میلاد النبی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حضرت محمد بن عبد اللہ صلی‌ الله‌ علیہ و‌آلہ وسلّم نے اپنی الہٰی رسالت کے ساتھ اہل دنیا کو جہالت اور فساد سے نجات دی اور قرآن و سنت کی انسان ساز تعلیمات کے ساتھ بشر کو سعادت و کمال کا راستہ دکھایا اور ایک ایسی سرزمین پر عظیم اسلامی تمدن کی بنیاد ڈالی جو تمدن اور ترقی سے بے بہرہ تھی۔ اسلام اور اس کی اعلیٰ تعلیمات تیزی سے دنیا بھر کے وسیع علاقوں میں پھیل گئیں۔


علما کے بقول پیغمبرؐ کی تاریخ ولادت

[ترمیم]

عام مورخین نے آنحضرتؐ کا سنہ ولادت عام الفیل بمطابق ۵۷۰ء تحریر کیا ہے۔. میلاد النبی کے حوالے سے اہل تشیع میں ۱۷ ربیع الاول جبکہ اہل سنت میں بارہ ربیع الاول کی تاریخ مشہور ہے۔
مشہور اہل سنت مورخ لکھتا ہے: ابن اسحاق سے روایت ہے کہ رسول خداؐ عام الفیل میں ۱۲ ربیع الاول بروز سوموار کو پیدا ہوئے۔
ابن خلدون بھی لکھتے ہیں: رسول خداؐ عام الفیل ۱۲ ربیع الاول کو سن چالیس ہجری میں انوشیروان کی بادشاہی کے دوران دنیا میں تشریف لائے۔
[۳] ابن خلدون، عبدالرحمان، الصبر، ترجمه عبدالمحمد آیتی، ج۱، ص۳۹۱، مؤسسه مطالعات و تحقیقات فرهنگی، ۱۳۶۳، چاپ اول۔

علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں لکھا ہے: تقریبا تمام شیعوں کا اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ ۱۷ ربیع الاول بروز جمعہ کو پیدا ہوئے۔

پیغمبرؐ کے والدین

[ترمیم]

حضرت کے والد گرامی کا نام عبد اللہ بن عبد المطلب اور والدہ کا نام آمنہ بنت وھب ہے۔ حضرت عبد اللہ کی زندگی اتنی طولانی نہیں تھی کیونکہ حضرت عبد اللہ کا رسول خداؐ کی ولادت سے دو ماہ قبل انتقال ہو گیا تھا۔
[۵] آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۵۵، تهران، نشر دانشگاه تهران، ۱۳۶۶۔
یعقوبی لکھتے ہیں: مورخین کے مطابق عبد اللہ آنحضرتؐ کی ولادت کے دو ماہ بعد اور بعض کی نقل کے مطابق دو ماہ قبل ۲۵ سال کے سن میں انتقال فرما گئے تھے۔
[۶] یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۳۶۲، ترجمه محمد ابراهیم آیتی، تهران، نشر علمی و فرهنگی، ۱۳۷۱۔


خاندان پیغمبرؐ کا مقام

[ترمیم]

پیغمبرؐ کے اجداد کا شمار مکہ کے شریف اور بزرگ خاندانوں میں ہوتا تھا اور تمام اہل مکہ ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کے مناصب میں سے کعبہ کی کلید برداری اور تولیت ، ایام حج میں سقایت (یعنی حاجیوں کیلئے پانی کی فراہمی)، رفادت (یعنی حاجیوں کو غذا دینا)، مکہ کی سرداری اور فوج کی سپہ سالاری کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
[۷] سبحانی، شیخ جعفر، فروغ ابدیت، ج۱، ص۸۵، دارالتبلیغ اسلامی، ۱۳۵۱۔


حضرت ابراہیمؑ کی دعا

[ترمیم]

رسول خداؐ سے منقول متعدد روایات میں وارد ہوا ہے کہ حضرتؐ نے فرمایا: میں اپنے جد ابراہیمؑ کی دعا کا نتیجہ ہوں اور وہی ہوں جس کی آمد کی خوشخبری عیسیُ نے دی ہے۔
بیہقی پیغمبرؐ کے اس جملے کہ میں اپنے جد ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں؛ کے حوالے سے لکھتے ہیں: جب ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تو دعا کی اور خدا کی بارگاہ میں چند دعائیں کیں منجملہ یہ کہ خدایا! اس شہر کو امن کا گہوارا بنا دے۔
پھر عرض کیا:رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ... اے پروردگار، ان (لوگوں) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور کتاب اور دانائی سکھایا کرے۔ ابراہیمؑ کی یہ دعا قبول ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے ہمارے نبیؐ ویسے ہی بنائے جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ نے چاہا تھا۔

حضرت عیسیٰ کے ذریعے ولادت پیغمبرؐ کی خوشخبری

[ترمیم]

حضرت عیسیؑ کے توسط پیغمبر اکرمؐ کی آمد کی خوشخبری درج ذیل آیت میں دی گئی ہے: وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریمؑ کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کے اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس خدا کا بھیجا ہوا آیا ہوں (اور) جو (کتاب) مجھ سے پہلے آچکی ہے (یعنی) تورات اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہو گا ان کی بشارت سناتا ہوں۔

پیغمبرؐ کی شب ولادت کے واقعات

[ترمیم]

مورخین اور سیرت نگاروں نے نبی کریمؐ کی شب ولادت میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس سے اس مبارک ولادت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، اس رات ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے، ہزار سال سے روشن فارس کا آتشکدہ خاموش ہو گیا۔
[۱۲] ابن هشام، سیرة رسول الله، ج۱، ص۱۴۴، ترجمه رفیع الدین اسحاق بن محمد همدانی، تهران، خوارزمی، ۱۳۶۱۔
اس رات ساوہ کا دریاچہ خشک ہو گیا، موبذان نے خواب دیکھا کہ طاقتور اونٹ عربی گھوڑوں کے ساتھ دجلہ سے گزرے اور ایران کی سرزمین میں پراکندہ ہو گئے۔ امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ حضرتؑ نے فرمایا:
جب رسول خداؐ کی ولادت ہوئی تو فارس کے سفید محل اور شام کے قصر حضرت آمنہؑ کے سامنے آشکار ہو گئے۔
[۱۴] آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۵۶، تهران، نشر دانشگاه تهران، ۱۳۶۶۔


پیغمبرؐ کی دایہ

[ترمیم]

حلیمہ سعدیہ ایک بزرگ خاتون ہیں کہ جنہیں پیغمبرؐ کی دایہ ہونے کا افتخار نصیب ہوا اور حضرت محمدؐ کی ولادت کے بعد نومولود محمدؐ کو اپنے ساتھ اپنے علاقے اور اپنے قبیلے بنی سعد میں لے گئیں۔پیغمبر اکرمؐ کی حضرت حلیمہ کے یہاں آمد اس گھر میں خیر و برکت کا سبب بنی۔ ولادت کے پانچویں سال حلیمہ نے حضرت محمدؐ کو ان کی والدہ کے حوالے کر دیا۔
[۱۶] آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۵۸، تهران، نشر دانشگاه تهران، ۱۳۶۶۔
بلاشک وشبہہ خاتم الانبیاء حضرت محمدؐ کی ولادت کے ساتھ تاریخ بشر کے سب سے بابرکت مولود کی دنیا میں آمد ہوئی۔

پیغمبرؐ کا اخلاق و کردار

[ترمیم]

بچپن سے ہی پیغمبرؐ کا اخلاق و کردار ایسا تھا کہ سب کی توجہ کا محور تھا۔ ابن سعد لکھتا ہے: پیغمبرؐ اخلاق و شائستگی، آداب معاشرت و تکلم اور بردباری و امانت میں سب سے برتر تھے اور ہر قسم کی ایذا رسانی اور گالم گلوچ سے دور تھے۔ ہرگز ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی کے ساتھ خصومت یا دشمنی کریں اور خدا نے آپؐ کو اس قدر پسندیدہ اخلاق عنایت فرمایا تھا کہ امین کے لقب سے معروف ہو گئے اور پورے مکہ میں محمد امین کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔
[۱۷] ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۰، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴۔


پیغمبرؐ کی بعثت

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ چالیس سال کے سن میں مبعوث برسالت ہوئے
[۱۸] ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۷۸، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴۔
اور آپؐ نے اپنی عالمی رسالت کا آغاز کیا۔ مکہ میں ۱۳ سال تک لوگوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دیا۔ پھر مدینہ میں اسلام کی ترقی کا مناسب ماحول فراہم ہونے پر اس شہر کی طرف ہجرت فرمائی۔ قرآن اللہ تعالیٰ کا زندہ و جاوید معجزہ ہے جو ۲۳ سال میں حضرتؐ پر نازل ہوا۔

پیغمبرؐ کی رحلت

[ترمیم]

رسول اکرمؐ آخر کار سنہ ۱۱ھ میں ۶۳ برس کے سن میں وصال فرما گئے۔
[۲۰] ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴۔


متعلقہ عناوین

[ترمیم]

ولادت پیغمبر؛ روز مولود

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۷۴، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، نشر علمی و فرهنگی، ۱۳۶۱۔    
۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۱، ص۵۷۰، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔    
۳. ابن خلدون، عبدالرحمان، الصبر، ترجمه عبدالمحمد آیتی، ج۱، ص۳۹۱، مؤسسه مطالعات و تحقیقات فرهنگی، ۱۳۶۳، چاپ اول۔
۴. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۵، ص۲۴۸، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳۔    
۵. آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۵۵، تهران، نشر دانشگاه تهران، ۱۳۶۶۔
۶. یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج۱، ص۳۶۲، ترجمه محمد ابراهیم آیتی، تهران، نشر علمی و فرهنگی، ۱۳۷۱۔
۷. سبحانی، شیخ جعفر، فروغ ابدیت، ج۱، ص۸۵، دارالتبلیغ اسلامی، ۱۳۵۱۔
۸. ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۴۹، ۱۳۷۴۔    
۹. بقره/سوره۲، آیه۱۲۹۔    
۱۰. بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۸۰، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، نشر علمی و فرهنگی، ۱۳۶۱۔    
۱۱. صف/سوره۶۱، آیه۶۔    
۱۲. ابن هشام، سیرة رسول الله، ج۱، ص۱۴۴، ترجمه رفیع الدین اسحاق بن محمد همدانی، تهران، خوارزمی، ۱۳۶۱۔
۱۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۵۸۱، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔    
۱۴. آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۵۶، تهران، نشر دانشگاه تهران، ۱۳۶۶۔
۱۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ج۱، ص ۵۷۳، ترجمه ابوالقاسم پاینده، تهران، اساطیر، ۱۳۷۵۔    
۱۶. آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۵۸، تهران، نشر دانشگاه تهران، ۱۳۶۶۔
۱۷. ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۱۰، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴۔
۱۸. ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۱۷۸، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴۔
۱۹. دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، ص۲۰۱، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، نی، ۱۳۷۱، چاپ چهارم۔    
۲۰. ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۳، ترجمه محمود مهدوی دامغانی، تهران، فرهنگ و اندیشه، ۱۳۷۴۔


ماخذ

[ترمیم]

سائٹ پژوهہ، ماخوذ از مقالہ میلاد پیامبر اسلام، نظر ثانی ۹۵/۰۱/۱۶۔    






جعبه ابزار