ابوبکر بن حسن
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ابوبکر بن حسنؑ،
امام حسنؑ کی اولاد میں سے ہیں اور
شہدائے کربلا میں سے ایک ہیں۔
[ترمیم]
مشہور قول کی بنا پر ان کا نام ابوبکر ہے مگر بعض نے انہیں عبد اللہ یا عبد اللہ الاکبر بھی لکھا ہے۔
ابوبکر بن
امام حسنؑ اور ان کی والدہ ام ولد
کنیز تھیں
ان کا نام نُفَيْلَه،
امِّ اسحاق،
نیز «رَمْلَہ»
منقول ہے۔ بعض کے نزدیک وہ اور
قاسم بن حسن ایک
ماں سے تھے۔
ان کا نام
تاریخ الامم و الملوک میں ابوبکر بن الحسین ذکر کیا گیا ہے
؛ مگر بظاہر اشتباہ ہوا ہے اور مراد وہی ابوبکر بن الحسن ہیں؛ کیونکہ اسی تاریخ کو طبری نے ایک دوسرے مقام پر
ابوبکر بن الحسن ذکر کیا ہے۔
بعض منابع کی
روایت کے مطابق
امام حسینؑ نے اپنی بیٹی
سکینہ کا ان کے ساتھ
عقد کیا۔
[ترمیم]
ابوبکر اپنے عمو امام حسینؑ کے ہمراہ
مدینہ سے
مکہ اور پھر
کربلا آئے اور
عاشور کے دن میدان گئے اور شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے قبیلہ غنی کے آدمی
عبدالله عُقْبَه غَنَوی » کے تیر سے
شہید ہوئے۔
امام باقرؑ نے ایک حدیث میں ان کا قاتل عُقْبَه غَنَوی کو قرار دیا ہے
لیکن بعض اس کا قاتل
حرملة بن کاهل اسدی کو قرار دیتے ہیں۔
لہٰذا احتمال ہے چنانچہ صاحب
بحارالانوار نے بھی اشارہ کیا ہے کہ عبد اللہ بن عقبہ اور حرملہ انہیں شہید کرنے میں شریک ہو سکتے ہیں۔
ابو الفرج اصفہانی نے ابوبکر بن حسن کی شہادت
قاسم بن حسن کی شہادت سے پہلے قرار دی ہے۔
لیکن بعض دوسرے کتب (تاریخ طبری اور
الارشاد) میں ان کی شہادت قاسم کی شہادت کے بعد نقل کی گئی ہے۔
(
ابن ابی عقب)
شاعر کی ذیل کے
شعر میں مراد یہی ابوبکر بن حسنؑ ہیں:
وَعِنْدَ غَنيٍّ قَطْرَةٌ مِنْ دِمائِنا وَ فِی اسدٍ اخْری تُعَدُّ وَ تُذْكَرُ
قبیلہ ’’غنی‘‘ میں ہمارے
خون کا ایک قطرہ ہے (جس کا انتقام ضروری ہے) اور
قبیلہ اسد میں بھی ایک اور خون (
حضرت علی اصغرؑ، امام حسینؑ کے شیر خوار کے خون کی طرف اشارہ ہے) ہمارا ہے کہ جسے ہم نہیں بھولیں گے۔
[ترمیم]
ناحیہ مقدسہ سے منسوب زیارت میں انہیں ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
«السَّلامُ عَلی أَبِی بَكْرِ بْنِ الْحَسَن بْنِ عَلِىِّ الزَّكِىِّ الْوَلىِّ المَرْمِىِّ بالسَّهْمِ الرَّوِی لَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُقْبَةِ الغَنَوِىَّ»
سلام ہو ابوبکر بن حسن بن علی پر جو پاک، ناصر اور قاتل تیر کھانے والے ہیں، اللہ ان کے قاتل «عبداللَّه بن عقبه غنوی» پر لعنت کرے۔
[ترمیم]
جب
مختار ثقفی نے قیام کیا اور
کوفہ میں
حکومت بنا لی تو عبد اللہ غنوی کی تلاش شروع کر دی مگر انہیں اطلاع دی گئی کہ وہ «
جَزِیرَه»
کی طرف بھاگ نکلا ہے۔
مختار نے بھی حکم دیا کہ اس کا گھر گرا کر زمین کے برابر کر دیا جائے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، ص۷۷-۷۹۔ پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۸۳۱۔