حضرت علی اکبرؑ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
حضرت علی اکبرؑ (۳۳تا۶۱ھ)،
امام حسینؑ کے عزیز ترین فرزند ہیں۔ تاریخی کتب کی رو سے آپ
عاشور کے دن
بنی ہاشم کے پہلے
شہید اور شکل و شمائل میں
پیغمبر اکرمؐ کے سب سے زیادہ مشابہہ تھے۔ حضرت علی اکبرؑ کے بدترین دشمن بھی آپ کے حسب
نسب، حسن و جمال اور
شجاعت و لیاقت کے معترف تھے۔ یہاں تک کہ
معاویہ بن ابی سفیان نے بھی خلافت کیلئے آپ کو امت کا شائستہ ترین فرد قرار دیا تھا۔ حضرت علی اکبرؑ کو میدان کربلا میں دشمن کی طرف سے امان نامہ بھیجا گیا مگر آپ نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ
ابو سفیان سے
قرابت تمہارے نزدیک قابل احترام ہے مگر تمہیں
رسولؐ اللہ سے قرابت کی حرمت کا کوئی پاس نہیں ہے۔
[ترمیم]
آپؑ
امام حسینؑ کے بڑے
فرزند ہیں، آپ کی والدہ لیلیٰ بنت
أبی مرّة بن عروة بن مسعود، کا تعلق قبیلہ
بنی ثقیف سے تھا۔
معاویہ آپ کو
خلافت کیلئے سب سے شائستہ قرار دیتا تھا؛ کیونکہ آپ کی ذات میں
بنو ہاشم کی
شجاعت،
بنو امیہ کی
سخاوت اور ثقیف کا فخر یکجا تھے۔
[ترمیم]
الف) زیادہ تر قدیمی کتب
نے آپ کا
لقب علی اکبرؑ ذکر کیا ہے اور
ابن ادریس حلّی نے بھی ان کی تائید پر شواہد ذکر کیے ہیں۔
ب) بعض مورخین
نے آپ کو علی اصغر اور
امام سجادؑ کو علی اکبرؑ قرار دیا ہے۔
ج) البتہ شیعہ متاخرین کی کتب میں علی اصغر کا لقب امام حسینؑ کے
کربلا میں شہید ہونے والے نوزاد
فرزند کیلئے ذکر کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
علی اکبرؑ کی تاریخ ولادت اور حالات زندگی کے بارے میں دقیق اطلاعات دستیاب نہیں ہیں۔
شہادت کے وقت آپ کا سن مبارک ۱۸، ۲۳ یا ۲۵
سال قلمبند کیا گیا ہے؛
چونکہ امام سجادؑ کا کربلا میں سن مبارک ۲۳ برس ذکر کیا گیا ہے
اور علی اکبرؑ امام سجادؑ سے سن میں بڑے تھے،
اس لیے بظاہر علی اکبرؑ کی شہادت ۲۵ برس کے سن میں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ
ابو الفرج اصفہانی نے علی اکبرؑ کی ولادت کو خلیفہ سوم
عثمان بن عفان (۲۳۔۳۵ھ) کے زمانہ
خلافت میں قرار دیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے جد
علی بن ابی طالبؑ اور
عائشہ سے
روایات نقل کی ہیں اور یہ امر حضرت علی اکبرؑ کی ۲۵ برس میں شہادت پر ایک اور شاہد ہے۔
[ترمیم]
عاشور کے دن جب تک امام حسینؑ کے غیر ہاشمی اصحاب زندہ تھے، تو وہی میدان جنگ میں جاتے رہے اور یکے بعد دیگرے شہید ہوتے رہے جبکہ بنو ہاشم کی جنگ، جہاد اور شہادتوں کا آغاز اصحاب کے بعد ہوا۔ امام حسینؑ کے غیر ہاشمی اصحاب کی شہادت کے بعد امام علیؑ، جعفر، عقیل، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے فرزندان جمع ہوئے اور ایک دوسرے کو خدا کے سپرد کرنے کے بعد جہاد کیلئے پوری طرح آمادہ ہو گئے۔
تاریخ کے قدیمی ترین اور معتبر منابع نے باتفاق حضرت علی اکبرؑ کو بنو ہاشم کا پہلا شہید ذکر کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ
ابن اعثم نے کتاب
الفتوح میں
خوارزمی نے
مقتل الحسین میں
اور
ابن شہر آشوب نے
مناقب آل ابی طالب میں،
عبدالله بن مسلم کو بنو ہاشم کا پہلا شہید ذکر کیا ہے؛ تاہم (تحقیقات کے مطابق) ابن شہر آشوب نے خوارزمی کی پیروی کی ہے جبکہ خوارزمی نے بھی اپنے مطالب ابن اعثم سے لیے ہیں؛ لہٰذا یہ روایت قدیم کتب میں درحقیقت ابن اعثم کی الفتوح میں منحصر ہے اور ابن اعثم کی الفتوح اہمیت کے اعتبار سے
دینوری کی
الاخبار الطوال ،
بلاذری کی
انساب الاشراف،
تاریخ طبری اور
شیخ مفیدؒ کی
الارشاد کے معیار کی نہیں ہے۔ اس حوالے سے شہدائے بنی ہاشم کی ترتیب کا جدول آئندہ صفحات میں پیش کیا جائے گا۔
جب بنو ہاشم کے جوانوں میں سے حضرت علی اکبرؑ جو اپنے وقت کے سب سے خوبصورت اور نیک سیرت جوان تھے؛ سب سے پہلے جنگ کیلئے تیار ہوئے اور اپنے
والد بزرگوار کی خدمت میں جنگ کی اجازت طلب کرنے کیلئے تشریف لے گئے، تو حضرتؑ نے ان کی قامت پر ایک نگاہ کی اور پھر اپنی آنکھیں نیچی کر لیں (ابن اعثم اور خوارزمی) نے لکھا ہے: امامؑ نے اپنے محاسن شریف کو پکڑ کر آسمان کی طرف نگاہ کی
اور گریہ بھی کیا۔ پھر فرمایا:
اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَقَدْ بَرَزَ إِلَيْهِمْ غُلَامٌ أَشْبَهُ النَّاسِ خَلْقاً وَ خُلُقاً وَ مَنْطِقاً بِرَسُولِكَ وَ كُنَّا إِذَا اشْتَقْنَا إِلَى نَبِيِّكَ نَظَرْنَا إِلَيْه.
(ان جملوں کو کچھ اختلاف اور اضافات کے ساتھ
ابو الفرج اصفہانی نے
مقاتل الطالبیین میں،
ابن اعثم نے کتاب الفتوح میں،
خوارزمی نے مقتل الحسین میں
جبکہ
شیخ صدوقؒ نے
الامالی میں مزید اختلاف کے ساتھ
نقل کیا ہے)
ترجمہ: خدایا! گواہ رہنا، ان لوگوں سے جنگ کرنے وہ جوان گیا ہے جو صورت، سیرت اور گفتار میں تیرے پیغمبرؐ کے سب سے زیادہ مشابہہ تھا اور ہم جب بھی تیرے پیغمبرؐ کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے تو اس جوان کو دیکھ لیتے تھے۔
[ترمیم]
پھر علی بن الحسین نے حملہ کیا جبکہ یہ
رجز پڑھ رہے تھے:
أَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ نَحْنُ وَ بَيْتِ اللَّهِ أَوْلَى بِالنَّبِيِ وَ اللَّهِ لَا يَحْكُمُ فِينَا ابْنُ الدَّعِي أَطْعَنُكُمْ بِالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنِيأَضْرِبُكُمْ بِالسَّيْفِ حَتَّى یَلتَوِیْ ضَرْبَ غُلَامٍ هَاشِمِيٍ عَلَوِیمیں ہوں علی بن حسین بن علی؛ خدائے
کعبہ کی
قسم ، ہم پیغمبرؐ کی جانشینی کیلئے اولیٰ ہیں۔
خدا کی قسم، نامعلوم باپ کی اولاد
ابن زیاد ہم پر حکومت نہیں کر سکے گا۔ تمارے اوپر نیزے کے اتنے وار کروں گا کہ خم ہو جاؤ اور
شمشیر کے ساتھ ایسی ضربیں لگاؤں گا کہ شمشیر مڑ جائے گی؛ یہ ضربیں علوی و ہاشمی جوان کی ہیں۔
علی اکبرؑ مسلسل جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ کوفیوں نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کیونکہ ان کی کثیر تعداد جہنم واصل ہو چکی تھی۔
( تاریخ اور مقتل کی کتابوں نے حضرت علی اکبرؑ کے مذکورہ بالا رجز کو بھی تعبیرات و کلمات اور مصرعوں کی تعداد کے لحاظ سے مختلف طور پر نقل کیا ہے۔ طبری نے صرف پہلے تین مصرعے نقل کیے ہیں،
تاہم شیخ مفیدؒ نے ان کے علاوہ دو دیگر مصرعوں کو بھی نقل کیا ہے)
[ترمیم]
میدان میں جانے سے قبل
دشمن کی فوج کے ایک گروہ نے علی اکبرؑ کی
یزید کے ساتھ رشتہ داری (علی اکبرؑ کی نانی
میمونہ بنت ابی سفیان، یزید کی
پھوپھی تھی)،( علی اکبرؑ کی یزید کے خاندان والوں سے رشتہ داری سے مقصود یہ ہے کہ لیلیٰ کی ماں میمونہ،
ابوسفیان کی
بیٹی تھی)
اس بنا پر وہ ماں کی طرف سے ابوسفیان کی بیٹی کے نواسے تھے؛)
لہٰذا انہیں
امان دے دی گئی مگر علی اکبرؑ نے قبول نہیں کیا اور جواب میں فرمایا: کیا
رسولؐ خدا کی
قرابت سے زیادہ ابوسفیان کے ساتھ رشتہ داری حائز اہمیت ہے؟! پھر اپنی جنگ کو جاری رکھا۔
[ترمیم]
حضرت علی اکبرؑ نے جب سخت جنگ کر کے بہت سے اشقیا کو ہلاک کر دیا تو اپنے والد بزرگوار کے پاس واپس آئے اور کہا:
يَا أَبَتِ الْعَطَشُ قَدْ قَتَلَنِي وَ ثِقْلُ الْحَدِيدِ قَدْ أَجْهَدَنِي فَهَلْ اِلیٰ شَرْبَةِِ مَاء مَنْ سَبِیْل؟بابا جان!
پیاس نے مجھے مار ڈالا اور لوہے کی سنگینی نے مجھے بے تاب کر دیا ہے، کیا پانی مل سکتا ہے؟!
امامؑ نے گریہ کرتے ہوئے فرمایا:بیٹا! پانی کہاں سے لاؤں؟ تھوڑی سی جنگ مزید کرو، جلد ہی رسولؐ خدا سے ملاقات کرو گے اور وہ ایک چھلکتے جام سے تمہیں سیراب کریں گے کہ جس کے بعد تمہیں پیاس نہیں لگے گی۔(
ثُمَّ رَجَعَ إلى أبيهِ يَا أَبَتِ الْعَطَشُ قَدْ قَتَلَنِي وَ ثِقْلُ الْحَدِيدِ قَدْ أَجْهَدَنِي فَبَكَى الحُسَین وَقَالَ: وَا غَوْثَاهُ یَا بُنَیّ مِنْ أَیْنَ أتَی بِالْماء قَاتِلْ قَلِيلًا فَمَا أَسْرَعَ مَا تَلقِى جَدُّكَ مُحَمَّدا فَیَسْقِيك شَربةََ لَا تَظْمَأُ بَعْدَها.
خوارزمی نے علی اکبرؑ کی اپنے والد کے سامنے پیاس کے ذکر کو مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے)
[ترمیم]
علی اکبرؑ میدان جنگ میں واپس چلے گئے اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر
دشمنوں پر حملہ کر دیا اور اس مرتبہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
الحَرْبُ قد بانت لها الحَقَائِقُ وَظَهَرَتْ من بَعْدِها مَصَادِقُواللهِ ربِّ العَرْشِ لاَ نُفَارِقُ جُمُوعَكُمْ أو تُغْمَدَ البَوَارِقُجنگ کی حقیقت آشکار ہو گئی ہے اور اس کے دوران سچے جنگجو مرد ظاہر ہوتے ہیں۔ خدائے عرش کی قسم! ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے جب تک شمشیریں نیام میں واپس نہ چلی جائیں۔
آپ نے شدید پیاس کے باوجود بڑی دلیری سے جنگ کی اور دشمنوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر دیا۔
( قدیم مورخین جیسے بلاذری، دینوری، طبری، ابو الفرج اصفهانی، ابن اعثم اور شیخ مفیدؒ نے حضرت علی اکبرؑ کے ہاتھوں قتل ہونے والے
عمر بن سعد کے سپاہیوں کی تعداد کا ذکر نہیں کیا۔
ابن نمااور
سید بن طاؤس نے لکھا ہے کہ حضرت علی اکبرؑ کے ہاتھوں بڑی تعداد میں دشمن قتل ہو گئے۔ تاہم مقتولین کی تعداد ذکر کرنے والے مورخین اور محدثین نے آپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے اشقیا کی تعداد میں اتفاق نہیں کیا ہے؛ چنانچہ شیخ صدوق نے ۴۴ سپاہی
؛ خوارزمی نے ۲۰۰
؛ ابن شہر آشوب نے ۷۰
اور
قندوزی نے ۸۰ سپاہی
لکھے ہیں۔ البتہ ان میں سے بعض مولفین نے حضرت علی اکبرؑ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی تعداد افسانوی اور مبالغہ آمیز ذکر کی ہے۔
فاضل دربندی متوفی (۱۲۸۹ھ) نے غیر معتبر کتب کا حوالہ دیتے ہوئے علی اکبرؑ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی تعداد میں ۲۰۰۰ گھڑ سواروں اور ۸۰ پیادوں کا ذکر کیا ہے۔
آپ بارہا رجز پڑھ کر حملہ آور ہوتے رہے۔
کوفی آپ کو قتل کرنے سے اجتناب کر رہے تھے (گویا وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپؑ کے
خون میں شریک ہوں) یہاں تک کہ
مرۃ بن
منقذ بن نعمان عبدی لیثی آپؑ کے روبرو ہوا اور کہا:
عرب کا
گناہ میری گردن پر ہو اگر یہ جوان میرے پاس سے گزرے اور اس کام کا تکرار کرے اور میں اس کے والد کو اس کے ماتم میں نہ بٹھاؤں۔ علی اکبرؑ نے ایک مرتبہ پھر دشمن پر حملہ کیا اور تلوار کے وار کر رہے تھے یہاں تک کہ مرۃ بن مُنقذ عبدی نے آپؑ پر ایسا وار کیا کہ علی اکبرؑ زمین پر گر گئے اور اس گروہ نے آپ کا محاصرہ کر لیا اور آپ کے پاکیزہ بدن کو تلواریں مار مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
خوارزمی مرۃ بن منقذ کی ضربت کے بعد لکھتے ہیں کہ پھر آپ نے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ ڈالا مگر گھوڑا آپ کو دشمن کے لشکر کی طرف لے گیا اور دشمنوں نے آپ کو ٹکڑے ٹکرے کر ڈالا۔
علی اکبرؑ نے زندگی کے آخری لحظات میں آواز دی:
يَا أَبَتَاهْ عَلَيْكَ مِنِّی السَّلَامُ هَذَا جَدِّي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ عَجِّلِ الْقَدُومَ عَلَيْنَا.
بابا جان! خدا حافظ! یہ میرے جد رسول خدا ہیں جو آپ کو
سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں: جلد ہمارے ساتھ ملحق ہو جاؤ۔
پھر علی نے ایک فریاد بلند کی اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔ امام حسینؑ تشریف لائے اور ان کے سرہانے بیٹھ گئے اور اپنا چہرہ ان کے چہرے پر رکھ دیا
اور فرمایا:
قَتَلَ اللَّهُ قَوْماً قَتَلُوكَ مَا أَجْرَأَهُمْ عَلَى االلَّهِ وَ عَلَى انْتِهَاكِ حُرْمَةِ الرَّسُولِ عَلَى الدُّنْيَا بَعْدَكَ الْعَفَاء.
یعنی خدا اس قوم کو قتل کرے جنہوں نے تجھے قتل کیا اور انہوں نے اللہ پر اور حرمت رسول کو پامال کرنے پر کس قدر جرات کی، تیرے بعد دنیا کی زندگی پر خاک ہے!
شیخ مفیدؒ نے کچھ اختلاف کے ساتھ یہ روایت نقل کی ہے:
قَتَلَ اللَّهُ قَوْماً قَتَلُوكَ يَا بُنَيَّ مَا أَجْرَأَهُمْ عَلَى الرَّحْمَنِ وَعَلَى انْتِهَاكِ حُرْمَةِ الرَّسُولِ وَ انْهَمَلَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ ثُمَّ قَالَ عَلَى الدُّنْيَا بَعْدَكَ الْعَفَاء.
خدا ان لوگوں کو قتل کرے جنہوں نے تجھے قتل کیا، یہ لوگ کس قدر خدا و رسولؐ کی ہتک حرمت پر گستاخ اور بے باک ہو چکے ہیں؛ تیرے بعد
دنیا پر خاک!
اس وقت
حضرت زینب بنت
فاطمہؑ جلدی سے خیموں سے باہر آئیں اور فریاد بلند کی: ہائے بھائی! ہائے علی اکبر! اور یہ کہتے ہوئے خود کو جوان کے بدن پر گرا دیا۔ امام حسینؑ سرعت سے آپ کی طرف آئے اور آپؑ کو
خیمہ میں لے گئے۔ پھر امام حسینؑ نے اپنے جوانوں کو کہا:
احملوا أخاکم. اپنے بھائی کو خیمہ گاہ کی طرف لے چلو۔ جوانوں نے انہیں اٹھایا اور اس خیمہ کے سامنے آپ کو زمین پر لٹا دیا جس کے روبرو آپ جنگ کر رہے تھے۔
امام حسینؑ نے بددعا کیلئے لبوں کو حرکت دی اور فرمایا: خدایا! انہوں نے ہمیں دعوت دی تاکہ ہماری نصرت کریں؛ مگر انہوں نے ہماری حرمت کو نظرانداز کیا اور ہمیں قتل کیا۔ خدایا! آسمان کی
بارش کو ان پر روک لے اور زمین کی برکات کو ان کیلئے منع کر دے اور اگر تو نے انہیں کچھ مدت کیلئے اپنی
نعمتوں سے بہرہ مند کیا تو ان کے درمیان
تفرقہ و جدائی ڈال دے اور انہیں گروہوں اور ٹولیوں میں تقسیم کر دے اور ہمیشہ حکمرانوں کو ان سے ناخوش رکھ۔
پھر امامؑ نے عمر بن سعد کو آواز دے کر کہا:
«مَا لَكَ؟ قَطَعَ اللهُ رَحِمَكَ وَ لا بَارَكَ اللهُ لَكَ فِى اَمْرِكَ وَ سَلَّطَ عَلَيْكَ مَنْ يَذْبَحُكَ بَعْدي عَلَي فِرَاشِكَ كَمَا قَطَعْتَ رَحِمِى وَ لَمْ تَحْفَظْ قَرَابَتِى مِنْ رَسُولِ اللهِ. (خوارزمی کی روایت کے مطابق)
اور ابن اعثم کے بقول
امام نے یہ بددعا علی اکبرؑ کو میدان کی طرف روانہ کرتے ہوئے کی، تاہم امامؑ کے سخن (کما قطعت رحمی؛ جس طرح تو نے میری
نسل کو منقطع کیا ہے یا میرے بیٹے کو قتل کیا ہے) سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بددعا شہادت کے بعد دی۔ تجھے کیا ملا؟! خدا تیری نسل کو قطع کرے (شواہد و قرائن اور عربوں کے فہم کے پیش نظر امامؑ کے کلام میں قطع رحم سے مراد نسل اور فرزند کا قتل ہے، نہ وہ
قطع رحم جو
صلہ رحم کے مقابلے میں ہے اور نہ وہ قطع نسل جو تمام فرزندوں کے قتل کے معنی میں ہے۔ اس رو سے قطع رحم کا ترجمہ ’’بیٹے کا قتل‘‘ کیا گیا ہے۔ (امامؑ کی بددعا قبول ہوئی اور
مختار کے قیام کے دوران اس کا بیٹا (حفص) قتل ہوا اور خود عمر بن سعد اپنے بستر پر امام حسینؑ کے خون کے انتقام میں مارا گیا)۔
پس امامؑ نے فرمایا: خدا تیرے بیٹے کو قتل کرے اور تیرے کام سے برکت اٹھا لے اور تجھ پر اسے مسلط کرے جو بستر پر تیرا سر تن سے جدا کر دے، جس طرح تو نے میری نسل کو قطع کیا (تو نے میرے بیٹے کو قتل کیا) اور میری رسولؐ خدا کے ساتھ حرمت کا پاس نہیں کیا۔ پھر بلند آواز سے اس آیت کی
تلاوت کی:
إِنَّ ٱللَّهَ ٱصۡطَفَىٰٓ ءَادَمَ وَنُوحٗا وَءَالَ إِبۡرَٰهِيمَ وَءَالَ عِمۡرَٰنَ عَلَى ٱلۡعَٰلَمِينَ ذُرِّيَّةَۢ بَعۡضُهَا مِنۢ بَعۡضٖۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.
خدا نے
آدم اور
نوح اور آل
ابراہیم اور آل عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا ہے؛ ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔
ابو حمزہ ثمالی کی
امام صادقؑ سے منقول ایک روایت میں امام حسینؑ اور پھر حضرت علی اکبرؑ کی زیارت مروی ہے اور اس میں حضرتؑ کی شہادت کے بارے میں بعض ایسے نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو تاریخ اور مقاتل کی کتب میں نہیں ملتے؛ منجملہ یہ کہ امام حسینؑ نے حضرت علی اکبرؑ کی شہادت کا حساب خدا کے سپرد کر دیا تھا اور ان کے خون کو اپنے دست مبارک سے آسمان کی طرف اچھال دیا تھا کہ جس میں سے ایک بھی قطرہ واپس نہیں آیا! اس زیارت کے ایک حصے میں امام صادقؑ کی زبانی یہ جملے منقول ہیں: ۔۔۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا، اے سربریدہ! اے بے گناہ مقتول! میرے ماں باپ آپ کے خون پر فدا کہ جس خون کے ساتھ آپ نے حبیب خدا کی بارگاہ میں پرواز کی، میرے ماں باپ آپ پر فدا کہ آپ اپنے پدر کے سامنے جنگ کیلئے روانہ ہوئے، اس حال میں کہ انہوں نے آپ کی شہادت کا حساب خدا کے سپرد کر دیا اور وہ آپ پر گریہ کناں تھے اور ان کا دل گداختہ تھا؛ اور انہوں نے آپ کے خون کو آسمان کی طرف اچھال دیا کہ جس کا ایک قطرہ بھی واپس نہیں آیا؛ جب آپ اپنے پدر کو وداع کر رہے تھے تو انہیں قرار نہیں آ رہا تھا اور وہ مسلسل گریہ کناں تھے، گویا آپ دونوں اپنے گزر جانے والے باپ داداؤں اور اپنی ماؤں کے ساتھ جنت میں ہیں اور اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں، میں اللہ کی بارگاہ میں بیزاری اختیار کرتا ہوں ہر اس شخص سے جس نے آپ کو قتل کیا اور آپ کا سر تن سے جدا کیا۔
بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي مِنْ مَذْبُوحٍ وَ مَقْتُولٍ مِنْ غَيْرِ جُرْمٍ وَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي دَمُكَ اَلْمُرْتَقَى بِهِ إِلَى حَبِيبِ اَللَّهِ وَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي مِنْ مُقَدَّمٍ بَيْنَ يَدِي أَبِيكَ يَحْتَسِبُكَ وَ يَبْكِي عَلَيْكَ مُحْرَقاً عَلَيْكَ قَلْبُهُ يَرْفَعُ دَمَكَ بِكَفِّهِ إِلَى أَعْنَانِ اَلسَّمَاءِ لاَ تَرْجِعُ مِنْهُ قَطْرَةٌ وَ لاَ تَسْكُنُ عَلَيْكَ مِنْ أَبِيكَ زَفْرَةٌ وَدَّعَكَ لِلْفِرَاقِ فَمَكَانُكُمَا عِنْدَ اَللَّهِ مَعَ آبَائِكَ اَلْمَاضِينَ وَ مَعَ أُمَّهَاتِكَ فِي اَلْجِنَانِ مُنَّعَمِينَ أَبْرَأُ إِلَى اَللَّهِ مِمَّنْ قَتَلَكَ وَ ذَبَحَكَ.
مذکورہ بالا سطور میں حضرت علی اکبرؑ کے جہاد اور شہادت کی کیفیت اور امامؑ اور
اہل بیتؑ کے رد عمل کے حوالے سے قدیم اور جدید مورخین اور مقتل نگاروں کی روایات کو بیان کیا گیا ہے، تاہم بعض ایسی روایات بھی ہیں جو بعض اوقات مصائب کے دوران منبروں سے نقل کی جاتی ہیں مگر قدیم اور تاریخی کتب میں ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا اور وہ صرف متاخرین کی بعض کتب میں نقل ہوئی ہیں؛ لہٰذا یہ روایات معتبر نہیں ہیں۔ بطور مثال یہ جملہ کہ امام حسینؑ نے جب حضرت علی اکبرؑ کے بے جان بدن کو دیکھا تو فرمایا:
اما انت یا بنیّ، فقد استرحت من کرب الدنیا و غمّها، و ما اسرع اللّحوق بک. تو دنیا کی تکلیف اور غم سے نجات پا چکا ہے اور تیرے ساتھ الحاق کس قدر جلد ہو گا!
یا یا ولدی، امّا انت فقد استرحت من همّ الدنیا و غمّها و صرت الی روح ورّاحة و بقی ابوک، فما اسرع لحوقه بک. اے میرے بیٹے! تو دنیا کی پریشانیوں اور غموں سے راحت پا گیا اور رحمتوں تک پہنچ گیا مگر تیرا والد اکیلا رہ گیا ہے اور جلد تیرے ساتھ ملحق ہو جائے گا۔
یہ جملے قدیم کتب میں نہیں ملتے اور ایسی روایات گیارہویں
صدی کے بعد مقاتل میں وارد ہوئی ہیں اور انہیں امام حسینؑ سے منسوب کیا گیا ہے۔ اسی طرح جب حضرت زینبؑ حضرت علی اکبرؑ کے بے جان بدن پر پہنچیں تو یہ جملہ بعد میں بی بیؑ کی طرف منسوب کیا گیا ہے:
لیتنی کنت قبل هذا الیوم عمیاء لیتنی و سدت تحت اطباق الثری. چنانچہ یہ روایت بھی قدیم معتبر کتب میں نہیں ملتی اور گیارہوں صدی کے بعد بعض مقاتل میں شامل ہوئی ہے۔
[ترمیم]
امام حسینؑ نے آپ کی
مصیبت پر فرمایا: تیرے بعد دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
اگلے دن
قبیلہ بنی اسد کے ایک گروہ نے آپ کے
جسد کو آپؑ کے والد بزرگوار امام حسینؑ کے ساتھ سپرد خاک کیا۔
حضرت علی اکبر، کی نسل آگے نہیں چل سکی۔
[ترمیم]
آج حضرت علی اکبرؑ کی قبر مطہر نصب شدہ ضریح کے اندر حضرت سید الشہدا کی قبر کے اوپر ہے اور اسی وجہ سے حضرت علی اکبرؑ کی قبر کے بالمقابل ضریح کے شرقی ضلع کا طول تقریبا ایک میٹر کے برابر ضریح کے اس ضلع کے طول سے زیادہ ہے کہ جو
امام حسینؑ کی قبر کے سامنے ہے۔ البتہ اس حصے میں ضریح کا عرض دو جالیوں کی مقدار اس عرض کی نسبت کم ہے جو بالاسر کے حصے میں امام حسینؑ کی قبر کے سامنے ہے۔اسی وجہ سے امامؑ کی ضریح کے چھ گوشے(کونے) ہیں۔
[ترمیم]
(۱) ابن ادریس حلی، کتاب السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم ۱۴۱۰۔
(۲) ابن اعثم کوفی، کتاب الفتوح، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۱/۱۹۹۱۔
(۳) ابن خشاب بغدادی، تاریخ موالید الائمة علیهمالسلام و وفیاتهم، قم ۱۴۰۶۔
(۴) ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت ۱۴۰۵/۱۹۸۵
(۵) ابن شهر آشوب، مناقب آل ابیطالب، چاپ سیدهاشم رسولی محلاتی، قم ۱۳۲۶۔
(۶) ابن طاووس، مقتلالحسین علیهالسلام المسمی باللهوف فی قتلی الطفوف، قم ۱۴۱۷۔
(۷) ابن قتیبه، المعارف، چاپ ثروت عکاشه، قاهره ۱۹۶۰۔
(۸) ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، چاپ کاظم مظفر، نجف ۱۳۸۵/۱۹۶۵۔
(۹) ابو نصر سهل بن عبدالله نجاری، سر السلسلة العلویة، چاپ سیدمحمد صادق بحرالعلوم، نجف ۱۹۶۲/۱۳۸۱۔
(۱۰) احمد بن یحیی بلاذری، انساب الاشراف، چاپ محمود فردوس عظم، دمشق ۱۹۹۷۔
(۱۱) ابن فندق بیهقی، لباب الأنساب و الألقاب و الأعقاب، چاپ سیدمهدی رجایی، قم ۱۴۱۰۔
(۱۲) خلیفه بن خیاط، تاریخ خلیفة بن خیاط، چاپ سهیل زکار، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔
(۱۳) خوارزمی، مقتل الحسین، چاپ محمد سماوی، قم ۱۴۱۸۔
(۱۴) احمد بن داود دینوری، الاخبار الطوال، چاپ عبدالمنعم عامره، قاهره ۱۹۶۰۔
(۱۵) علی بن زید ذهبی، عمیر اعلام البلاد، (اختصارات)۔
(۱۶) مصعب بن عبدالله زبیری، کتاب نسب قریش، چاپ سوی پرونسال، قاهره ۱۹۵۳۔
(۱۷) فضل بن حسن طبرسی، إعلام الوری بأعلام الهدی، چاپ موسسة آلالبیت (ع) لاحیاءالتراث، قم ۱۴۱۷۔
(۱۸) محمد بن جریر طبری، تاریخ الطبری (تاریخ الامم والملوک)، چاپ محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت ۱۳۸۲ـ۱۳۸۷/۱۹۶۲ـ۔۱۹۶۷۔
(۱۹) محمد بن جریر طبری، دلائل الامامة، قم ۱۴۱۳۔
(۲۰) محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، چاپ جواد قیومی اصفهانی، قم ۱۴۱۵۔
(۲۱) قاضی نعمان، شرح الأخبار فی فضائل الأئمةالاطهار، چاپ سیدمحمد حسینی جلالی، قم۔
(۲۲) علی بن حسین مسعودی، مروج الذهب و معادن الجواهر، چاپ شارل پلاّ، بیروت ۱۹۶۵ـ۱۹۷۹۔
(۲۳) محمد بن محمد مفید، الارشاد فی معرفة حجج اللّه علی العباد، چاپ مؤسسه آلالبیت (ع) الاحیاء التراث، قم۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، مقاله علی بن حسین»، ص۵۹۰۷۔ زیارتگاههای عراق، محمدمهدی فقیه بحرالعلوم، برگرفته از مقاله آستان مقدس امام حسین»، ج۱، ص۱۵۸۔ پیشوائی، مہدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۸۱۷-۸۲۳۔