کلی منطقی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



کلی منطقی علم منطق اور علم فلسفہ کی ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب وہ مفہوم ہے مشترک بننے کے قابل ہو۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

مفہومِ کلی کے مقابلے میں مفہوم جزئی آتا ہے۔ اس سے مراد وہ مفہوم ہے جو مشارکت اور مشترک ہونے کے قابل ہو۔ بالفاظِ دیگر وہ مفہوم جو متعدد افراد پر صدق کرنے کی قابلیت رکھتا ہے، فرق نہیں پڑتا کہ یہ افراد و مصادیق خارجی ہوں یا ذہنی، یہ افراد انسان ہوں یا غیر انسان یا دیگر اشیاء۔

جزئی سے مراد وہ مفہوم ہے جو متعدد افراد پر صدق کرنے کی قابلیت نہیں رکھتا بلکہ فقط ایک مصداق کے اوپر صدق کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کلی مفہوم شموم، عموم اور متعدد افراد پر صدق کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔
[۶] قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۶۰۔
[۷] ابن رشد، محمد بن احمد، تلخیص کتاب العبارة، ص ۷۰۔
[۸] شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)، ص۲۶۔
[۹] مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص ۳۲-۳۵۔
[۱۱] ابن‌ سینا، حسین بن عبدالله، الشفاء (منطق)، ج ۱، ص ۲۶۔
لفظِ کلی کا تین معنی پر اطلاق ہوتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ: وہ مفہوم جو مشارکت کے وقوع کی قابلیت رکھتا ہو اس کو ہم کلیِ منطقی سے تعبیر کرتے ہیں۔

مفہومِ کلی کے مصادیق

[ترمیم]

مفہومِ کلی درج ذیل موارد کو شامل ہے:
۱. وہ مفہوم جو کہ بالفعل متعدد مصادیق کو شامل ہو، جیسے مفہومِ انسان۔
۲. وہ مفہوم جو بالفعل فقط ایک مصداق کو شامل ہے البتہ متعدد مصادیق فرض کرنا محال نہیں ہے، جیسے مفہومِ شمس یعنی سورج کا مفہوم۔
۳. وہ مفہوم جو بالفعل ایک مصداق کو شامل ہے اور ایک سے زائد مصادیق کو فرض کرنا بھی محال ہے، جیسے مفهوم واجب الوجود بالذات۔
۴. وہ مفہوم جو بالفعل کسی مصداق پر منطبق نہیں ہوتا لیکن اس کا ایک یا ایک سے زائد مصادیق کا موجود ہونا فرض کیا جا سکتا ہے، جیسے مفہوم عنقا، ایک خیالی پرندہ عنقا کا مفہوم۔
۵. وہ مفہوم جو بالفعل کسی مصداق پر منطبق نہیں ہوتا لیکن اس کے مصداق کے موجود ہونے کو فرض کرنا بھی محال ہے، جیسے مفہومِ شریک الباری۔
تیسرے اور پانچویں مورد میں مصداق کا فرض کرنا محال اور ناممکن ہونا اس لفظ کے مفہوم سے نہیں ہے بلکہ اس کا سبب لفظ سے خارج ایک امرِ دیگر ہے جس کی وجہ سے اس کے مصداق کے وجود کا فرض کرنا بھی محال ہے۔
[۱۳] ابوحامد غزالی، محمد بن محمد، معیار العلم في فن المنطق، ص۶۶۔
[۱۴] شہاب‌ الدین سہروردی، یحیی بن حبش، منطق التلویحات، ص۸۹۔
[۱۵] خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۷۸-۸۱۔
[۱۶] گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۵۹۔
[۱۷] ابن‌سینا، حسین بن عبدالله، الشفاء (منطق)، ج۱، ص۱۸۔
[۱۸] ابو الحسن سالاری، بہمنیار بن مرزبان، التحصیل، ص۱۵۔
[۱۹] تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۳۱۔


کل اور جزء

[ترمیم]

کُلّ اور کُلِّیّ میں ، اسی طرح جُزۡء اور جُزئِیّ میں فرق ہے۔ کلی کے مقابلے میں جزئی آتا ہے جبکہ کل کے مقابلے جزء آتا ہے۔ کُل سے مراد وہ ایک شیء ہے جو متعدد اجزاء سے مل کر تشکیل میں آئے، جیسے جسمِ انسانی ہے کہ وہ متعدد اجزاء سے مل کر بنا ہے ، جیسے سر، بازو، شکم وغیرہ۔ مفہومِ کُل متعدد اجزاء سے تشکیل پانے والے ان اشیاء کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ مفہومِ کل کی بسیط یعنی جو اجزاء پر مشتمل نہ ہو پر دلالت نہیں ہوتی۔

کُلِّیّ اور کُلّ میں فرق

[ترمیم]

کُلی اور کل میں متعدد فرق بیان کیے گئے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱. کل متعدد اجزاء میں تقسیم ہونے کے قابل ہوتا ہے جبکہ کلی کو اس کی جزئیات میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔
۲. کل اپنے اجزاء کے مجموعے سے تشکیل پاتا ہے لیکن کلی اجزاء کی بجائے جزئیات سے تشکیل پاتا ہے۔
۳. کل خارج میں موجود ہوتا ہے لیکن کُلی بعینہ بذاتِ خود خارج میں موجود نہیں ہوتا۔
۴. کل کے اجزاء متناہی ہیں لیکن ممکن ہے کہ کسی کلی کی جزئیات متناہی نہ ہوں۔
۵. کل کا وجود اجزاء کے بغیر اور خارج میں فرد کے بغیر نہیں ہوتا لیکن کُلی کا وجود جزئیات اور خارج میں افراد کے بغیر بھی ممکن ہے۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ کلی کے اصلا اجزاء نہ ہوں اور وہ بسیط ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ کلی فقط ذہن میں ہو اور خارج میں اس کا کوئی فرد نہ ہو۔ لیکن کل کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے۔ کل ہمیشہ مرکب ہو گا اور ہمیشہ خارج میں ہو گا۔
۶. جزء کی تعریف میں کل کو قرار نہیں دیا جاتا لیکن جزئی کی تعریف میں کُلی واقع ہوتا ہے، مثلا انسان کی تعریف میں کہا جاتا ہے: حیوانِ ناطق، لیکن ہاتھ یا سر کی تعریف کرتے ہوئے انسان کا معنی ذکر نہیں کیا جاتا۔
۷. کُلی اپنی جزئیات اور افراد پر حمل ہونے کی قابلیت رکھتا ہے جبکہ کل اپنے اجزاء پر حمل نہیں ہوتا۔

کلی سے مصدر جعلی کا آنا

[ترمیم]

لفظِ کلی سے مصدر جعلی کُلِّیَّت آتا ہے اور مفہومِ کلی کا تعلق مفہومِ جزئی کی مانند معقولاتِ ثانیہِ منطقی سے ہے۔ یہ الفاظ مفاہیم کی اتباع میں زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔
[۲۰] فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۱۸۔
[۲۱] ابن‌ سینا، حسین بن عبد الله، الشفاء (منطق)، ج ۲، ص ۴۴۷۔
[۲۲] ابو البركات ابن‌ ملكا، ہبۃ الله بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمۃ، ص۲۴۲۔
[۲۷] قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۴۵-۴۷۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۷۴۔    
۲. مشکوة الدینی، عبد المحسن، منطق نوین مشتمل بر اللمعات المشرقیۃ فی الفنون المنطقیۃ، ص۱۴۲۔    
۳. خواجه نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص۱۷-۲۰۔    
۴. ابن‌ سینا، حسین بن عبد الله، منطق المشرقیین، ص ۱۲۔    
۵. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ص ۱۳۰۔    
۶. قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۶۰۔
۷. ابن رشد، محمد بن احمد، تلخیص کتاب العبارة، ص ۷۰۔
۸. شیرازی، قطب‌ الدین، درة التاج (منطق)، ص۲۶۔
۹. مجتہد خراسانی (شہابی)، محمود، رہبر خرد، ص ۳۲-۳۵۔
۱۰. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ص۱۲۱۔    
۱۱. ابن‌ سینا، حسین بن عبدالله، الشفاء (منطق)، ج ۱، ص ۲۶۔
۱۲. خواجہ نصیر الدین طوسی، محمد بن محمد، اساس الاقتباس، ص۲۰۔    
۱۳. ابوحامد غزالی، محمد بن محمد، معیار العلم في فن المنطق، ص۶۶۔
۱۴. شہاب‌ الدین سہروردی، یحیی بن حبش، منطق التلویحات، ص۸۹۔
۱۵. خوانساری، محمد، منطق صوری، ص۷۸-۸۱۔
۱۶. گرامی، محمد علی، منطق مقارن، ص۵۹۔
۱۷. ابن‌سینا، حسین بن عبدالله، الشفاء (منطق)، ج۱، ص۱۸۔
۱۸. ابو الحسن سالاری، بہمنیار بن مرزبان، التحصیل، ص۱۵۔
۱۹. تفتازانی، عبد الله بن شہاب‌ الدين، الحاشیۃ علی تہذیب المنطق، ص۳۱۔
۲۰. فرصت شیرازی، میرزا محمد، اشکال ‌المیزان، ص۱۸۔
۲۱. ابن‌ سینا، حسین بن عبد الله، الشفاء (منطق)، ج ۲، ص ۴۴۷۔
۲۲. ابو البركات ابن‌ ملكا، ہبۃ الله بن علي، الکتاب المعتبر فی الحکمۃ، ص۲۴۲۔
۲۳. تقریر بحث شیخ جعفر سبحانی، جلالی مازندرانی، محمود، المحصول فی علم الاصول، ج۲، ص۴۵۰-۴۵۲۔    
۲۴. حکیم، سید محمد سعید، المحکم فی اصول الفقہ، ج۱، ص ۵۴۲-۵۴۴۔    
۲۵. مظفر، محمد رضا، المنطق، ص۶۷۔    
۲۶. ہاشمی شاہرودی، سید محمود، بحوث فی علم الاصول، ج ۳، ص۲۱۹-۲۲۷۔    
۲۷. قطب‌ الدین رازی، محمد بن‌ محمد، تحریر القواعد المنطقیۃ فی شرح رسالۃ الشمسیۃ، ص۴۵-۴۷۔
۲۸. آمدی، علی بن محمد، الاحکام فی اصول الاحکام، ج۱، ص۴۱۵-۴۱۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

پایگاه مدیریت اطلاعات علوم اسلامی، مقالہِ کلی منطقی سے یہ تحریر حاصل کی گئی ہے، سایت کو مشاہدہ کرنے کی تاریخ:۱۳۹۸/۲/۲۹۔    
خوانساری، محمد، فرہنگ اصطلاحات منطقی به انضمام واژه نامه فرانسہ و انگلیسی، ص۲۱۴۔    






جعبه ابزار