ولایت فقیہ کا تصوّر
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ولایت فقیہ کی علمی تعریف کیلئے
فقہ ،
فقیہ اور
ولایت کے مفاہیم کی دقیق شناخت ضروری ہے۔ اس اعتبار سے پہلے یہ تعریفات پیش کریں گے پھر بحث کی تکمیل کیلئے کچھ مطالب نظریہ ولایت فقیہ کے بارے میں بیان کریں گے۔
ولایت فقیہ ایک اہم بحث ہے جس کی شناخت بالخصوص جوان نسل کیلئے ضروری ہے۔
[ترمیم]
فقہ، لغت میں فہم، آگاہی اور دانائی کے معنی میں ہے۔
خواه دین سے مربوط ہو یا کسی اور چیز سے۔ کتاب لسان العرب میں فقہ کا معنی علمِ محض سے وسیع تر ہے اور اس سے مقصود وہ علم و دانش ہے جس میں دقتِ نظر اور استنباط کی استعداد ہو۔
اصطلاح میں فقہ،
دینی علوم اور الہٰی
احکام کے دقیق علم اور تفصیلی ادلہ (کتاب، سنت، عقل اور اجماع) سے ان کے استنباط کی صلاحیت کا نام ہے۔ بالفاظ دیگر فقہ، دینی علوم کی ایک شاخ اور استنباط و اجتہاد کے ذریعے شرعی احکام کا علم حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔
فقیہ وہ ہے جو اسلای علوم میں ماہر ترین ہو اور الہٰی احکام کا ان کی ادلہ سے استنباط کر سکتا ہو۔
ولایت کے مختلف معانی ہیں۔ اس کا لغوی مادہ ’’ولی‘‘ بمعنی ’’قرب‘‘ہے؛ یعنی دو یا چند اشیا میں اتصال اور جوڑ۔ دو چیزوں کے عمیق اتصال سے ولایت حاصل ہوتی ہے۔
قرآن و
روایات میں متعدد مقامات پر کلمہ ’’ولی‘‘؛ سرپرستی، عوامی امور کے اختیارات اور امر و نہی کا حق رکھنے کے معنی میں ہے؛ چنانہ ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمۡ رَٰكِعُونَ تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو
نماز قائم کرتے ہیں اور حالت
رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
ٱلنَّبِيُّ أَوۡلَىٰ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ مِنۡ أَنفُسِهِمۡۖ وَأَزۡوَٰجُهُۥٓ أُمَّهَٰتُهُمۡۗ وَأُوْلُواْ ٱلۡأَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ أَوۡلَىٰ بِبَعۡضٖ فِي كِتَٰبِ ٱللَّهِ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ وَٱلۡمُهَٰجِرِينَ إِلَّآ أَن تَفۡعَلُوٓاْ إِلَىٰٓ أَوۡلِيَآئِكُم مَّعۡرُوفٗاۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي ٱلۡكِتَٰبِ مَسۡطُورا نبی
مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی
ازواج ان کی مائیں ہیں اور کتاب اللہ کی رو سے رشتے دار آپس میں مومنین اور
مہاجرین سے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ فَإِن تَنَٰزَعۡتُمۡ فِي شَيۡءٖ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمۡ تُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلۡيَوۡمِ ٱلۡأٓخِرِۚ ذَٰلِكَ خَيۡرٞ وَأَحۡسَنُ تَأۡوِيلًا اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز
آخرت پر
ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔
[ترمیم]
ولایت کی ’’تکوینی‘‘ و ’’تشریعی‘‘ دو قسمیں ہیں:
ولایت تکوینی کا معنی موجودات اور کائنات کے امور میں تصرف ہے۔ یہ ولایت خدا کیلئے مخصوص ہے۔ تخلیق، تغیر و تبدل اور تمام موجودات کی بقا اس کے ہاتھ میں ہے اور سب خدا کے ارادے اور قدرت کے ماتحت ہیں۔ خدائے متعال بعض اوقات اس ولایت کا کوئی نہ کوئی درجہ اپنے بعض بندوں کو بھی عطا کر دیتا ہے۔
انبیا و
اولیا کے معجزات اسی ولایت تکوینی کے آثار میں سے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ولایت فقیہ کا ولایت تکوینی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ولایت تشریعی کی دو قسمیں ہیں:
توحید ربوبی کی بنیاد پر خدا سے منسوب نہ ہونے والا ہر طرح کا قانون شرک در تشریع پر منتہی ہوتا ہے۔
إِنِ ٱلۡحُكۡمُ إِلَّا لِلَّهِۖ قانون سازی کی اجازت صرف اسے ہے جس کو خدا نے اذن دیا ہو۔ جیسے پیغمبر اکرمؑ اور آئمہ معصومینؑ۔ قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلۡهَوَىٰٓ•إِنۡ هُوَ إِلَّا وَحۡيٞ يُوحَىٰ اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے۔ اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِي ٱلۡأَمۡرِ مِنكُمۡۖ ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں۔
امام صادقؑ نے بھی فرمایا ہے:
فما فوض الله الی رسوله فقد فوض الینا اللہ نے جو اختیارات اپنے رسول کے سپرد کیے تھے، وہ اب ہمارے سپرد کر دئیے گئے ہیں۔
آیت اللہ معرفت اس موضوع کی وضاحت میں لکھتے ہیں: یہ آئمہ معصومینؑ نبوت کی امانتوں کے حامل تھے اور پیغمبر اکرمؐ کی تعلیم و تربیت اور
روح القدس کی تائید کے ساتھ حقیقی علوم سے آگاہ تھے، مسائل کی نسبت سے احکام کے اصلی ملاکات سے مکمل آگاہ تھے اور زمانے کے حالات اور اسلامی مصلحت کے پیش نظر احکام کی تشریع کرتے تھے۔
زمانہ
غیبت میں آئمہ معصومینؑ کی طرف سے
جامع الشرائط فقیہ کو اسلامی تعلیمات اور معاشرتی بھلائی کے پیش نظر متغیر قوانین کو وضع کرنے کی آئمہ معصومینؑ کی طرف سے اجازت ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ فقیہ، زمانے کے حالات سے آگاہ ہو، زمان و مکان کے تقاضوں کو تشخیص دے سکتا ہو اور تقویٰ و پرہیزگاری سے برخوردار ہو۔
توحید در اطاعت و
ولایت کی تعلیمات کے مطابق کوئی یکتا پرست
انسان ہرگز کسی غیر الہٰی فرد یا نظام کے حکم کو تسلیم نہیں کر سکتا اور اذن خدا کے بغیر کسی کو اپنا
ولی، سرپرست اور مالک نہ بنائے کہ بلا چون و چرا اس کی اطاعت کرنے لگے:
ٱتَّخَذُوٓاْ أَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَٰنَهُمۡ أَرۡبَابٗا مِّن دُونِ ٱللَّهِ وَٱلۡمَسِيحَ ٱبۡنَ مَرۡيَمَ وَمَآ أُمِرُوٓاْ إِلَّا لِيَعۡبُدُوٓاْ إِلَٰهٗا وَٰحِدٗاۖ لَّآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَۚ سُبۡحَٰنَهُۥ عَمَّا يُشۡرِكُونَ ان لوگوں نے اپنے عالموں اور راہبوں اور
مسیح بن مریم کو خدا کو چھوڑ کر اپنا رب بنا لیا ہے حالانکہ انہیں صرف خدائے یکتا کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ واحد و بے نیاز ہے اور ان کے مشرکانہ خیالات سے پاک و پاکیزہ ہے۔ البتہ اگر خدائے سبحان کسی کیلئے ایسا حق تشریع اور وضع کر دے تو پھر شرک نہیں ہے؛ چنانچہ قرآن فرماتا ہے:
ٱلنَّبِيُّ أَوۡلَىٰ بِٱلۡمُؤۡمِنِينَ مِنۡ أَنفُسِهِمۡۖ نبی
مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے نیز
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمۡ رَٰكِعُونَ تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو
نماز قائم کرتے ہیں اور حالت
رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
ان
آیات کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے
تدبیری ولایت اور معاشرے کا نظم و نسق چلانے کا حق پیغمبرؐ اور آئمہ معصومینؑ کو دیا ہے، صرف وہی معاشرے کی حاکمیت اور سیاسی رہبری کو ہاتھ میں لے سکتے ہیں اور برسراقتدار آ سکتے ہیں۔ مختلف دلائل کی بنیاد پر کہ جنہیں ہم بیان کریں گے ایسی ولایت آئمہ اطہارؑ کی جانب سے واجد الشرائط فقہا کے سپرد کی گئی ہے۔ وہ معصومینؑ کی نیابت میں قانون سازی کا حق رکھنے کے علاوہ ولایت، زعامت اور معاشرے کی رہبری کے حامل ہیں۔ ان کا فریضہ اسلامی معاشرے کے امور کی تدبیر، سرپرستی اور اجتماعی نظم و انتظام ہے۔
مذکورہ بالا بیانات کی روشنی میں ولایت کا معنی یہ ہے: حکومت کو سنبھالنا اور چلانا۔
یعنی اسلامی معاشرے کی دینی و سیاسی سربراہی ایسے
عادل اور متقی فقیہ کے توسط سے انجام پائے کہ جس میں رہبری کی ضروری شرائط موجود ہوں۔
[ترمیم]
۱۔ ولایت فقیہ کے اثبات کیلئے تاریخی اعتبار سے پہلے علم
کلام میں بحث کی جاتی تھی نہ فقہ میں۔ اس لیے کلامی کتب میں سے جن جن میں امامت، رہبری اور اس کی حدود و قیود کے بارے میں بحث کی گئی ہے، انہیں ولایت فقیہ کی کتب بھی کہا جائے گا۔ اس لیے بہت سے
شیعہ فقہا نے ضروری نہیں سمجھا کہ اپنی فقہی کتب میں سیاست، ولایت اور امارت کی مباحث سے ایک جداگانہ باب کو مخصوص کریں۔ البتہ اس کے علاوہ فقہا پر پابندی، حاکمیت سے دوری اور تقیہ کو بھی ان مباحث کو پیش کرنے سے گریز کے عوامل میں شمار کیا جانا چاہئیے۔
۲۔ تاریخ کے معروف شیعہ فقہا ہمیشہ ولایت فقیہ پر یقین رکھتے تھے اور جب بھی اس کے اجرا کا امکان ہوتا تو اسے فوری نافذ کرتے تھے۔
۳۔ ولایت فقیہ سے متعلق نظریہ پردازی پر زمانی و مکانی حالات و واقعات کا اثر ایک مسلمہ اصول ہے؛ یعنی جن وقتوں میں شیعہ فقہا کو سیاسی مسائل کا زیادہ سامنا ہوا، سیاسی مباحث کو فروغ ملا اور جب کسی وجہ سے سیاسی مسائل کم رنگ ہوئے، سیاسی مسائل پر فقہی ابحاث بھی کم پیش ہوئیں۔
۴۔ تاریخ میں فقہ و فقاہت کے مایہ ناز علما نے ولایت مطلقہ فقیہ (یعنی مال و جان میں تصرف بشمول سیاسی امور کی تدبیر پر ولایت) کو قبول کیا ہے۔
محقق کرکیؒ اس پر
اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں اور یہ اجماعِ منقول و محصّل کے ذریعے بھی قابل اثبات ہے۔
۵۔ دسویں صدی میں محقّق کرکی کچھ مدت کیلئے ولایت فقیہ کا عملی اجرا کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ یہ بات درست نہیں ہے کہ سب سے پہلے
امام خمینیؒ نے ولایت فقیہ کو نافذ کیا ہو؛ اگرچہ پہلی منظم و مستحکم اسلامی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ان کے کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
۶۔ بزرگ شیعہ فقہا علم فقہ کے ماہر والی کو
امام معصومؑ کی جانب سے منصوب و ماذون(مشمولِ اذن) قرار دیتے تھے نہ کہ عوام کی جانب سے ماذون و منصوب۔ اس لیے فقیہ کی حکومت در حقیقت انتصاب پر مبنی ہے نہ انتخاب پر (اگرچہ استعداد سے فعلیت کی طرف منتقل ہونے کے حوالے سے لوگوں کے استقبال کی ضرورت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا)
[ترمیم]
۱۔ انبیاء کی بعثت کا ایک اہم ترین ہدف ہونے کے عنوان سے معاشرے کی تربیت؛
۲۔
عدالت کا اجرا اور تمام اسلامی قوانین میں اس کی محوریت؛
۳۔
انسان کامل کا عملی نمونہ؛
۴۔ اسلامی اقدار کی بنیاد پر معاشی، سیاسی اور ثقافتی پروگرام کی تدوین؛
۵۔ غیر جانبداری کے ساتھ قوم کے ہرفرد کی مخلصانہ، پدرانہ اور حکیمانہ رہنمائی؛
۶۔ عوام الناس کی زندگی میں فلاح و بہبود کے وسائل کی فراہمی؛ زراعت،
صنعت و حرفت اور
تجارت میں ترقی؛ لوگوں کی فی کس آمدنی میں اضافہ؛
۷۔ استعمار کی سازشوں کو بے نقاب کرنا اور انہیں ملکی معاملات میں دخل اندازی سے روکنا؛
۸۔ ملت کے افراد میں وحدت پیدا کرنا بالخصوص بحرانی اوقات میں؛
۹۔ بڑی ملکی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مسئولین کے انحراف کا سد باب؛
۱۰۔ ملکی قیادت کے سیاسی انحراف اور غیر ملکی اثر و رسوخ کا راستہ روکنا؛
۱۱۔ ملک اور انقلاب کی عزت میں اضافہ کرنا؛
۱۲۔ دین اور سیاست میں جدائی کے عدم امکان کا مظہر؛
[ترمیم]
[ترمیم]
دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم،سایت بلاغ،ماخوذ از مقالہ ’’اندیشه ولایت فقیہ‘‘۔