اللہ (قرآن)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ذات باری تعالی کے ناموں میں سب سے برتر و نمایاں نام اللہ ہے جو فقط اسی ذاتِ اقدس کے ساتھ مختص ہے۔ اسمِ جلالہ اللہ سبحانہ کے علاوہ کسی ذات پر نہیں بولا جاتا۔ یہ
اسم اس کی
ذات کے ساتھ خاص ہے۔ لفظِ اللہ کہہ کر اس ذات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو ذات تمام وجودی کمالات کا مبدأ اور جامع ہے اور ہر قسم کے
نقص و عیب سے منزہ، مبرأ اور بَری ہے۔
[ترمیم]
کلمہِ اللہ کے اصلی حروف ا-ل-ہ ہے جو مرکب ہو کر
إِلَہ بنتا ہے۔ اس پر
الف لام تعریف داخل کرنے سے یہ
الإِلَہ بن گیا۔ پھر کثرتِ استعمال کی وجہ سے اصلی حرف
ہمزہ کو لفظِ
الإِلَہ سے حذف کر دیا گیا اور اس طرح یہ اللہ بن گیا۔
الإِلہ اور اللہ کے معنی
معبود کے ہیں جس کی ذات مستحقِ
عبادت ہے۔
بعض نے اللہ کا معنی اس ذات کے ذکر کیے گئے ہیں جس کے سامنے
عقول متحیر و پراگرداں ہو جاتی ہیں۔
ایک قول کے مطابق الٰہ
وَلَاہ بمعنی
عشق کرنے سے ہے۔
وَلَاہ میں واؤ ہمزہ سے تبدیل ہو گیا اور اس طرح یہ
إِلَاہ بن گیا۔ بعض نے کہا کہ الہ اصل میں
لَاہ یَلُوہُ لِیَاھًا تھا جس کا معنی پوشیدہ و غائب ہونے کے ہیں۔
[ترمیم]
ایک
روایت میں
امیر المؤمنینؑ سے اللہ کے معنی نقل ہوئے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱۔ اللہ یعنی وہ معبود جس کے بارے میں مخلوق حیرت و تعجب میں گرفتار ہے اور اس کے عشق میں محو ہیں۔
۲۔ اللہ وہ ذات ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ اور افکار و وہم و گمان سے
محجوب ہے۔
[ترمیم]
لفظِ اللہ کو اسم جلالہ کہا جاتا ہے۔ یہ اسم اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ ذاتِ واجب الوجود کا اسم جلالہ اللہ ہے جوکہ تمام
صفات کمال کا جامع ہے۔
اسم جلالہ ذات باری تعالی کا
عَلم شخصی بھی کہا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں لفظِ جلالہ اللہ دو ہزار چھ سو انہتّر (۲۶۷۹) مرتبہ تکرار ہوا ہے۔ قرآن کریم میں اس لفظ کے
نزول سے پہلے عرب معاشرہ
زمانہ جاہلیت سے اس
لفظ سے آشنا تھا۔
آیت اللہ مصباح یزدی نے تحریر کیا ہے کہ لفظِ جلالہ (اللہ) کو جامد مانیں یا مشتق اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اب یہ عَلم شخصی بن گیا ہے جو فقط اور فقط ذاتِ اقدس الہٰی کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ چونکہ ذاتِ احدیث قابل دید نہیں ہے اس لیے ذات الہٰی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے اس لفظ کا تعارف کروایا گیا ہے۔ اللہ یعنی وہ ذاتِ احدیث جو تمام صفاتِ کمال کی جامع ہے۔ اسم جلالہ کا تمام صفاتِ کمال کا مستجمع ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ لفظ ان مفاہیم کے لیے
وضع کیا گیا ہے۔ اس لیے اسم جلالہ کے مادہ اور ہیئت کی تحقیق کرنے سے اس کے لغوی معنی کا علم تو حاصل ہوتا ہے لیکن اس لفظ سے مراد ذاتِ اقدس الہٰی لینے اعتبار سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اسم جلالہ سے
صفات مراد نہیں ہیں بلکہ ذات احدیت مراد ہے اور یہ لفظ اس کی ذات کے لیے بطورِ عَلم استعمال ہوتا ہے۔
[ترمیم]
لفظِ اللہ اصل مىں
اِلَہ تھا جس پر الف لام داخل ہے۔ آہستہ آہستہ كثرتِ استعمال كى وجہ سے ہمزہ حذف ہو گىا اور ’’لفظِ اللہ ‘‘ بن گىا۔ عرفى طور پر اس طرح كا استعمال دىكھتے ہىں مثلا لفظ محمد ہے اس كو بعض كثرت استعمال سے ممد بنا دىتے ہىں۔
إِلَه بر وزنِ
فِعَال كے دو معنى لغوى طور پر ہمارے پاس آتے ہىں:
۱۔ إِلَه كو
أَلِهَ الرَّجُل يَأْله، بمعنى عبد سے لیا گیا ہے۔
إِلَه بر وزنِ فِعَال بمعنى معبود آتا ہے جیسے كتاب بروزنِ فِعَال بمعنى مفعول آتا ہے، یعنى مكتوب۔ اسى طرح
إِلَه بر وزنِ فِعَال بمعنى مفعول یعنى معبود آتا ہے۔
۲۔
إِلَه كو
أَلِهَ الرَّجُل يَأْله ، بمعنى تحیر و سرگردان و حیرت سے لیا گیا ہے۔ یعنى اللہ تعالى كو درک كرنے سے عقول حالتِ تحیر میں ہیں۔ اس كا بىان بعض رواىات مىں بھى وارد ہوا ہے:
قَالَ الْبَاقِرُ ع: اللَّهُ مَعْنَاهُ الْمَعْبُودُ الَّذِي أَلِهَ الْخَلْقُ عَنْ دَرْكِ مَاهِيَّتِهِ وَالْإِحَاطَةِ بِكَيْفِيَّتِه؛
امام باقرؑ فرماتے ہىں: اللہ كا معنى اس
معبود كے ہیں جس كى
ماہیت كے ادراک اور اس كى كیفیت كے احاطہ سے مخلوق حیرت و سرگرداں ہیں۔
لفظِ اللہ ایک مرتبہ ذات کے لیے بطور عَلم استعمال ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بطورِ وصف استعمال ہوتا ہے۔ لفظِ اللہ غلبہ کى وجہ سے ذاتِ بارى تعالى کے لیے عَلَم بن گیا۔ ىہ لفظ جب بھى عَلم کے طور پر استعمال ہو گا تو اس سے مراد ذاتِ الہٰی ہو جسے اللہ ذاتی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اللہ کی
ذات اور صفتِ عبودیت میں فرق ہے۔ ایک مرتبہ اللہ کہہ کر ہم اللہ کی ذات مراد لیتے ہیں اور ایک مرتبہ ہم اللہ کہہ کر اس کا بطور معبود ہونا مراد لیتے ہیں۔ پہلے کو اللہِ ذاتی اور دوسرے اللہ وصفی یعنی صفتِ معبود سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اکثر و بیشتر اس کا استعمال بطورِ عَلم ہے، مثلا
بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اسمِ اللہ معبود ہونے کی صفت کو بیان نہیں کر رہا بلکہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالی کی ذات مراد لی گئی ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں عرب معاشرہ اسمِ اللہ سے واقف اور آشنا تھا اور وہ اس لفظ کو استعمال کرتے تھے اور اس سے مراد ذاتِ حق تعالی لیتے تھے، جیساکہ
قرآن کریم کى بعض آىات سے ثابت ہوتا ہے۔
سورہ زخرف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّه؛ اور اگر آپ ان سے
سوال کریں کہ انہیں کس نے
خلق کیا ہے تو وہ ضرور بہ ضرور کہیں گے اللہ نے۔
اسی طرح ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
فَقالُوا هذا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَکائِنا؛ پس انہوں نے کہا یہ ان کے زعم و گمان کے مطابق اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شرکاء کے لیے۔
پس لفظِ جلالہ ذاتِ الہٰی کے لىے عَلَم کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور وصف کے لىے بھى۔ لیکن عَلم کا استعمال غلبہ پیدا کر گیا اور اس طرح اسمِ اللہ اکثر و بىشتر ذات الہٰی کے لىے استعمال ہونا شروع ہو گیا۔
علامہ طباطبائی اس مطلب کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
لکنَّ اسمَ الجلالةِ لَمَّا کَانَ عَلَمًا بِالۡغَلَبَةِ يَدلُّ على نفسِ الذَّاتِ من حيثُ إِنَّه ذاتٌ وإِنۡ کَانَ مشتملا على بعض المعاني الوصفية التي يلمح باللام أو بالإطلاق إليها، فقوله: لا إِلهَ إِلَّا هُوَ، يدلّ على نفي حق الثبوت عن الآلهة التي تثبت من دون الله؛ البتہ اسم جلالہ کا جب اکثر و بیشتر استعمال بطورِ عَلم ہونا شروع ہو گیا تو اس اسم کی خودِ ذات پر دلالت ہونے لگی اس اعتبار سے کہ وہ ذات ہے اگرچے وہ ذات بعض ایسے معانی وصفیہ پر مشتمل ہے جن کی طرف الف لام یا اطلاق کے ذریعے اشارہ کیا جاتا ہے، پس فرمانِ الہٰی
لا إِلهَ إِلَّا هُوَ سے مراد اللہ کے علاوہ ان تمام آلہہ کی حقیقی طور پر موجود ہونے کی نفی ہے جنہیں ثابت کیا جاتا ہے۔
اسم جلالہ موصوف وارد ہوتا ہے اور بقیہ سب
اسماء حسنی اس کے لىے صفت کے طور پر آتے ہىں۔ اسى طرح تمام اافعال ہیں، جىسے
رَزَقَ اللہُ ،
خَلَقَ اللہُ وغیرہ۔ ان اسماء سے اخذ کر کے اللہ تعالى کى طرف نسبت دى جاتى ہے، مثلا الرحمن، الخالق ، الرازق، کہ یہ صفات ہىں جن سے فعل کو اخذ کىا جاتا ہے، مثلا
رَحِمَ اللہُ ،
خَلَقَ اللہُ،
رَزَقَ اللہُ۔ ان افعال کو موصوف کے ساتھ متصف کیا جاتا ہے۔ پس افعال خود اسماء سے اخذ کىے جاتے ہىں۔ البتہ اسم جلالہ نہ
صفت واقع ہوتا ہے اور نہ اس سے فعل کو اخذ کىا جاتا ہے۔ ىہى صورت عرفى طور پر بھى ہمىں نظر آتى ہے ، مثلا لفظِ ہادى کسى کا نام رکھ دىں، اس صورت مىں اس نام کو موصوف بنائيں گے اور اس کے لىے صفات کو ثابت کرىں گے اور اس سے فعل کو اخذ کرىں گے۔ وجودِ بارى تعالى جوکہ ہر شىء کا الہ ہے ، ىہ وجود تعالى بىان کرتا ہے کہ ىہ
وجود تمام صفاتِ کمالىہ کے ساتھ متصف ہے۔ پس ىہ معنى کہ مستجمع جمىع صفاتِ کمال لغوى معنى سے اخذ نہىں کىا گىا بلکہ ىہ ظاہر لفظ کے لوازم مىں سے ہے۔ پس اسم جلالہ بطور عَلم ہے اور ىہ علم تمام صفاتِ کمالىہ سے متصف ہے۔ ىہ صفاتِ کمالىہ علم کے لازمہ سے سمجھا گىا ہے کىونکہ اسم جلالہ کہ ہر شىء کا الہ ہے، اس سے التزامى طور پر ىہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ الہ تمام صفاتِ کمالىہ سے متصف ہے۔ اس ذات کا لازمہ ہے کہ وہ مستجمع جمىع صفاتِ کمالىہ ہے۔ بعض مفسرین نے اسم جلالہ سے مراد صرف ذاتِ مستجمع جمىع صفات لىا ہے۔
علامہ طباطبائی کا موقف ىہ ہے کہ اسم جلالہ علم بالغلبہ ہے اور اگر اس سے وصفى مراد لىں تو وہ تحلىل کى صورت مىں لىں گے ورنہ اسم جلالہ ذاتِ بارى تعالى کے عَلم بالغلبہ ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ قرآن، مرکز فرہنگ و معارف قرآن، یہ تحریر مقالہ الله (قرآن) سے مأخوذ ہے۔ بعض مطالب محققین ویکی فقہ کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔