تقابض

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



خریدار کی جانب سے معاملہ کے وقت مبیع کو گرفت میں لینا اور بیچنے والے کی جانب سے اس چیز کے بدلے میں قیمت وصول کرنا تقابض کہلاتا ہے۔ باب تجارت میں اس عنوان سے بحث کی جاتی ہے۔


بیع میں تقابض کا حکم

[ترمیم]

تَقَابُض عربی زبان کا لفظ ہے جو باب تفاعل سے مصدر ہے۔ اس سے مراد فریقین کا باہمی طور پر ایک دوسرے چیز کو قبضے اور گرفت میں لینا ہے۔ علم فقہ میں اس اصطلاح کا استعمال خرید و فروخت کے مسائل میں کیا جاتا ہے۔ مشہور فقہاء کے مطابق بیع غیر صرف میں معاملہ کرنے والے فریقین کے باہمی جدا ہونے سے پہلے تقابض صحتِ بیع کی شرط نہیں ہے۔ حتی مشہور کے مطابق اگر بیعِ غیر صرف میں ہم جنس اشیاء کی خرید و فروخت کی جائے، مثلا گندم کے بدلے میں گندم تو بھی معاملہ کرنے والے بائع (بیچنے والا) اور خریدار کا آبس میں جدا ہونے سے پہلے تقابض صحت بیع کی شرط نہیں ہے۔

البتہ بیع صرف میں معاملہ کرنے والے فریقین کے باہمی جدا ہونے سے پہلے تقابض صحتِ بیع کی شرط ہے۔ حتی اگر جنس آپس میں مختلف ہو تو بھی ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے تقابض شرط ہے اور اس کے بغیر بیع باطل ہے۔ بیع میں بعض قدماء قائل ہیں کہ بیچنے والے بائع اور خریدار کے آپس میں مفترق اور منتشر ہونے سے پہلے تقابض شرط ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جواہری نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، ج۲۳، ص۳۴۱۔    
۲. ابو زہرہ حلبی، حمزہ بن علی، غنیۃ النزوع الی علمی الاصول والفروع، ص۲۲۴۔    


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ج۲، ص۵۶۸۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : بیع | فقہی اصطلاحات




جعبه ابزار