امام باقر علیہ السلام
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
امام محمد باقرؑ کے یوم ولادت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کے نزدیک آپؑ کی ولادت تین
صفر سنہ ۵۷ھ کو جبکہ بعض کے نزدیک یکم
رجب بمطابق ۵۷ھ کو ہوئی۔
امام باقرؑ نے اپنے زمانہ امامت میں علوم و حقائق کو امت تک پہنچایا اور بنو امیہ و بنو عباس کی سیاسی کشمکش اور جنگ و جدال کے باعث آپؑ کو یہ فرصت میسر آئی کہ ایک باقاعدہ مکتب کی بنیاد رکھ کر مایہ ناز شاگردوں کی تربیت کی۔ آپؑ کے عظیم فرزند امام صادقؑ بھی اپنے والد بزرگوار کے الہٰی راستے پر گامزن رہے اور فقہ جعفریہ کی شکل میں ان دو عظیم اماموں کا انمول علمی ورثہ تاقیام قیامت امت کے فقہا اور علما کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
[ترمیم]
آپؑ کی کنیت ابو جعفر ہے۔ والدہ گرامی کا نام ام عبد اللہ بنت
امام حسن مجتبیؑ ہے اور اس اعتبار سے آپؑ پہلی شخصیت ہیں کہ جو والد اور والدہ دونوں طرف سے فاطمی اور علوی تھے۔
آپؑ کے القاب یہ ہیں: باقر، شاکر اور ہادی کہ جن میں سے ’’باقرؑ‘‘ مشہور ترین ہے۔ آپؑ کے اس لقب سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ خود
حضرت رسول اکرمؐ نے آپؑ کو یہ لقب عنایت فرمایا تھا۔
جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے مجھے فرمایا: اے جابر! امید ہے کہ تم زندہ رہو گے اور میرے فرزند
حسینؑ کے بیٹے کہ جس کا نام محمد ہو گا؛ سے ملاقات کرو گے۔ وہ علم دین کو ایسے واضح کرے گا کہ جیسے وضاحت کا حق ہے؛
یبقر علم الدین بقرا؛ پس جب اسے ملو تو میرا سلام پہنچا دو!
[ترمیم]
آپؑ کو اس لیے باقر کہا جاتا ہے کیونکہ
احکام و
حکَم اور لطائف کے حقائق کو آشکار فرماتے تھے۔
البتہ اس بارے میں بعض نے کہا ہے کہ باقر اسے کہا جاتا ہے کہ جس کی پیشانی کثرت
سجود کے باعث کشادہ ہو گئی ہو اور بعض نے کہا ہے کہ کثرت علم کی وجہ سے آپ کو باقرؑ کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
امام محمد باقرؑ ایسے درخشاں چہرے ہیں کہ ہر بینا مفکر کو تکریم و تعظیم پر مجبور کر دیتے ہیں۔ آپؑ کی تعریف کرنے والوں میں شیعہ اور مخالفین سب شامل ہیں۔ بہت سے اہل سنت جب
امامؑ کی علمی و عملی عظمت سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بے ساختہ آپؑ کو خراج تحسین پیش کیا؛ بطور نمونہ درج ذیل موارد کی طرف توجہ فرمائیں:
۱۔ حافظ ابو نعیم
احمد بن عبداللہ اصفہانی (متوفی ۴۳۰ھ) لکھتے ہیں: سلسلہ حدیث کی ایک مستند اور قابل اعتماد شخصیت ابوجعفر محمد بن علی الباقرؑ ہیں۔ آپؑ خاندان نبوت میں سے تھے اور بلند دینی منصب اور اعلیٰ معاشرتی مقام کے ایک ساتھ حامل تھے۔ آپؑ جدید مسائل اور اہم موضوعات میں صاحب رائے تھے۔
۲۔ علامہ
سبط بن جوزی (متوفی ۵۹۷ھ) نقل کرتے ہیں: ابو جعفر محمد الباقر ایک عالم، عابد اور قابل اطمینان شخصیت تھے کہ جن سے
اہل سنت کے آئمہؑ جیسے
ابو حنیفہ اور دوسروں نے
حدیث نقل کی ہے۔
۳۔ ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ) آپؑ کے بارے میں فرماتے ہیں: ابو جعفر، محمد بن علی
علم و عمل اور سیادت، وثاقت اور متانت کے حامل تھے اور رسول اللہ کی خلافت کیلئے شائستہ تھے۔ آپؑ
شیعہ امامیہ کے محترم و مکرم بارہ آئمہؑ میں سے ایک ہیں۔
یہ امام باقرؑ کی عظمت کا ایک پہلو تھا کہ جسے ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے بعض نے کہا ہے کہ جب علما حضرتؑ کی خدمت میں پہنچتے تھے تو بہت حقیر اور کم
علم لگتے تھے۔
مثال کے طور پر منقول ہے کہ
حکم بن عتیبہ ایک سن رسیدہ اور جلیل القدر شخص تھا؛ مگر جب
امام باقرؑ کے سامنے بیٹھتا تو ایک بچہ لگتا تھا جو
معلم کے سامنے بیٹھ کر سبق پڑھ رہا ہو۔
[ترمیم]
اہل تشیع کے پانچویں امامؑ نے اسلامی علوم میں ایسے نمایاں شاگردوں کی تربیت کی کہ جن کا علمی پلڑا بہت بھاری تھا۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
محمد بن مسلم،
زرارۃ بن عین،
ابو بصیر،
برید بن معاویہ عجلی اور
ہشام بن سالم۔
امام باقرؑ کے شاگرد اپنے زمانے کے چوٹی کے
فقیہ اور محدث تھے اور علمی اعتبار سے غیر شیعہ فقہا اور قضات پر برتری رکھتے تھے۔
[ترمیم]
امام باقرؑ کی علمی عظمت اس قدر زیادہ تھی کہ کوئی شخص آپؑ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک دن امامؑ نے بہت بڑے اجتماع کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ امامؑ نے ان کی بابت دریافت کیا اور اجتماع کا سبب پوچھا۔ لوگوں نے بتایا: یہ عیسائی پادری اور راہب ہیں جو اپنے سالانہ اجتماع میں اکٹھے ہوئے ہیں اور ہر سال کے پروگرام کے مطابق سب
لاٹ پادری کے منتظر ہیں تاکہ اپنی علمی مشکلات کا حل اس سے پوچھیں۔ حضرتؑ بھی اجتماع میں تشریف لے گئے اور اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر شریک ہو گئے۔ کچھ دیر کے بعد انتہائی بوڑھا اور سن رسیدہ لاٹ پادری بھی پہنچ گیا اور بڑے احترام سے کرسی صدارت پر جا بیٹھا۔
اس نے مجمع پر ایک نگاہ ڈالی تو امام باقرؑ کے رخ انور نے اس کی توجہ کو جلب کر لیا۔ اسی وجہ سے آپؑ کی طرف رخ کر کے پوچھنے لگا:
عیسائی ہو یا
مسلمان؟۔ امامؑ نے فرمایا: مسلمان۔ پھر سوال کیا: علما میں سے ہو یا جہلا میں سے؟! امامؑ نے جواب دیا: میں جاہل نہیں ہوں! پادری نے کہا: میں پوچھوں یا آپ سوال کریں گے؟! امامؑ نے فرمایا: اگر مائل ہو تو سوال کرو۔
پادری نے کہا: آپ لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اہل
بہشت کھائیں گے اور پئیں گے مگر رفع حاجت نہیں کریں گے؟ کیا اس کیلئے دنیا میں کوئی نظیر اور واضح نمونہ موجود ہے؟ امام باقرؑ نے فرمایا: ہاں، اس دنیا میں روشن نمونہ
جنین ہے جو ماں کے پیٹ میں خوراک حاصل کرتا ہے مگر رفع حاجت نہیں کرتا۔
پھر اسقف نے مزید سوالات پوچھے اور سب کا قانع کنندہ جواب موصول ہوا؛ اس پر پادری ناراض ہو گیا اور کہنے لگا کہ تم لوگ مجھے رسوا کرنے کی غرض سے ایسے شخص کو یہاں لائے ہو جو مجھ سے زیادہ معلومات رکھتا ہے تاکہ ہمارے اوپر اپنے علما کی عظمت اور برتری کو عیاں کر سکو۔ پھر وہاں سے چلا گیا اور کہنے لگا: دوبارہ یہاں نہیں آؤں گا۔
[ترمیم]
امام محمد باقرؑ
علم و
حلم کے جامع تھے اور سچ ہے کہ حلم و بردباری علم کی بہترین زینت ہے۔ منقول ہے کہ ایک دن ایک عیسائی نے آپؑ سے کہا کہ تمہاری ماں ایک سیاہ اور بدزبان کنیز تھی۔ امامؑ نے جواب میں فرمایا: اگر تمہاری بات
حقیقت ہے تو خدا اسے معاف کر دے اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو
خدا تمہارا گناہ معاف کر دے اور تجھے بخش دے۔ وہ شخص ایسی عظمت اور حلم کا تصور بھی نہیں کر رہا تھا، اپنے عمل پر نادم ہوا اور مسلمان ہو گیا۔
امامؑ ایک خورشید کی مانند تھے کہ جن کی عظمت کا کوئی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ آپؑ کے دور امامت کے خلفا اس عظمت کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اس لیے سیاسی اعتبار سے انہوں نے آپؑ کو تنہا کر رکھا تھا۔ تاہم
بنو امیہ کی حکومت کے آخری سالوں میں حضرتؑ نے فرصت کو غنیمت جانا اور ایک حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھ کر نمایاں شاگردوں کی تربیت کی اور شیعت کے افکار میں تازہ روح پھونک دی۔ آپؑ کی شہادت کے بعد
امام صادقؑ نے اس مشن کو جاری رکھا۔
اس مقالے میں حضرتؑ کی زندگی کے تمام واقعات کو نہیں سمویا جا سکتا۔ بہرحال قارئین محترم کچھ وقت نکالیں اور مختلف حالات میں حضرتؑ کی سیرت و کردار کے حوالے سے مزید مطالعہ کریں تاکہ شیعہ اپنے آئمہؑ پر فخر کریں اور ان کی عملی زندگی کو نمونہ قرار دیتے ہوئے اس کی پیروی کریں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ ولادت امام محمدباقر۔