فقیہ جامع الشرائط
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ایسا
فقیہ جس کے اندر
مرجعیت کی تمام لازم شرائط پائی جاتی ہوں اسے
جامع الشرائط فقیہ کہا جاتا ہے۔
[ترمیم]
ہر وہ فقیہ جو ادلہ سے احکام شرعی کو استنباط کرنے کا
ملکہ رکھتا ہو اور مرجعیت کی لازم شرائط بھی رکھتا ہو جیسا کہ
ایمان،
زہد، اور
تقوی وغیرہ تو ایسے فقیہ کو جامع الشرائط فقیہ کہا جاتا ہے۔
جواهر الکلام، ج۲۱، ص۳۹۹. القضاء و الشهادات، شیخ انصاری، ج۱، ص۲۲۹ ۲۳۱. المعالم الزلفی، ج۱، ص۳۷ ۴۲.
[ترمیم]
زمانہ غیبت میں
جامع الشرائط فقیہ کی اہم ترین ذمہ داریاں
قضاوت،
تولی امور مسلمین، اور احکام کو
استنباط کر کے
افتاء کرنا ہے۔
زمانہ غیبت میں شیعہ کس راہ و روش کو اختیار کریں؟ شیعہ معاشروں کی تقدیر کن کے ہاتھوں لکھی جاۓ گی؟ کیا اس دور میں شیعوں کو گوشہ نشینی اختیار کر کے تمام امور اغیار کے ہاتھ سپرد کر دینے چاہئیں؟ جبکہ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ
امام مہدی (علیہ السلام) کی غیبت کی حکمت و فلسفہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے معین الہی مقاصد کی طرف بڑھیں اور ایسا نہیں ہو سکتا خداوند متعال زمانے کے ولی کو کسی ایسے مقصد کے لیے غیبت دے جو فلسفہ الہی کے برخلاف ہو۔ پس راہ وہی ہے جو زمانہ غیبت سے پہلے معین تھا۔ غیبت امام مہدی (علیہ السلام) کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ دین کو معطل کر دیا جاۓ، دینی تکالیف انسان کے دوش سے اٹھا دی جائیں اور امت کو
اطاعت پروردگار سے نکال دیا جاۓ۔ جو امور دین نے انسان کے لئے ضروری قرار دئیے ہیں وہ زمانہ غیبت میں بھی ویسے ہی ضروری ہیں جیسے زمانہ ظہور میں ضروری ہیں۔ دین کے یہ سب وظائف صرف اس وقت ہمیں حاصل ہوسکتے ہیں جب ہم شیعہ انفرادی تمرکز سے نکل کر اجتماعی امور کو بھی اہمیت دیں اور اجتماعی زندگی کو لوازمات کے پابند ہو جائیں۔ اس بارے میں
امام خمینیؒ کے نظریات اور بالخصوص ان کا
ضرورت تشکیل حکومت کا نظریہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ نظریہ
فلسفہ غیبت سے ہمسو اور مسلمانوں کے اجتماعی امور کی مدیریت کے حوالے سے بہت عمدہ نظریہ ہے۔
زمانہ غیبت میں مسلمانوں کے لیے اپنے اجتماعی امور کی مدیریت کے حوالے سے کیا ذمہ داری بنتی ہے اس بارے میں
امام خمینیؒ اپنی کتاب ولایت فقیہ میں لکھتے ہیں: اب جبکہ اللہ تعالی کی طرف سے معین شخص امر حکومت کے لیے موجود نہیں تو ایسے میں تکلیف کیا ہے؟ کیا اسلام کو ترک کر دیں؟ اسلام کی اب ضرورت نہیں رہی؟ کیا اسلام کی ضرورت صرف دو سو سال کے لیے تھی؟ یا اسلام نے تکلیف تو معین کر دی ہے لیکن حکومتی تکلیف ہم پر نا ہو؟ کیونکہ حکومت نا ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کی تمام حدود و مقررات معطل ہو جائیں اور ہم بے حال ہو کر ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور جو کچھ ہمارے ساتھ ہوتا ہے، ہوتا رہے۔ یہ سب کیا ہمیں قبول ہے؟ یا دوسری صورت میں ہم کہیں کہ حکومت ضروری ہے اگرچہ اس زمانے میں ہمارے لیے معین شخص تو موجود نہیں لیکن وہ حکومتی خاصیت جو صدر اسلام سے تا زمان امام مہدی (علیہ السلام) موجود تھی وہی خاصیت زمانہ غیبت کے لیے بھی قرار دی جاۓ۔ یعنی قانون الہی کا
علم، اور
عدالت کی خاصیت جو ہمارے معاصر فقہاء میں بھی موجود ہے۔ اگر ہم آپس میں متحد ہو جائیں تو ایک عمومی عدل کی حکومت تشکیل دے سکتے ہیں۔
موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۵۰. ولایت فقیہ ان موضوعات میں سے ایک ہے جن کا صحیح تصور ان کی تصدیق کا موجب ہے اس لیے اسے برہان کی ضرورت ہی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص جو عقائد اور
احکام اسلام کو حتی اجمالی طور پر جانتا ہو جیسے ہی ولایت فقیہ کا تصور کرتا ہے اس کی تصدیق کئے بغیر نہیں رہ سکتا اور اسے
ضروری و
بدیہی قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی حالت اور حوزہ جات علمیہ بالخصوص سبب بنے کہ ولایت فقیہ کی طرف توجہ نا دی گئی اور اسے بھی دلیل کا محتاج بنا دیا گیا۔»
موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۳. زمانہ غیبت
امام مہدی (عجل اللہ فرجہ الشریف) میں جس طرح جامع الشرائط فقیہ ایتام، سفہاء، مجانین، فاقد
ولی قہری پر ولایت رکھتا ہے اسی طرح تمام صورتوں میں اسلامی معاشرے پر بھی ولایت رکھتا ہے۔ وہی ولایت جو حضرت
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور
آئمہ معصومین ( علیہم السلام) کو حاصل ہے وہی ولایت جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے۔
ممکن ہے ان باتوں سے کچھ لوگوں کے ذہن میں شبہات پیدا ہوں کہ
امام خمینی نے
جامع الشرائط کی ولایت کو بیان کرنے میں
غلو سے کام لیا۔ یا بہت زیادہ افراط سے کام لیا ہے تو ان باطل خیالات سے محفوظ رکھنے کے لیے امام خمینی ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں: جب ہم کہتے ہیں کہ جو ولایت
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اور
آئمہ معصومین (علیہم السلام) کو حاصل ہے وہی ولایت
جامع الشرائط فقیہ کو بھی حاصل ہے تو اس سے کسی کو یہ توہم نا ہو جاۓ کہ جو مقام رسول اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کا ہے وہی مقام فقیہ کو بھی حاصل ہے۔ کیونکہ یہاں بات مقام و منزلت کی نہیں ہو رہی بلکہ وظیفہ کی انجام دہی کے متعلق بات ہو رہی ہے۔ ہماری یہاں پر ولایت سے مراد حکومت، معاشرے کی مدیریت کرنا اور شریعت مقدس کے احکام کا اجراء کرنا ہے۔ یہ بہت سنگین و اہم وظائف ہیں۔ پس ہم یہ نہیں کہتے کہ فقیہ کا بھی وہی غیر عادی مقام و منزلت ہے جو عام انسانوں کو حاصل نہیں اور صرف رسول اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کو حاصل ہے۔ ہمارے مورد بحث ولایت سے مراد حکومت و مدیریت و اجراء ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف بہت سے افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ شاید فقیہ کی ولایت سے مراد بھی وہی شان و منزلت ہے جبکہ ہماری مراد وظیفہ ہے۔
ولایت فقیہ عقلائی و اعتباری امور میں سے ایک امر ہے اور جس کی واقعیت سواۓ
جعل کے کچھ نہیں۔ جیسے
قیم کو صغار کے لیے جعل کیا جاتا ہے اسی طرح سے ولی فقیہ بھی ہے۔ فرق نہیں پڑتا کوئی قیم ملت ہو اور کوئی قیم صغار۔ فریضہ اور وظیفہ کی انجام دہی کے اعتبار سے دونوں ایک جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر
امام (علیہ السلام) کسی کو
حضانت یا
حکومت کے امر میں منصب عطا فرماۓ۔ اس مورد میں کسی کا
رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی جانب سے متعین ہونا یا کسی امام کی جانب سے متعین ہونے میں عقلی طور پر کوئی فرق نہیں۔.»
موسوعة الامام الخمینی، ج۲۱، ولایت فقیه حکومت اسلامی، ص۵۱. امام خمینی فرماتے ہیں کہ اگرچہ فقیہ کو تمام صورتوں میں اسلامی معاشرے پر ولایت حاصل ہے لیکن امور کی ولایت اور
تشکیل حکومت ایک ایسا امر ہے جو مسلمین کی اکثریتی راۓ سے مربوط ہے۔
صدر اسلام میں اسے
ولی مسلمین کی
بیعت سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ روح اللَّه الموسوی الخمینی.»
موسوعة الامام الخمینی، ج۴۱، استفتائات امام خمینی ج۱۰، ص۷۷۱، سؤال ۱۲۸۲۸. اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ فقیہ کی ولایت فی نفسہ لوگوں کی اکثریتی راۓ پر منوط نہیں ہے۔ یعنی اگر لوگوں کی اکثریت حتی فقیہ کے خلاف ہو تب بھی شرعی طور پر ولایت اسی کے لیے ہی ثابت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کے امور کی ولایت اور تشکیل حکومت جیسے اوامر مسلمانوں کی اکثریتی راۓ سے مربوط ہیں۔البتہ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ حتما اعلم فقیہ کی طرف رجوع کیا جاۓ۔.
موسوعة الامام الخمینی، ج۲۴، العروة الوثقی مع تعالیق الامام الخمینی، ج۱، ص۱۶، الاجتهاد و التقلید، مسالة ۶۸. لیکن تقلید کے مورد میں احوط یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو صرف اعلم کی تقلید کی جاۓ۔
موسوعة الامام الخمینی، ج۲۲، تحریرالوسیلة، ج۱، ص۴، المقدمة، مسالة ۵. اسی طرح قضاوت کے باب میں بھی اعلمیت شرط ہے۔
موسوعة الامام الخمینی، ج۲۳، تحریرالوسیلة، ج۲، ص۴۳۵، کتاب القضاء، القول فی صفات القاضی و ما یناسب ذلک، مسالة ۱. امام خمینیؒ کی نظر میں حاکم بما هو حاکم یہ اختیار رکھتا ہے کہ اجتماعی مصلحتوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ عوام کے مفاد کی خاطر مقررات کو وضع کرے۔ اس بارے میں جب استفتاء کیا گیا تو امام نے فرمایا: کیا
حبس،
نفی بلد اور محل کسب و کار کی تعطیلی، سرکاری اداروں میں خدمات انجام دینے سے ممانعت، مالی جرمانہ، اور ہر وہ سزا جو مجرمین کی تنبیہ اور ان کے مزید جرائم کی انجام دہی میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہو اسے بعنوان
تعزیر معین کیا جا سکتا ہے یا صرف انہیں تعزیرات پر اکتفاء کیا جاۓ جو نص میں وارد ہوئی ہیں؟ جواب میں امام نے فرمایا کہ اگرچہ احتیاط اس میں ہے کہ فقط منصوص تعزیرات کی سزاؤں پر اکتفاء کیا جاۓ لیکن اگر کسی مسئلہ میں عمومی تاثر پایا جاتا ہو جیسا کہ ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کا مسئلہ ہے کہ اس صورت میں حکومتی مقررات بھی شامل ہو جاتی ہیں۔»
موسوعة الامام الخمینی، ج۴۱، استفتائات امام خمینی، ج۱۰، ص۷۳-۷۴، سؤال ۱۱۴۰۰. امام خمینیؒ نے سے جب استفتاء کیا گیا کہ ملکی معاملات کو چلانے کے لیے مجلس شورای اسلامی میں جو قوانین بناۓ جاتے ہیں جیسا کہ اسمگلنگ کے قوانین، کسٹم، ٹریفک، میونسپل قوانین، اور احکام سلطانیہ کے دیگر امور تو آیا ان امور کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے جو سزائیں مقرر کیا یہ تعزیرات شریعت سے متعلق ہونگی اور ان پر احکام شرعی ثابت ہونگے یا یہ مختلف ہیں اور تعزیر سے الگ ہیں؟ اور اگر کہیں شریعت کی خلاف ورزی نا ہو تو ان کی پیروی کی جاۓ؟ امام خمینی نے جواب دیا: احکام سلطانیہ کو تعزیرات شرعیہ سے خارج سمجھا جاۓ اور یہ حکم اولی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو حاکم یا اس کے وکیل کی مقرر کردہ سزا کے مطابق مجازات کیا جاۓ گا۔»
موسوعة الامام الخمینی، ج۴۱، استفتائات امام خمینی، ج۱۰، ص۷۳-۷۴، سؤال ۱۱۴۰۰. [ترمیم]
[ترمیم]
•
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہمالسلام، ج۵، ص۷۲۳، برگرفتہ از مقالہ «فقیہ جامع الشرایط»۔ • ساعدی، محمد، (مدرس حوزه و پژوہشگر)، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی.
رده:دیدگاہ ہای فقهی امام خمینی