کر پانی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



کُر پانی سے مراد پانی کی وہ مقدار ہے جو ساڑھے تین بالشت لمبائی چوڑائی گہرائی کے برتن میں آ جائے۔ کُر پانی سے باب طہارت میں بحث کی جاتی ہے۔


کُر پانی کی تعریف

[ترمیم]

آب کُرّ کا شمار آب مطلق کی اقسام میں ہوتا ہے جس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اگر کُر کی مقدار کا پانی ہو تو وہ نجاست کے ملنے سے نجس نہیں ہوتا۔

← فقہاء کرام کی نگاہ میں


مشہور فقہاء کے نزدیک آبِ کُرّ سے مراد پانی وہ مقدار ہے جو ساڑھے تین بالشت لمبے چوڑے اور گہرے برتن میں ڈال جائے تو وہ برتن اس سے مکمل طور پر بھر جائے۔ اس اعتبار سے آبِ کُر كی پیمائش کرنا چاہیں تو یہ ۴۲ ۷/۸ بنتا ہے۔ اس کو ۳۶ یا ۲۷ بالشت بھی کہا جاتا ہے۔ آب کُر کو اگر وزن کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کا وزن ۳۷۶/۷۴۰، ۳۷۷، اور ۳۸۴ کلو گرام بنے گا۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر پانی کی مقدار ۴۸۰ کلوگرام ہو تو تمام فقہاء متفق ہیں کہ پانی کی یہ مقدار یقینی طور پر کُر ہے اور یہ پانی آبِ کُر کہلائے گا۔

آب کُر کو ثابت کرنے کا طریقہ

[ترمیم]

اگر انسان کو یقین ہو کہ یہ پانی کُر ہے تو وہ آبِ کُر شمار ہو گا، اسی طرح اگر دو عادل مرد خبر دیں کہ یہ آبِ کُر ہے تو وہ کُر شمار ہو گا۔ اگر ایک عادل مرد بلکہ ایک ثقہ شخص بتائے کہ یہ پانی آبِ کُر ہے تو کیا اس سے پانی کا کُر کی مقدار میں ہونا ثابت ہو جائے گا؟ اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
[۳] طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقى، ج۱، ص۴۶۔


آپ کُر کا پاک ہونا

[ترمیم]

آبِ کُر کا شمار آب مطلق کی اقسام میں ہوتا ہے جوکہ بذات خود پاک پانی ہے۔ اگر کُر پانی سے کوئی نجاست مل جائے تو نجاست کے ملنے سے تب تک کُر پانی نجس نہیں ہوتا جب تک اوصافِ ثلاثہ یعنی رنگ ، ذائقہ اور بُو میں سے کوئی ایک یا تینوں تبدیل نہ ہو جائیں۔ اگر کُر پانی نجس ہو جائے تو اس کے پاک ہونے کا معیار یہ ہے کہ اوصاف ثلاثہ رنگ ذائقہ بو میں سے جو تبدیل ہوا ہو اس تغیر کو زائل کیا جائے اور آب کثیر کے ساتھ اس کو ملایا جائے تو آب کر پاک ہو جائے گا۔ فقہاء میں اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا زوالِ تغیر کے بعد جب آب کثیر کو کُر سے ملایا جائے تو فقط دونوں پانی کے ملنے سے نجس کُر پانی پاک ہو جائے گا یا نہیں بلکہ آب کثیر کا اس پر غالب آنا ضروری ہے؟

آب کُر کا پاک کرنا

[ترمیم]

کسی نجس شیء کو اگر ایک مرتبہ کُر پانی سے دھویا جائے تو وہ نجس شیء پاک ہو جائے گی۔ اگر ایک چیز پیشاب سے نجس ہوئی ہے تو آبِ کر سے اس کو پاک کرنے کے سلسلے میں فقہاء میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا پیشاب سے نجس چیز کو آب کر سے پاک کرتے ہوئے دو مرتبہ دھونا ضروری ہے یا نہیں، اسی طرح نجاست جن چیزوں میں سرایت کر جاتی ہے جیسے لباس و قالین وغیرہ تو اس کو آب کر سے پاک کیا جائے تو اس کو نچوڑنا ضروری ہے یا نہیں؟ قول مشہور کے مطابق اگر کوئی چیز پیشاب سے نجس ہوئی ہے تو اس کو آبِ کر سے پاک کرتے ہوئے متعدد مرتبہ دھونا ضروری نہیں ہے ۔ متأخر مشہور فقہاء قائل ہیں کہ اگر نجاست لباس وغیرہ میں سرایت کر جائے اور اس کو آب کر سے پاک کیا جائے تو اس کو نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔
[۸] سبزواری، سيد عبد الأعلى، مہذب الاحکام، ج۱۸، ص۳۳۔
[۹] سبزواری، سيد عبد الأعلى، مہذب الاحکام، ج۱۸، ص۴۰۔


پانی کے کُر ہونے میں شک کا ہونا

[ترمیم]

اگر قلیل پانی کے کُر کی مقدار تک پہنچنے میں شک ہو تو وہ پانی قلیل شمار ہو گا۔ البتہ اگر ایک پانی کُر کی مقدار تک تھا اب شک کرتے ہیں کہ یہ کُر ہے یا نہیں تو وہ پانی کُر شمار ہو گا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱، ص۱۷۲۔    
۲. خمینی، سید روح‌ الله، توضیح المسائل، ج۱، ص۴، م۴۔    
۳. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقى، ج۱، ص۴۶۔
۴. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی، ج۱، ص۶۳۔    
۵. نجفی جواہری، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۱، ص۱۵۳۔    
۶. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی، ج۱، ص۷۲۔    
۷. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی، ج۱، ص۱۰۷۔    
۸. سبزواری، سيد عبد الأعلى، مہذب الاحکام، ج۱۸، ص۳۳۔
۹. سبزواری، سيد عبد الأعلى، مہذب الاحکام، ج۱۸، ص۴۰۔
۱۰. طباطبائی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی، ج۱، ص۸۱۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام، ج۱، ص۱۰۵-۱۰۶۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : احکام طہارت | پانی | فقہی مباحث | مطہرات




جعبه ابزار