خیار غبن
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
خیار غبن سے مراد غبن کی وجہ سے معاملہ کے ہر دو فریق کو عقد
فسخ کرنے کا تسلط حاصل ہونا ہے۔
علم فقہ میں مکاسب کے باب میں اس عنوان سے بحث کی جاتی ہے
[ترمیم]
غبن
عربی زبان کا لفظ ہے جس کے غین پر فتحہ اور باء پر سکون آتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اس کا صحیح تلفظ
غَبۡن ہے۔
[ترمیم]
عربی
لغت میں غبن کا مطلب دھوکا اور
فریب و مکر ذکر کیا گیا۔
[ترمیم]
اصطلاح میں غبن سے مراد کسی شخص کا اپنے مال کو اس کی حقیقی
قیمت سے کم قیمت پر بیچنا یا جہالت کی وجہ سے دھوکا کھاتے ہوئے ایک شیء کا مہنگے داموں یعنی اصل قیمت سے زائد پر بیچنا یا خریدنا ہے۔
قیمت کے زیادہ یا کم ہونے سے مراد معاملہ میں مقررہ شرائط کے مطابق بننے والی قیمت کا کا کم یا زیادہ ہونا ہے۔ لہٰذا اگر دکاندار ایک ایسا چیز بیچتا ہے جس کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے اور خود کے لیے
خیار کا
حق رکھنے کی
شرط پر وہ اس چیز کو ۱۰۰ روپے سے کم قیمت پر بیچتا ہے تو یہ غبن نہیں کہلائے گا؛ کیونکہ شیء کو جس قیمت پر بیچا گیا ہے وہ اگرچے اس کی قیمت سے کم ہے لیکن دکاندار نے بغیر خیار کے
بیع کو لازم بناتے ہوئے جنس کو بیچا ہے۔
[ترمیم]
علم فقہ میں کتاب متاجر جسے کتاب مکاسب سے بھی موسوم کیا جاتا ہے میں خیار غبن سے بحث کی جاتی ہے۔
[ترمیم]
فقہاء کرام میں معروف ہے کہ بلکہ اس پر
اجماع کا دعوی کیا گیا ہے کہ معاملہ میں غبن کی صورت میں دکاندار یا گاہگ کے لیے خیار غبن ثابت ہے۔ یہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ
واقع میں جو شیء کی قیمت یا شیء کی جنس ہے اس سے جاہل ہونے کی وجہ دھوکا کھایا ہے۔
بعض قدماء سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ خیار غبن جیسے کسی خیار کے ثبوت کے قائل نہیں۔
عبن کی صورت میں خیار کا ثابت ہونا دو شرط کے ساتھ مشروط ہے:
۱۔
عقد کے وقت مغبون کا اصل قیمت سے جاہل ہونا۔
۲۔ اس قدر زیادہ اور بھاری قیمت پر بیچنا جو عرفی طور پر نظر انداز نہ کی جا سکے۔
پس اگر مغبون کو قیمت کا علم تھا یا
عرف کی نظر میں قیمت معمولی سی زیادہ تھی تو ہر دو صورتوں میں خیارِ غبن ثابت نہیں ہو گا۔
فقہاء میں اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ خیارِ غبن کب ثابت ہوتا ہے، آیا غبن کے آشکار ہونے کے بعد خیارِ غبن ثابت ہوتا ہے یا جب عقد ہوا تھا اسی وقت خیار غبن ثابت ہو گیا تھا؟ اس اختلاف یہاں سے جنم لیتا ہے کہ آیا غبن کا ظاہر ہونا خیار کے شرعی قرار پانے کی شرط ہے یا نہیں بلکہ غبن کا ظاہر ہونا عقلی طور پر
خیار کے ثابت ہونے کو بیان کرتا ہے؟ پہلے مبنی کے مطابق اس وقت خیارِ غبن کا آغاز ہو گا جب غبن کا علم ہو جائے ۔ اس کے برخلاف دوسرے مبنی کے تحت خیار کے ثبوت کا آغاز اس وقت ہو جاتا ہے جب عقد ہوا ہے۔
خیارِ غبن آیا فوری ہے یا تأخیر کی صورت میں بھی ثابت ہے؟ پہلے قول کی نسبت مشہور کی طرف دی گئی ہے۔ پہلے قول یعنی خیارِ غبن کے فوری ہونے کی صورت میں جیسے مغبون کو غبن سے آگاہی ہو گی اسی وقت فورا معاملہ کو فسخ کرنا ضروری ہو گا اور تأخیر کی صورت میں اس کا خیار ساقط ہو جائے گا۔ لیکن دوسرے قول کی صورت میں تراخی جائز ہے اور وقت یا زمانے کے اعتبار سے تأخیر کی صورت میں خیارِ غبن ساقط نہیں ہو گا۔ البتہ اتنی تأخیر نہیں ہونی چاہیے کہ معاملہ میں مد مقابل دوسرے فریق کا نقصان نہ ہو۔
بیع اور خرید و فروخت کے علاوہ دیگر مالی عقود جیسے
اجارہ،
صلح وغیرہ میں خیارِ غبن کے ثابت ہونے میں اختلاف ہے۔
۱. عقد کے ضمن میں خیارِ سقوط کی شرط عائد کرنا۔ اگر معاملہ کرتے ہوئے عقد میں یہ شرط لگائی جائے کہ اگر جنس میں غبن نکل آیا تو خیارِ غبن ساقط ہو گا اور اس کے بعد مغبون کے لیے غبن نکل آئے تو مغبون کے لیے خیارِ غبن ثابت نہیں ہو گا اور شرط کو پورا کرنا لازم قرار پائے گا۔
البتہ اگر غبن کی خاص مقدار یا خاص مرتبہ کے نکلنے کی صورت میں شرط باندھی گئی تھی اور اس عقد میں اس کا تذکرہ ہوا تھا تو فقط اس صورت میں خیار غبن ساقط ہو گا جب اس خاص مقدار یا خاص مرتبہ کا غبن سامنے آئے۔ چنانچہ اگر بالفرض ۱۰ فیصد غبن ظاہر ہونے پر سقوطِ خیار کی شرط باندھی گئی تھی اور غبن ۲۰ فیصد نکل آئے تو خیارِ غبن ساقط نہیں ہو گا۔
بعض فقہاء عقد میں سقوطِ خیار کی شرط کو باطل اور
عقد کے بطلان کا سبب سمجھتے ہیں۔
۲. عقد کے بعد خیار کو ساقط کرنا۔ خیار کو یا تو غبن سے آگاہ ہونے کے بعد ساقط کیا گیا یا اس جہل کی صورت میں ساقط کیا گیا، ہر دو صورتوں میں یا تو اس کے بدلے میں ٔعوض دے دیا گیا تھا یا اسقاط مفت میں کیا گیا۔ اگر اسقاطِ خیار مرتبہِ غبن سے آگاہ ہونے کی صورت میں ہو چاہے مجانی ہو یا اس کے مقابل عوض کو دریافت کرنے کی صورت میں ہو ہر دو صورتوں میں یہ اسقاط خیارِ غبن کے ساقط ہونے کا باعث قرار پائے گا۔ اسی طرح اگر مرتبہِ غبن سے جاہل ہونے کی صورت میں اسقاط خیار کرے اور تصریح کرے کہ جس مرتبہ کا بھی غبن نکلے گا خیار ساقط ہو گا، لیکن غبن کے نکلنے سے پہلے اور اس سے آگاہ ہونے سے پہلے خیارِ غبن کا اسقاط کی وجہ سے ساقط ہونا بالخصوص اسقاط کے مقابلے میں
عوض لے لینے کی صورت میں سقوطِ خیار محل بحث ہے۔
۳. مغبون کا مال میں تصرف کرنا۔ یہ تصرف یا تو غبن نکلنے کے بعد ہو گا یا اس سے پہلے۔ پہلی صورت میں غبن ظاہر ہونے کے باوجود مغبون کا مال میں تصرف کرنا اس معاملہ پر راضی ہونے کی نشاندہی کرے گا اور یہ تصرف خیارِ غبن کے ساقط ہونے کا باعث بن جائے گا۔
اسی طرح قولِ مشہور کے مطابق اگر
تصرف غبن کے ظاہر ہونے سے پہلے کیا جائے جوکہ مال کا مغبون کی
ملکیت سے نکلنے کا سبب بن رہا ہو ہو، مثلا اس نے اس چیز کو بیچ دیا ہے یا چیز کے واپس پلٹانے سے مانع بن رہا ہو، جیسے خریدا گیا غلام آزاد کر دیا گیا ہو تو یہ تصرف بھی خیارِ غبن کے ساقط ہونے کا باعث بن جائے گا۔
البتہ غبن کے آشکار ہونے سے پہلے ہر قسم کے تصرفات خیارِ غبن کے ساقط ہونے کا باعث نہیں بنتے۔
غبن کرنے والا اگر عین میں ایسا تصرف کرے جو
عین کو تبدیل کر دے تو عابن کی طرف سے یہ تصرف یا تو نقصان کی صورت میں ہے یعنی عین کم ہو گئی یا زیادتی کی صورت میں ہے یعنی عین میں مزید اضافہ کر دیا ہے یا خلط کی صورت میں ہے یعنی کسی دوسری شیء کو اس کے ساتھ ملا کر عین میں تبدیلی واقع کر دی، ان سب صورتوں کے جدا جدا فقہی احکام ہیں جو علم فقہ کی تفصیلی کتب میں وارد ہوئی ہیں اور ہمارے دائرہ بحث سے فی الحال خارج ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہم السلام،ج۳، ص ۵۵۳۔