ابوبکر بن حسن

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ابوبکر بن حسنؑ، امام حسنؑ کی اولاد میں سے ہیں اور شہدائے کربلا میں سے ایک ہیں۔


ابوبکر کا گھرانہ

[ترمیم]

مشہور قول کی بنا پر ان کا نام ابوبکر ہے مگر بعض نے انہیں عبد اللہ یا عبد اللہ الاکبر بھی لکھا ہے۔
ابوبکر بن امام حسنؑ اور ان کی والدہ ام ولد کنیز تھیں ان کا نام نُفَيْلَه،
[۵] سبط بن جوزی، تذكرة الخواص، ص۱۹۵۔
امِّ اسحاق، نیز «رَمْلَہ» منقول ہے۔ بعض کے نزدیک وہ اور قاسم بن حسن ایک ماں سے تھے۔
[۹] قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔

ان کا نام تاریخ الامم و الملوک میں ابوبکر بن الحسین ذکر کیا گیا ہے؛ مگر بظاہر اشتباہ ہوا ہے اور مراد وہی ابوبکر بن الحسن ہیں؛ کیونکہ اسی تاریخ کو طبری نے ایک دوسرے مقام پر ابوبکر بن الحسن ذکر کیا ہے۔
بعض منابع کی روایت کے مطابق امام حسینؑ نے اپنی بیٹی سکینہ کا ان کے ساتھ عقد کیا۔

کربلا میں موجودگی

[ترمیم]

ابوبکر اپنے عمو امام حسینؑ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ اور پھر کربلا آئے اور عاشور کے دن میدان گئے اور شجاعت کے ساتھ لڑتے ہوئے قبیلہ غنی کے آدمی عبدالله عُقْبَه غَنَوی » کے تیر سے شہید ہوئے۔ امام باقرؑ نے ایک حدیث میں ان کا قاتل عُقْبَه غَنَوی کو قرار دیا ہے
[۱۸] قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔
لیکن بعض اس کا قاتل حرملة بن کاهل اسدی کو قرار دیتے ہیں۔
لہٰذا احتمال ہے چنانچہ صاحب بحارالانوار نے بھی اشارہ کیا ہے کہ عبد اللہ بن عقبہ اور حرملہ انہیں شہید کرنے میں شریک ہو سکتے ہیں۔
ابو الفرج اصفہانی نے ابوبکر بن حسن کی شہادت قاسم بن حسن کی شہادت سے پہلے قرار دی ہے۔ لیکن بعض دوسرے کتب (تاریخ طبری اور الارشاد) میں ان کی شہادت قاسم کی شہادت کے بعد نقل کی گئی ہے۔
[۲۶] قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔

(ابن ابی عقب) شاعر کی ذیل کے شعر میں مراد یہی ابوبکر بن حسنؑ ہیں:
وَعِنْدَ غَنيٍّ قَطْرَةٌ مِنْ دِمائِنا وَ فِی اسدٍ اخْری تُعَدُّ وَ تُذْكَرُ
[۲۸] قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔
[۳۰] ابوحنیفه دینوری، الاخبارالطوال، ص۳۸۰۔

قبیلہ ’’غنی‘‘ میں ہمارے خون کا ایک قطرہ ہے (جس کا انتقام ضروری ہے) اور قبیلہ اسد میں بھی ایک اور خون (حضرت علی اصغرؑ، امام حسینؑ کے شیر خوار کے خون کی طرف اشارہ ہے) ہمارا ہے کہ جسے ہم نہیں بھولیں گے۔

زیارت ناحیہ میں ابوبکر کا نام

[ترمیم]

ناحیہ مقدسہ سے منسوب زیارت میں انہیں ان الفاظ میں یاد کیا گیا ہے:
«السَّلامُ عَلی أَبِی بَكْرِ بْنِ الْحَسَن بْنِ عَلِىِّ الزَّكِىِّ الْوَلىِّ المَرْمِىِّ بالسَّهْمِ الرَّوِی لَعَنَ اللَّهُ قاتِلَهُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُقْبَةِ الغَنَوِىَّ» سلام ہو ابوبکر بن حسن بن علی پر جو پاک، ناصر اور قاتل تیر کھانے والے ہیں، اللہ ان کے قاتل «عبداللَّه بن عقبه غنوی» پر لعنت کرے۔

ابوبکر کے قاتل سے مختار کا انتقام

[ترمیم]

جب مختار ثقفی نے قیام کیا اور کوفہ میں حکومت بنا لی تو عبد اللہ غنوی کی تلاش شروع کر دی مگر انہیں اطلاع دی گئی کہ وہ «جَزِیرَه»
[۳۳] معصوم قزوينى، محمد حسن بن محمد، رياض الشهادة و كنوز السعادة، ص۱۹۲۔
کی طرف بھاگ نکلا ہے۔
مختار نے بھی حکم دیا کہ اس کا گھر گرا کر زمین کے برابر کر دیا جائے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. علوی، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبین، ص ۱۹۔    
۲. شبّر، جواد، ادب الطف او شعراء الحسین علیه السلام، ج۱، ص۱۶۲۔    
۳. حسینی جلالی، محمدرضا، تسمیة من قتل، ص۱۵۰۔    
۴. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۵۹۔    
۵. سبط بن جوزی، تذكرة الخواص، ص۱۹۵۔
۶. ابن شهر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۱۹۲۔    
۷. شبّر، جواد، ادب الطف او شعراء الحسین علیه‌السلام، ج۱، ۱۶۲    
۸. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، ص۹۲۔    
۹. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔
۱۰. شبّر، جواد، ادب الطف او شعراء الحسین علیه السلام، ج۱، ص ۱۶۲۔    
۱۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۴۴۸۔    
۱۲. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۴۶۸۔    
۱۳. طوسی، محمد بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، ص۴۱۸۔    
۱۴. زبیری، مصعب بن عبدالله، نسب قریش، ص۵۰۔    
۱۵. علوی، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبین، ص۱۹۔    
۱۶. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۶۔    
۱۷. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۵۹۔    
۱۸. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔
۱۹. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۲۹۔    
۲۰. ابن اثیر، ابوالحسن، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۹۲۔    
۲۱. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۴۵، ص۳۷۵۔    
۲۲. ابوالفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، ص۹۲۔    
۲۳. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۵، ص۴۶۵۔    
۲۴. ابن اثیر، ابوالحسن، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۵۔    
۲۵. ارشاد، شیخ مفید، ج۲، ص۱۰۹۔    
۲۶. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔
۲۷. بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۴۰۶۔    
۲۸. قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ص۲۹۵۔
۲۹. محلاتی، ذبیح الله، فرسان الهیجاء، ج۱، ص۲۹۔    
۳۰. ابوحنیفه دینوری، الاخبارالطوال، ص۳۸۰۔
۳۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۴۴۸۔    
۳۲. ابی مخنف، مقتل الحسین علیه السلام، ص۱۷۴۔    
۳۳. معصوم قزوينى، محمد حسن بن محمد، رياض الشهادة و كنوز السعادة، ص۱۹۲۔
۳۴. قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج۳، ص۱۷۹۔    


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، ص۷۷-۷۹۔    
پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۸۳۱۔






جعبه ابزار