مقتضی میں شک کا استصحاب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
مقتضی میں
شک کے استصحاب سے مراد شک ہو جانے کے بعد مستصحب کی بقاء کا
حکم لگانا ہے اگر اس میں بقاء کی قابلیت ہو۔
[ترمیم]
شک در مقتضی کے استصحاب کے مقابلے میں
شک در رافع کا استصحاب آتا ہے۔ شک در مقتضی کا تعلق شیء کے باقی ہونے میں شک سے ہے کیونکہ شیء میں باقی رہنے کی استعداد کی مقدار اور اس میں بقاء کے تقاضے کی کمیت کا ہونے یا نہ ہونے کا شک پیدا ہو جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر شک در مقتضی کے استصحاب سے مراد یہ ہے کہ اگر ایک چیز کے بارے میں شک ہو اور وہ چیز مستمر اور باقی رہنے کی قابلیت رکھتی ہے تو اس صورت میں اس شیء کی بقاء اور استمرار کا حکم لگایا جائے گا، مثلاً شخص کو
قطع ہے کہ
مغبون کے لیے
خیار غبن ثابت ہے لیکن وہ شک کرتا ہے کہ آیا یہ
خیار فوری ہے یا نہیں۔
[ترمیم]
اس نوع کی
حجیت میں علماء اصول کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:
۱. بعض علماء اصول جیسے
شیخ انصاری اور
محقق نائینی معتقد ہیں کہ
استصحاب فقط
شک در رافع میں جاری ہوتا ہے جبکہ شک در مقتضی میں استصحاب جاری نہیں ہوتا۔
۲. بعض دیگر علماء جیسے
اخوند خراسانی قائل ہیں کہ استصحاب ہر دو مورد شک در رافع اور شک در مقتضی میں جاری ہوتا ہے۔
[ترمیم]
شک در رافع اور
شک در مقتضی میں بنیادی فرف مستصحب کی استعداد کے حوالے سے ہے۔ شک در مقتضی میں چیز کی بقاء کے بارے میں شک ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس شیء میں
بقاء کی استعداد اور قابلیت کے بارے میں شک پایا جاتا ہے۔ پس اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شک در مقتضی اس مورد میں ہوتا ہے جب ایک شیء میں باقی رہنے کی قلیل استعداد اور قابلیت پائی جائے۔ جبکہ شک در رافع میں چیز میں دوام اور بقاء کے استمرار کا
یقین اور علم ہے لیکن شک اس میں ہے کہ آیا ایسا کوئی
رافع ہے جو اس وجود کو ختم کر دے یا نہیں۔
[ترمیم]
شک در مقتضی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگنامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۱۶۲، یہ تحریر مقالہ استصحاب با شک در مقتضی سے مأخوذ ہے۔