یاس
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
یأس
عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی مایوسی اور ناامیدی کے ہیں۔ یہ کلمہ
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں متعدد جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ روایات کے مطابق مایوسی اس وقت انسانی نقائص میں سے ایک نقص شمار ہوتی ہے جب
اللہ سبحانہ سے مایوسی اور نا امیدی کا احساس کیا جائے۔ کیونکہ اس کا شکار ہونے کی وجہ سے انسان
ہمت توڑ دیتا ہے اور عدم
توکل اور شکوہ شکایت آہستہ آہستہ اس کے
ایمان کے ختم ہونے کا سبب بن جاتے ہیں۔ وارد ہوا ہے کہ انسان کا لوگوں سے نا امید اور مایوس ہونا اس کے کمال اور بزرگی کی علامت ہے۔
[ترمیم]
راغب اصفہانی یأس و مایوسی کا معنی بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:
اليَأْسُ انتفاءُ الطّمعِ؛ مایوس ہونا یعنی طمع کا ختم ہو جانا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جس شے کی طرف رغبت تھی اس کے حصول کا موقع ہاتھ سے نکل جائے اسے یأس کہیں گے۔
ابن فارس تحریر کرتے ہیں:
الْيَأْسُ قَطْعُ الرَّجَاءِ؛ مایوسی امید کو منقطع کر دیتی ہے۔
بعض
اہل لغت نے اس کا معنی جاننا اور شیء کا واضح ہونا ذکر کیا ہے۔ اسی سے یہ
کلمہ مایوسی کے لیے استعمال ہونا شرورع ہوا کیونکہ انسان جس
امر سے مایوس ہوتا ہے اسے اس شیء کے حاصل نہ ہونے کا
علم حاصل ہوتا ہے۔
[ترمیم]
مفسرین نے یأس اور مایوسی کی وضاحت پیش کی ہے۔ معروف مفسیر شیخ
طبرسی مایوسی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مایوسی سے مراد يہ ہے کہ ہمیں یقین حاصل ہو جاۓ جس چیز کی ہم تمنا و خواہش کر رہے ہیں وہ ہاتھ میں آنے والی نہیں۔
[ترمیم]
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَلا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ؛ تم لوگ اللہ کی
رحمت سے نا امید مت ہو۔
سورہ مائدہ آيت ۳ میں ارشاد ہوتا ہے:
الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ؛ آج کافر لوگ تمہارے
دین سے مایوس ہو چکے ہیں۔
سورہ رعد میں وارد ہوا ہے:
أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُواْ أَن لَّوْ يَشَاءُ اللّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا؛ کیا اہل ایمان پر یہ واضح نہیں کہ اگر
اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو
ہدایت دے دیتا۔
[ترمیم]
لفظ یأس کے دو مترادف جو
قرآن کریم میں استعمال ہوۓ ہیں:
۱۔
ابلاس: اس کے معنی
خیر اور بھلائی سے شدید طور پر مایوس ہو جانے کے ہیں۔ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ لفظ
ابلیس در اصل ابلاس سے مشتق ہے۔ پس ابلیس کے معنی وہ ذات ہے جو شدید طور پر خیر و بھلائی سے مایوس ہو چکا ہو۔ صاحب تفسیر جامع البیان نے ذکر کیا ہے:
وإبليس إفعِيل، من الإبلاس، وهو الإياس من الخير؛ لفظ ابلیس افعیل کے وزن پر ہے اور يہ عربی زبان کے لفظ ابلاس سے مشتق ہے جس کے معنی خیر و نیکی سے مایوس ہونے والے کے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ؛ پھر جب انہوں نے وہ
نصیحت فراموش کر دی جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر طرح (کی خوشحالی) کے دروازے کھول دیے یہاں تک کہ وہ ان بخششوں پر خوب خوش ہو رہے تھے ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا پھر وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔
سوره روم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَإِن كَانُوا مِن قَبْلِ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْهِم مِّن قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ؛ اگرجے اس بارش کے اپنے پر برسنے سے پہلے وہ ناامید ہو گئے تھے۔
۲۔
قنوط: اس کلمہ کے اصلی حروف قاف، نون اور طاء ہیں جس کے معنی کسی شیء سے امیدیں ختم کر لینا یا کسی سے مایوس ہو جانے کے ہیں۔ ابن فارس نے بیان کیا ہے کہ قنوط کے معنی خیر سے مایوس ہو جانا یا رحمت الہٰی سے مایوس ہو جانے کے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم؛ کہہ دیجئے اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر
ظلم و زیادتی کی اللہ کی
رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے۔
ایک اور
آیت میں وارد ہوا ہے:
قَالُواْ بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلاَ تَكُن مِّنَ الْقَانِطِين؛ کہنے لگے: ہم نے آپ کو حق کے عین مطابق خوشخبری دی ہے، لہٰذا آپ مایوس و ناامید نہ ہوں۔
[ترمیم]
[ترمیم]
فرہنگ علم کلام، احمد خاتمی، ص ۲۳۲۔
بعض مطالب محققین ویکی فقہ اردو کی طرف سے اضافہ کیے گئے ہیں۔