مباہلہ
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
’’مباہلہ‘‘ کا اصطلاح میں یہ معنی ہے کہ دو فرد یا دو گروہ ایک دوسرے کے خلاف بددعا کریں۔ پس جو بھی
ظالم ہو
حق تعالیٰ اسے رسوا کرے، اس پر اپنا
عذاب نازل کرے اور اس کی
اولاد کو ہلاک کر دے۔
یہ کلمہ تاریخ اسلام میں
پیغمبر اکرمؐ اور نجران کے
عیسائیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آنحضرتؐ کے ساتھ مناظرے میں جب کوئی فائدہ نہ ہوا اور عیسائی ایمان نہ لائے تو حضورؐ نے مباہلے کی تجویز دی جسے انہوں نے قبول کر لیا مگر مقررہ دن کو مباہلہ کیلئے حاضر نہ ہوئے۔
شیعہ عقائد کے مطابق یہ واقعہ پیغمبرؐ کی دعوت کی حقانیت کے علاوہ آپؐ کے ہمراہیوں کی فضیلت کو بھی ثابت کرتا ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت ۶۱ کے مطابق
امام علیؑ پیغمبرؐ کے نفس اور جان کی منزلت پر ہیں۔
[ترمیم]
’’ابتھال‘‘ کے معنی میں دو نظریے ہیں:
1) ایک دوسرے پر لعنت جو دو افراد کے مابین کی جائے؛
2) کسی کی ہلاکت کیلئے بددعا؛
اس آیت میں مباہلہ کا معنی دو افراد کا ایک دوسرے کو بددعا دینا ہے۔ اس صورت کہ جب منطقی استدلالات کا فائدہ نہ ہو تو ایک اہم دینی مسئلے پر گفتگو کرنے والے افراد ایک جگہ جمع ہو کر خدا کی بارگاہ میں تضرع و گریہ و زاری کریں اور اس سے دعا مانگیں کہ جھوٹے کو رسوا کر دے اور اسے سزا دے۔
مباہلہ لغت میں ایک دوسرے پر لعنت اور بددعا کرنے کے معنی میں ہے۔
اصطلاح میں اس کا معنی یہ ہے کہ دو گروہ یا دو فرد ایک دوسرے کے خلاف بددعا کریں پس جو بھی
ظالم ہو، حق تعالیٰ اسے رسوا کر دے اور اس پر اپنا
عذاب نازل کر دے اور اس کی اولاد کو ہلاک و نابود کر دے۔
رسول خداؐ سے ایک حدیث مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: خداوند عزوجل نے مجھے خبر دی ہے کہ مباہلہ کے بعد باطل گروہ پر
عذاب نازل ہوتا ہے اور
حق کو
باطل سے جدا کر دیتا ہے۔
اسلامی منابع میں منقول روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مباہلہ رسول اکرمؐ کے زمانے سے مخصوص نہیں ہے اور تمام زمانوں میں اجرا ہو سکتا ہے۔ ایک حدیث میں
امام صادقؑ سے منقول ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اگر آپ کے برحق کلام کو مخالفین قبول نہ کریں تو انہیں مباہلے کی دعوت دو۔
[ترمیم]
لعن و
لعنت یعنی دھتکارنا اور غضب سے دفع کر دینا، خدا کی طرف سے لعنت کا معنی آخرت میں
عقوبت ہے اور دنیا میں الہٰی رحمت اور
توفیق کا منقطع ہونا ہے۔ انسان کی طرف سے لعنت دوسروں کے خلاف بددعا کے معنی میں ہے۔
[ترمیم]
سنہ دس ہجری میں
رسول خداؐ کی طرف سے کچھ افراد یمن کے علاقے نجران کی طرف تبلیغ کے قصد سے روانہ ہوئے۔ نجران کے
عسائیوں نے کچھ شخصیات جیسے سید، عاقب اور ابا حارثہ کو اپنی نمائندگی میں
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ گفتگو کیلئے مدینہ بھیجا۔
نجران کے لوگ مدینہ میں وارد ہوئے اور انہوں نے پیغمبر اکرمؐ سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا: اے محمد! کیا آپ ہمارے صاحب و سرور کو جانتے ہیں؟!
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: تمہارے سرور کون ہیں؟!
انہوں نے کہا: عیسىٰ بن مریم۔
پیغمبرؐ نے فرمایا: وہ اللہ کے عبد و رسول ہیں۔
انہوں نے کہا: ہمیں کوئی ایک ایسا فرد دکھاؤ کہ جسے خدا نے اس کی مانند پیدا کیا ہو۔۔۔ ۔
جبرئیل پیغمبرؐ پر یہ آیت لے کر اترے:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ ٱللَّهِ كَمَثَلِ ءَادَمَۖ خَلَقَهُۥ مِن تُرَابٖ ثُمَّ قَالَ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ. عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے۔
لہٰذا، بن باپ مسیح کی ولادت ہرگز ان کی الوہیت پر دلیل نہیں ہے۔
انہوں نے حقیقت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ہٹ دھرمی کرنے لگے۔
پیغمبر اکرمؐ کا
نجران (عدن و حضرموت کے پہاڑی سلسلے میں واقع چھوٹا سا شہر) کے
عیسائیوں کے ساتھ مباہلے کا واقعہ
بعض
شیعہ و
اہل سنت منابع میں مذکور ہے۔ رسول اکرمؐ کی زندگی کے آخری سالوں میں اسلام کا پیغام دنیا بھر میں پہنچ چکا تھا۔ آپؐ نے تمام ممالک اور مختلف علاقوں کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر دین اسلام کے پیغام کو ہر علاقے تک پہنچا دیا۔ ان میں سے ایک خط وہ ہے جو آپؐ نے سنہ دس ہجری
کو نجران کے نصرانیوں کیلئے لکھا۔ اس خط میں وارد ہوا ہے کہ:
میں تمہیں بندوں کی پرستش سے
خدا کی پرستش کی طرف اور بندوں کی سرپرستی سے خدا کی سرپرستی کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ اگر تسلیم نہیں کرو گے تو ضروری ہے کہ جزیہ دو ورنہ تمہارے خلاف اعلانِ
جنگ کرتا ہوں۔
کچھ لوگ قائل ہیں کہ
سورہ آل عمران کی آیت ۶۴ بھی اس خط کا حصہ تھی۔
اس
آیت میں خداوند متعال فرماتا ہے:
کہہ دو کہ اے اہل کتاب جو بات ہمارے اور تمہارے دونوں کے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے اس کی طرف آؤ وہ یہ کہ خدا کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (ان سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم (خدا کے) فرماں بردار ہیں۔
۔
عیسائیوں نے نامہ دریافت کرنے کے بعد
مشاورت کی اور فیصلہ کیا کہ اپنے بزرگوں کے ایک وفد کو
مدینہ روانہ کریں تاکہ
رسول خداؐ سے مذاکرات و تبادلہ خیال کریں۔
ابن ہشام لکھتا ہے:
نجران کے نصرانیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل ایک وفد پیغمبرؐ سے ملاقات اور بات چیت کیلئے مدینہ پہنچا۔ ان میں ۱۴ افراد سرکردہ تھے، ان میں سے بھی ۳ اشخاص پورے وفد کی سربراہی کے فرائض انجام دے رہے تھے اور یہ لوگ اس زمانے کے عیسائیوں کیلئے قابل احترام شمار ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک کا لقب ’’عاقب‘‘ تھا کہ جس کا نام اس زمانے میں عبد المسیح تھا۔ دوسرے کا لقب سید اور نام ایھم تھا۔ تیسرا ’’اسقف‘‘ تھا اور اس کا نام ’’ابو حارثہ بن علقمہ‘‘ تھا۔
ابن سعد نے ان وفود کی مدینہ آمد اور پیغمبر اکرمؐ سے ملاقات کے حوالے سے لکھا ہے:
عیسائی ریشم کے قیمی لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔ اسی حال میں وہ مسجد میں داخل ہوئے اور
مشرق کی طرف رخ کر کے عبادت کرنے لگے۔ پیغمبرؐ نے
مسلمانوں کو فرمایا: انہیں آزادی سے اپنی عبادت کرنے دی جائے۔ پھر وہ انہی ملبوسات کے ساتھ پیغمبرؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے مگر پیغمبرؐ نے ملاقات نہیں کی۔ اگلے دن وہ راہبوں کے لباس میں حاضر ہوئے اور
سلام کیا۔ پیغمبرؐ نے جواب دیا اور انہیں
اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور بحث کا آغاز کر دیا۔
[ترمیم]
رسول خداؐ کے ساتھ عیسائیوں نے
مجادلہ شروع کر دیا۔
نجران کے عیسائیوں نے کہا:
عیسیؑ خدا ہیں، ایک گروہ انہیں خدا کا بیٹا سمجھتا ہے اور تیسری جماعت ’’تثلیث‘‘ یعنی پدر، پسر اور روح القدس تین خداؤں کی قائل ہے۔
ابن ہشام لکھتے ہیں:
عیسائیوں نے پیغمبرؐ کی خدمت میں عرض کیا: اگر عیسیؑ خدا کے بیٹے نہیں ہیں تو ان کے والد کون ہیں؟! ۔۔۔ قرآنی آیات نازل ہوئیں اور ان کی تخلیق کو آدمؑ کی تخلیق کی مثل قرار دیا۔
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ نجران کے عیسائیوں نے
مجادلہ جاری رکھا۔ پیغمبر اکرمؐ واضح و قاطع دلائل کے ساتھ ان کے باطل اقوال کو رد فرما رہے تھے اور ان کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ مگر عیسائی متواتر حق کا انکار کیے جا رہے تھے اور اپنے باطل عقائد پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اس وقت سورہ آل عمران کی آیت ۶۱ نازل ہوئی
اور نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی۔ اس آیت میں آیا ہے:
فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيهِ مِنۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ ٱلۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡاْ نَدۡعُ أَبۡنَآءَنَا وَأَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ ٱللَّهِ عَلَى ٱلۡكَٰذِبِينَ. (آل عمران/۶۱)
پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں۔
[ترمیم]
آیتِ مباہلہ نازل ہوئی اور
پیغمبرؐ نے فرمایا: فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةَ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔۔
[ترمیم]
جب عیسائی نمائندوں نے رسول اکرمؐ سے مباہلہ کی تجویز کو سنا تو ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہو گئے۔ انہوں نے مہلت مانگی تاکہ اس بارے میں سوچ بچار اور مشاورت کریں۔
عیسائیوں نے جب اپنے بزرگوں سے مشورہ کیا تو ان کے اسقف نے کہا: کل دیکھو، اگر محمدؐ اپنے گھر والوں اور بچوں کے ساتھ تشریف لائیں تو مباہلے سے پرہیز کرو اور اگر اپنے اصحاب کے ساتھ آئیں تو مباہلہ کر لو کیونکہ پھر ان سے کچھ نہیں ہو گا۔
[ترمیم]
آیت مباہلہ کے مطابق پیغمبرؐ کو اپنے فرزندوں، خواتین اور اپنے نفسوں کو اپنے ہمراہ لانا تھا۔ آنحضورؐ کے ہمراہ
حسن بن علیؑ،
حسین بن علیؑ،
فاطمہ زہراؑ اور
علی بن ابی طالبؑ کے سوا کوئی نہیں تھا۔.
[ترمیم]
پیغمبر اکرمؐ اگلی صبح مباہلے کیلئے اس شان سے تشریف لائے کہ حضرت علیؑ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور حضرت حسنؑ و حسینؑ آگے آگے چل رہے تھے اور حضرت
فاطمہؑ آپؐ کے پیچھے تھیں۔ عیسائی بھی آ گئے، ان کا اسقف آگے آگے تھا۔ جب انہوں نے
نبی اکرمؐ کو ان ذوات کے ساتھ دیکھا تو یہ درخواست کی کہ پیغمبرؐ کے ہمراہیوں کا تعارف کروایا جائے۔ انہیں بتایا گیا: هذا ابن عمه و زوج ابنته و أحب الخلق إلیه و هذان ابنا بنته من علی و هذه الجاریة بنته فاطمة أعز الناس علیه و أقربهم إلى قلبه؛
یہ ان کے چچا زاد اور داماد ہیں، ان کے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ یہ دونوں ان کے نواسے ہیں اور یہ خاتون ان کی بیٹی فاطمہؑ ہیں جو پیغمبرؐ کو سب سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں۔
ایک دوسری روایت کے مطابق مباہلہ کے دن آنحضورؐ اس طرح نکلے کہ
امام حسنؑ اور
امام حسینؑ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے جبکہ
حضرت علیؑ اور
فاطمہ زہراؑ آپؐ کے ہمراہ تھے۔
نجران کے اشراف یہ منظر دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے۔ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھیوں سے کہا: خدا کی
قسم! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں جو اگر خدا سے دعا کریں کہ پہاڑ کو جا بجا کر دے تو ایسا ہی ہو گا۔
ان میں سے ایک نے
ابوحارثہ کو کہا: مباہلے کیلئے آگے بڑھو۔ اس نے کہا: میں ایک پرعزم و مصمم مرد کو مباہلہ کیلئے دیکھ رہا ہوں اور سچ میں مجھے خوف ہے کہ یہ
صادق ہو اور اگر صادق ہوا تو ایک سال کے اندر اندر کوئی بھی
عیسائی دنیا میں باقی نہیں رہے گا۔
عیسائی مباہلے سے دستبردار ہو گئے اور انہوں نے تسلیم کر لیا کہ رسول خداؐ کے ساتھ صلح کریں گے اور جزیہ دیں گے۔
ایک
صلح نامہ لکھا گیا اور طے پایا کہ عیسائی ہر سال ۲۰۰۰ لباس جزیہ کے عنوان سے دیں گے، اس صورت میں نجران کے عیسائی اور ان سے وابستہ افراد خدا و رسول کی پناہ میں اہل ذمہ ہوں گے اور ان کی جان، دین، اموال اور زمینیں محفوظ رہیں گی۔
پھر عیسائیوں نے پیغمبر اکرمؐ سے درخواست کی کہ ان کے ساتھ کوئی حاکم روانہ کر دیں تاکہ وہ ان میں
قضاوت کے فرائض انجام دے۔ پیغمبر اکرمؐ نے ابو عبیدہ جراح کو روانہ کر دیا۔
کچھ عرصے کے بعد "عاقب اور سید" مدینہ آئے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے مباہلے کا حکم حقیقت واضح ہونے کے بعد حق و باطل کو آشکار کرنے کی غرض سے تشریع کیا ہے۔ رسول اکرمؐ اور نجران کے عیسائیوں میں مباہلے نے دین اسلام کی حقانیت کو آشکار کیا۔ نجران کے عیسائی جب اس حقانیت کو سمجھ گئے تو مباہلے کیلئے تیار نہ ہوئے۔ اس کے علاوہ آیت مباہلہ سے
اہل بیتؑ کے فضائل ایک مرتبہ پھر
قرآن کی زبانی بیان ہوئے اور بشریت کو خاندان
عصمت و
طہارت کے اعلیٰ و ارفع مقام کی خبر ہوئی۔
[ترمیم]
پیغمبر اکرمؐ آگے بڑھ کر دوزانو ہو کر تشریف فرما ہو گئے۔ عیسائی
اسقف ابا حارثہ نے کہا: خدا کی قسم! یہ مرد
انبیا کی مثل بیٹھا ہے۔ نصاریٰ کے ایک بزرگ نے کہا: اے ابو حارثہ! آگے بڑھ کر مباہلہ کر۔ ابوحارثہ نے کہا: خدا کی
قسم! مباہلہ نہیں کروں گا؛ کیونکہ انہیں مباہلے کیلئے پوری طرح سے آمادہ دیکھ رہا ہوں اور خوفزدہ ہوں کہ یہ سچے ہوں تو اس صورت میں بخدا ہمارا کچھ نہیں بچے گا۔ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر خدا سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے اکھاڑنے کی دعا کریں تو وہ حتما ایسا ہی کرے گا۔ ان سے مباہلہ نہ کرو چونکہ ہلاک ہو جاؤ گے اور دنیا بھر میں کوئی نصرانی زندہ نہیں رہے گا۔
[ترمیم]
پھر اسقف نے پیغمبرؐ کو کہا: اے
ابا القاسم! ہم مباہلہ نہیں کریں گے، البتہ مصالحت کیلئے حاضر ہیں۔ ہمارے ساتھ مصالحت کر لیں۔ پیغمبرؐ نے ان کے ساتھ مصالحت کر لی کہ وہ چالیس درہم فی لباس قیمت کے دو ہزار لباس دیں گے اور اگر یمن میں کوئی شورش یا بغاوت ہوتی ہے تو وہ مسلمانوں کو تیس زرہیں، تیس نیزے اور تیس گھوڑے عاریۃً عارضی استعمال کیلئے دیں گے، پھر آپؐ نے یہ ضمانت بھی اٹھا لی کہ وہ یہ چیزیں انہیں صحیح و سالم واپس کر دیں گے۔ اس معاہدے کو لکھ لیا گیا۔ منقول ہے کہ اس واقعے کی وجہ سے کچھ مدت کے بعد مسیحی بزرگوں میں سے سید و عاقب نام کے دو بزرگ مسلمان اور مومن ہو گئے۔.
[ترمیم]
مباہلہ،
ذی الحج کے مہینے میں ہوا اور اس کا مقام پیغمبرؐ کے زمانے میں مدینہ شہر سے باہر تھا جو آج کل شہر کی حدود میں شامل ہے۔ اس جگہ
مسجد الاجابۃ کے نام سے ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کا
مسجد نبوی سے فاصلہ تقریبا دو کلومیٹر ہے۔
اس مباہلے کا دن ۲۴
ذی الحج،
سنہ دس ہجری
ذکر کیا گیا ہے اور مباہلے کا مقام وہ جگہ ہے جو اب
مسجد الاجابۃ کے نام سے مدینہ شہر میں
بقیع کے نزدیک معروف ہے۔
مباہلے کی تجویز پر نجران کے عیسائیوں نے پہلے اس کو کھلے دل سے تسلیم کر لیا، ان میں سے ایک نے کہا:
اے ابو القاسم! آپ نے انصاف سے کام لیا ہے، اس لیے کہ مباہلہ وہ نشانی ہے جو ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی
اور وعدہ کیا کہ اگلے دن مباہلہ کریں گے۔
[ترمیم]
آیت شریفہ میں اہل بیت کو ’’انفس‘‘، ’’نساء‘‘ اور ’’ابناء‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے؛ یعنی تمام مردوں، خواتین اور بچوں میں سے صرف ان ذوات کو ان الفاظ سے یاد کیا گیا ہے اور یہ ان کے اہم مناقب میں سے ہے۔ اسی وجہ سے حضرت علیؑ نے
خلیفہ دوم کے جانشین کی نامزدگی کے موقع پر اہل شوریٰ کے سامنے اس فضیلت کے ساتھ استدلال فرمایا تھا کہ تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں، کیا تم میں سے کوئی بھی نسَب میں مجھ سے زیادہ
رسول اللہ سے نزدیک ہے؟! کیا میرے علاوہ تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جس کی اولاد، رسول اللہ کی اولاد ہو، جس کی نساء، رسول اللہ کی نساء ہو؟! انہوں نے کہا: ہم میں سے کسی کی یہ فضیلت حاصل نہیں ہے۔
یہ واقعہ اہل بیتؑ کی فضیلت میں ہے؛ یوں کہ اصحاب اس پر رشک کرتے تھے۔
صحیح مسلم میں
سعد بن ابی وقاص سے منقول ہے کہ
معاویہ بن ابی سفیان نے سعد سے کہا: تم کیوں علیؑ کو برا بھلا نہیں کہتے؟! انہوں نے کہا: اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول خداؐ سے علیؑ کی فضیلت میں تین ایسی فضیلتیں سنی ہیں کہ جن کی وجہ سے ہرگز انہیں گالی نہیں دوں گا اور اگر ان میں سے ایک بھی میرے لیے ہوتی تو سرخ بالوں والے بکثرت اونٹوں سے بہتر ہوتیں۔
وہ فضائل یہ ہیں:
۱۔ جب حضرتؐ ایک غزوہ پر جا رہے تھے تو علیؑ کو اپنی جانشینی میں
مدینہ چھوڑ گئے۔ حضرت علیؑ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے عورتوں اور بچوں پر چھوڑ کر جا رہے ہیں؟! رسول خداؐ نے فرمایا:
أما ترضى أن تکون منی بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدی؛ کیا آپ خوش نہیں ہے کہ آپ کی میرے سے نسبت وہی ہو جو
ہارون کی
موسیٰ سے تھی؛ اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔
۲۔
جنگ خیبر کے دن میں نے رسول خدا سے سنا کہ فرمایا: لأعطین الرایة رجلا یحبّ اللّه و رسوله ویحبه اللّه ورسوله؛ اسلام کا پرچم اسے عطا کروں گا جو خدا و رسول سے محبت کرتا ہے اور خدا و رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں! یہ فرمان سن کر ہم سب ایسے عطیہ کی انتظار میں تھے اور ہاتھوں کو آستینوں سے نکالے ہوئے تھے تاکہ اسلام کا پرچم تھام سکیں، اس وقت رسول خداؐ نے فرمایا: علیؑ کو میرے پاس لاؤ۔ علیؑ کو اس حال میں رسول اکرمؐ کے پاس لے جایا گیا کہ آپؐ کی آنکھوں میں درد تھا۔ رسول خداؐ نے اپنا لعاب دہن علیؑ کی آنکھوں پر ملا، آپ کی آنکھیں ٹھیک ہو گئیں اور اسلام کا پرچم ان کے ہاتھ دیا اور حضرت علیؑ کی برکت سے اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔
۳۔ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول خداؐ نے حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ اور امام حسن و حسینؑ کو بلایا اور فرمایا: اللهم هولاء اهلى؛ خدایا! یہ میرے
اہل بیت ہیں۔
[ترمیم]
مباہلے کے واقعے سے درج ذیل پیغامات کو اخذ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اگر انسان کو اپنے ہدف پر کامل یقین ہو تو وہ خود کو اور اپنے قریبی ترین نزدیکیوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ من بعد ما جاءک من العلمِ.
۲۔ مومن کا آخری اسلحہ، دعا ہے۔ فقل تعاوا ندع.
۳۔ دعا کی مجالس میں بچوں کو ساتھ لے جائیں۔أَبناءنا.
۴۔ غیب سے استمداد کا مرحلہ فراہم وسائل کو بروئے کار لانے کے بعد آتا ہے۔’’نبتهِل‘‘۔
۵۔ دعا میں اہل دعا کے حالات اہم ہیں۔ نہ ان کی تعداد۔ مباہلہ کرنے والے پانچ سے زیادہ نہ تھے۔’’أَبْناءَنا‘‘، ’’نِساءَنا‘‘، اور ’’أَنْفُسَنا‘‘۔
۶۔ مرد و زن مختلف دینی کاموں میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہیں۔’’نساءنا‘‘۔
۷۔ علی بن ابی طالبؑ رسول اللہؐ کی جان ہیں۔ ’’انفسنا‘‘۔
۸۔ پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ کی دعا مقبول ہے۔ ’’أَبناءنا‘‘، ’’نساءنا‘‘ اور ’’أَنفسنا‘‘۔
۹۔ بیٹی کی اولاد بیٹے کی اولاد کی طرح انسان کی اپنی اولاد ہے۔’’أَبنائنا‘‘؛ اس اعتبار سے امام حسنؑ اور امام حسینؑ پیغمبرؐ کی اولاد ہیں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «مباهله»،لنک پر نظرثانی ۹۵/۱/۱۷۔ سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «مباھلہ»،لنک پر نظرثانی ۹۵/۱/۱۷۔ [.]