نسخ اخبار
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
شارع کی جانب سے صادر ہونے والی خبر کو کسی دوسری دلیل شرعی کے ذریعے
نسخ کرنے کو نسخِ اخبار کہتے ہیں۔ اس سے
اصول فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
نسخِ اخبار سے مراد معتبر
دلیل شرعی کے ذریعے ایسی خبر جو اللہ کی طرف سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی طرف سے صادر ہوئی تھی یا حالیہ طور پر صادر ہوئی ہے کو نسخ کرنا ہے ۔ اس صورت میں نسخ ہونے والی گذشتہ خبر یا حالیہ خبر کو
منسوخ اور جس دلیل کی مدد سے نسخ کیا گیا ہے کو
ناسخ کہا جائے گا۔
[ترمیم]
اکثر و بیشتر علماء نسخِ اخبار جو حکم شرعی سے خالی ہوں کو جائز قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ اس کا لازمہ شارع مقدس کی طرف سے جھوٹ کا صادر ہونا نکلتا ہے۔ البتہ اگر نسخِ خبر کا تعلق حکم شرعی کے نسخ سے ہو تو یہ جائز ہے۔ اس صورت میں اس کا معنی یہ ہو گا شارع کی جانب سے جب ایک حکم کے جاری رہنے کا وقت ختم ہو گیا تو شارع نے اس حکم کو برطرف کر دیا۔
کتاب اصول الفقہ الاسلامی میں وارد ہوا ہے کہ:
یجوز نسخ الخبر المتضمن حکما شرعیا تکلیفیا، لانه یکون فی معنی الامر و النهی، و ذلک یجوز نسخه، کما لو قال:امرتکم، او نهیتکم، او اوجبت علیکم. ولا نسخ عند جمهور العلماء فی الاخبار فی حد ذاتها، بالتکلیف بما ینافیها، ای لا یجوز نسخ معانی الاخبار واعتقاد کون المخبر به علی عکس ما اخبر به الصادق الحکیم...؛ وہ خبر جو حکم شرعی تکلیفی کو شامل ہوتی ہے کا نسخ ہونا جائز ہے۔ کیونکہ یہ خبر امر و نہی کے معنی میں ہے۔ اس کا نسخ جائز ہے جیساکہ کہا جاتا ہے، مثلا: میں تمہیں حکم دیتا ہے یا تمہیں منع کرتا ہے، یا تمہارے اوپر واجب قرار دیتا ہوں وغیرہ۔ جمہور علماء کے نزدیک بذاتِ خود اخبار میں نسخ جائز نہیں ہے، اس تکلیف کے مقابلے میں جو ان کے منافی ہے، یعنی ان اخبار کے معانی کا نسخ ہونا جائر نہیں اور اسی طرح یہ اعتقاد بھی جائز نہیں ہے کہ مخبر بہ صادقِ حکیم کی دی ہوئی خبر کے برعکس ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۸۲۹، ماخوذ از مقالہ نسخ اخبار۔