اصحاب امام حسن عسکری

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسن عسکری علیہ السلام اللہ تعالی کی طرف سے برحق خلیفہ و حجت، رسول اللہؐ کے گیارہویں جانشین و امام ہیں۔ آپؑ کا مدتِ امامت چھ سال ہے جس میں آپؑ کو مسلسل نظر بندی کے عالم میں رکھا گیا اور متعدد بار زندان کی صعوبتوں کے حوالے کیا گیا۔ عباسی حکمرانوں نے امام نقیؑ کو شہرِ سامراء کے ایک پسماندہ محلے جسے عسکر کہا جاتا تھا میں نظر بند کیا جس کی وجہ سے امام عسکریؑ چھوٹی عمر میں ہی نظر بند کی سختیوں کو جھیلنے پر مجبور ہو گئے۔ مسلسل نظر بندی اور جیلوں و زندانوں میں مقید کیے جانے کی وجہ سے آپؑ کو اپنے اصحاب سے رابطہ برقرار رکھنے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور آہستہ آہستہ ظاہری طور پر یہ رابطہ محدود اور کم ہونا شروع ہو گیا۔ یہ وجہ بنی کہ امام حسن عسکریؑ کے اکثر و بیشتر اصحاب کو تاریخ اپنے دامن میں محفوظ نہیں کر سکی۔ اگرچے اصحاب کے عنوان سے ایک لمبی فہرست ہمارے سامنے آ جاتی ہے لیکن اس میں اکثر و بیشتر اصحاب کے حالات اور ابتدائی معلومات میسر نہیں آ سکی۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ امامؑ کے اصحاب ان سے رابطہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تھے یا علمی کتب میں کسی صحابی کا اصلًا کوئی تذکرہ وارد نہیں ہوا۔ رجال اور حدیث کی اسانید میں متعدد ایسے بزرگ اصحابِ امام عسکریؑ کا تذکرہ نظر آتا ہے جو اپنی جلالت اور بلند قدر و منزلت کی وجہ سے ان سخت حالات میں بھی نمایاں حیثیت کے مالک رہے۔ امام عسکریؑ کے جن اصحاب کے حالات کتب میں وارد ہوئے اور علمی کتب نے انہیں محفوظ کیا۔


امام حسن عسکریؑ کے اصحاب

[ترمیم]

کسی بھی شخصیت کے کمالات کا جائزہ لینے کے لیے اور اس کی زندگی کی مشکلات کو جاننے کا ایک ذریعہ اس شخصیت کے اصحاب کا مطالعہ ہے۔ ان اصحاب سے جہاں اس شخصیت کے افکار، نظریات اور عملی موقف و اقدامات سے باخبر ہوا جا سکتا ہے وہاں یہی اصحاب اس شخصیت کی مشکلات اور مصائب سے آشنائی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اگرچے ہم تک امام حسن عسکریؑ کی زندگی کی بہت قلیل معلومات پہنچی ہے لیکن ان مختصر حوادث و واقعات اور امامؑ کے فرمودات کی تحلیل کر کے اور ان پر غور و فکر کر کے ہم دین اور معارف کے دقیق اور ظریف پہلوؤں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ذیل میں چند بزرگ اصحاب کا مختصر تعارف بیان کیا جاتا ہے:

← عثمان بن سعید عمری


عثمان بن سعید عمری انتہائی جلیل القدر اور بلند منزلت صحابی امامؑ ہیں۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنی اسد سے تھا اور آپ نے کوفہ و سامراء میں زندگی بسر کی اور سامراء میں ہی آپ کا مدفن ہے۔ آپ کی کنیت ابو عمرو تھی اور آپ کو عَمۡری، زیات یا سمّان کے عنوان سے موسوم کیا جاتا تھا۔ سامراء میں رہنے کی وجہ سے آپ کو عسکری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ امام نقیؑ اور امام عسکریؑ کے خاص صحابی تھے اور آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ امام مہدیؑ کے پہلے نائبِ خاص قرار پائے اور امامؑ کی طرف سے آپ کو نیابت کے عنوان سے منتخب کیا گیا۔

←← عمری کہنے کی وجہ


شیخ عباس قمی نے تحریر کیا ہے کہ آپ کو عَمۡری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ آپ والدہ کی جانب سے امام علیؑ کے فرزند عمر الاطرف کی نسل سے ہیں۔ سمعانی نے کہا ہے کہ آپ کو عمری اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ کی آپ کی نسبت بنی عمرو بن عامر بن ربیعۃ اور عمرو بن حریث کی جانب ہے۔

←← گھی بیچنے کی نسبت دینے کی وجہ


عثمان بن سعید رضی اللہ عنہ کو اصحابِ شیعہ میں سمّان یا زیّات کے عنوان سے پکارا جاتا تھا جس کی وجہ آپ کا گھی اور تیل کا کاروبار کرنا تھا۔ عباسی حکمرانوں کی کڑی نگرانی اور حکامِ وقت کے ظلم و جور سے بچنے کے لیے آپ نے گھی کا تاجر بننے کی حکمتِ عملی اختیار کی اور اس طرح آپ سامراء میں ایک تاجر کی حیثیت سے رہتے تھے۔ آپ تجارت کے بہانے شیعیانِ امام عسکریؑ سے رابطے میں رہتے اور لوگوں کے سوالات و اموال امامؑ کی خدمت میں پیش کرتے اور لوگوں تک امامؑ کے جوابات اور پیغامات پہنچاتے۔ امام نقی و عسکری علیہما السلام نے آپ کی خصوصی تائید فرمائی جس کا بیان معتبر احادیث سے ہم تک پہنچا ہے۔ آئمہؑ کی اس خصوصی تائید کی وجہ سے اہل تشیع میں آپ کا غیر معمولی اعتماد و احترام تھا۔ امام حسن عسکریؑ کی شہادت کے موقع پر ظاہری طور پر عثمان بن سعید عمری نے امامؑ کے غسل و کفن و تدفین کے وظائف انجام دیئے۔

←← وفات عثمان بن سعید


آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع میں آپ کی وفات ۲۶۷ ھ نقل کی گئی ہے جبکہ بعض دیگر منابع میں ۲۸۰ ھ کا ذکر آیا ہے۔
[۹] جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص ۱۵۵۔


← محمد بن عثمان


آپ جناب عثمان بن سعید کے فرزند اور امام عسکریؑ کے انتہائی معتمد اصحاب میں سے ہیں۔ آپ اپنے والد کی وفات کے بعد امام مہدیؑ کی جانب سے خصوصی نیابت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اپنے والد کی مانند اہل تشیع اور اصحابِ آئمہؑ میں غیر معمولی شہرت اور عزت و احترام کے حامل تھے۔ امام عسکریؑ نے آپ کی خصوصی طور پر تائید فرمائی اور آپ کے معتمدِ خاص ہونے کو اصحاب کے سامنے برملا کیا۔

←← عثمان اور ان کے بیٹے محمد کے متعلق حدیث


جناب عثمان بن سعید عمری اور ان کے فرزند محمد بن عثمان امام عسکریؑ کے نزدیک غیر معمولی عزت و مقام کے حامل تھے۔ امام عسکریؑ کا ان دونوں پر اس قدر اعتماد تھا کہ ان کے بارے میں صحیح السند روایت میں امام نقی و عسکری علیہما السلام فرماتے ہیں: الْعَمْرِيُّ وَ ابْنُهُ ثِقَتَانِ‌ فَمَا أَدَّيَا إِلَيْكَ عَنِّي فَعَنِّي يُؤَدِّيَانِ وَ مَا قَالا لَكَ فَعَنِّي يَقُولَانِ فَاسْمَعْ لَهُمَا وَ أَطِعْهُمَا فَإِنَّهُمَا الثِّقَتَانِ الْمَأْمُونَان‌؛ عمری اور ان کا بیٹا دونوں ثقہ و قابل اعتماد ہیں، میری جانب سے یہ دونوں تمہیں جو بیان کریں اسے لے لو کیونکہ وہ میری طرف سے ہی بیان کرتے ہیں، اور وہ دونوں تمہیں جو کہیں وہ ان دونوں نے مجھ سے لیا ہے، لٰہذا تم ان دونوں کی بات سنو اور ان دونوں کی اطاعت کرو، بے شک یہ دونوں قابل اعتماد امین و محفوظ ہیں۔ اس طرح کی دیگر معتبر احادیث اور علماء اعلام کے بیانات دلالت کرتے ہیں کہ محمد بن عثمان عمری اپنے والد کی طرح انتہائی جلیل القدر اور بلند رتبہ تھے۔ محمد بن عثمان کی وفات ۳۰۴ ھ یا ۳۰۵ ھ کو ہوئی۔

← احمد بن ابراہیم


احمد بن ابراہیم بن اسماعیل کا شمار امام نقیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے قریبی اور خاص اصحاب میں ہوتا ہے۔ آپ نے متعدد علوم میں امام عسکریؑ سے استفادہ کیا۔ آپ علومِ لغت میں ید طولی رکھتے تھے اور بڑی بڑی شخصیات اس فن میں آپ کی شاگرد ہیں جن میں نامور ابو العباس احمد بن یحیی شیبانی ہیں۔

←← احمد بن ابراہیم کے علمی آثار


کتبِ رجال و فہرست میں آپ کی متعدد کتابوں کا تذکرہ ملتا ہے جو آپ نے خلوص و محنت سے تالیف کیں۔ انہی کتاب میں سے بعض کتاب اسماء الجبال والمیاه و الاودیہ ہے جوکہ علم جغرافیا پر لکھی گئی اور اسی طرح سے آپ نے علم لغت میں بھی کتب کو تالیف کیا۔ آپ امام عسکریؑ کے کاتب اور ان کی محفل میں اٹھنے بیٹھنے والوں میں سے تھے۔ بزرگ تہرانی نے الذریعۃ میں تحریر کیا ہے کہ آپ کی وفات ۲۹۱ ھ کو ہوئی

← فضل بن شاذان


فضل بن شاذان بن خلیل امام نقیؑ اور امام عسکریؑ کے انتہائی معتمد اور بزرگ صحابی ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محمد اور ازدی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور نیشاپور میں سکونت اختیار کی۔ علماءِ رجال و حدیث نے فضل بن شاذان کی جہاں وثاقت کی تصریح کی ہے وہاں آپ کی فقاہت اور علمِ کلام میں غیر معمولی مہارت کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ آپ کی اصحابِ آئمہؑ میں شہرت ہی آپ کے تعارف کے لیے کافی ہے۔ آپ نے مختلف موضوعات پر تقریبا ۱۰۸ کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ کتبِ رجال و فہرست میں موجود ہے۔

←← فضل بن شاذان کے علمی آثار


فضل بن شاذان نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا اور آئمہ اہل بیتؑ کی بارگاہ سے حاصل کردہ علم کو نشر کیا ان میں سے بعض کتابوں کے نام درج ذیل ہیں: کتاب الاعراض والجواہر، کتاب القائمؑ، کتاب الملاحم، اثبات الرجعۃ، اربع مسائل فی الامامۃ، الرد علی الباطنیۃ والقرامطۃ، حدوث العالم وغیرہ۔ آپ کی وفات تقریبا ۲۶۰ ھ کو ہوئی۔ شیخ طوسی نے ان کتب میں ایک کتاب الدیباج کا ذکر کیا ہے جوکہ اصل میں کتاب الایضاح ہے جوکہ تحقیق کے ساتھ چھپ چکی ہے۔

← احمد بن محمد برقی


احمد بن محمد بن خالد برقی (متوفی ۲۷۴ ھ یا ۲۸۰ هـ) امام عسکریؑ کے عظیم اور معروف صحابی ہیں۔ بعض علماءِ رجال نے آپ کو امام تقیؑ اور امام نقیؑ کا بھی صحابی قرار دیا ہے۔ آپ کے والد محمد کا شمار بھی امام عسکریؑ کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ البتہ برقی کے عنوان سے شہرت احمد یعنی بیٹے کو حاصل ہوئی جس بنیادی وجہ علماء رجال کا آپ کی وثاقت پر متفق ہونا ہے۔

←← برقی کے علمی آثار


احمد بن محمد برقی کے متعدد علمی آثار ہیں جن میں معروف ترین کتاب المحاسن ہے جس میں آئمہ اطہارؑ کے کیثر احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی کتب کی ایک طویل فہرست ہے جن میں کتاب الجمل، کتاب بنات النبیؐ، کتاب مغازی النبیؐ، کتاب العلل وغیرہ شامل ہیں۔

← حسین بن اشکیب


حسین بن اشکیب سمرقندی (مروزی) کا تعلق امام عسکریؑ کے ان اصحاب میں ہوتا ہے جن سے احادیث و روایات نقل کی گئیں اور علماءِ رجال نے آپ کو ثقہ اور قابل اعتماد قرار دیا۔ آپ قم میں ایک مدت جناب فاطمہ معصومہؑ کے حرم کے خادم رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ سمرقند میں مقیم ہو گئے اور وہاں مکتبِ تشیع کے معارف کو نشر کیا اور لوگوں کو دین حق سے آشنا کرایا۔

← حسن بن موسی خشاب


حسن بن موسی الخشاب مکتبِ تشیع کے بزرگ علماء اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔

←← حسن بن موسی کے علمی آثار


۔آپ علم حدیث میں خصوصی شہرت کے حامل تھے اور آپ نے متعدد کتب تحریر کیں جن کا تذکرہ علماء نے اپنی کتبِ فہرست میں کیا ہے، مثلا کتاب النوادر، الرد علي الواقفۃ وغیرہ۔

← ابراہیم الکاتب


آپ کا نام ابراہیم بن ابی حفص، کنیت ابو اسحاق اور الکاتب کے لقب سے معروف ہیں۔ نجاشی نے آپ کو امام حسن عسکریؑ کے کاتب اور قریبی اصحاب میں شمار کیا ہے۔ آپ نے غالیوں کی رد میں اور غالیوں کے سردار ابو الخطاب کی مذمت میں کتابیں تحریر کی ہیں۔

← احمد بن ادریس قمی


احمد بن ادریس قمی جوکہ معلم کے لقب سے معروف ہیں کا شمار امام عسکریؑ کے اصحاب اور شیعوں میں ہوتا ہے۔ علماءِ شیعہ کے نزدیک آپ موردِ اعتماد اور ثقہ معروف ہیں۔ آپ نے آئمہؑ سے جو احادیث نقل کی ہیں ان احادیث کو صحیح اور مقبول روایات شمار کیا جاتا ہے۔ آپ کی وفات ۳۰۶ ھ میں ہوئی۔

← ابو ہاشم جعفری


آپ کا نام داود بن قاسم بن اسحاق بن عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب ہے اور جناب جعفر طیارؓ کی نسل ہیں۔ آپ کی کنیت ابو ہاشم ہے اور آپ ابو ہاشم جعفری کے نام سے معروف ہیں۔ آپ کی جائے سکونت بغداد تھی۔ آئمہ اطہارؑ کے نزدیک آپ انتہائی قدر و منزلت اور بلند ربتہ کے مالک شمار ہوتے ہیں۔ آئمہؑ سے حدیث نقل کرنے کے اعتبار سے آپ کو ثقہ اور قابل اعتماد شمار کیا گیا ہے۔ آپ کو امام تقی، امام نقی، امام عسکری اور امام مہدی علیہم السلام کے خصوصی اصحاب میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ نے ان تمام آئمہؑ كی زیارت اور کسبِ علم کا فیض حاصل کیا اور علومِ آل محمدؑ کو امت میں نشر کیا ۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص ۳۵۴۔    
۲. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ج ۱، ص ۴۰۱۔    
۳. طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص ۳۵۴۔    
۴. قمی، عباس، سفینۃ البحار ومدینۃ الحکم والآثار، ج ۶، ص ۱۴۵۔    
۵. طوسی، محمد بن حسن، الغیبٍۃ، ص ۳۵۴۔    
۶. محسنی، آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۱۶۱۔    
۷. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۳۰۔    
۸. طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص ۳۵۶۔    
۹. جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص ۱۵۵۔
۱۰. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۳۳۰۔    
۱۱. طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ص ۳۶۶۔    
۱۲. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۹۲.    
۱۳. طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ واصولہم، ص ۷۲۔    
۱۴. بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، ج ۲، ص ۶۶۔    
۱۵. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۰۷۔    
۱۶. طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ واصولہم، ص ۱۹۸۔    
۱۷. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۳۰۷۔    
۱۸. ابن شاذان، فضل بن شاذان، کتاب الایضاح، تحقیق جلال‌الدین حسینی، ص ۱۔    
۱۹. طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ واصولہم، ص ۱۹۸۔    
۲۰. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۷، ص ۲۷۵۔    
۲۱. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۷، ص ۲۷۹۔    
۲۲. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۷۶۔    
۲۳. طوسی، محمد بن حسن، فہرست الشیعۃ واصولہم، ص ۶۴۔    
۲۴. نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، ص ۷۶۔    
۲۵. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۲۱، ص ۸۸۔    
۲۶. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۴۲۔    
۲۷. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۳، ص ۲۲۳۔    
۲۸. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۱۹۔    
۲۹. رجال نجاشی، احمد بن علی نجاشی، ص ۱۴۳۔    
۳۰. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۲۴۱، ص ۲۶۔    
۳۱. نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، ص ۱۵۶۔    


مأخذ

[ترمیم]

سایت اندیشہ قم۔    
متعدد حوالہ جات اور علمی نکات محققینِ ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار