نبی کریمؐ کا بچپن

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



نبی کریمؐ کے سر سے بچپن میں ہی ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ جب آپؐ یتیم تھے تو اللہ تعالیٰ نے پناہ دی اور عبد المطلب نے آپؐ کی سرپرستی کا ذمہ لے لیا کہ جنہیں آپؐ سے بہت محبت تھی۔ خداوند متعال نے آپؐ کو شرح صدر عطا فرمائی جس کی بدولت آپؐ کے اندر حقائق کے ادراک کی آمادگی و استعداد پیدا ہو گئی۔


قرآن کریم میں پیغمبرؐ کی کم سنی کا تذکرہ

[ترمیم]

آپؐ کے بچپن کا قابل توجہ پہلو کہ جس پر قرآن کریم زور دیتا ہے، وہ آپؐ کا یتیم ہونا ہے۔ جب آپؐ کی والدہ گرامی آمنہ بنت وھب حاملہ تھیں، تو آپؐ کے والد گرامی عبد اللہ بن عبد المطلب انتقال فرما گئے اور ۵ یا ۶ برس کے سن میں آپؐ کی والدہ گرامی بھی مدینہ کے نزدیک مقام ابواء پر انتقال فرما گئیں اور یوں آپؐ والد اور والدہ دونوں طرف سے یتیم ہو گئے۔ قرآن کریم کی دو آیات میں آپ کے بچپن اور یتیم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیماً فَآوَی بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ (بےشک دی) ؟!
وَوَجَدَکَ ضَالاًّ فَهَدَی اور رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا۔
آیت میں پہلے پیغمبرؐ کی یتیمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب آنحضرتؐ شکم مادر میں تھے تو آپؐ کے والد گرامی جناب عبد اللہ دنیا سے رخصت ہو گئے اور جب ۶ سال کے تھے تو آپؐ کی والدہ گرامی بھی انتقال فرما گئیں تو خدا نے آپؐ کے دادا جناب عبد المطلب کو آپؐ کی پناہ گاہ قرار دیا؛ جب ۸ سال کے تھے تو آپؐ کے دادا بھی دنیا سے چلے گئے تو پھر چچا حضرت ابوطالب کی پناہ میں دے دیا کہ جو آپؐ کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور آپؐ کی حفاظت کرتے تھے۔ دوسری آیت میں فرماتا ہے: آپ کو گم شدہ پایا تو ہدایت دی۔ مفسرین اور تاریخ نویسوں نے کہا ہے: جب حضرت محمدؐ حلیمہ سعدیہ کے ساتھ عبد المطلب کے پاس آ رہے تھے تو راستے میں گم ہو گئے۔ بعض نے کہا ہے: آپ شام کے راستے میں تھے اور بعض نے کہا ہے کہ آپؐ مکہ کے دروں میں راستہ گم کر بیٹھے اور خدا نے آپؐ کو ہدایت کی اور راستے کی طرف پلٹا دیا۔ مرحوم طبرسی نے یہ اقوال مجمع البیان میں نقل کیے ہیں لیکن علامہ طباطبائی نے یہاں پر جغرافیائی راستہ گم کرنے سے بالاتر معنی مراد لیا ہے اور فرمایا ہے: یہاں پر ضلال سے مراد گمراہی نہیں ہے بلکہ مراد عدم ہدایت ہے اور آنحضرتؐ کے ہدایت نہ رکھنے سے مقصود آنجنابؐ کا ہدایت الٰہی سے قطع نظر اپنا حال ہے، فرمانا یہ چاہتا ہے کہ اگر خدا کی ہدایت نہ ہو تو آپؐ اور کوئی بھی انسان اپنی طرف سے ہدایت نہیں رکھتے ہو سوائے خدائے سبحان کی ہدایت کے؛ پس رسول اکرمؐ خدا کی ہدایت کے علاوہ ضال و بے راہ تھے۔

جناب عبد اللہ کی وفات

[ترمیم]

سرزمین مکہ کے ’’لم یزرع‘‘ ہونے کی وجہ سے قریش کا اصل پیشہ تجارت تھا اور عبد اللہ کے دادا یعنی ہاشم بن عبد مناف وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے تجارت کیلئے گرمیوں اور سردیوں کے تجارتی سفروں کی بنیاد رکھی تھی۔ جناب عبد اللہ تجارت کی غرض سے قریش کے کاروان کے ہمراہ شام کی طرف گئے جبکہ آپ کی زوجہ آمنہ حاملہ تھیں۔ آپ شام کے تجارتی سفر سے واپسی کے دوران راستے میں بیمار ہوئے اور اپنے ننہیال ’’بنی عدی بن نجار‘‘ کے پاس ٹھہر گئے لیکن ان کی بیماری طول پکڑ گئی اور ایک ماہ کے بعد بچیس برس کے سن میں وہیں پر انتقال فرما گئے۔
عبد اللہ بن عبد المطلب کی وفات کے بارے میں دو قول منقول ہیں:
۱۔ ایک قول یہ ہے کہ عبد اللہ بن عبد المطلب اپنے فرزند حضرت محمدؐ کی ولادت سے پہلے ہی یثرب میں انتقال فرما گئے تھے اور وہیں پر آپ کو دفن کیا گیا۔ ابن اثیر نے کتاب ’’اسد الغابۃ‘‘ میں اس قول کو زیادہ ٹھوس اور مستحکم قرار دیا ہے۔
۲۔ ایک دوسری روایت کے مطابق عبد اللہ کی وفات حضرت محمدؐ کی پیدائش کے بعد ہوئی۔ یعقوبی اور چند دوسرے افراد کا خیال ہے کہ پیغمبرؐ کی ولادت عبد اللہ کی وفات کے بعد ہوئی اور یہ مسئلہ اجماعی ہے. اور جناب عبد المطلب کے ابوطالب کے نام اشعار کہ جن میں رسول خداؐ کا خیال رکھنے کی تلقین ہے؛ بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں۔
عبد اللہ بن عبد المطلب کی اپنے عزیز فرزند حضرت محمدؐ کی ولادت کے بعد وفات کی درست تاریخ طے کرنے کے حوالے سے تاریخ کے صفحات میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ بعض منابع کے مطابق عبد اللہ کی وفات آپؐ کی ولادت کے دو ماہ بعد ہوئی؛ یہ قول ایک روایت میں امام صادقؑ سے نقل ہوا ہے اور مرحوم کلینی نے بھی اسے اختیار کیا ہے۔ بعض دیگر افراد نے عبد اللہ کی وفات کو ولادت کے سات ماہ بعد نقل کیا ہے اور بعض نے ولادت کے ایک سال بعد عبد اللہ کی وفات کی خبر دی ہے۔ مگر اس امر پر اتفاق ہے کہ پیغمبرؐ کے والد گرامی کی رحلت مدینہ میں ہوئی اور آپ کو ’’دار النابغہ‘‘ نامی جگہ میں سپرد خاک کیا گیا بلکہ طبری نے اپنی تاریخ میں واقدی سے روایت کی ہے کہ اس امر کہ عبد اللہ کی وفات مدینہ میں ہوئی اور وہیں پر آپ کو سپرد خاک کیا گیا تھا؛ کے بارے میں ہمارے لوگوں میں اختلاف نہیں ہے۔ جناب عبد اللہ کی قبر مدینہ میں باب السلام کے روبرو، سوق اللیل کی جانب کہ جس کا پرانا نام’’دار النابغۃ‘‘ تھا؛ واقع ہے۔ عثمانی دور حکومت میں اس پر گنبد اور پرشکوہ عمارت موجود تھی؛ مگر اس وقت وہ تمام آثار منہدم ہو چکے ہیں اور قبر کو غربی ضلع کی مسجد کی توسیع کے وقت مسجد میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن نشان قبر کو مٹا دیا گیا ہے۔
[۳۵] غفاری، ابراهیم، راهنمای حرمین شریفین، ج۵، ص۱۸۵۔


زمانہ رضاعت

[ترمیم]


← حضرت آمنہؑ کی وفات


جب حضرت محمدؐ پانچ برس کے تھے تو حلیمہ رسول خداؐ کو مکہ واپس لے آئیں اور آپؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہؑ کے سپرد کر دیا۔ آمنہ نے اپنے رشتہ داروں سے ملاقات اور اپنے شوہر عبد اللہ کی قبر کی زیارت کے قصد سے مکہ کو ترک کر دیا اور حضرت محمدؐ کے ہمراہ مدینہ روانہ ہو گئیں۔
اس سفر میں ام ایمن حضرت آمنہ کے ہمراہ تھیں۔ ام ایمن، رسول خداؐ کے والد گرامی جناب عبد اللہ کی کنیز تھیں اور عبد اللہ کی وفات کے بعد وراثت میں آنحضرتؐ کی ملکیت ٹھہریں ۔ رسول خداؐ ام ایمن کی محبتوں اور خدمات کو ہمیشہ یاد کیا کرتے تھے یہاں تک کہ فرماتے تھے: ام ایمن، امی بعد امی؛ ام ایمن ماں کے بعد میری ماں ہے۔
حضرت محمدؐ نے یثرب میں اپنے والد کی جائے دفن کے پاس اپنی ایک ماہ کی اقامت کے دوران اپنی دائیوں کے پاس وقت گزارا. کہا جاتا ہے کہ پیغمبرؐ کی نگاہ جب ہجرت مدینہ کے دوران محلہ بنی النجار پر پڑی تو فرمایا: میری والدہ مجھے اپنے ساتھ اسی جگہ پر لائیں تھیں اور میرے والد کی قبر اسی مقام پر ہے۔ اس سفر سے واپسی پر جب آمنہ کی عمر ۳۰ برس تھی
[۵۴] حسنی، ‌هاشم معروف، سیرة المصطفی، ص۴۷۔
تو ابواء کے مقام پر » جو مدینہ کا ایک گاؤں تھا؛ بیماری کی وجہ سے حضرت آمنہ انتقال فرما گئیں اور مشہور نقل کے مطابق آپ کو اسی جگہ پر دفن کر دیا گیا تھا؛ اس وقت حضرت محمدؐ کا سن چھ سال اور تین ماہ تھا۔

← حضرت آمنہؑ کا مقام دفن


اہل تاریخ اور محدثین کے مابین مشہور یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ کی وفات مدینہ میں ہوئی اور وہیں پر آپ کو دفن کیا گیا اور آپ کی قبر وہیں پر ہے
[۶۲] آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۷۔
اور نبی کریمؐ کی والدہ حضرت آمنہؑ کی وفات ابواء کے مقام پر ہوئی اور وہیں پر آپ کو دفن کیا گیا۔
تاہم بعض روایات کے مطابق شیعہ و اہل سنت کتب میں منقول ہے کہ عبد اللہ و آمنہ دونوں کی قبریں مکہ میں ہیں جبکہ بعض کتب میں یہ ہے کہ صرف حضرت آمنہ کی قبر مکہ میں ہے۔ بعض منابع کے مطابق حضرت محمدؐ کی والدہ ماجدہ کی قبر مکہ کے مقبرہ حجون یا شعب ابی ‌ذر میں ہے۔ پہلے قول کے شواہد میں سے یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جنگ احد کیلئے مدینہ پر حملے کے دوران ابواء سے گزرتے ہوئے حضرت آمنہؑ کی قبر کھولنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر ابو سفیان نے انہیں کہا کہ مسلمان بھی ہماری قبروں کے ساتھ یہ سلوک کر سکتے ہیں؛ لہٰذا وہ رک گئے۔ اسی طرح ہجرت کے چھٹے سال پیغمبرؐ اور آپ کی سپاہ نے عمرے کی ادائیگی کیلئے رخت سفر باندھا تو راستے میں ابواء کے مقام پر ٹھہر گئے اور فرمایا: خدا نے مجھے اجازت دی ہے کہ اپنی والدہ کے مزار کی زیارت کروں۔ پھر اپنی والدہ کی قبر کے پاس گئے اور ان کی مہربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اشکبار ہو گئے۔ اہل سنت کے منابع میں موجود یہ احادیث ان لوگوں کیلئے بہترین جواب ہے کہ جو مردوں کیلئے آہ وبکا اور قبور کی زیارت کو جائز نہیں سمجھتے۔ عثمانی دور حکومت تک حجون کے قبرستان میں ابواء کے مقام پر آپ کی قبر پر ایک مقبرہ موجود تھا مگر ان دونوں کو وہابیوں کے حجاز پر قبضے کے بعد منہدم کر دیا گیا۔

← حضرت آمنہ کا ایمان


حضرت آمنہؑ کے دین و ایمان کے بارے میں شیعوں کا ہمیشہ سے عقیدہ یہ ہے کہ آپؐ توحید پر ایمان رکھتی تھیں اور دینِ ابراہیمؑ پر کاربند تھیں اور قیامت کے دن مومنین کی صفوں میں محشور ہوں گی۔ علمائے شیعہ نے متعدد آیات و روایات سے اس مطلب کو ثابت کیا ہے؛ منجملہ سورہ شعرا کی آیت ۲۱۹: «وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِینَ» نیز پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ سے منقول متعدد روایات میں ہے کہ خدا تعالیٰ نے پیغمبرؐ کا حمل بہترین رحم میں قرار دیا ہے اور انہیں جہنم کی آگ سے دور رکھا ہے۔ اہل سنت کے بعض علما بھی اس نقطہ نظر کی تائید کرتے ہیں؛ جیسے
عبدالرحمن سیوطی (متوفی۹۱۱ھ) کہ جنہوں نے ایمان آمنہ کے اثبات میں ’’الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة آمنه‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور فخر رازی جیسی بہت سی بزرگ شخصیات کو اس رائے سے متفق قرار دیا ہے۔
[۹۲] سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة آمنه، ص۱۶۔

حضرت آمنہؑ کے عدم ایمان پر اہل سنت کی واحد دلیل وہ حدیث ہے جو عطیہ سے سورہ توبہ کی آیت ۱۱۳ کے شان نزول میں منقول ہے اس حدیث میں مشہور کے برخلاف آمنہ کی قبر کو مکہ میں واقع قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے: جب پیغمبرؐ مکہ پہنچے تو اپنی والدہ ماجدہ کی قبر پر کھڑے ہو گئے، اس امید سے کہ خدا انہیں یہ اذن دے کہ آپؐ ان کیلئے بخشش طلب کریں؛ مگر خدا نے اجازت نہیں دی۔ ابن اسعد جیسے مورخین نے بالکل اس کے برعکس نقل کیا ہے۔ اور اس روایت کی عدم صحت کو واضح انداز سے بیان کیا ہے اور ابن کثیر جیسے بعض علما نے اسے ’’حدیث غریب‘‘ قرار دیا ہے؛ اہل سنت کے بعض علما نے اس قسم کی روایات کی سند اور متن پر سوالات اٹھائے ہیں اور انہیں ضعیف شمار کیا ہے۔
[۹۷] مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دایرة المعارف قرآن کریم، ج۱، ص۳۲۲-۳۲۳۔
ان قرائن کے پیش نظر بعض تاریخ نویسوں کا یہ خیال ہے آمنہ کے مومنہ نہ ہونے کے بیان پر مشتمل روایات امویوں کی وضع کردہ ہیں کہ جو خود پاک و پاکیزہ اور نیک نام اسلاف سے محروم تھے۔
[۹۸] مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دایرة المعارف قرآن کریم، ج۱، ص۳۲۲-۳۲۳۔


پیغمبر اکرمؐ اور عبدالمطلب

[ترمیم]

والدہ کی وفات کے بعد رسول خداؐ اپنے جد عبد المطلب کے زیرسرپرستی آ گئے۔ حضرت عبد المطلب کو آپ سے بہت محبت و الفت تھی۔ یہ چیز ان کی جانب سے حضرت محمدؐ کی سرپرستی سنبھالنے کے بعد مختصر عرصے میں بخوبی روشن ہو گئی تھی۔ عبد المطلب نے اپنی اولاد سے کہا: خدا کی قسم! اس بچے کا مقام بہت بلند ہے۔ میں اس وقت کو دیکھ رہا ہوں کہ جب یہ تم سب کا سید و سالار ہو گا پھر آپؐ کو آغوش میں لے کر اپنے پاس بٹھاتے اور فرط محبت سے آپؐ کو چومتے۔ عبد المطلب کھانے سے پہلے کسی کو بھیج کر حضرت محمدؐ کو بلاتے تھے پھر کھانا کھاتے تھے۔ موت کے وقت جو انسانی زندگی کے سخت ترین لمحات میں سے ہے؛ عبد المطلب کی تنہا تشویش حضرت محمدؐ کے حوالے سے تھی؛ انہوں نے حضرت ابو طالب کو آپؐ کی سرپرستی اور حفاظت کا ذمہ لینے کی وصیت کی۔ پھر کہا: الله، الله فی حبیبه. (حبیب خداؐ کے بارے میں اللہ سے ڈرو) اور سوال کیا: اے ابو طالب! کیا میری وصیت کو قبول کرتے ہو؟! جناب ابو طالب نے جواب دیا: ہاں، خدا کی قسم!
محدثین و مورخین کے مشہور قول کے مطابق جب رسول خداؐ ۸ برس کے تھے تو حضرت عبد المطلب نابینا ہو گئے اور انتقال کر گئے۔ وفات کے وقت حضرت عبد المطلب کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے؛ بعض نے وفات کے وقت آپ کی عمر ۸۲ سال اور بعض نے ۱۴۰ سال قرار دی ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ضحی/سوره۹۳، آیه۶۔    
۲. ضحی/سوره۹۳، آیه۷۔    
۳. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۱۰، ص۳۸۸۔    
۴. علامه طباطبایی، سید محمدحسین، ترجمه تفسیر المیزان، ج۲۰، ص۵۲۳۔    
۵. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج۲۷، ص۱۰۷۔    
۶. ابراهیم/سوره۱۴، آیه۳۷۔    
۷. قریش/سوره۱۰۶، آیه۱۔    
۸. قریش/سوره۱۰۶، آیه۲۔    
۹. قریش/سوره۱۰۶، آیه۳۔    
۱۰. قریش/سوره۱۰۶، آیه۴۔    
۱۱. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۱۰، ص۴۵۲۔    
۱۲. ابن حبیب بغدادی، محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، ص۴۲۔    
۱۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، ص۵۹۔    
۱۴. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۵۸۔    
۱۵. ابن حبیب بغدادی، محمد بن حبیب، المحبّر، ص۱۶۲۔    
۱۶. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۱۷. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۸۰۔    
۱۸. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۰۔    
۱۹. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۷۹۔    
۲۰. ابوبکر بیهقی، احمد بن حسین، دلائل النبوه، ج۱، ص۸۸۔    
۲۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۹۔    
۲۲. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۳-۱۴۔    
۲۳. ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، ج۱، ص۳۳-۳۴۔    
۲۴. یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۲۵. امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعه، ج۸، ص۱۱۴۔    
۲۶. ابن اسحاق مطلبی، محمد ابن اسحاق، السیر و المغازی، ج۱، ص۶۹۔    
۲۷. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۴۔    
۲۸. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۱، ص۹۔    
۲۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۳۹۔    
۳۰. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۸۔    
۳۱. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۸۰۔    
۳۲. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۳۔    
۳۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۹۔    
۳۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲، ص۸۔    
۳۵. غفاری، ابراهیم، راهنمای حرمین شریفین، ج۵، ص۱۸۵۔
۳۶. جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکّه و مدینه، ص۳۵۲۔    
۳۷. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۵۔    
۳۸. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۳۹. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۴۰۱۔    
۴۰. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۸۔    
۴۱. احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۴۲. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۴۔    
۴۳. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۲۵۔    
۴۴. شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، ج۱۲ ص۱۹۳۔    
۴۵. ابن عبدالبر، یوسف‌ بن‌ عبدالله، الاستیعاب فی معرفه الاصحاب، ج۴، ص۱۷۹۴۔    
۴۶. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، السیره النبویه، ج۴، ص۶۴۳۔    
۴۷. تقی‌الدین مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، ج۶، ص۳۴۰۔    
۴۸. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۵، ص۳۴۷۔    
۴۹. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۸۔    
۵۰. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۵۱. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۳-۹۴۔    
۵۲. شمس شامی، محمد بن یوسف، سبل الهدی و الرشاد، ج۲، ص۱۲۰۔    
۵۳. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۵۴. حسنی، ‌هاشم معروف، سیرة المصطفی، ص۴۷۔
۵۵. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۸۔    
۵۶. جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکّه و مدینه، ص۳۹۲۔    
۵۷. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۸۔    
۵۸. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۵۹. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۵۲۔    
۶۰. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۳-۹۴۔    
۶۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۲ ص۸۔    
۶۲. آیتی، محمد ابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۷۔
۶۳. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۵۸۔    
۶۴. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۰۔    
۶۵. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۴۔    
۶۶. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۸۔    
۶۷. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۰۔    
۶۸. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۵۲۔    
۶۹. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری ج۱ ص۹۴۔    
۷۰. ابن هشام حمیری، عبدالملک بن هشام، السیره النبویه، ج۱، ص۱۶۸۔    
۷۱. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۵۔    
۷۲. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الخصائص الکبری، ج۱، ص۱۳۵۔    
۷۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۹۔    
۷۴. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۴۶۷۔    
۷۵. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الخصائص الکبری، ج۱، ص۱۳۵۔    
۷۶. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۱، ص۵۷۹۔    
۷۷. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۱، ص۴۶۷۔    
۷۸. واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج۱، ص۲۰۶۔    
۷۹. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ج۱، ص۵۲-۵۳۔    
۸۰. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۴۱۔    
۸۱. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۵۵۔    
۸۲. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۴۔    
۸۳. جعفریان، رسول، آثار اسلامی مکّه و مدینه، ص۳۹۲۔    
۸۴. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۰۸-۱۰۹۔    
۸۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷۔    
۸۶. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۹۔    
۸۷. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، الامالی، ص۷۲۳۔    
۸۸. طبرسی، فضل بن حسن، الاحتجاج علی اهل اللجاج، ج۱، ص۲۱۲۔    
۸۹. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۴۶۔    
۹۰. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، الامالی، ص۷۰۳۔    
۹۱. فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج۱۶، ص۱۵۷۔    
۹۲. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، الفوائد الکامنة فی ایمان السیدة آمنه، ص۱۶۔
۹۳. توبه/سوره۹، آیه۱۱۳۔    
۹۴. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۴۔    
۹۵. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۴۔    
۹۶. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۴۲۔    
۹۷. مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دایرة المعارف قرآن کریم، ج۱، ص۳۲۲-۳۲۳۔
۹۸. مرکز فرهنگ و معارف قرآن، دایرة المعارف قرآن کریم، ج۱، ص۳۲۲-۳۲۳۔
۹۹. نورالدین حلبی، علی بن ابراهیم، السیره الحلبیه، ج۱، ص۱۵۸۔    
۱۰۰. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۴۶۔    
۱۰۱. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۴۳۔    
۱۰۲. ابن شهرآشوب، محمد بن علی‌، مناقب آل ابی‌طالب (علیهم‌السّلام)، ج۱، ص۳۳۔    
۱۰۳. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۴۴۸۔    
۱۰۴. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۴۳۔    
۱۰۵. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۵۔    
۱۰۶. ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایه و النهایه، ج۲، ص۳۴۳۔    
۱۰۷. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۵۲۔    
۱۰۸. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۵۔    
۱۰۹. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، کمال الدّین وتمام النّعمه، ج۱، ص۱۷۱-۱۷۲۔    
۱۱۰. ابن اثیر، ابوالحسن علی بن ابی الکرم، اسد الغابه فی معرفه الصحابه، ج۱، ص۱۵۔    
۱۱۱. ابن سعد بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۹۵۔    
۱۱۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۶۲۔    
۱۱۳. یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ یعقوبی، ج۲ ص۱۳۔    


ماخذ

[ترمیم]







جعبه ابزار