احمد بن حسن

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



احمد، امام مجتبیؑ کا فرزند اور شہدائے کربلا میں سے ہے۔


احمد کی ماں

[ترمیم]

آپ کی ماں امّ‌ بِشر، بنت ابومسعود انصاری ہیں۔

کربلا میں موجودگی

[ترمیم]

آپ سولہ
[۱] مامفانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۸، ص۲۷۶۔
یا انیس سال
[۳] اکلیل المصائب، ص۱۹۲۔
کے تھے کہ اپنی والدہ اور بھائی قاسم بن حسین اور دو بہنوں ام الحسن اور ام الخیر کے ہمراہ مدینہ سے امام حسینؑ کے ہمراہ کربلا آئے۔ جب عاشور کو بعد از ظہر جنگ شدت پکڑ گئی اور احمد نے امام حسینؑ کا استغاثہ سنا تو اپنے بھائی قاسم کے بعد میدان کی طرف روانہ ہوئے۔ شدید لڑائی کے دوران بڑی تعداد میں دشمن ہلاک ہوئے۔ پیاس کی شدت کی وجہ سے ان کی آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں اور اسی حال میں وہ خیمہ گاہ واپس چلے گئے اور عرض کیا:
چچا جان! کیا پانی ہے کہ میرا جگر ٹھنڈا ہو جائے اور دشمن کے مقابلے میں طاقت پیدا کروں؟! امام حسینؑ نے فرمایا: کچھ صبر کرو کہ تیرے جد رسول خداؐ تجھے سیراب کریں کہ اس کے بعد پھر ہرگز تمہیں پیاس نہیں لگے گی۔
احمد شہادت اور رسول خداؐ کے دیدار کے شوق میں ایک مرتبہ پھر میدان گئے اور بڑی تعداد میں دشمنوں کو زمین پر گرانے کے بعد اپنی ماں اور بہنوں کے سامنے منقذ بن نعمان عبدی کے تیر
[۵] اسرار الشهادات، ج۲، ص۳۸۳۔
سے درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔

احمد کا عاشور کے دن رجز

[ترمیم]

آپ جنگ کے دوران یہ جرز پڑھ رہے تھے:
انّی انا نَجْلُ الْامامِ بنِ علی
اضْرِبُكُمْ بِالسَيْفِ حَتّی يَعْذِلَ‌
نَحْنُ وَبَيْتُ اللَّه اوْلی بِالنّبىِ
اطْعَنُكُمْ بِالرَّمْحِ وَسَطَ القَسْطَلِ‌
اصْبِرْ قَلیلًا فالْمُنی بَعْدَ الْعَطَشِ
فَانَّ روحی فی الْجَهادِ مُنكَمِشٌ‌
لا ارْهَبُ الْموتَ اذْ الْموتُ وَحَش
ولَمْ اكُنْ عِنْدَ اللِّقاءِ ذارَعَشٍ
[۷] موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۴۷-۲۴۸۔

میں اس امام کا بیٹا ہوں جو امام علیؑ کے فرزند ہیں۔ شمشیر کے ساتھ ایسے تمہارے اوپر حملہ کروں گا کہ تمہیں ملامت ہو گی۔ کعبہ کی قسم! ہم پیغمبرؐ کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ میں گرد و غبار میں تمہارے اوپر نیزے کے وار کروں گا۔
اے نفس! کچھ صبر کر کہ تشنگی کے بعد آرزوئیں پوری ہونے کا وقت پہنچ جائے گا، بے شک میری روح جہاد میں شتاباں ہے۔ موت کے وحشت ناک ہونے کے باوجود میں اس سے نہیں ڈرتا اور موت یا حریف کے ساتھ مقابلے کے وقت میں نہیں کانپتا۔

احمد یا ابوبکر؟

[ترمیم]

بعض سیرت نگاروں کا خیال ہے کہ احمد وہی ابوبکر بن حسنؑ ہیں اور تاریخ میں اس حوالے سے موجود اختلاف کنیت اور اسم میں اختلاف کی قبیل سے ہے۔
[۸] تذكرة الشهداء، ص۱۷۰۔
[۹] اکلیل المصائب، ص۱۹۲۔
سید محسن امینؒ نے بھی مقاتل اور تاریخ کی کتب کے حوالے سے امام حسنؑ کے اس نام سے فرزند کی کربلا میں موجودگی میں تردید ظاہر کی ہے۔۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. مامفانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۸، ص۲۷۶۔
۲. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۳، ص۲۱۶۔    
۳. اکلیل المصائب، ص۱۹۲۔
۴. مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال، ج۸، ص۲۷۶۔    
۵. اسرار الشهادات، ج۲، ص۳۸۳۔
۶. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین علیه‌السلام، ص۱۶۵۔    
۷. موسوی زنجانی، ابراهیم، وسیلة الدارین، ص۲۴۷-۲۴۸۔
۸. تذكرة الشهداء، ص۱۷۰۔
۹. اکلیل المصائب، ص۱۹۲۔
۱۰. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۳، ص۲۱۶۔    


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۸۸-۸۹۔    






جعبه ابزار