تکلیف کی شرائط عامہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



تکلیف کی شرائطِ عامہ ان امور کو کہتے ہیں جو تکلیفِ شرعی کے قعلی ہونے میں دخیل ہے۔


اصطلاح کی تعریف

[ترمیم]

تکلیف کی شرائطِ عامہ ان شرائط کو کہا جاتا ہے جن سے تمام شرعی تکالیف مقید ہیں، جیسے بلوغ ، عقل ، قدرت اور اختیار۔ تکلیف کی شرائطِ عامہ کے موارد میں دو مبنی وجود رکھتے ہیں:
۱. مشہور کا نظریہ ہے کہ یہ شرائط حکمِ شرعی کے فعلی ہونے کی شرائط ہیں۔ ان شرائط کے بغیر حکمِ شرعی مکلف پر فعلی طور پر عائد نہیں ہوتا اور فعلیت پیدا نہیں کرتا، مثلا کسی ایسے شخص پر تکلیف عائد کرنا جو اس کو انجام دینے کی قدرت نہ رکھتا ہے، پس قدرت کی شرط کے بغیر حکم شرعی مرحلہ فعلیت میں داخل نہیں ہو گا۔
‌۲. بعض فقہاء جیسے امام خمینی رحمۃ الله‌ علیہ، معتقد ہیں کہ یہ شرائط نہ اصلِ تکلیف کی شرائط ہیں اور نہ تکلیف کے فعلی ہونے کی شرائط ہیں بلکہ یہ شرائط عقلی طور پر عبد کی جانب سے مولی کی بارگاہ میں ایک عذر ہے جس میں مولی اگر تکلیف عائد کرنے سے احتجاج و دلیل قائم کرے تو عبد اس تکلیف کے مقابلے میں عذر پیش کر سکتا ہے اور اس طرح یہ عذر احتجاجِ مولی کے لیے مانع بن جائے گا۔

اس دوسرے مبنی کے مطابق عاجز جو قدرت نہیں رکھتا اس پر بھی تکلیف فعلی طور پر عائد ہوتی ہے لیکن عقل کی رُو سے اس کا تکلیفِ فعلی کی مخالفت کرنا صحیح ہے اور مولی کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ عاجز مکلف کے خلاف احتجاج کر سکے اور اس کو عقاب دے۔

پہلا نکتہ

[ترمیم]

اہل سنت معتقد ہیں کہ تکلیف کی شرائط عامہ میں سے ایک اسلام ہے۔ لیکن مشہور علماءِ شیعہ معتقد ہیں کہ اسلام شرطِ تکلیف نہیں ہے بلکہ شرعی تکلیف ہر مسلمان اور ہر کافی کے لیے ثابت ہے۔

دوسرا نکتہ

[ترمیم]

کیا علم اور آگاہی بھی تکلیف کی شرائط عامہ اور شرائط اوّلیہ میں سے ہے یا ایسا نہیں ہے؟ اس بارے میں مختلف مکاتب فکر میں اختلاف پایا جاتا ہے:
۱۔ اشاعرہ معتقد ہیں کہ تکلیف کی عمومی شرائط میں سے ایک علم ہے۔ اگر کسی کو علم نہیں ہے تو واقع و حقیقت میں وہ مکلف نہیں ہے۔ اس بناء پر اللہ تعالی کے نازل کردہ احکام فقط جاننے والے اور علم رکھنے والے کے ساتھ مختص ہیں۔
۲۔ اشاعرہ کے مقابلے میں امامیہ قائل ہیں کہ تکلیف کی عمومی اور اوّلی شرائط میں علم کا شمار نہیں ہوتا اور اصلِ تکلیف میں علم دخیل نہیں ہے۔ مکتبِ تشیع معتقد ہیں کہ احکامِ واقعی عالم اور جاہل کے درمیان مشترک ہیں۔ اگر کسی مرحلہ میں کوئی فرق دونوں میں ملحوظ رکھا جا سکتا ہے تو وہ مرحلہِ فعلیت اور مرحلہِ تنجز ہے جس میں تکلیف فعلی طور پر مکلف پر عائد ہوتی ہے۔ پس علم اور جہل تنہا مرحلہِ تنجزِ تکلیف میں دخالت رکھتا ہے۔ لہذا اگر کسی شخص ایک تکلیفِ شرعی کا علم ہے تو وہ تکلیف اس پر منجز ہو جائے گی اور اس کے اس تکلیف کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہو گا اور مخالفت کی صورت میں مستحقِ عقاب قرار پائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص تکلیفِ شرعی سے جاہل تھا اور علم نہیں رکھتا تھا، اگر وہ جاہلِ قاصر ہے تو وہ معذور ہو گا اگرچے واقع اور حقیقت میں تکلیف اس پر عائد ہوتی ہے لیکن فعلی طور پر جاہلِ مقصر ہونے کی وجہ سے تکلیف اس کے حق میں منجز نہیں ہو گی لیکن اگر وہ جاہلِ مقصر ہو تو وہ مثل عالم شمار ہو گا اور تکلیف اس کے حق میں منجز ہو گی۔ اس مورد میں علماء اصول دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں:
- آخوند خراسانی کی مانند بعض علماء قائل ہیں کہ علم تکلیف کے منجز ہونے کے لیے علتِ تامہ ہے۔
- جبکہ مرحوم مظفر کی مانند دیگر اصولی علماء قائل ہیں کہ علم مقتضی ہے یا تنجزِ تکلیف کی شرط ہے۔
[۲] شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۱، ص ۱۹۲-۱۹۱۔
[۳] مبانی استنباط حقوق اسلامی یا اصول فقہ، محمدی، ابو الحسن، ص۲۱۸۔
[۴] سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج ۱۲، ص ۱۴۲۔
[۵] سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۸۷۔
[۹] مبادی فقہ و اصول، فیض، علی رضا، ص۳۲۶۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اصول الفقہ، مظفر، محمد رضا، ج۱، ص۹۲۔    
۲. شرح اصول فقہ، محمدی، علی، ج۱، ص ۱۹۲-۱۹۱۔
۳. مبانی استنباط حقوق اسلامی یا اصول فقہ، محمدی، ابو الحسن، ص۲۱۸۔
۴. سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج ۱۲، ص ۱۴۲۔
۵. سیری کامل در اصول فقہ، فاضل لنکرانی، محمد، ج۶، ص۱۸۷۔
۶. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج۱، ص۳۶۲۔    
۷. نہایۃ الاصول، بروجردی، حسین، ص۱۶۲۔    
۸. نہایۃ الاصول، بروجردی، حسین، ص۱۴۶۔    
۹. مبادی فقہ و اصول، فیض، علی رضا، ص۳۲۶۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۵۱۲، مقالہ شرایط عامہِ تکلیف سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اصول فقہ | تکلیف | شرائط تکلیف




جعبه ابزار