نسبت ایقاعی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
نسبتِ ایقاعی مرکبات و جملات میں پائی جاتی ہے۔ مرکبِ تام کی
ہیئت ایقاعِ نسبت پر دلالت کرتی ہے۔ ہیتِ تام جس نسبت کے ایقاع سے حکایت کرتی ہے اس پر نسبتِ ایقاعی کا
اطلاق ہوتا ہے۔
[ترمیم]
نسبت ایقاعی کے مقابلے میں
نسبت وقوعی آتا ہے۔ اس نسبت کو نسبتِ ایقاعی کہتے ہیں جو خارج میں معنی کے وجود پر دلالت کرے۔
مرکباتِ تام اور ناقص میں ان کی ہیئات کا مدلول وہ نسب اور ذہنی روابط ہیں جو مفاہیم کے ذریعے سے قائم ہوتے ہیں۔ پس مرکبات کی ہیئت دال ہے اور مفاہیم کے ذریعے سے قائم ہونے والی نسبتیں و روابطِ ذہنی ان کا مدلول ہے۔ یہ ہیئتیں ان
نسب و روابط سے حکایت کرتی ہیں اور ان سے
کاشف ہیں۔
[ترمیم]
مرکباتِ تام میں موجود نسبت کا مرکباتِ ناقص میں موجود نسبت سے فرق یہ ہے کہ مرکباتِ تام اور جملاتِ تام کی ہیئت ایقاعِ نسبت سے حکایت کرتی ہے۔ اس کے برخلاف مرکباتِ ناقص کی ہیئت ان میں نسبت کے وقوع سے حکایت کرتی ہے۔
[ترمیم]
نسب اور روابط میں دو حیثیات متصور ہیں:
۱. حیثیتِ
ایقاع نسبت؛ یعنی عدم سے وجود میں آنا، جیسے معنی مصدری۔
۲. حیثیتِ وقوع نسبت؛ یعنی اس کے وجود کا ثبوت اور استمرار، جیسے معنیِ اسم مصدری۔
حیثیتِ اول یعنی نسبتِ ایقاعی مرکبات تامہ (اسمیہ اور فعلیہ) سے محکی ہے اور حیثیتِ دوم یعنی نسبتِ وقوعی مرکباتِ ناقص سے محکی ہے۔
[ترمیم]
نسبتِ ایقاعی کا رتبہ
نسبتِ وقوعی سے قبل ہے اور یہ نسبتِ وقوعی کے لیے مقدمہ بنتے ہیں؛ کیونکہ وجود ایجاد و وقوع کی فرع ہے اور ایقاع سے مؤخر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قضایا ناقصِ تقییدی کا رتبہ
قضایا تام کے بعد آتا ہے جوکہ قضایا تام سے مؤخر ہیں۔ اس پر بناء پر علماء میں یہ ضابطہ مشہور ہے:
إِنّ الأوصافَ قَبۡلَ العلمِ بِهَا اخبار والاخبار بعد العلم بها اوصاف؛ اوصاف کا علم ہونے سے پہلے اوصاف اخبار ہیں اور اخبار کا علم ہو جانے کے بعد یہ اوصاف ہیں۔
[ترمیم]
بعض اصولی کتب میں نسبت ایقاعی
جملاتِ انشائیہ میں موجود نسبت سے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ جبکہ یہاں پر نسبتِ ایقاعی جملہِ تام خبری کو بھی شامل ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۸۲۴، مقالہِ نسبت ایقاعی سے یہ تحریر لی گئی ہے۔