت: سامراء
عمر مبارک: ۲۸ سال

ولادت با سعادت

[ترمیم]

امام حسن عسکریؑ امام نقی ؑ کے سب سے بڑے فرزند ہیں اور امام زمان ؑ کے والد گرامی ہیں۔ آپؑ اللہ تعالی کی طرف سے تمام خلقت پر گیارہویں حجت، خلیفہ اور امام ہیں۔ آپؑ کی ولادت با سعادت ۲۳۱ یا ۲۳۲ ھ، ماہ ربیع الاول یا ربیع الثانی کو مدینہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ انتہائی پاکیزہ و نیک خاتون تھیں جن کا نام حُدَیۡث نقل کیا گیا ہے۔ بعض نے آپ کی والدہ کا نام سَوۡسَن بھی ذکر کیا ہے۔

القاب، کنیت اور مدت امامت

[ترمیم]

آپؑ کا مشہور لقب عسکری ہے۔ آپؑ کو عسکری کہنے کی وجہ وہ محلہ ہے جس میں آپؑ رہا کرتے تھے۔ عباسی خلیفہ نے جب آپؑ کو جبری طور پر سامراء میں منتقل کیا تو آپؑ نے عسکر نامی محلہ میں سکونت اختیار۔ یہ محلہ شہر سامراء کا سب سے خستہ حال اور عقب ماندہ محلہ شمار ہوتا تھا۔ اس محلہ کے نام کی وجہ سے آپؑ کو عسکری کہا جانے لگا۔ امام عسکریؑ کے دیگر معروف القاب میں نقی، زکی، فاضل اور امین ہے۔ آپؑ کی کنیت ابو محمد ہے۔ آپؑ کی عمر مبارک ابھی ۲۲ سال تھی کہ آپؑ کے والد گرامی امام نقی ؑ کو شہید کر دیا گیا۔ آپؑ کی مدت امامت چھ (۶) سال ہے اور وقتِ شہادت آپ کا سنّ مبارک ۲۸ سال تھا۔ آپؑ کے بعد آپؑ کے فرزند امام مہدی ؑ پانچ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوئے۔ امام عسکریؑ کو ان کے گھر میں اپنے والد امام نقی ؑ کے پہلو میں دفنایا گیا۔

امام عسکری کا حلیہ مبارک اور ظاہری خصوصیات

[ترمیم]

امام عسکریؑ کے حلیہ مبارک کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آپؑ کا رنگ گندمی، سیاہ آنکھین، میاند قد و قامت اور مناسب جسم کے مالک تھے۔ آپ کے زمانے کے قریش کے بزرگان اور اہل علم و دانش اپنے آپ کو آپؑ کے ماتحت اور تاثیر گزار قرار دیتے تھے۔ تمام دوست و دشمن میں آپؑ کی بردباری، بخشش، تقوی و زہد، ذکر و عبادت اور دیگر مکارمِ اخلاق کی شہرت تھی۔

امام عسکری کی زندگی

[ترمیم]

امام عسکریؑ کی مختصر سی زندگی کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ولادت با سعادت سے چار سال و چند ماہ۔ ایک قول کے مطابق ۱۳ سال تک۔ اس عرصہ میں امامؑ مدینہ میں رہے۔
۲۔ چار سال یا ۱۳ سال سے لے کر ۲۳ سال تک۔ اس عرصہ میں آپؑ کو اپنے والد بزرگوار امام نقی ؑ کے ہمراہ سامراء میں جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔
۳۔ ۲۳ سال سے لے کر ۲۸ سال تک۔ یہ عرصہ زمانہِ امامت سے تعبیر ہے۔ امام نقی ؑ کی شہادت کے بعد آپ امت اسلامیہ کے امام، خلیفہ اور رہبر قرار پائے۔
شیعہ اور سنی کتب احادیث میں معتبر اسانید کے ساتھ احادیث وارد ہوئی ہیں جن کے مطابق رسول اللہ ؐ کے بارہ (۱۲) جانشین ہوں گے جو خلیفہ اور امت کی قیادت سنبھالنے والے امام ہوں گے۔ ان احادیث کے مطابق امام حسن عسکریؑ گیارہویں امام کہلاتے ہیں۔ نیز تواتر کے ساتھ آئمہ اہل بیت ؑ کے طریق سے روایات وارد ہوئی ہیں جن میں تصریح موجود ہے کہ امام عسکریؑ گیارہویں امام اور حجتِ الہی ہیں۔
جناب جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت منقول ہے کہ انہوں نے جناب فاطمہ ؑ کے دستِ مبارک میں ایک لوح دیکھی جس میں آئمہ ؑ کے نام صراحت کے ساتھ لکھے ہوئے تھے، ان ناموں میں ایک نام امام حسن عسکریؑ کا تھا۔ مکتب تشیع میں معروف ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے فقط ایک فرزند تھے جوکہ امام مہدی ؑ ہیں۔ ان کے علاوہ امام عسکریؑ کی کوئی اور اولاد نہیں تھی۔
دین کی حفاظت و ترویج، اسلام کی سربلندی، حاکمیتِ الہی کے قیام کے لیے امام عسکریؑ کوشاں رہتے جس کی وجہ سے عباسی حکومت کی طرف سے شدید دباؤ برداشت کرنا پڑا۔ عباسی حکومت مسلسل آپؑ کی سیاسی، اجتماعی، علمی اور عملی فعالیت کی نگرانی کرتی اور مختلف بہانوں سے آپؑ کو تکلیف و اذیت پہنچاتے۔ کبھی جیلوں میں قید خانہ کی صعوبتوں کے حوالے کر دیتے اور کبھی نظر بندی کی مشکلات اٹھانا پڑتیں۔ امام عسکریؑ نے اپنے دور کے طاغوت اور باطل افکار و نظریات کے خلاف مبارزہ و جہاد مسلسل جاری رکھا اور مختلف تدابیر اختیار کر کے دین الہی کی نشر کیا اور حاکمیتِ الہی کی کوشش کی۔ امام عسکریؑ کی سیاسی و اجتماعی فعالیت عموما مہدویت کے موضوع کے ذیل میں سامنے آتی ہیں۔ ذیل میں چند نکات امام عسکریؑ کی سیاسی و اجتماعی و علمی کاوشوں کے ذکر کیے جا رہے ہیں:

علمی کاوشیں

[ترمیم]

امام عسکریؑ کی علمی کاوشیں باطل افکار کے مقابلے میں حق کو سربلند کرنے اور شکوک و شبہات کے جوابات دے کر اسلام کا دفاع کرنے کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ عباسی حکومت نے امام عسکریؑ کو انتہائی نگرانی اور تنگ حالات میں رکھا تھا جس کی وجہ سے امامؑ کے پاس آزادنہ طور پر روابط قائم کر کے معاشرے کی تربیت و رہنمائی اور دین کی ترویج کی فرصت مہیا نہیں ہوئی۔ البتہ ان سخت حالات میں امامؑ نے کئی شاگرد تربیت کیے جن کو اسلام کے دقیق معارف کی وسیع پیمانے پر تعلیم دی تاکہ دشمنانِ اسلام کے شبہات کے جوابات دیئے جا سکیں۔ شیخ طوسی نے اپنی رجال میں تقریبا ایک سو اصحاب کا ذکر کیا ہے جنہوں نے امام عسکریؑ کسبِ فیض کیا اور معارف اسلامی کو عالم اسلام میں پھیلایا۔ ان اصحاب میں برجستہ ترین اور بلند قامت شخصیات میں سرفہرست احمد بن اسحاق اشعری قمی، ابو ہاشم داود بن قاسم جعفری، ابو عمرو عثمان بن سعید عمری، علی بن جعفر اور محمد بن حسن صفار ہیں۔

سلسلہ وکلاء

[ترمیم]

عباسی حکومت نے امامؑ کو سامراء میں نظر بند کر کے اور ان کے اردگرد جاسوسوں کا جال بچھا کر سر توڑ کوشش کی کہ امام عسکریؑ کا رابطہ اور تعلق امت اسلامیہ خصوصا ان کے شیعوں سے کٹ کر رہ جائے۔ ایسی صورت میں امامؑ نے انتہائی کامیاب تدبیر کو اختیار کیا اور عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں وکلاء کا ایک جال پھیلا دیا جن کے توسط سے امامؑ اپنے شیعوں سے رابطے میں رہتے اور ان کی دینی، سیاسی اور اجتماعی مسائل میں ہدایت و رہبریت کے وظائف انجام دیتے۔ امام عسکریؑ کے زمانے میں تشیع بڑی حد تک پھیل چکی تھی اور شیعانِ امامؑ مختلف شہروں اور علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ ان سے ارتباط اور تعلق کے لیے امامؑ نے وکلاء کو قرار دیا جو امامؑ کا موقف، ان کی تعلیم اور پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے۔
یہ ضرورت حقیقت میں امام تقی ؑ کے دور میں زیادہ محسوس کی گئی۔ چنانچہ امام تقی ؑ اور ان کے بعد امام ہادی ؑ نے وکلاء کے ذریعے ارتباط کی روش کو مزید محکم کیا اور مختلف علاقوں اور دور دراز شہروں میں وکیلوں کو متعین فرمایا۔ اسی تدبیر کو امام عسکریؑ نے اختیار کیا اور وسیع انداز میں ان تمام دور دراز علاقوں اور شہروں میں وکلاء کو متعین فرمایا جہاں شیعہ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ امام عسکریؑ کے نمائندہ میں ایک برجستہ اور بڑا نام احمد بن اسحاق کا ہے جو قم مقدسہ میں متعین تھے۔ احمد بن اسحاق کا شمار امام عسکریؑ خاص اصحاب میں ہوتا ہے۔ آپ قم میں شیعوں کے درمیان مرکزی شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور امام عسکریؑ و اہل قم کے درمیان رابطہ کا ذریعہ تھے۔ دیگر محققین نے احمد بن اسحاق کو امام عسکریؑ کا نمائندہ اور وکیل قرار دیا ہے۔
[۱۲] طبسی، محمد جواد، حیاة الامام العسکری علیہ السلام، ص ۳۳۳۔

امام عسکریؑ کے وکیلوں میں سرفہرست ایک نام عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد بن عثمان عمری کا ہے۔ متعدد وکیل ان کے توسط سے امامؑ سے مربوط رہتے اور ان سے مختلف اموال، خمس اور سوالات لے کر امامؑ کے حوالے کرتے۔ ان وکلاء کے ذریعے امام عسکریؑ نے شیعوں سے قوی رابطہ ایجاد کیا اور اس طرح سے شیعوں کی سیاسی و اجتماعی و دینی رہبریت کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو حل فرماتے۔ نیز بعض اہمیت کے حامل موضوعات پر باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعے سے آپؑ رہنمائی فرماتے۔ انہی خطوط میں سے ایک خط ابن بابویہ کو تحریر فرمایا۔ ابن شعبہ حرانی نے بعض خطوط کو ذکر کیا ہے جو امامؑ نے اسحاق بن اسماعیل نیشاپوری اور بعض شیعوں کو تحریر فرمائے۔ ایک روایت کے مطابق امام عسکریؑ نے ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ھ اپنی شہادت سے قبل متعدد خطوط اہل مدائن کے لیے تحریر فرمائے۔

امام عسکری کے سیاسی تحرکات

[ترمیم]

امام عسکریؑ کو اگرچے عباسی ظالم حکومت نے شدید قید و بند اور زیرِ نگرانی رکھا ہوا تھا لیکن اس کے باوجود امام عسکریؑ نے سیاسی امور میں رہبریت کے وظائف کو باخوبی انجام دیا اور حکومتی جاسوسوں سے بچتے ہوئے شیعوں کی سیاسی رہنمائی فرمائی۔ امامؑ تک ان کے اصحاب مختلف ذرائع سے رسائی حاصل کر پاتے اور شیعوں کے مسائل اور ان کے اموال امامؑ کی خدمت میں پیش کرتے جنہیں امامؑ انہی اصحاب اور وکیلوں کے ذریعے مختلف امور میں خرچ فرماتے تھے۔ بعض اصحاب تاجروں کے روپ میں سامراء داخل ہوتے اور امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور بعض غلام بن کر امامؑ کے گھر سے وابستہ ہو جاتے۔ انہی اصحاب میں ایک عظیم و جلیل القدر شخصیت عثمان بن سعید عمری کی ہے جو امامؑ کے قریبی ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے اور تیل کی تجارت کیا کرتے تھے۔ تیل بچنے کے کاروبار کی آڑ میں عثمان بن سعید امام عسکریؑ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور شیعوں کے اموال اور مختلف مسائل ان تک پہنچاتے۔
اسی طرح امام عسکریؑ اپنے شیعوں کو مختلف سیاسی خطرات سے آگاہ فرماتے اور خطوط لکھ کر یا کسی اور طریقے سے ان حوادث میں رہنمائی فرماتے، جیساکہ الکافی میں روایت مذکور ہے کہ امامؑ نے اسحاق بن جعفر کو خط لکھا اور عباسی بادشاہ معتز کی ہلاکت سے قبل برپا ہونے والے حوادث کا تذکرہ کر کے رہنمائی فرمائی کہ وہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ اسی طرح عالم اسلام میں برپا ہونے والے مختلف سیاسی فتنوں میں اپنے موقف کو آشکار فرماتے، جیساکہ محمد بن صالح خثعمی نے امامؑ سے صاحب الزنج جس نے زنجی انقلاب بصرہ اور دیگر شہروں میں برپا کیا تھا کے بارے میں دریافت کیا تو امامؑ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ اس کا ہم اہل بیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی اس کے انقلابی تحرک کا حصہ مت بنو اس کا اہل بیتؑ سے تعلق نہیں ہے۔

سیاسی آگاہی

[ترمیم]

امام عسکریؑ سیاسی تحرکات میں شیعوں میں خاص اصحاب کا انگیزہ اور روحیہ بلند فرماتے اور شدید دباؤ اور سختیوں کے مقابلے میں صبر کا درس دیتے۔ امام عسکریؑ کے وہ اصحاب جن کے پیش نظر امامت کو سربلند کرنا اور تشیع کی حمایت تھی کو طرح طرح کی قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا جس کی وجہ سے ان کے نفس میں اضطراب پیدا ہوتا جسے امام عسکریؑ اپنے فرمودات اور خصوصی ربط و تعلق کا اظہار کر کے اطمینان و صبر و تحمل کا باعث بنتے، جیساکہ مختلف اصحابِ امام عسکریؑ کے حالات زندگی میں اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اجتماعی، سیاسی اور دینی وظائف کی انجام دہی میں جہاں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے وہاں انتہائی صبر و استقامت اور استمرار سے مبارزہ کرنا ضروری قرار پاتا ہے جو مرکز امامت، ذات وجودِ بابرکت امام معصومؑ ممکن نہیں ہے۔ تشیع کا امامت سے گہرا تعلق اور ربط ان تمام تکالیف و سختیوں کو جھیل کر دین کی بقاء اور نشر و اشاعت کا باعث بنا۔

شیعوں کی مالی مشکلات دور کرنا

[ترمیم]

امام عسکریؑ کے مختلف واقعات جو ہم تک پہنچے ہیں ان میں ایک نمایاں ترین امر رونما ہوا وہ مستضعفین و پریشان حال افراد کی معنوی اور مالی مدد کرنا ہے۔ امام عسکریؑ کی خدمت میں نادار و غریب افراد امید اور آس لگائے آتے اور امامؑ کے درّ سے اپنی ضرورت کو پورا کرتے۔ حتی بعض اصحاب مثل ابو ہاشم جعفری بارگاہِ امامت میں اپنے مالی زبوں حالی کا تذکرہ کرنے سے حیاء کرتے تھے تو امامؑ نے انہیں ۱۰۰ دینار بھیجے اور فرمایا اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آتے تو ہمیں سے تقاضا کرتے ہوئے شرم و حیاء کا احساس نہ کرو اور بے جھجھک کہہ دیا کرو۔ شیعوں کی زبوں حالی کی وجہ عباسی ظالم جابر حکومت تھی جنہوں نے شیعوں پر اقتصادی دباؤ برپا کر رکھا تھا اور انہیں معاشرے میں ابھرنے کا موقع فراہم نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایسے میں امام عسکریؑ کی طرف سے شیعوں پر مالی عنایات اور معنوی تربیت خصوصی پشت پناہی کا باعث بنتی۔

اللہ کے عنایت کردہ غیبی علم سے استفادہ

[ترمیم]

آئمہ معصومین اللہ تعالی کے ساتھ خصوصی ربط اور تعلق رکھتے ہیں اور اللہ تعالی نے ان پر غیبی عنایات فرمائی ہیں۔ اسلام کی حقانیت اور امت اسلامی کے بلند مرتبہ مصالح و منافع کے لیے اسی غیبی عنایات سے آئمہؑ استفادہ کرتے ہیں اور ہر قسم کے اشتباہ، خطاء، قباحت اور لغزش سے پاک و مبرا رہتے ہیں۔ آئمہ کی پیشیگوئیاں اور مختلف حوادث کی خبر دینا اور ہدایت سے امت کا ہمکنار کرنا تخمینہ و ظن کی بیناد پر نہیں بلکہ الہی تعلیم کی بناء پر ہے۔ امام عسکریؑ کی زندگی میں متعدد ایسے واقعات دکھائی دیتے ہیں جن میں آپؑ نے اسی غیبی مبنع اور سرچشمہِ الہی سے استفادہ کرتے ہوئے رہنمائی فرمائی ہے۔
[۲۴] طبسی، محمد جواد، حیاة الامام العسکری علیہ السلام، ص۱۲۱۔

امام ہادی نقی ؑ کی شہادت کے بعد حکومتِ وقت کا ظلم و جور مزید بڑھ گیا اور انہوں نے امامؑ اور شیعوں کی مزید نگرانی شروع کر دی۔ اس وجہ سے امام عسکریؑ کے لیے شیعوں سے تعلق و رابطہ میں کئی قسم کی دشواریاں ایجاد ہو گئیں اور امامؑ کی زندگی خطرے میں گھرتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ امام نقی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں وسیع پیمانے پر امام حسن عسکریؑ کا تعارف کروایا اور ان کی امامت کو شیعوں کے سامنے تاکیدی طور پر پیان کیا تاکہ شیعوں میں امام عسکریؑ کی امامت کے حوالے سے اختلاف پیدا نہ ہو اور مختلف گروہوں میں وہ تقسیم نہ ہوں۔ لیکن اس کے باوجود بعض گروہ امام عسکریؑ کی امامت کے منکر ہو گئے۔ گمراہ گروہوں کے آشکار ہونے، شک و تردید میں مبتلا افراد کی رہنمائی اور اپنے اصحاب و شیعوں کی حفاظت کے لیے امام عسکریؑ کو برملا طور پر سامنے آنا پڑا اور خطرات سے گلے لگانے پڑے۔

جانشین کا تعارف

[ترمیم]

امام عسکریؑ کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک امام مہدی کو اپنا جانشین، امام اور مہدویت کا حامل شخص مہدی کے طور پر متعارف کروانا تھا۔ یہ بزرگ ترین مسؤولیت ایک سخت اور دشوار کام تھا کیونکہ دشمن آپؑ کے فرزند کو ہر حال میں صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا تھا لیکن اللہ تعالی نے اپنے نور کو محفوظ رکھا۔ لہذا امام عسکریؑ کو اپنے اصحاب اور خصوصی شیعوں میں اتنی مقدار میں امام مہدی کا تعارف وقتًا فوقتًا کروانا پڑا جس کی بناء پر اصحاب اور خصوصی شیعہ طبقہ اپنے امامؑ کو جان لیں اور اطمینان حاصل کر لیں کہ امام عسکریؑ کے فرزند ہیں اور وہی امام، خلیفہ اور مہدی آخر الزمان ہیں۔ کتب احادیث اور تواریخ میں متعدد واقعات معتبر طرق سے وارد ہوئے ہیں جن میں امام عسکریؑ نے امام زمان کا تعارف کروایا ہے۔ ان میں سے چند احادیث کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:
- هذا صاحبکم بعدی...؛ یہ (امام مہدی) میں بعد تمہارے صاحب و امام ہیں۔
- إنّ ابۡنِی هو القَائِمُ من بعدی...؛ بے شک میرا یہ فرزند میرے بعد قائم ہے۔
- هذا امامُکُم مِن بَعَدِی و خلیفتی علیکم...؛ میرے مبعد یہ تمہارا امام اور تمہارے اوپر میرا خلیفہ ہے۔
- ابنی محمد هو الامام الحجة بعدی...؛ میرا فرزند محمد مبرے بعد امام اور حجت ہے۔
اس کے علاوہ اور پہت سے موارد ہیں جن میں امام عسکریؑ کے بعد امام مہدی خلیفہ، امام اور امت کے رہبر کے طور پر متعارف کروائے گئے ہیں۔

شیعوں کو زمانہ غیبت کے لیے آمادہ کرنا

[ترمیم]

امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کے لیے امت میں فضاء بنانا اور شیعوں کو اس کے لیے آمادہ کرنا ایک اہم مسؤولیت تھی۔ اگر ایک امت یا ایک گروہ سے ان کا حقیقی رہبر اور رہنما غیبت میں چلا جائے اور نظروں سے پنہاں ہو جائے تو یہ امر کئی قسم کی دشواریوں کو وجود دیتا ہے جس سے امت کا شیرازہ بکھرنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐ اور آئمہ معصومین ؑ کی یہ سیرت رہی ہے کہ وہ عوام الناس کو تدریجا اور رفتہ رفتہ ایسے افکار یا موضوعات سے آشنا کراتے جن کا قبول کرنا ان کے لیے قدرے سنگین اور مشکل ہوتا۔
آئمہ اطہار ؑ کی امرِ غیبت میں یہی سیرت ہمیں آشکار دکھائی دیتی ہے۔ چنانچہ امام نقی اور عسکری علیہما السلام نے اس مسئلہ کو سنجیدگی اور تدبیر کے ساتھ حل فرمایا اور آہستہ آہستہ معاشرے میں بسنے والے شیعوں کے ساتھ وکلاء کے ذریعے رابطہ استوار رکھا۔ امام نقی ؑ بعض کام انہی نمائندوں کے ذریعے انجام دیتے اور لوگوں میں کم ظاہر ہوتے۔ اسی طرح امام عسکریؑ نے لوگوں سے رابطہ کے لیے وکلاء کو سامنے رکھا۔ چنانچہ امام عسکریؑ نے انتہائی قریبی ساتھیوں اور خاص اصحاب کو امام زمان ؑ سے متعارف کروایا تاکہ شیعہ امام زمان ؑ کے پُر نور وجود سے باخبر ہو سکیں۔ امام عسکریؑ لوگوں سے کم ملاقات کرتے حتی سامراء میں بعض اوقات مسائل کے جوابات خط و کتابت اور وکلاء کے ذریعے انجام دیتے تاکہ معاشرہ امام زمان ؑ کی غیبت کے لیے آمادہ ہو سکے۔ آہستہ آہستہ شیعہ دنیا اس بات کی عادی ہوتی چلی گئی کہ امامؑ سے تعلق وکلاء اور نمائندوں کے ذریعے استوار رکھا جائے۔ یہاں سے غیبتِ صغری کی فضاء قائم ہوئی اور اس عرصہِ غیبت میں امام زمان ؑ نے اپنے مخصوص نائیبین متعین فرمائے جن کے ذریعے امامؑ عوام الناس کے سوالات کے جوابات دیتے اور ان سے ربط و تعلق قائم رکھتے۔ اس غیبتِ صغری نے اگلے مرحلے کی غیبت کی کامل فضاء آمادہ کر دی اور کچھ مدت بعد امام زمان ؑ کی غیبت کبری کا آغاز ہوا۔

شہادت

[ترمیم]

امام حسن عسکریؑ کی شہادت کا دلسوز واقعہ بروز جمعہ ۸ ربیع الاول، ۲۶۰ ھ کو پیش آیا۔ اس وقت آپؑ عمر مبارک ۲۸ سال تھی۔ جبکہ بعض نے نقل کیا ہے کہ آپؑ اپنے والد گرامی کے بعد پانچ سال، آٹھ مہینے اور تیرہ دن قیدِ حیات میں رہے اور ۲۹ سال کی عمر میں آٹھ ربیع الاول ۲۶۰ ھ کو شہید کر دیئے گئے۔

← شہادت کے بعد کے واقعات


امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد مختلف قسم کے سنگین اور ناگوار حادثات رونما ہوئے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
۱. ظالم و جابر حکمرانوں کا امام عسکریؑ کے گھر کی تلاش لینا اور امام مہدی کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنا۔
۲. جعفر کذاب کا امام عسکریؑ کی والدہ ماجدہ کے ساتھ میراث کے مسئلہ میں الجھنا
۳. امام عسکریؑ کے شیعوں کو قتل کرنا، انہیں دھمکانا اور قید خانوں میں بے جا محبوس کر دینا اور طرح طرح کی اذیتیں و تکلیفیں دینا۔ شیخ مفید نے امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد شیعوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور مختلف قسم کی دھمکیوں اور زندانوں کی نظر کرنے کے واقعات کو تاریخِ تشیع کے تلخ ترین لمحات قرار دیئے ہیں۔
۴. شیعوں کے درمیان اختلاف اور باہمی نزاع کا ہونا۔
ایک کمر توڑ حادثہ جو امام عسکریؑ کی شہادت کے بعد رونما ہوا وہ بعض شیعوں کے درمیان تفرقہ بازی ایجاد ہونا ہے۔ امام عسکریؑ کی جانب سے پہلے ہی اس واقعہ کی پیشنگوئی کی جا چکی تھی۔ ابو غانم بیان کرتے ہیں کہ میں امام عسکریؑ سے سنا وہ فرماتے ہیں:
وہ سال جب امام عسکریؑ نے رحلت فرمائی اسی سال ۲۶۰ ھ میں امامؑ کے پیروکار، دوستان اور چاہنے والوں میں تفرقہ ایجاد ہو گیا۔ شیعوں کا ایک گروہ اپنے آپ کو جعفر سے منسوب کرتا تھا۔ جعفر امام عسکریؑ کے بھائی تھے۔ جبکہ دوسرا گروہ جعفر کی امامت میں مشکوک رہتا، بعض حیران و پریشان تھے کہ کس کی طرف رجوع کریں۔ لیکن بعض اللہ تعالی کی توفیق سے ثابت قدم رہے اور کسی قسم کے شکوک و شبہات یا حیرانگی و حیرت میں مبتلا نہیں ہوئے اور اپنے دین پر ثابت قدم رہے۔

زیارت امام عسکری

[ترمیم]

سامراء میں امام عسکریؑ کی قبر مبارک کے پاس دعا اور زیارتِ امام عسکریؑ پڑھنا مستحب ہے۔

عناوین مرتبط

[ترمیم]

امام علی علیہ السلامامام حسن علیہ السلامامام حسین علیہ السلامامام سجاد علیہ السلامامام محمد باقر علیہ السلامامام صادق علیہ السلامامام کاظم علیہ السلامامام رضا علیہ السلامامام جواد علیہ السلامامام ہادی علیہ السلامامام مہدی علیہ السلام

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۰۳۔    
۲. صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، ج۱، باب ۱۷۶، ص۲۴۱۔    
۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۰۳۔    
۴. طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، ج۶، ص۹۲۔    
۵. پیشوائی، مہدی، سیره پیشوایان علیہم‌السلام، ص۶۸۳-۶۸۴۔    
۶. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۱، ص۴۰۔    
۷. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۱، ص۲۶۹۔    
۸. مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۳۳۹۔    
۹. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص۳۷۴ کے بعد سے۔    
۱۰. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۹۱، رقم:۲۲۵۔    
۱۱. طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، ص ۷۰۔    
۱۲. طبسی، محمد جواد، حیاة الامام العسکری علیہ السلام، ص ۳۳۳۔
۱۳. حرانی، حسن بن علی، تحف العقول، ص ۴۸۴-۴۸۶۔    
۱۴. طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص۳۵۴۔    
۱۵. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۶۲۲۔    
۱۶. ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب ع، ج ۳، ص ۵۲۹۔    
۱۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۲، ص ۶۳۳۔    
۱۸. مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ، ص۲۵۲۔    
۱۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۰۸۔    
۲۰. مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۳۳۰۔    
۲۱. ابن شہر اشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۵۳۸۔    
۲۲. امین، محسن، اعیان الشیعۃ، ج۲، ص۴۰۔    
۲۳. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری، ج۲،ص۱۴۰۔    
۲۴. طبسی، محمد جواد، حیاة الامام العسکری علیہ السلام، ص۱۲۱۔
۲۵. مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ، ص۲۵۲۔    
۲۶. مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۳۴۸۔    
۲۷. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۲، ص۵۲۴، ح ۴۔    
۲۸. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۲، ص۴۳۵۔    
۲۹. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۲، ص۴۰۹۔    
۳۰. پیشوائی، مہدی، سیره پیشوایان علیہم‌ السلام، ص۶۸۳-۷۳۵۔    
۳۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۲، ص۶۱۳۔    
۳۲. بغدادی، ابن الخشاب، تاریخ موالید الأئمۃ، ص ۴۳۔    
۳۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۵۰۵۔    
۳۴. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۱، ص۴۳۔    
۳۵. مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۳۲۵۔    
۳۶. مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج ۵۰، ص ۳۳۴۔    
۳۷. صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، ج۲، ص۴۰۸۔    
۳۸. عاملی، محمد بن مکی‌، الدروس الشرعیۃ، ج۲، ص۷۔    
۳۹. عاملی، محمد بن مکی‌، الدروس الشرعیۃ، ج۲، ص۱۵۔    


مأخذ

[ترمیم]

سلیمانیان، خدامراد، فرہنگ نامہ مہدویت، ج۱، ص۶۴۔    
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج‌۳، ص۳۰۲۔    
بعض مطالب اور حوالہ جات ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار