امکان استقبالی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امکان استقبالی سے مراد ایک موضوع سے محمول کی ہر نوعِ ضرورت کو سلب کرنا ہے حتی ضرورت بشرط محمول کو بھی سلب کر لیا جاتا ہے۔ امکان کا مشہور و معروف معنی ضرورت کو سلب کرنا ہے۔ لیکن امکان کہہ کر کس ضرورت کو سلب کیا گیا ہے؟ اس اعتبار سے امکان کے مختلف معانی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ انہی مختلف معانی میں سے ایک امکانِ استقبالی ہے جس سے مراد تمام ضرورتوں کو سلب کرنا ہے حتی ضرورت بشرط محمول کو بھی سلب کر لیا جائے۔


ضرورت کی اقسام

[ترمیم]

امکان کے مختلف معانی سمجھنے کے لیے ہمیں ضرورت کی اقسام کا مختصر جائزہ لینا چاہیے۔ درج ذیل سطور میں ضرورت کی اقسام اختصار کے ساتھ بیان کی جا رہی ہیں:

← ضرورت ازلی


بعض اوقات ایک محمول ذاتِ موضوع کے لیے ضرورت ہوتا ہے، یعنی محمول کا ذاتِ موضوع کے لیے ثبوت ضروری و واجب ہے۔ اس ضرورت کے لیے کسی قسم کی قید و شرط حتی قیدِ وجود بھی معتبر نہیں ہے، لہذا یہ ضرورت ہر قسم کی قید و شرط سے آزاد ہے۔ اس نوعِ ضرورت کو ضرورتِ ازلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ضرورت اس موضوع کے ساتھ مختص ہے جس کی ذات خود وجودِ صِرف ہے، وہ اپنے وجود میں کسی غیر کی احتیاج نہیں باتا۔ یہ نوعِ ضرورت واجب الوجود بالذات یعنی اللہ سبحانہ کے ساتھ مختص ہے۔ بالفاظ دیگر اس ضرورت کا موضوع ہمیشہ واجب الوجود بالذات ہو گا۔ اللہ تعالی کا غیر اس ضرورت سے متصف نہیں ہو سکتا۔

← ضرورت ذاتی


بعض واقات ایک محمول ذاتِ موضوع کے لیے ضروری ہے لیکن اس شرط و قید کے ساتھ کہ موضوع موجود ہو۔ اگر موضشوع وجود ہی نہ رکھتا ہو تو محمول بھی اس کے لیے ثابت نہیں ہو گا۔ پس اگر موضوع موجود ہے تو ضروری ہے کہ محمول اس کے لیے ثابت ہو، اس نوعِ ضرورت کو ضرورتِ ذاتی سے تعبیر کیا جاتا ہے، مثلا ہر انسان حیوان بالضرورۃ ہے، یعنی حیوانیت انسان کے لیے ذاتی ہے، لہذا جب بھی ماہیتِ انسان موجود ہو اور وجود کے ساتھ ہو اس کے لیے محمول یعنی حیوانیت کا ثابت ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر موضوع موجود نہیں ہے تو اس کے لیے محمول بھی ضروری نہیں ہے۔

← ضرورت وصفی


بعض اوقات ایک محمول ایک موضوع کے لیے اس وقت ضروری قرار پاتا ہے جب وہ موضوع کسی خاص صفت کے ساتھ متصف ہو۔ اگر موضوع اس صفت کے ساتھ متصف نہیں ہے تو محمول بھی اس موضوع کے لیے ضروری نہیں ہو گا۔ یہ محمول اس موضوع کے لیے علت نہیں بنا رہا ہوتا بلکہ موضوع چونکہ خاص صفت کے ساتھ متصف ہے اس لیے محمول کو اس موضوع پر حمل کرنا ضروری ہے۔ اس ضرورت کو اصطلاح میں ضرورتِ وصفی کہتے ہیں۔ مثلا ہر لکھنے والا انگلیوں کو حرکت دینے والا ہوتا ہے جب تک وہ کاتب ہے۔ اس مثال میں انگلیوں کا حرکت کرنا کاتب بننے کی علت و سبب نہیں ہے لیکن جب بھی کاتب ہو گا اور کتابت و لکھنے کی صفت اس کے لیے ثابت ہو گی محمول کا اس کے لیے ثبوت ضروری قرار پائے گا۔ پس اس مثال میں وصف لکھنا یا کتابت بن رہا ہے۔ جب بھی موضوع اس وصف کے ساتھ متصف ہو گا محمول کو اس کے لیے ثابت کرنا ضروری ہو گا۔

← ضرورت وقتی


اسی طرح اگر ایک محمول کسی موضوع کے لیے کسی خاص وقت میں ضروری قرار پائے تو اس ضرورت کو ضرورتِ وقتی کہتے ہیں، مثلا
چاند گھٹ جاتا ہے بالضرورۃ گرہن کے وقت۔ محمول یعنی گھٹنا موضوع کے لیے خاص وقت کے داخل ہونے کے بعد ضروری ہے۔ اگر یہ وقت نہ ہو تو محمول کا موضوع کے لیے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے۔ پس محمول ایک خاص وقت میں موضوع کے لیے ضروری پر ثابت ہے۔

← ضرورت بشرط محمول


بعض اوقات ایک محمول موضوع کے لیے قید بن رہا ہوتا ہے جس کو محمول کے عنوان سے ذکر کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں ضرورت بشرط محمول کہلائے گی، مثلا انسان جب تک ہنستا ہے ہنسنے والا ہے، اس مثال میں ہنسنے کی صفت محمول واقع ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں یہی صفت موضوع کے لیے قید بھی بن رہی تھی۔

امکان کے مختلف معانی

[ترمیم]

فلسفہ میں کلمہِ امکان جب کسی قید و شرط کے بغیر استعمال کیا جائے تو اس کی دلالت وجود اور عدم کی ضرورت کو سلب کرنے پر ہوتی ہے۔ اس صورت میں یہ امکانِ عام سے اخص تر ہوتا ہے اس لیے اس کو امکانِ خاص کا نام دیا گیا ہے۔ امکانِ عام جدا معنی رکھتا ہے کیونکہ امکانِ عام عموما زبانِ عرف میں استعمال کیا ہے جس کا مطلب طرفِ مخالف سے ضرورت کو سلب کرنا ہے۔ معاشرے میں عام لوگ امکان کہہ کر یہی معنی مراد لیتے ہیں اس لیے امکان کی اس قسم کو امکانِ عام کہا جاتا ہے۔ امکانِ عام کلی طور پر امکانِ خاص، وجوب اور امتناع سے اعم تر ہے۔ امکانِ عام میں جب مخالف جانب سے ضرورت کو سلب کیا جاتا ہے تو اس کا لازمہ یہ نکلتا ہے کہ موافق جانب کے ممتنع ہونے کو سلب کیا جائے۔ پس امکانِ عام میں طرفِ مخالف کی ضرورت کو سلب کیا جاتا ہے اور طرفِ موافق سے امتناع کو سلب کر لیا جاتا ہے۔ اس کو امکانِ عام کے علاوہ امکانِ عامی بھی کہا جاتا ہے۔

پس امکان کے دیگر معانی ضرورت کی دیگر انواع کی نفی کرنے سے سامنے آتے ہیں، مثلا اگر ضرورتِ ذاتی، ضرورتِ وصفی اور ضرورتِ وقتی کو سلب کیا جائے تو اس کو امکانِ اخص کہا جاتا ہے۔ یہ چونکہ امکانِ خاص سے اخص ہے اس لیے اس کو امکان اخص نام دیا گیا ہے، مثلا انسان کاتب ہے بالامکان، کتابت نہ ماہیتِ انسان و ذاتِ انسان کے لیے ضروری ہے، نہ ذاتِ انسان کے لیے کتابت کا وصف ضروری ہے اور نہ کسی وقت میں اس سے متصف ہونا ضروری ہے۔ پس ذاتِ انسان کے لیے کتابت ذات، وصف اور وقت ہر تین پہلوؤں سے ضروری نہیں ہے، یہاں ہم نے تینوں ضرورتوں کو ذاتِ انسان سے سلب کیا ہے۔

امکان استقبالی

[ترمیم]

امکان استقبالی سے مراد تمام قسم کی ضرورتوں کو سلب کر لینا ہے، حتی کہ ضرورتِ بشرط محمول بھی۔ اس کو اصطلاح میں امکان استقبالی کہتے ہیں۔ امکان کے تمام معانی میں سب سے اخص معنی امکان استقبالی ہے۔ کیونکہ ہر امکان ایک ضرورت کے مقابلے میں ہوتا ہے، مثلا امکانِ عام ضرورتِ عدم یعنی امتناعِ ذاتی کے مقابلے میں ہے، امکانِ خاص ضرورت وجود اور ضرورت عدم کے مقابلے میں ہے، امکانِ اخص ضرورتِ وصفی کے مقابلے میں ہے۔ اسی طرح امکانِ استقبالی ضرورت بشرط محمول کے مقابلے میں ہے جس کا معنی یہ بنتا ہے کہ یہ چیز نہ ضرورتِ ذاتی رکھتی ہے، نہ ضرورتِ امتناعِ ذاتی اور نہ ضرورتِ وصفی کی حامل ہے۔ بعض نے ذکر کیا ہے کہ امکانِ استقبالی کی شرط یہ ہے کہ زمانہ حال میں معدوم ہو۔

← امکان استقبالی کہنے کی وجہ


اس کا نام استقبالی رکھنے کی وجہ امکان کا مستقبل کے امور سے متعلق ہونا ہے۔ انسان مستقبل اور آئندہ زمانے میں رونما ہونے والے حوادث اور واقعات کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نہ ان حوادث کے ہونے کے بارے میں قطعی رائے دی جا سکتی ہے اور نہ ان کے برپا نہ ہونے کا یقینی طور پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے مستقبل کے حوادث و واقعات سے ہونے اور نہ ہونے ہر دو کی ضرورت کو سلب کر لیا جاتا ہے۔ چونکہ اس امکان کا تعلق مستقبل میں ہونے والے حوادث سے ہے اس لیے اس کو امکانِ استقبالی کہتے ہیں۔

اس مورد میں حوادث سے ہونے یا نہ ہونے ہر دو ضرورت کو سلب کرنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مستقبل کے حوادث کے علل و اسباب نہیں ہوتے۔ بلکہ ہر واقعہ اور حادثہ کی علت اور سبب ہوتا ہے اور یہی علت ایک واقعہ کے ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مستقبل کے ہر واقعہ کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی نہ کوئی سبب ہو گا اور جب سبب ہو گا تو حتمی طور پر موضوع کے لیے محمول کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ امکانِ استقبالی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ مستقبل کے واقعات کا کوئی سبب نہیں ہوتا۔

← ضرورت بشرط محمول کی نفی


امکانِ استقبالی میں ضرورت بشرط محمول کو بھی سلب کر لیا جاتا ہے۔ ضرورت بشرط محمول سے مراد یہ ہے کہ ماضی اور حال میں معلوم ہوتا ہے کہ اس موضوع کے لیے یہ محمول ثابت ہے یا نہیں۔ چنانچہ ماضی اور حال میں محمول کے ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرنا آسان ہوتا ہے اور تشخیص دی جا سکتی ہے کہ یہ محمول اپنے موضوع کے لیے ثابت ہے یا سلب ہے۔ پس ہر وہ قضیہ جس میں محمول کو موضوع کے لیے ثابت یا سلب کرنا ضروری قرار پائے کو ضرورت بشرط محمول سے تعبیر کیا جاتا ہے جوکہ اکثر زمانہِ ماضی اور حال سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن مستقبل اور آنے والے زمانے میں موضوع کے لیے کسی محمول کو ثابت کرنا اور قطعنی اور یقینی طور پر کہنا کہ یہ محمول اس موضوع کے لیے ثابت یا سلب ہے ایک عام فرد کے لیے مشکل ہے جس کی وجہ سے وہ قطعی اور یقینی طور پر کچھ کہہ نہیں پاتا۔ ایسی صورت میں ضرورت بشرط محمول سلب ہو جاتی ہے۔ حقیقت میں انسان کی جہالت سلبِ ضرورت کا سبب بنتی ہے ورنہ ہر محمول زمانے کے اعتبار سے ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہے: یا تو یہ محمول اپنے موضوع کے لیے موجود اور ثابت ہے یا اس کے برعکس محمول اپنے موضوع کے لیے معدوم یا سلب ہے۔ لیکن چونکہ انسان مستقبل سے جاہل ہے اس لیے وہ محمول سے وجود،عدم، وصف حتی بشرطِ محمول کی ضرورت کو بھی سلب کر لیتا ہے۔ لہذا اگر محمول موجود ہو تو وجود کی قید کے ساتھ موضوع کے لیے محمول کا ثبوت ضروری قرار پائے گا۔ اس کو اصطلاح میں موضوع کے لیے محمول کا ثابت ہونا ضرورت بشرط محمول کہلاتا ہے۔ امکان کا یہ معنی امکان کے تمام معانی سے اخص ہے۔

← ضرورت بشرط محمول کی نفی کی وجہ


اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک عام انسان چونکہ واقعات و حوادث کی علت و سبب سے واقف نہیں ہوتا اس لیے وہ یقینی اور قطعی طور پر ان کے بارے میں کچھ کہہ نہیں پاتا اور وجود و عدم ہر دو کی ضرورت کو سلب کرتا ہے۔ اس طرح سے امکانِ استقبالی وجود میں آتا ہے۔ پس عام فرد اپنی جہالت کے سبب موضوع کے لیے محمولات سے وجود و عدم ہر دو کی ضرورت کو سلب کرتا ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۶۰۔    
۲. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ج۲، ص ۲۵۶۔    
۳. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص۶۱۔    
۴. سبزواری، ملا ہادی، شرح المنظومۃ، ج۲، ص۲۵۶۔    
۵. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۵۱۔    
۶. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۶۱۔    
۷. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، الاسفار الاربعۃ، ج۱، ص۱۵۲۔    
۸. شہید مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار استاد شہید مطہری، ج ۵، ص ۳۷۴۔    
۹. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص ۴۵۵۔    
۱۰. طباطبائی، سید محمد حسین، نہایۃ الحکمۃ، ص ۶۲۔    


مأخذ

[ترمیم]
سایت پژوہہ،برگرفتہ از مقالہ امکان استقبالی    


اس صفحے کے زمرہ جات : امکان کی اقسام | ضرورت | فلسفی اصطلاحات




جعبه ابزار