پیغمبر اکرمؐ کے اجداد کا ایمان

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



آنحضرتؐ کے والد، والدہ، اجداد اور جدات سب کے سب مسلمان اور مومن تھے اور آپ کا نورانی نطفہ کسی ایسے صلب اور رحم میں نہیں رہا جو کفر اور اسلام اور ایمان اور شرک کے درمیان مشترک رہا ہو۔ پیغمبر اعظمؐ اسماعیل ذبیح اور ابرہیم خلیل کی نسل سے تھے۔


قرآن کی شہادت

[ترمیم]

خداوند متعال سورہ شعرا میں فرماتا ہے: وَ تَوَکَّلْ عَلَی الْعَزیزِ الرَّحیمِ• الَّذی یَراکَ حینَ تَقُومُ• وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ• اِنَّهُ هُوَ السَّمیعُ الْعَلیم‌ اور خدائے عزیز و رحیم پر توکّل کر! • وہی جو تجھے اس وقت دیکھتا ہے جب تو عبادت کیلئے قیام کرتا ہے • اور (نیز) سجدہ کرنے والوں میں تیری حرکت کو! • بے شک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
بعض روایات اور تفاسیر کی بنا پر وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ سے مقصود یہ ہے کہ آنحضرتؐ کے اسلاف پے در پے اور پشت در پشت سجدہ گزار، عبادت گزار اور موحّد تھے۔ جیسا کہ علامہ مجلسی آیت کے ذیل میں شیخ طبرسی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آیت میں ساجدین سے مراد موحدین ہیں یعنی نبی کریمؐ کا نورانی نطفہ ایک نبی سے دوسرے نبی تک منتقل ہوتا رہا۔ آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: وَ تَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدینَ سے مراد یہ ہے کہ رسول خدا کا آدم سے عبد اللہ تک پیغمبروں کے صلب میں نقل و انتقال خداوند عالم کے لطف و کرم کے تحت ہوتا رہا یعنی جب تیرا پاک نطفہ ایک موحد اور ساجد پیغمبر سے دوسرے میں منتقل ہوتا تھا تو خدا ان سب سے آگاہ تھا۔ علی ابن ابراہیم کی تفسیر میں امام باقرؑ سے اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوا ہے: فی اصلاب النبیین صلوات اللَّه علیهم‌ پیغمبروں کے اصلاب میں جن پر خدا کی رحمت ہو۔ اور تفسیر مجمع البیان میں اسی جملے کی وضاحت میں یہ وارد ہوا ہے: فی اصلاب النبیین نبی بعد نبی، حتی اخرجه من صلب ابیه عن نکاح غیر سفاح من لدن آدم پیغمبروں کی اصلاب میں تھا، ایک کے بعد دوسرا پیغمبر اس نور کا حامل رہا، یہاں تک کہ خدا نے آپ کو ایک پاکیزہ ازدواج کے توسط سے آپ کے والد کی صلب سے اور زمانہ آدم سے مابعد تک ہر قسم کی ناپاکی سے دور رکھتے ہوئے، دنیا میں بھیجا۔
امام علیؑ پیغمبرؐ کے اجداد کے بارے میں فرماتے ہیں: اخْتَارَه مِنْ شَجَرَةِ الأَنْبِيَاءِ ومِشْكَاةِ الضِّيَاءِ وذُؤَابَةِ الْعَلْيَاءِ وسُرَّةِ الْبَطْحَاءِ ومَصَابِيحِ الظُّلْمَةِ ويَنَابِيعِ الْحِكْمَةِ اس نے آپ کا انتخاب انبیاء کرام کے شجرہ، روشنی کے فانوس، بلندی کی پیشانی، ارض بطحا کی ناف زمین، ظلمت کے چراغوں اور حکمت کے سرچشموں کے درمیان سے کیا ہے۔

روایات سے استدلال

[ترمیم]

مختلف اسلامی روایات سے بھی پیغمبرؐ کے تمام اجداد کے موحد اور مومن ہونے کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ پیغمبر اکرمؐ سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے: لم یزل ینقلنی اللَّه من اصلاب الطاهرین الی ارحام المطهرات حتی اخرجنی فی عالمکم هذا لم یدنسنی بدنس الجاهلیة اللہ تعالیٰ ہمیشہ مجھے طاہرین کے اصلاب سے پاکیزہ ارحام میں منتقل کرتا رہا اور ہرگز مجھے جاہلیت کی آلودگیوں سے آلودہ نہیں کیا۔
اس روایت کو بہت سے شیعہ اور اہل سنت علماء جیسے مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں اور نیشاپوری نے تفسیر غرائب القرآن میں، فخر رازی نے تفسیر کبیر میں اور آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں نقل کیا ہے۔
بے شک آلودگی کا ایک نمایاں ترین مصداق شرک اور بت پرستی ہے؛ جیسا کہ خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ مشرک آلودہ اور ناپاک ہیں۔
معروف اہل سنت عالم سیوطی کتاب مسالک الحنفاء میں کہتے ہیں: پیغمبرؐ کے والد، والدہ اور اجداد کبھی بھی مشرک نہیں رہے اور انہوں نے پیغمبرؐ سے منقول مذکورہ بالا حدیث سے استدلال کیا ہے اور مزید کہتے ہیں کہ ہم اس حقیقت کو دو طرح کی اسلامی روایات سے ثابت کر سکتے ہیں۔ پہلی قسم کی روایات کہتی ہیں: پیغمبرؐ کے آدمؐ تک کے آبا واجداد اپنے زمانے کے بہترین افراد تھے۔ دوسری قسم کی روایات کہتی ہیں: ہر عصر و زمان میں موحد اور خدا پرست افراد موجود رہے ہیں چنانچہ ان دونوں قسم کی روایات کو ایک دوسرے میں ضمیمہ کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ کے آباو اجداد منجملہ حضرت ابراہیمؐ یقینی طور پر موحد تھے۔
[۱۷] سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳۔

شیخ طبرسی مجمع البیان میں آزر کے بارے میں کہ جسے قرآن نے ابراہیم کے والد کے عنوان سے ذکر کیا ہے؛ کہتے ہیں: ’’آزر‘‘ ابراہیمؐ کا نانا یا چچا تھا۔
اہل سنت عالم طبری تفسیر جامع البیان میں صراحت کیساتھ کہتے ہیں: آزر ابراہیم کے والد نہیں تھے۔ آلوسی اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں: جن لوگوں کا کہنا ہے کہ آزر کو ابراہیمؐ کا والد نہ ماننے والے صرف شیعہ ہیں، ان کی معلومات کم ہیں چونکہ بہت سے علماء قائل ہیں کہ آزر ابراہیمؐ کے چچا کا نام ہے۔

علمائے شیعہ کا اجماع

[ترمیم]

شیخ طبرسیؒ نے مجمع البیان میں اجداد پیغمبرؐ کے ایمان پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور لکھتے ہیں: یہ مطلب ثابت شدہ ہے کہ رسول خداؐ کے حضرت آدمؑ تک کے اجداد سبھی موحد تھے اور مذہب شیعہ کا اس مطلب پر اجماع ہے۔
شیخ صدوق نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبرؐ نے علیؑ سے فرمایا: عبد المطلب نے کبھی قمار بازی نہیں کی اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی اور کہتے تھے: میں اپنے جد ابراہیمؑ کے دین پر ہوں۔
علامہ محمد باقر مجلسیؒ نے بھی بحار الانوار میں فرمایا ہے: شیعہ امامیہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ رسول خداؐ کے والدین اور آدم ابو البشر تک کے آپ کے اجداد بزرگوار سب مسلمان (اور خدائے یکتا پر یقین رکھنے والے) تھے بلکہ صدیقین میں سے تھے؛ یا وہ خود پیغمبر مرسل تھے اور یا اوصیائے معصومین میں سے تھے اور شاید ان میں سے بعض نے تقیہ یا دیگر مصلحتوں کے پیش نظر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کیا۔
امام صادقؑ ایک روایت میں فرماتے ہیں: جبرئیلؑ پیغمبرؐ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد! خدا آپ پر سلام بھیجتا ہے اور فرماتا ہے: میں نے آگ کو حرام قرار دیا ہے اس صلب پر کہ جس سے تو ہے اور اس بطن پر جس نے تیرا حمل اٹھایا اور ان پر جنہوں نے تیری سرپرستی کی۔ پیغمبرؐ نے جبرئیلؑ سے عرض کیا: یہ مطلب میرے لیے واضح کرو۔ پھر جبرئیلؑ نے فرمایا: اس صلب سے مقصود عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں کہ جس سے آپ ہیں اور اس بطن سے مقصود کہ جس نے آپؐ کا حمل اٹھایا؛ آمنہ بنت وہب ہیں اور ان سے مقصود جنہوں نے آپ کی سرپرستی کی؛ ابوطالب بن عبد المطلب اور فاطمہ بنت اسد ہیں۔
علامہ مجلسی مزید فرماتے ہیں: هذا الخبر یدل علی ایمان هؤلاء... یہ حدیث ان افراد کے ایمان پر دلالت کرتی ہے۔ امیر المومنین سے منقول روایت کی بنیاد پر امام علیؑ، ابو طالب، عبدالمطلب، ہاشم اور عبد مناف دین ابراهیمؑ کے پیروکار تھے اور ہرگز بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔
مگر اس حوالے سے علمائے اہل سنت میں بہت زیادہ اختلاف ہے؛ ان میں سے کچھ جیسے سیوطی شیعوں کی طرح یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خداؐ کے والدین اور اجداد سب کے سب موحد تھے۔
[۲۷] سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳۔
اور ان میں سے کچھ انہیں حتی آنحضرتؐ کے والد گرامی حضرت عبد اللہ کو بھی کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۷۔    
۲. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۸۔    
۳. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۱۹۔    
۴. شعرا/سوره۲۶، آیه۲۲۰۔    
۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۳۔    
۶. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۰۴۔    
۷. قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، ج۲، ص۱۲۵۔    
۸. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۷، ص۳۵۸۔    
۹. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج۱۵، ص۳۷۱۔    
۱۰. امام علیؑ، نهج البلاغه، ترجمہ مکارم شیرازی، خ۱۰۸، ج۱، ص۲۲۸۔    
۱۱. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۴، ص۹۰۔    
۱۲. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۸۔    
۱۳. نظام الدین نیشابوری، حسن بن محمد قمی، تفسیر غرائب القرآن، ج۳، ص۱۰۳۔    
۱۴. فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (تفسیر الکبیر)، ج۱۳، ص۳۳۔    
۱۵. آلوسی، شهاب الدین، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۴، ص۱۸۴۔    
۱۶. توبه/سوره۹، آیه۲۸۔    
۱۷. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳۔
۱۸. مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج۵، ص۳۰۶۔    
۱۹. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۴ ص۹۰۔    
۲۰. طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، ج۱۱، ص۴۶۶۔    
۲۱. آلوسی، شهاب الدین، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، ج۴، ص۱۸۴۔    
۲۲. شیخ طبرسی، فضل بن حسن، تفسیر مجمع البیان، ج۴ ص۹۰۔    
۲۳. شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج‌۱، ص۳۱۳۔    
۲۴. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۱۷۔    
۲۵. علامه مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۵، ص۱۰۸۔    
۲۶. شیخ صدوق، محمد بن علی‌، کمال الدّین وتمام النّعمه، ج۱، ص۱۷۴۔    
۲۷. سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، مسالک الحنفاء، ص۷۳۔
۲۸. نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ج۱، ص۱۹۱۔    


ماخذ

[ترمیم]







جعبه ابزار