ابو الشعثاء کندی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ابوالشعثاء، ابو الببغاء،
یزید بن زیاد مهاصر بن نعمان كِنْدِی
امام حسینؑ کے صحابی اور
شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ بعض نے نقل کیا ہے کہ وہ
محدثین میں سے تھے۔
[ترمیم]
ان کا نام زیاد
اور زائده
بھی منقول ہے اور ان کے والد کا نام
زید بن مهاصر مهاصر،
مهاجر،
مصاهر،
مظاهر
اور شعثا
منقول ہے۔
[ترمیم]
ان کے کاروانی حسینی کے ساتھ الحاق کی کیفیت کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ ابو الشعثا
عمرسعد کے ہمراہ
کوفہ سے
کربلا آیا اور جب اس نے امام حسینؑ کی تجاویز کو مسترد کیا تو یہ اس کے لشکر سے جدا ہو گیا اور امامؑ کی سپاہ کے ساتھ ملحق ہو گیا اور حضرتؑ کے ہمراہ رہا یہاں تک کہ
شہادت کے بلند مقام پر فائز ہوا۔
(
طبری کی اس بارے میں روایت یہ ہے: فلا ردوا الشروط علی الحسین مال الیه؛ جب کوفے کی فوج نے امام حسینؑ کی تجاویز کو قبول نہیں کیا تو یزید بن زیاد ان کے ساتھ ملحق ہو گیا۔
بعض دیگر مورخین نے نقل کیا ہے کہ ابو الشعثا کوفہ سے باہر نکلے اور
حرّ کا دستہ پہنچنے سے قبل راستے میں امامؑ کے ساتھ ملحق ہو گیا۔ حر کا لشکر حضرتؑ کو کوفہ لے جانا چاہتا تھا مگر امامؑ نے اس کے مقابلے میں مزاحمت کی، اتنے میں
نینوا سے دو گروہ پہنچے۔ پھر ایک مسلح گھڑ سوار کاندھے پر کمان رکھے ہوئے کوفہ سے نمودار ہوا۔ سب کھڑے ہو گئے اور اس کا انتظار کرنے لگے۔
سوار نے پہنچ کر حر بن یزید اور اس کے ساتھیوں پر
سلام کیا مگر امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کو سلام نہیں کیا۔
اس کے بعد
ابن زیاد کا خط حر کو دیا کہ جس میں لکھا تھا: جب میرا قاصد پہنچ جائے اور میرا خط تمہیں پہنچا دے تو حسینؑ کو ایک خشک صحرا تک لے جا۔ میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ تم سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ میرے حکم کی تعمیل کی خبر مجھ تک لائے۔ والسلام۔
حر نے خط پڑھنے کے بعد کہا: یہ نامہ امیر عبید اللہ زیاد کا ہے کہ جس نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ کو اسی جگہ ٹھہرا دوں کہ جہاں میرا خط ملے اور یہ اس کا قاصد ہے جو حکم کے اجرا تک مجھ سے جدا نہ ہو گا۔
ابو الشعثا نے عبید اللہ زیاد کے قاصد کو دیکھ کر آواز دی: کیا تو
مالک بن نُسیر بَدّی نہیں ہے؟
اس نے کہا: کیوں؟
کیونکہ وہ بھی
قبیلہ کندہ سے تھا۔ ابو الشعثا نے کہا: تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے؛ کیا خبر لائے ہو؟!
کہنے لگا: میں کچھ نہیں لایا سوائے یہ کہ اپنے پیشوا کی اطاعت کی ہے اور اپنی بیعت پر وفا کی ہے!
ابو الشعثا نے کہا:
خدا کی
نافرمانی کی ہے اور اپنے پیشوا کی
اطاعت سے خود کو ہلاکت میں ڈال چکے ہو اور ننگ و عار اور
آگ کو خرید چکے ہو، خدائے عزوجل فرماتا ہے:
«وَجَعَلْناهُمْ ائِمَّةً يَدْعُونَ الَی النَّارِ وَيَومَ القیامَةِ لا يُنْصَرُون»
تیرا پیشوا ایسا ہی ہے۔
ابوالشّعثا، ایک شریف،
شجاع اور نڈر شخص تھا اور تیر اندازی میں خاص مہارت رکھتا تھا۔
امام حسینؑ سے اجازت لینے کے بعد
میدان گئے اور دلیری کے ساتھ جنگ لڑنے کے بعد ان کے گھوڑے کو عمر سعد کی فوج نے زخمی کر کے گرا دیا۔
ابومخنف نے
فضیل بن خدیج کندی سے نقل کیا ہے کہ اس شجاع مرد نے امامؑ کے پاس دو زانو ہو کر
دشمن کو
تیر سے نشانہ بنایا۔ وہ ایک ماہر تیر اندز تھا اور ہر تیر مارتے وقت یہ شعر پڑھ رہا تھا:
انَا ابْنُ بَهْدَلَهْ • فُرسانُ العَرْجَلَهْ
میں ہوں بھدلہ کا فرزند!
میں ہوں عرجلہ گھوڑے پر سوار
امام حسینؑ نے ان کیلئے یہ دعا فرمائی: اللَّهُمَّ سَدِّدْ رَمْيَتَهُ وَاجْعَلْ ثَوابَهَ الْجَنَّة» (خداوندا اس کا تیر ہدف پر بیٹھے اور اس کی
پاداش بہشت کو قرار دے!)
ابو الشعثا سو تیر مارنے کے بعد کھڑا ہوا اور کہنے لگا: پانچ تیروں کے سوا کوئی خطا نہیں گیا اور معلوم پڑتا ہے کہ کم از کم دشمن کے پانچ افراد کو مار چکا ہوں۔
تیر ختم ہونے کے بعد ابو الشعثا کھڑے ہوئے اور
تلوار کھینچ کر دشمن پر حملہ کر دیا۔
[ترمیم]
وہ میدان میں یہ
رجز پڑھ رہے تھے:
انَا یزیدُ وابِی مُهاصر • اشْجَعُ مِنْ لیثٍ بِغَیلٍ خادِرْ
یا رَبِّ انّی لِلْحُسین ناصر • وَلِابْنِ سَعْدٍ تارِكٌ و هاجر
میں ہوں یزید کہ میرے والد مھاصر تھے، شیر سے زیادہ دلیر ہوں؛ خدایا! میں حسین کا مددگار ہوں اور ابن سعد سے دوری اختیار کر چکا ہوں۔
دیگر اشعار بھی بعض منابع میں منقول ہیں کہ جن سب کو کرباسی نے
دائرة المعارف الحسینیہ میں جمع کیا ہے اور کہا ہے کہ ابوالشعثا نے میدان جاتے وقت ان اشعار کو کہا:
انَا يزيدُ وابِي مُهاصِر • اشْجَعُ مِنْ ليثٍ بِغَيلٍ خادِرُ
وفى يمينى صارِم وباتِر • يا رَبِّ اني لِلْحُسين ناصِر
وَابْنِ زيادٍ خاذِلٌ وَغادِر • ذاك الزَّنيمُ ابْنُ الزَّنيمِ الفاجِر
نَجلُ اللِّئامِ الغادِرِ والماكِر • وَللأَعادي مُبغضٌ ونافِر
وكُلُّهُمْ إِلَى الجَحيم صائِر
[ترمیم]
ابو الشّعثا نو افراد کو قتل کرنے کے بعد
اور ایک قول کے مطابق انیس افراد کو مارنے اور دشمن کے بہت سے اور سپاہیوں کو زخمی کرنے کے بعد
شہید ہوئے۔
بعض نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے چالیس سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا۔
ان کی شہادت کے وقت کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے، بعض نے انہیں پہلے شہدا
اور بعض نے
کربلا کے دوسرے حملے میں شہید ہونے والوں میں شمار کیا ہے۔
شیخ صدوقؒ نے ان کی شہادت کو
مالک بن انس کاھلی کی شہادت کے بعد لکھا ہے۔
خوارزمی نے ان کا نام
حنظلة بن اسعد شبامی کے بعد ثبت کیا ہے،
جبکہ
ابن اعثم اور
ابن شہر آشوب نے ان کی شہادت
انیس بن معقل اصبحی کے بعد نقل کی ہے۔
(مرحوم
صدوقؒ، ابوالشعثاء کی شہادت کے بعد
وہب بن وہب نامی شخص کی شہادت کو اس طرح نقل کرتے ہیں۔ زیاد بن مھاصر (مهاجر) کندی کے بعد وہب بن وہب نے میدان میں قدم رکھا۔ وہ نصرانی تھا اور اپنی ماں کے ساتھ حسینؑ کے ہاتھ پر
مسلمان ہوا، وہ امام حسینؑ کے ہمراہ کربلا آئے۔ وھب ایک گھوڑے پر سوار ہوا اور خیمے کا بانس پکڑ دشمن سے جنگ کرنے لگا یہاں تک کہ سات یا آٹھ کوفیوں کو
قتل کر دیا۔ انہیں گرفتار کر کے عمر بن سعد کے پاس لے جایا گیا۔ عمر بن سعد نے حکم دیا کہ اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے، انہوں نے سر تن سے جدا کر کے امام حسینؑ کے اصحاب کے خیموں کی طرف اچھال دیا۔ اس کی ماں نے اس کی شمشیر کو پکڑا اور میدان کارزار میں چلی گئیں۔ امام حسینؑ نے انہیں فرمایا: اے ام وھب! بیٹھ جا، خدا نے
خواتین کو جہاد سے معاف رکھا ہے، تم اور تمہارا بیٹا بہشت میں میرے جد
رسول خداؐ کے ہمراہ رہو گے۔
علامہ شوشتری نے کچھ دلائل کیساتھ اس روایت پر تنقید کی ہے اور انہوں نے وھب کو
عبد الله بن عمیر کلبی قرار دیا ہے کہ جن کی شہادت پہلے گزر چکی ہے)
[ترمیم]
[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، ص۶۶-۷۰۔ پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۷۸۹ - ۷۹۰.