فیء کے معنی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
فَیء کے لغوی معنی بازگشت اور پلٹنے کے ہیں۔
قرآن کریم میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ مال ہے جو بغیر جنگ و قتال کے
کفار مسلمانوں کے سپرد کر دیں۔ قرآن کریم کی صریح آیت کے مطابق یہ رسول اللہؑ کے ساتھ مختص ہے۔ آپؐ کے بعد یہ مال ان کے برحق جانشین آئمہ ہدیؑ کے سپرد ہو گا۔ اس مال کو رسول اللہؐ یا آئمہؑ کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کر سکتے۔
[ترمیم]
لفظِ فیء کے حروفِ اصلی ف-ی-ء ہیں جوکہ
فَاءَ یَفِی باب فَعَلَ یَفْعِلُ سے مصدر ہے۔ لغت میں اس کا معنی رجوع کرنا اور پلٹنا ہے۔
سورہ حجرات میں اسی لغوی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:
حَتَّى تَفيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُما بِالْعَدْلِ وَ أَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطين ...؛ یہاں تک کہ وہ گروہ اللہ کے امر کی طرف لوٹ آئے، پس اگر وہ لوٹ کر آ جائے تو دونوں گروہوں کے درمیان
عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں لفظِ فیء اپنے لغوی معنی یعنی رجوع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح
لغت میں وارد ہوا ہے کہ فیء خراج اور غنیمت کو کہتے ہیں۔
ابو ہلال عسکری نے فیء اور غنیمت میں فرق بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: اگر کفار سے جنگ لڑنے کے نتیجے میں اموال آئیں تو یہ غنیمت کہلاتا ہے لیکن اگر بغیر جنگ و قتال کے اموال ہاتھ میں آتے ہیں تو وہ رسول اللہؑ کے ساتھ مختص ہے۔
[ترمیم]
فقہاء کی اصطلاح میں فیء اس مال کو کہتے ہیں جو مال کفار جنگ و قتال کے بغیر مسلمانوں کے سپرد کر دیں، مثلا
جزیہ، خراج اور اس کی مانند دیگر اموال۔
[ترمیم]
علامہ حلی اپنی کتاب تذکرۃ الفقہاء میں بیان فرماتے ہیں کہ سورہ حشر میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِه...؛ اور جو اللہ نے اپنے رسول کو مال عطا کیا ہے
، اس آیت کریمہ میں فیء کا عنوان
رسول اللہؐ سے متعلق ہے جوکہ رسول اللہؐ کے مختصات میں سے اور آپؐ کے بعد یہ آئمہؑ کے سپرد ہو گا۔ بقیہ مسلمانوں میں سے یہ کسی کا حق نہیں ہے۔
ضروری ہے کہ مالِ فیء رسول اللہؐ اور ان کے بعد
آئمہ اطہارؑ کی اجازت سے خرچ ہو۔
[ترمیم]
[ترمیم]
اصطلاحات نظامی در فقہ اسلامی، ص۹۸۔