محمد بن ابی حذیفہ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



محمد بن ابی حذیفہ معروف صحابیِ رسول اللہؐ تھے جن کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور معاویہ کے ماموں کے بیٹے یعنی کزن تھے۔ آپ کی پرورش خلیفہ سوم عثمان بن عفان نے کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ کا شمار امام علیؑ کے انصار اور شیعوں میں ہے۔ معاویہ نے آپ امام علیؑ کی حمایت، نصرت اور شدید قلبی لگاؤ رکھنے کی بناء پر ۳۶ ھ یا ۳۸ ھ کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔ آئمہؑ نے محمد بن ابی حذیفہ کی مدح و ستائش کی ہے اور انہیں امام علیؑ کا حامی قرار دیا ہے۔


محمد بن ابی حذیفہ کا تعارف

[ترمیم]

محمد بن ابی حذیفہ بنو امیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور معاویہ کے ماموں کے بیٹے یعنی کزن لگتے ہیں۔ علماء رجال و اہل سیر نے تحریر کیا ہے کہ آپ کا نام محمد بن ابی حذیفہ بن عتبۃ بن ربیعۃ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی عَبَشمی تھأ اور آپ کی کنیت ابو القاسم تھی۔ آپ قبیلہ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ والد ابو حذیفہ تھے جنہیں رسول اللہؐ کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے جبکہ آپ کی والدہ سہلہ بنت سہیل بن عمرو عامریہ تھیں۔

محمد بن ابی حذیفہ کی حبشہ ولادت

[ترمیم]

محمد کے والد ابو حذیفہ مکہ میں ایمان لائے اور رسول اللہؐ کے کہنے پر سب سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ جب ابو حذیفہ نے ہجرت کی تو ان کی زوجہ سہلہ بنت سہیل کے بطن سے محمد متولد ہوئے۔

محمد بن ابی حذیفہ کا صحابی ہونا

[ترمیم]

علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ محمد بن ابی حذیفہ کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہؐ کی رحلت کے وقت آپ کی عمر ۱۱ سال یا اس سے زیادہ تھی۔ محمد کے والد ابو حذیفہ کا شمار بدری صحابہ میں ہوتا ہے۔ محمد کا دادا عتبہ بن ربیعہ مشرکین کا سردار تھا جوکہ غزوہ بدر میں قتل ہوا۔ رسول اللہؐ کی رحلت کے بعد مسلمانوں کی پہلی جنگ ۱۲ ہجری کو مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوئی جوکہ جزیرہ عرب میں یمامہ کے علاقے میں لڑی گئی۔ اس جنگ میں محمد کے والد ابو حذیفہ ۳۵ سال کی عمر میں مارے گئے اور اس طرح وہ یتیم ہو گئے۔ باپ کے قتل ہونے کے بعد محمد کو خلیفہ سوم نے گود لے لیا اور نگرانی میں پالا بوسا۔

محمد بن ابی حذیفہ کا امام علیؑ کا حامی ہونا

[ترمیم]

ایسا کم ہوتا ہے کہ مخالفین کے دامن سے کوئی حامی و دوست پیدا ہو جائے۔ مکتبِ اہل بیتؑ سے صادر ہونے والی معتبر احادیث میں بعض ایسے افراد کی جانثاری اور وفاداری کا تذکرہ وارد ہوا ہے جو نسل کے اعتبار سے مخالفین کے قوم قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن امام علیؑ کی محبت و اطاعت میں سرشار تھے اور امام علیؑ کی اتباع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ عبد اللہ بن سنان امام جعفر صادقؑ سے روایت نقل کی ہے کہ میں نے امام صادقؑ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سِنَانٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع): يَقُولُ كَانَ مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) مِنْ قُرَيْشٍ خَمْسَةُ نَفَرٍ، وَكَانَتْ ثَلَاثَ عَشْرَةَ قَبِيلَةً مَعَ مُعَاوِيَةَ، فَأَمَّا الْخَمْسَةُ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَتَتْهُ النَّجَابَةُ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، وَكَانَ مَعَهُ هَاشِمُ بْنُ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ الْمِرْقَالُ، وَكَانَ مَعَهُ جَعْدَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ الْمَخْزُومِيُّ، وَكَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (ع) خَالَهُ، وَهُوَ الَّذِي قَالَ لَهُ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ إِنَّمَا لَكَ هَذِهِ الشِّدَّةُ فِي الْحَرْبِ مِنْ قِبَلِ خَالِكَ!! فَقَالَ لَهُ جَعْدَةُ: لَوْ كَانَ خَالُكَ مِثْلَ خَالِي لَنَسِيتَ أَبَاكَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُذَيْفَةَ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْخَامِسُ سَلَفُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ ابْنُ أَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ وَهُوَ صِهْرُ النَّبِيِّ أَبُو الرَّبِيعِ؛ قریش میں سے پانچ افراد امیر المؤمنینؑ کے حمایتی تھے اور معاویہ کے ساتھ تیرہ قبیلے تھے، ان پانچ میں پہلے محمد بن ابی بکر رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن میں نجابت ان کی والدہ اسماء بنت عمیس کی جانب سے آئی، امیر المؤمنینؑ کے ساتھ (دوسرے) ہاشم بن عتبہ بن ابی وقّاص مرقال تھے، ان کے ساتھ (تیسرے) جعدہ بن ہبیرہ مخزومی تھے، امیر المؤمنینؑ ان کے ماموں تھے، جعدہ وہی شخص ہیں جن سے ابو سفیان کے بیٹے عتبہ نے کہا تھا کہ اپنے ماموں کے لیے جنگ میں تم اس قدر شدت دکھاتے ہو!! جعدہ نے پسر ابو سفیان کو جواب دیا: اگر تمہارا ماموں میرے ماموں جیسا ہوتا تو تم اپنے باپ کو بھی بھول جاتے، (چوتھے) محمد بن ابی حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ ہیں اور (پانچویں) امیر المؤمنینؑ کا ہم زلف ابن ابی العاص بن ربیعۃ جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ کا داماد ہے اور اس کی (کنیت) ابو الربیع ہے۔

محمد بن ابی حذیفہ کا اللہ کی معصیت برداشت نہ کرنا

[ترمیم]

روایاتِ اہل بیتؑ میں امام علیؑ کے بعض ایسے جانثار اصحاب کی مدح و ستائش بیان کی گئی ہے جو روئے زمین پر اللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کو قبول نہیں کرتے تھے۔ خصوصا خلیفہ سوم کے دور میں جب اسلامی ریاست میں ہر طرف بے راہ روی پھیل گئی اور مسلمان فاسق فاجر حکمرانوں کے ظلم و ستم سے چیخ اٹھے تو اس وقت بعض اصحابِ امام علیؑ شدید احتجاج بلند کیا اور حدودِ الہیہ کی پامالی پر سراپا احتجاج بن گئے۔ امیر المؤمنینؑ کے ان اصحاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام رضاؑ فرماتے ہیں:كَانَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (ع) يَقُولُ‌: إِنَّ الْمَحَامِدَةَ تَأْبَى أَنْ يُعْصَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ، قُلْتُ وَ مَنِ الْمَحَامِدَةُ قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَ مُحَمَّدُ بْنُ‌ أَبِي‌ حُذَيْفَةَ، وَ مُحَمَّدُ بْنُ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) أَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ‌ أَبِي‌ حُذَيْفَةَ هُوَ ابْنُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ وَ هُوَ ابْنُ خَالِ مُعَاوِيَةَ؛ امیر المؤمنینؑ فرمایا کرتے تھے: محامدۃ (وہ نیک و قابل تعریف اشخاص) وہ ہیں جنہوں نے اللہ عز و جل کی معصیت و نافرمانی کے خلاف احتجاج کیا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: محامدہ کون ہیں؟ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: محمد بن جعفر، محمد بن ابی بکر، محمد بن ابی حذیفہ اور محمد بن امیر المؤمنینؑ (محمد بن حنفیہ)۔ جہاں تک محمد بن ابی حذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ کا تعلق ہے تو وہ معاویہ کے ماموں کا بیٹا تھا۔

مصر کا پہلا حاکم محمد بن ابی حذیفہ

[ترمیم]

۳۵ ھ کو جب امام علیؑ نے خلافت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو آپ نے مصر جیسے حساس علاقے کا والی محمد بن ابی حذیفہ کو مقرر کیا جیساکہ متعدد علماء رجال و مؤرخین نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ تاریخ اور رجال میں وارد ہونے والی معلومات کو ایک دوسرے سے ملائیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ محمد بن ابی حذیفہ اگرچے خلیفہ عثمان کے رشتہ دار اور ان کی گود میں پلے بڑھے لیکن انہیں امام علیؑ سے شدید محبت بھی تھے اور انہی کو خلافت و امامت کا حقدار سمجھتے تھے۔ امام علیؑ نے انہیں مصر کا پہلا حاکم مقرر کیا۔ بعد میں محمد بن ابی بکر کو امام علیؑ نے مصر کا حاکم مقرر کیا اور محمد بن ابی بکر کے ماتحت ابن ابی حذیفہ آ گئے۔

عثمان بن عفان کے خلاف اہل مصر کو بھڑکانہ

[ترمیم]

محمد بن ابی حذیفہ ایک پاکیزہ، نیک اور امام علیؑ کے انتہائی وفا دار و جانثار صحابی تھے۔ خلیفہ سوم کے دور میں کھلے عام معصیت و گناہوں کی بہتات اور حکامِ بالا کے فسق و فجور پر آپ بہت نالاں اور معترض تھے۔ ذہبی نے تحریر کیا ہے کہ محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ خلیفہ سوم کے شدید مخالف تھے۔ اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب مصر کے حالات خراب ہو رہے تھے تو خلیفہ سوم نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کے والی عبد اللہ بن ابی سرح کی مدد کے لیے بھیجا۔ محمد نے اہل مصر سے تعلق بھال کر کے ابن ابی سرح کو مصر سے بے دخل کر دیا اور خود مصر پر قابض ہو گئے۔ بعد میں معاویہ نے آپ کا محاصرہ کر کے قید کر کے شہید کر دیا۔ جب محمد بن ابی حذیفہ نے ابن ابی سرح کو مصر سے بے دخل کر دیا تو بعد میں محمد بن ابی بکر بھی ان سے آ ملے اور دونوں نے اہل مصر کو خلیفہ سوم کے خلاف بھڑکایا اور دونوں خلیفہ سوم کی کثرت سے عیب جوئی کرتے تھے۔

محمد بن ابی حذیفہ کی شہادت

[ترمیم]

محمد بن ابی حذیفہ کی تاریخ شہادت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ واقدی نے آپ کی تاریخ شہادت ۳۶ ھ تحریر کی ہے جبکہ ہشام بن محمد کلبی نے ۳۸ ھ محمد بن ابی بکر کی شہادت کے بعد آپ کے شہید ہوںے کو بیان کیا ہے۔ بعض نے امام علیؑ کی شہادت کے بعد آپ کی شہادت کا تذکرہ کیا ہے جوکہ ظاہرًا درست نہیں ہے۔ قرائن و شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ۳۸ ھ میں جنگ صفین کے بعد معاویہ نے اہل شام کے باہمی مشاورت اور عمرو بن عاص کو ملا کر مصر میں معاویہ بن خدیج جیسے ناصبیوں کی مدد سے مصر پر حملہ کر دیا اور جناب محمد بن ابی بکر کو شہید کر دیا۔ جب محمد بن ابی بکر شہید ہو گئے تو محمد بن ابی حذیفہ اپنے مختصر لشکر کے ساتھ فرار کر گئے لیکن انہیں فلسطین کے مقام پر گھیرے میں لے لیا گیا اور وہی انہیں بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔

← رجال کشی میں شہادت کا مفصل بیان


محمد بن عمر کشی نے رجال الکشی میں اہل شام کے راوی سے آپ کا واقعہ شہادت اس طرح سے نقل کیا ہے کہ معاویہ آپ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گیا اور قتل کرنے کے ارادے سے اس نے آپ کو جیل میں بند کر دیا۔ آپ ایک مدت اسی جیل میں محبوس رہے۔ ایک دن معاویہ نے اپنے حاشیہ نشینوں سے کہا کہ ہم اس بےوقوف یعنی محمد بن ابی حذیفہ کو ایک امتحان میں ڈالتے ہیں تاکہ ہم اس کو امام علیؑ کی نصرت و مدد کرنے کی گمراہی سے آگاہ کر سکیں۔ ہم اس کو حکم دیں گے کہ وہ آئے اور علی ابن ابی طالبؑ کو نعوذ باللہ گالم گلوچ کرے۔ سب حاشیہ نشینوں نے معاویہ کی تائید کی۔ محمد بن ابی حذیفہ کو زندان سے نکال کر معاویہ کے پاس لایا گیا۔ معاویہ نے ابن ابی حذیفہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے محمد بن ابی حذیفہ! کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم علی ابن ابی طالبؑ کی مدد کی گمراہی سے پلٹ آؤ !! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ عثمان مظلومیت کے ساتھ قتل کر دیئے گئے اور عائشہ، طلحہ اور زبیر نے عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے علی بن ابی طالبؑ کے خلاف خروج کیا اور علیؑ ہی نے عثمان کو سازش کر کے قتل کیا اور آج ہم بھی عثمان کے خون کا مطالبہ کرتے ہیں۔ محمد بن ابی حذیفہ نے جواب میں کہا: کیا تم جانتے ہو کہ کل تک میں ان لوگوں میں شمار ہوتا تھا جو تمہارے اوپر مہربان تھے اور تمہیں سب سے زیادہ پہچانتے تھے؟ انہوں نے کہا: بالکل ایسا ہی ہے۔ پھر محمد بن ابی حذیفہ نے حقائق پر مبنی جرأتمندانہ گفتگو کرتے ہوئے کہا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے میں کسی ایک کو بھی نہیں جانتا جو تم سے زیادہ خونِ عثمان میں شریک رہا ہو اور تم سے زیادہ کسی نے لوگوں کو عثمان کے خلاف نہیں بھڑکایا جبکہ اس نے تمہیں (شام) پر اور جو تمہارے جیسے تھے انہیں حاکم بنایا۔ مہاجرین و انصار نے عثمان سے تقاضا کیا کہ وہ تمہیں معزول کر دے لیکن عثمان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر مہاجرین و انصار نے عثمان کے ساتھ وہ کیا جس کی تمہیں خبر ہے۔ قسم بخدا ! عثمان کے قتل میں آغاز سے لے کر اختتام تک سب سے زیادہ ملوث طلحہ، زبیر اور عائشہ تھے۔ یہ تینوں وہ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے جرائم عثمان کی طرف منسوب کر کے گواہیاں دیں اور لوگوں کو عثمان کے خلاف بھڑکایا، ان کے ساتھ اس عمل میں عبد الرحمن بن عوف، ابن مسعود، عمار اور تمام انصار بھی شریک تھے۔ پھر محمد بن ابی حذیفہ نے کہا: قسم بخدا! میں تمہارے جاہلیت اور اسلام ہر دو زمانوں کو جانتا ہوں کہ تم ایک ہی کردار کے مالک رہے ہو، اسلام نے تمہارے وجود میں نہ کچھ کمی کی ہے اور نہ کچھ اضافہ، تم جیسے جاہلیت کے دور میں تھے اب بھی ویسے ہی ہو اور اس کی تم میں روشن علامت یہ ہے کہ تم مجھے اس وجہ سے ملامت کر رہے ہو کہ میں علیؑ سے محبت کرتا ہوں جیساکہ علیؑ کا ساتھ دینے کے لیے مہاجرین و انصار میں سے ہر روزے دار و نماز گزار نکلا اور تمہارے ساتھ منافقین، طلقاء اور عتقاء کے پیٹے نکلے، تم نے ان کو ان کے دین کی راہ سے دھوکا دیا اور انہوں نے تمہیں تمہاری دنیا کی راہ سے فریب دیا۔ اللہ کی قسم! اے معاویہ جو کچھ تم نے کیا ہے وہ تم سے پوشیدہ نہیں اور جو انہوں نے کیا ہے وہ ان سے مخفی نہیں، تیری اطاعت کر کے انہوں نے اللہ کی ناراضگی کو اپنی جانوں پر حلال کر لیا ہے، اللہ کی قسم! میں اللہ کی خاطر علیؑ سے محبت کرتا رہوں گا اور جب تک میں زندہ ہوں اللہ کی خاطر اور اس کے رسولؐ کی خاطر تجھ سے نفرت و کینہ برقرار رکھوں گا۔ اس پر معاویہ نے کہا: میں ان سب قید و بند کے بعد بھی تجھ گمراہی کی حالت میں پا رہا ہوں، اس کو پکڑ کر لے جاؤ۔ معاویہ کے کہنے پر وہ محمد بن ابی حذیفہؓ کو زندان لے گئے اور وہ جاتے ہوئے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے:قالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَني‌ إِلَيْهِ؛ اس نے کہا: اے میرے ربّ! زندان میں اس سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے دعوت دے رہے ہیں۔ محمد بن ابی حذیفہ قید و بند کی صعوبتیں اٹھاتے رہے یہاں تک کہ شہادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. ابن عبد البر، یوسف بن عبد اللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۳، ص ۱۳۶۹۔    
۲. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۰۔    
۳. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج ۶، ص ۹۔    
۴. محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۱۷۴۔    
۵. کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، ص ۶۳۔    
۶. مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال، ج ۱۴، ص ۳۴۹۔    
۷. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۷۰۔    
۸. یفة عصفری، خیفہ بن خیاط، تاریخ خلیفہ بن خیاط، ص ۱۵۲۔    
۹. طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، ص ۸۲۔    
۱۰. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۱۰۸۔    
۱۱. طبری، ابن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۳۴۱۔    
۱۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۴۴۶۔    
۱۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج ۴، ص ۸۰۔    
۱۴. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۷۰۔    
۱۵. ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، ج ۳، ص ۴۸۱۔    
۱۶. یوسف/سوره۱۲، آیت ۳۳۔    
۱۷. کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی، ص ۷۱۔    


مأخذ

[ترمیم]

عبدالسلام ترمانینی، رویدادہای تاریخ اسلام، ترجمہ پژوهشگاه علوم و فرہنگ اسلامی، ج۱، ص۱۶۶۔
اس مقالہ کے اکثر مطالب اور حوالہ جات محققینِ ویکی فقہ کی جانب سے تحریر کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار