نبی کریمؐ کا پہلا تجارتی سفر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
شیعہ اور اہل سنت محدثین و مورخین نے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ حضرت محمدؐ کے اپنے چچا جناب ابو طالبؑ کے ہمراہ سفرِ شام کی داستان اور آنحضرتؐ کی
بحیرا کے ساتھ ملاقات کا ماجرا نقل کیا ہے، تاہم بعض معاصر اہل قلم نے اس واقعے کی صحت میں شک و تردید کا اظہار کیا ہے۔
مشہور نقل کے مطابق رسول خداؐ کی عمر پربرکت کے ۹ سال
اور ایک قول کے مطابق ۱۲سال
گزر چکے تھے کہ حضرت ابو طالبؑ نے
سفرِ شام کا قصد کیا۔ حضرت محمدؐ کے سرپرست ہونے کے ناطے حضرت ابو طالبؑ کو رسول خداؐ کے ساتھ شدید لگاؤ اور والہانہ محبت تھی۔
اسی وجہ سے انہوں نے شام کی جانب سفر کے وقت آنحضرتؐ کی ہمراہی کی۔
[ترمیم]
اس سفر کی منزل شام کا شہر بصری تھا۔ بصری شہر کے نزدیک ایک گرجا گھر تھا جس میں بحیرا نامی ایک متقی اور زاہد شخص
رہتا تھا۔ کاروان گرجا گھر کے پاس رکا۔ بحیرا نے بعض غیر معمولی علامات جیسے پیغمبرؐ کے سامنے پتھروں کی تعظیم، پیغمبرؐ کے ساتھ ساتھ چلنے والا بادل جو آپؐ پر سایہ فگن تھا اور وہ درخت جو پیغمبرؐ کے بیٹھنے کے بعد اپنی شاخوں کو آپؐ پر جھکا رہا تھا؛ کو دیکھ کر
اس نے حضرتؐ کو پہچان لیا اور کاروان والوں کو کھانے کی دعوت دی۔ سب لوگ پہنچ گئے مگر پیغمبرؐ کو نوجوانی کے سبب قافلے کے سامان کی نگرانی کیلئے وہیں درخت کے نیچے چھوڑ آئے؛ بحیرا کے اصرار پر آپؐ کو بھی بلایا جاتا ہے اور بحیرا بچے کے ساتھ گفتگو کا خواہاں ہوتا ہے۔
بعض سیرت نگاروں نے ایک مختصر روایت ذکر کی ہے کہ بحیرا نے اس دوران کہا: یہ اہل جہان کے سید و سردار ہیں؛ اور یوں پیغمبرؐ کی نبوت کی پیشگوئی کر دی۔
بعض نے زیادہ تفصیلات ذکر کی ہیں، منجملہ یہ کہ بحیرا پیغمبرؐ کے خوابوں سے متعلق پوچھتا ہے؛ مگر جب آپؐ کو
لات و
عزّی کی قسم دیتا ہے تو پیغمبرؐ ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں؛
پھر آنحضرتؐ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت کا مشاہدہ کرتا ہے۔
اور اس ملاقات کے آخر میں ابوطالب کو بچے کے مستقبل سے آگاہ کرتا ہے اور نصیحت کرتا ہے کہ انہیں
یہود یا مسعودی کے بقول اہل کتاب
بالخصوص یہود
سے محفوظ رکھے۔
آگے چل کر داستان کے بارے میں دو روایات ہیں: بعض نے ابو طالب کے ترکِ سفر اور مکہ واپسی کی خبر دی ہے
اور بعض نے ابوطالب کی جانب سے سفر کو جاری رکھنے اور رسول اکرمؐ کو ابوبکر اور
بلال کے ہمراہ مکہ واپس بھیجنے کی روایت نقل کی ہے۔
[ترمیم]
پیغمبرؐ کے بحیرا کے ساتھ ملاقات کی روایات بالخصوص رسول اکرمؐ کی ابوبکر اور بلال کے ساتھ واپسی سے متعلق سنجیدہ ابہامات موجود ہیں کہ جن کی طرف آگے چل کر اشارہ کیا جائے گا۔
بحیرا اور حضرت محمدؐ کی ملاقات کی داستان کے بارے میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ بحیرا کی پیغمبرؐ کے ساتھ ملاقات کی روایات فریقین کے منابع کی رو سے ضعیف الاسناد ہیں؛
کیونکہ یہ تمام روایات
قُراد ابونوح تک پہنچتی ہیں اور اس نے بھی بالواسطہ
ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے۔
چونکہ ابو موسیٰ کے سوا کسی صحابی نے ایسے واقعے کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے، اس لیے اس کا اعتبار مخدوش ہو جاتا ہے۔
سیرت ابن ہشام، تاریخ طبری، طبقات الکبریٰ اور دیگر اہل سنت کتب میں اس واقعے کے ایک راوی
ابو موسیٰ اشعری بھی ہیں حالانکہ وہ رسول خداؐ کے سفر اور بحیرا سے ملاقات کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے؛ نیز انہوں نے اس حوالے سے اپنی سند کو نقل نہیں کیا ہے کہ اس کے صحت و سقم کے بارے میں تحقیق کی جا سکے۔ لہٰذا اس نوع کی احادیث
خبرِ واحد اور
مرسل روایات کہلاتی ہیں۔ ذہبی نے بھی اسے موضوعات میں سے قرار دیا ہے اور کہا ہے: اظنه موضوعا بعضه باطل؛ میں اسے موضوع سمجھتا ہوں اور اس کا کچھ حصہ
جھوٹ پر مبنی ہے۔
تاہم شیعہ کتب جیسے مناقب ابن شہر آشوب اور شیخ صدوقؒ کی کمال الدین میں منقول ہے کہ اس داستان کے حوالے سے رسول خداؐ اور کسی بھی امامؑ سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے؛ جبکہ ابن شہر آشوب نے پہلے اس واقعے کو مفسرین سے بلا سند نقل کیا اور پھر آگے چل کر اسے طبری سے روایت کیا تاہم وہ اس کی درستگی کی ضمانت دینے سے دستبردار ہو گئے۔
مرحوم صدوقؒ نے بھی اسے دو طریق سے روایت کیا ہے؛ جن میں سے پہلا طریق سند کے اعتبار سے ضعیف ہے کیونکہ بعض راوی مجہول ہیں اور بعض پر
کذب کی تہمت ہے
اور دوسری روایت بھی
مرفوعہ ہے۔ اس کے علاوہ پہلی روایت ایسے امور غریبہ پر مشتمل ہے جو حقیقی داستان کی نسبت ایک افسانے سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔
[ترمیم]
بعض روایات میں ہے کہ جناب ابوطالب نے پیغمبرؐ کو ابوبکر اور بلال کے ہمراہ شام پہنچنے سے قبل بصری سے ہی واپس بھیج دیا تھا؛ مگر یہ بات چند پہلوؤں سے مخدوش بلکہ ناقابل قبول ہے:
اول: ابوبکر رسول خداؐ سے کم از کم تین سال یا اس سے زائد چھوٹے تھے اور بلال ابوبکر سے چند سال چھوٹے تھے
اور پیغمبرؐ اس وقت ۹ سال یا ۱۲ سال کے تھے؛ اس صورت میں ابوبکر کی عمر ۶ یا زیادہ سے زیادہ ۹ سال ہو گی
جبکہ بلال زیادہ سے زیادہ ۲ سال کے ہوں گے؛
یوں ابوبکر اور بلال کی اس سن و سال میں کاروانِ شام میں شمولیت بہت بعید معلوم ہوتی ہے۔
دوم: بلال حبشی کا اس دور میں ابوبکر کے ساتھ کیا تعلق تھا! چونکہ بلال آغاز بعثت میں
امیۃ بن خلف کے گھر غلامانہ زندگی گزار رہے تھے اور عرصہ دراز کے بعد ایک قول کے مطابق ابوبکر کے توسط سے
آزاد ہوئے تھے۔
سوم: پیغمبرؐ کے ساتھ شدید وابستگی کے باوجود ابوطالبؑ کا پیغمبرؐ کو ۶ سالہ اور ۲ سالہ بچوں کے حوالے کر دینا اور ان کا اتنا طولانی فاصلہ طے کر کے شام سے مکہ واپس پہنچ جانا؛ ایک قابل قبول امر نہیں ہے۔ اس وجہ سے بعض سیرت نگاروں نے اس حصے کو جعلی اور پوری روایت کے موضوع ہونے پر شاہد قرار دیا ہے۔ بعض نے یہ
احتمال بھی دیا ہے کہ یہ روایت بعد میں ابوبکر کی پیغمبرؐ کے ساتھ قربت اور ان کی دیگر
صحابہ پر
فضیلت کے اثبات کی غرض سے گھڑی گئی ہے اور اسے روایت کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے؛
چنانچہ
ابو سعید خرگوشی نے ابوبکر اور بحیرا کی
ملاقات کو ایک اور طرح سے نقل کیا ہے اور اسے بعثت سے قبل ابوبکر کی
خلافت کی حقانیت پر شاہد قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
بحیرا کے ماجرے کے دیگر مبہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ تاریخی منابع میں بحیرا نامی شخص کا وجود مشکوک ہے۔ کیا اس کا اصل نام وجرجیس یا سرجس یا جرجس تھا! یا یہ کہ وہ علما و احبار یہود میں سے تھا اور اس کا نام تیماء تھا! جیسا کہ بعض نے کہا ہے یا پھر عیسائی تھا اور اس کا تعلق قبیلہ عبد القیس سے تھا چنانچہ بعض دوسرے مورخین اس کے قائل ہیں؛
یہ تردید و ابہام اس سے منسوب روایات کے ضعف کا موجب ہے۔ نبی کریمؐ اور بحیرا کے مابین گفتگو کے مضمون اور مقام میں مشابہت کے باوجود ابن سعد
اور سیوطی
راھب کا نام نسطور ذکر کرتے ہیں نہ بحیرا؛ .
استاد شہید مرتضیٰ مطہری کتاب ’’پیامبر امی‘‘ میں فرماتے ہیں: معروف مستشرق اور اسلامیات کے ماہر پروفیسر میسگنن کتاب ’’سلمان پاک‘‘ میں بحیرا نامی شخص کے وجود میں شک اظہار کرتے ہیں تو پھر اس کی پیغمبرؐ کے ساتھ ملاقات کے قصے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے اور اسے ایک افسانوی شخصیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: بحیرا، سرجیوس ، تمیم داری اور دیگر افراد جنہیں راویوں نے پیغمبرؐ کے گرد جمع کر رکھا ہے؛ مشکوک اور ناپید سائے ہیں۔
[ترمیم]
اس واقعے کے دیگر نکات میں سے یہ ہے کہ یہ بعض
مسیحی کتب میں ان دشمنوں کیلئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جنہوں نے پیغمبرؐ کی
رسالت میں
شک کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو ان اخبار و عقائد کا مجموعہ قرار دیا ہے جنہیں پیغمبرؐ نے مسلسل سفر کر کے یہود اور مسیحی راہبوں سے سنا تھا۔
بعض مستشرقین اور پادریوں نے رسول خداؐ کی نبوت اور
وحی کو زیر سوال لے جانے کی غرض سے اس داستان کو ایک سند قرار دیا ہے اور کہا ہے: پیغمبرؐ نے اس سفر میں بحیرا سے کچھ تعلیمات کو اخذ کیا اور انہیں اپنے قوی حافظے میں محفوظ کر لیا اور ۳۰ سال گزرنے کے بعد انہی تعلیمات کو اپنے
دین کی بنیاد قرار دیا اور انہیں
وحی اور
قرآن کے نام پر اپنے پیروکاروں تک پہنچا دیا؛ اس کے جواب میں کہنا چاہئیے: اس داستان کے اسناد و دلالت کے اعتبار سے صحیح ہونے کے فرض کی بنا پر آنحضرتؐ کی بحیرا کے پاس ٹھہرنے کی مدت کس قدر طولانی تھی کہ ان تمام اعلیٰ معارف کا سرچشمہ بن سکے اور اس انقلابی اور عالمی دین کی بنیاد بن سکے!
[ترمیم]
آخر میں یہ کہنا چاہئیے: اس سفر میں ابوبکر اور بلال کا وجود اور پیغمبرؐ کو ان کے حوالے کیا جانا اور پیغمبر کی ’’بصری‘ سے ان کے ساتھ واپسی؛ کے قصے کسی قاعدے ضابطے پر پورا نہیں اترتے۔
البتہ یہود و نصاریٰ کے پیغمبر اکرمؐ کو پہچاننے کے امر پر قرآن مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے: اہل کتاب پیغمبر کو اسی طرح پہچانتے ہیں، جیسے اپنے بچوں کو پہچانتے ہیں؛ الَّذینَ آتَیْناهُمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَهُ کَما یَعْرِفُونَ اَبْناءَهُم»
کیونکہ ان لوگوں نے آپؐ کی تمام خصوصیات کو اپنی کتابوں میں دیکھ رکھا تھا مگر اس کے باوجود ان میں سے ایک جماعت جان بوجھ کر اپنی معلومات کو چھپاتی رہی۔
«الَّذینَ آتَیْناهُمُ الْکِتابَ یَعْرِفُونَهُ کَما یَعْرِفُونَ اَبْناءَهُمْ وَ اِنَّ فَریقاً مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُون»
جیسا کہ اسلام قبول کر لینے والے یہودی عالم
عبد اللہ بن سلام کا یہ قول ہے: انا اعلم به منی یا بنی؛ میں پیغمبرؐ کو اپنی ذات یا اپنے بیٹے سے بہتر جانتا ہوں!
لہٰذا اس قسم کی روایات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہئیے۔ پہلا حصہ بحیرا کا ماجرا اور اس کی پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں پیشگوئیاں؛ یہ حصہ ضعفِ روایات کے علاوہ کوئی استبعاد نہیں رکھتا اور قرآن بھی ایک طرح سے اس کی تائید کرتا ہے۔ مگر روایات کا دوسرا حصہ یعنی پیغمبرؐ کو ابوبکر و بلال کے ساتھ واپس بھیجنا کہ جو بعض اہل سنت روایات میں وارد ہوا ہے؛ کسی بھی معیار کے تحت قابل قبول نہیں ہے یہاں تک کہ ذہبی نے بھی اسے موضوعات میں سے قرار دیا ہے۔
اس کے علاوہ
ترمذی کی اس کے بارے میں تعبیر بھی قابل تامل ہے۔
علامہ جعفر مرتضیٰ عاملی کے نزدیک اس قسم کے مطالب کو گھڑنے کا ہدف قبل از بعثت ابوبکر کے پیغمبرؐ کی نبوت پر ایمان کو ثابت کرنا ہے تاکہ اس طرح ابوبکر کو ’’اسبق الناس اسلاما‘‘ کے عنوان سے متعارف کیا جا سکے۔
[ترمیم]
[ترمیم]