ابو ثمامہ صائدی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ابو ثمامہ صائدی
امام حسینؑ کے اصحاب میں سے ہیں جو
کربلا میں
شہید ہوئے۔
[ترمیم]
آپ کا نام ابو تمامہ بھی کہا گیا ہے۔
زیادہ تر منابع میں ان کا نام عمرو
یا عمر
اور ان کے والد کو کعب
یا عبدالله کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
محمد مہدی شمس الدین کے بقول مذکورہ عمرو بن ثمامہ
وہی عمر بن عبد الله ابو ثمامہ ہیں کہ تصحیف کی وجہ سے اس نام کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے۔
ابن حزم اندلسی نے انہیں زیاد بن عمرو بن عریب بن حنظلہ بن دارم بن عبدالله صائدی کے نام سے یاد کیا ہے۔
بلاذری کے بقول ابو ثمامہ کا نام «زیاد بن عمرو بن عریب صائدی»، کنیت «ابو ثمامہ» اور «ہمدان» ان کے قبیلے کا نام ہے۔
شیخ طوسی نے انہیں انصاری
اور باقی مورخین نے صائدی،
صیداوی
یا صاعدی
قرار دیا ہے۔
[ترمیم]
ابو ثمامہ
امام علیؑ کے اصحاب اور
عرب کی بہادر اور معروف
شیعہ شخصیات میں سے تھے۔
سماوی کہتا ہے: وہ
تابعین میں سے ہیں اور
امیر المومنینؑ کی تمام جنگوں میں شریک رہے، حضرتؑ کی شہادت کے بعد
امام حسن مجتبیؑ کے ساتھ ملحق ہو گئے۔
[ترمیم]
جب
معاویہ ہلاک ہو گیا اور
یزید مسندِ
خلافت پر بیٹھ گیا تو وہ دیگر
کوفی شیعوں کے ہمراہ
سلیمان بن صُرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے اور
امام حسینؑ کیلئے خط لکھ کر مکہ بھیجا۔
حضرت مسلمؑ کی کوفہ آمد کے بعد ابو ثمامہ بلا تامل ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور ان کے حکم پر تحریک کے اخراجات کیلئے لوگوں کے ہدایا جمع کرنے میں مشغول ہو گئے۔ آپ کو اسلحے کی پہچان میں مہارت تھی، لہٰذا
اسلحہ خریدنے اور آمادہ کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔
یہی وہ شخص تھے کہ جنہوں نے مسلم کے حکم پر معقل سے مال وصول کیا تھا(یاد رہے کہ معقل، عبید اللہ بن زیاد کا غلام اور جاسوس تھا، اس نے حضرت مسلم کی گرفتاری کیلئے اسے بہت سا مال دے کر مسلم کے ساتھیوں میں جاسوسی کرنے کیلئے بھیجا تھا اور وہ مسلم بن عوسجہ کے ذریعے جناب مسلم تک پہنچنے میں کامیاب رہا اور ظاہری طور پر حضرت مسلم کی بیعت کر کے انہیں مال پیش کیا جو انہوں نے ابو ثمامہ کو جمع کر لینے کا حکم دیا تھا) ۔
جب
ہانی بن عروہ کی گرفتاری کی خبر کوفہ والوں میں پھیلی تو حضرت مسلم
دار الامارہ کہ جہاں پر ابن زیادہ موجود تھا؛ پر حملے کیلئے تیار ہو گئے اور اہل کوفہ کو رضاکارانہ فورس تشکیل دینے کی دعوت دی کہ جس میں چاروں طرف سے لوگ حضرتؑ کے پاس جمع ہو گئے۔
مسلم نے اپنی فوجوں کو جنگ کیلئے آراستہ کیا اور
قبیلہ تمیم اور
قبیلہ ہمدان کی سپہ سالاری ابو ثمامہ کے سپرد کی۔
اس فوری نوعیت کی کاروائی میں ابو ثمامہ نے نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، مگر اپنے تحت فرمان افراد کے فرار کی وجہ سے اپنے
قبیلے میں چلے گئے اور کچھ عرصہ وہیں روپوش رہے۔
یہاں تک کہ ابن زیاد نے ان کا پوری قوت سے تعاقب کیا مگر انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہوا۔
[ترمیم]
ابو ثمامہ نے
حسین بن علیؑ کی
مکہ سے
عراق آمد کی خبر سنی تو
نافع بن هلال کے ہمراہ حضرتؑ سے ملحق ہو گئے۔
جب
عمر بن سعد کوفہ کی بڑی فوج کے ہمراہ سرزمین کربلا پر خیمہ زن ہوا تو ابو ثمامہ کی نگاہ خونخوار اور جسور شخص
کثیر بن عبدالله شعبیِ پر پڑی (جو امامؑ کی طرف آ رہا تھا)، تو انہوں نے امام حسینؑ سے کہا: اے ابا عبد اللہ!
خدا آپ ع کے امور کی اصلاح کرے، ابھی روئے زمین پر آپ کا نہایت بے باک اور خطرناک
دشمن یہاں آ رہا ہے۔ ابو ثمامہ فوری طور پر کثیر بن عبد اللہ کے روبرو کھڑے ہو گئے اور کہا: اپنی شمشیر کو رکھ دے۔ شعبی نے کہا: نہیں۔ خدا کی قسم! اپنا اسلحہ خود سے جدا نہیں کرتا۔ میں قاصد ہوں۔ اگر میری بات سننا چاہیں تو میں تمہاری طرف ایک پیغام لایا ہوں اور اگر قبول نہیں کرتے تو میں واپس چلا جاؤں گا۔ ابو ثمامہ نے کہا: پس میں تمہاری
شمشیر کے دستے کو تھامے رکھوں گا، پھر تمہیں بات کرنے کی اجازت ہو گی۔ اس نے کہا: نہیں، خدا کی قسم! تمہارا ہاتھ اس تک نہیں پہنچے گا۔
ابو ثمامہ نے کہا: پس اپنا پیغام مجھے بتاؤ تاکہ امام حسینؑ کو اس سے مطلع کر دوں اور ان کا جواب تمہیں دوں، اس کے علاوہ میں اجازت نہیں دوں گا کہ تم حضرتؑ کے نزدیک ہو؛ کیونکہ تو ایک خطاکار شخص ہے۔ شعبی یہ بات سن کر طیش میں آ گیا اور وہیں سے واپس چلا گیا۔
ابن اعثم نے مذکورہ بالا حکایت فلان بن عبدالله سبیعى کے نام سے کچھ اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
[ترمیم]
کوفی فوج کی بڑی تعداد نے امام حسینؑ کے ساتھیوں کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ امام حسینؑ کے اصحاب کی تعداد اس قدر کم تھی کہ اگر ان میں سے ایک یا دو شخص قتل ہو جاتے تو ان کی کمی نمایاں ہو جاتی؛ مگر عمر بن سعد کے فوجی اتنے زیادہ تھے کہ ان میں سے جتنے بھی مارے جاتے، کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔ جب
نماز کا وقت آن پہنچا تو ابو ثمامہ نے امام حسینؑ سے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان! میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ گروہ آپ کے نزدیک ہو چکا ہے۔ خدا کی قسم! جب تک میں آپ کے روبرو قتل نہ کر دیا جاؤں، آپؑ شہید نہیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔
تاہم میں یہ چاہتا ہوں کہ جب خدا کا دیدار کروں تو یہ نماز کہ جس کا وقت ہوا چاہتا ہے؛ ادا کر لوں۔ امام حسینؑ نے اپنا سر مبارک
آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا: تو نے نماز کو یاد کیا ہے، خدا تجھے ذکر کرنے والے نمازیوں میں سے قرار دے۔ ہاں، یہ نماز کے وقت کا آغاز ہے۔ ان سے کہو کہ ہمیں نماز ادا کرنے دیں۔
(انہوں نے ایسا ہی کیا) لیکن
حصین بن تمیم نے جواب میں کہا: تمہاری نماز قبول نہیں ہے۔
حبیب بن مظاهر نے انہیں کہا: کیا سمجھتے ہو کہ آل رسول اللہ کی نماز قبول نہیں ہے اور تیری قبول ہے؟! اے ناسمجھ!
طبری کے بقول ابو ثمامہ نے دشمن کی فوج میں شامل اپنے چچا زاد کو ہلاک کر دیا۔ پھر امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کے ہمراہ
نماز ظہر کو
نماز خوف کے عنوان سے ادا کیا۔
ابو ثمامہ نے
مالک بن دودان کے بعد سید الشہداؑ کو الوداع کیا
اور میدانِ جنگ میں اتر گیا۔
ابو ثمامہ نے میدان میں یہ
رجز پڑھا:
عَزاءً لِآلِ الْمُصْطَفی وَبناتِهِ • علی حَبْسِ خَيْرِ الناسِ سِبْطِ محمّدٍ
عَزاءً لِزَهراءِ النَّبِىّ وَزُوْجِها • خَزانَةِ عِلْمِ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ أحمدِ
عَزاءً لِاهْلِ الشَّرْقِ وَالْغَرْبِ كُلّهِم • وحُزْناً علی حَبْسِ الحسین المسدَّدِ
فَمَنْ مُبْلِغٌ عَنّی النّبی وَبِنْتَه • بأنَّ ابْنَكُمْ فی مَجْهَدٍ أَىِّ مَجْهَدٍ
میں آل پیغمبرؐ اور ان کی بیٹیوں کو تسلیت عرض کرتا ہوں، نواسہ رسول صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو گھیرے جانے پر کہ جو سب سے بہترین انسان ہیں۔
حضرت زہراؑ اور ان کے شوہر جو پیغمبرؐ کے بعد علم الہٰی کے خزانہ دار ہیں؛ کو تسلیت عرض کرتا ہوں اور مشرق و مغرب کے تمام لوگوں کو تسلیت عرض کرتا ہوں؛ صادق اور صحیح کردار کے حامل حسینؑ کے دشمنوں میں گِھر جانے کا مجھے بہت غم و اندوہ ہے؛ پس کون میرا پیغام پیغمبرؐ اور ان کی بیٹی تک پہنچائے کہ آپ کا فرزند سختی میں ہے اور کس قدر بڑی سختی میں ہے!
آخر آپ
قیس بن عبد الله کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے۔
[ترمیم]
امام زمانہؑ سے منسوب
زیارت ناحیه مقدسہ میں انہیں ان الفاظ سے یاد کیا گیا ہے: السلام علی ابی ثمامة عمر بن عبدالله الصائدی
یہ سلام
زیارتِ رجبیہ میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ نقل ہوا ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا،ص۸۱-۸۴۔ پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۷۸۱۔