جناب فضہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
جناب فضہ کا شمار ان پاکیزہ اور با عظمت خواتین میں ہوتا ہے جو
کربلا میں حاضر ہوئیں اور کربلا کے اسیروں میں سے قرار پائیں۔
[ترمیم]
جناب فضہ بلند کمال اور باہمت و با فضیلت خاتون تھیں جن کی طرف مختلف تاریخی اور دیگر کتب میں اشارہ ملتا ہے۔ جناب فضہ
رسول اللہؐ کے توسط سے جناب فاطمہؑ کی خدمت میں آئیں اور انہوں نے تمام عمر اسی گھرانے کی خدمت میں گزار دی۔ جناب فضہ کا نسب اور خاندانی حالات کی تفصیل وارد نہیں ہوئی۔ آپ کے نسب کے بارے میں دو احتمال موجود ہیں:
۱۔ جناب فضہ
ہند کے بادشاہ کی بیٹی تھیں اور مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہونے کے بعد رسول اللہؐ کے پاس آئیں اور آپؐ کے ذریعے
جناب فاطمہؑ تک پہنچیں۔ یہ احتمال اس صورت میں درست ہو سکتا ہے اگر رسول اللہؐ کے دور میں ہند کے بادشاہ کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ ہوئی ہو۔
۲۔ جناب فضہ کا تعلق
افریقا سے ہے اور آپ نوبیہ کے عنوان سے پہچانی جاتی تھیں۔ یہ احتمال پہلے کی نسبت قوی اور اس دور کے ساتھ سازگار ہے کیونکہ غلاموں اور کنیزوں کی بڑی تعداد افریقا سے لائی جاتی تھی۔
آپ نے
قرآن کریم کو مضبوطی کے ساتھ یاد کیا اور لوگوں کے ساتھ آیاتِ الہی کی تلاوت کے ذریعے جواب دیا کرتیں۔
[ترمیم]
جناب فضہ کو یہ افتخار اور امتیاز حاصل ہے کہ وہ جناب فاطمہؑ کی خدمت کا شرف حاصل کرنے کے بعد
جناب زینبؑ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہی کے ساتھ کربلا کے معرکہ میں حصہ لے کر امام حسینؑ کے لشکر کا حصہ قرار پائیں۔ آپؑ کی فضیلت اور کرامت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ کربلا میں صبر و شجاعت کا مظاہرہ دکھانے والی بیبیوں میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔
کتبِ احادیث میں بعض ایسے واقعات وارد ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب فضہ کربلا میں موجود تھیں اور جناب زینبؑ کی خدمت گزار تھیں۔
بعض منابع میں وارد ہوا ہے کہ دشمنانِ اہل بیتؑ جب
امام حسینؑ کو شہید کر چکے تو انہوں جسم نازنینِ امام حسینؑ کی بے حرمتی کرنے اور گھوڑوں کے ذریعے بدنِ مبارک کو روندنے کا ارادہ کیا۔ اس وقت جناب فضہ نے جناب زینبؑ سے کہا: اے سیدہ! سفینہ شیر کے ساتھ ہے۔ سفینہ رسول اللہؐ کا آزاد کردہ غلام تھا جوکہ سمندر میں اپنی کشتی ٹوٹ جانے کے سبب ایک جزیرہ میں جا پہنچا اور ایک شیر نے اس کی راستے کی طرف رہنمائی کی اور اس طرح اس نے اپنی جان بجائی اور نجات حاصل کی۔
سفینہ کے آنے کی خبر جناب فضہ نے دی۔ جبکہ وہ شیر اطراف میں کہیں تھا۔ جب دشمن نے بدنِ مبارک کی بے حرمتی کا ارادہ کیا تو جناب فضہ نے اجازت طلب کی کہ وہ اس شیر کے پاس جائیں اور اس کو خبر دیں کہ دشمن کے کیا عزائم ہیں۔ پھر جناب فضہ نکلیں اور شیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے ابو حارث اپنا سر اٹھاؤ ، پھر کہا: کیا تو جانتے ہو کہ کل کے دن
لشکرِ یزید اپنے گھوڑوں کے ذریعے امام حسینؑ کے جسدِ اقدس کی بے حرمتی کر کے روندنا چاہتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ وہ اٹھا کھڑا ہوا اور امام حسینؑ کے پاس جا کر اپنے دونوں ہاتھ امامؑ کے جسم مبارک پر رکھ دیئے۔ جب یزیدی لشکر گھوڑوں کے ساتھ آگے بڑھتے گھوڑے شیر کو دیکھ کر بدک جاتے اور امام حسینؑ کے بدنِ مبارک کے پاس نہیں جا سکے۔
یہ واقعہ چونکہ قدیم اور معتبر کتب میں آیا ہے اس لیے جیساکہ وارد ہوا ہے ویسا نقل کر دیا گیا ہے۔ البتہ یہ نکتہ پوشیدہ نہ رہ جائے کہ متعدد منابع میں صراحتًا آیا ہے کہ امام حسینؑ اور بقیہ شہداءِ کربلا کے اجسام عالیہ کو روندا گیا۔
وارد ہوا ہے کہ کربلا میں جب خاندانِ رسالت کو اسیر کیا گیا اور سواریوں پر سوار کیا گیا تو جناب فضہ نے حضرت زینبؑ کا ہاتھ پکڑا اور سوار ہونے کے لیے ان کی مدد کی۔
جناب فضہ بھی خاندانِ رسالت کے ہمراہ قیدی بنائی گئی۔
[ترمیم]
بعض منابع میں آیا ہے کہ کربلا میں جب امام حسینؑ نے اہلِ حرم کو الوداع کہا تو آپؑ نے جناب فضہ سے انتہائی احترام اور محبت سے گفتگو کی۔
[ترمیم]
جناب فضہ کی تاریخِ وفات کی معلومات فراہم نہیں ہوئیں۔ البتہ ان کی قبر مبارک کے بارے میں معروف ہے کہ وہ شام میں ہے۔ شام میں آپ کی قبر باب الصغیر میں ہے۔ باب الصغیر میں جب
عبد اللہ بن جعفر طیار اور جناب
بلال حبشی کے مزار سے باہر نکلیں تو جناب
محمد بن ابی بکر کا مزار آتا ہے جس کی دائیں طرف جناب فضہ کی قبر موجود ہے۔ آپ کی قبر مبارک میں یہ عبارت تحریر ہے:
فضّة خادمة رسولاللَّه۔
[ترمیم]
[ترمیم]
اسیران و جانبازان کربلا، مظفری سعید، محمد، ص۱۸۴-۱۸۵۔