احکام تعارض

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



وہ احکام جو دو یا چند دلیلوں کے درمیان تعارض کی صورت میں جاری ہوتے ہیں احکامِ تعارض کہلاتے ہیں۔


اصطلاح کی وضاحت

[ترمیم]

احکامِ تعارض ان احکام کو کہتے ہیں جو دو یا چند دلیل کے درمیان تعارض برپا ہونے کی صورت میں جاری ہوتے ہیں۔ فرق نہیں پڑتا وہ تعارض مستقر ہو یا غیر مستقر۔ اس اعتبار سے تعارض کی دو اہم صورتیں ہمارے سامنے آ جاتی ہیں:
۱۔ تعارضِ غیر مستقر
۲۔ تعارض مستقر

← چند قواعدِ کلی


احکامِ تعارض سے علماءِ اصول نے تفصیلی بحث کی ہے اور اس ضمن میں متعدد قواعد ذکر کیے ہیں جن میں چند کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
۱۔ اگر دو یا چند دلیلوں کے درمیان تعارض غیر مستقر ہو تو جمعِ عرفی کے قاعدہ سے استفادہ کیا جائے گا۔
۲۔ اگر دو یا چند دلیلوں کے درمیان تعارض مستقر ہو تو دیکھا جائے گا کہ دونوں دلیلوں میں تعادل پایا جاتا ہے یا نہیں؟
- اگر دونوں دلیلوں میں تعادل پایا جائے اور دونوں دلیلیں مساوی ہوں تو ایسی صورت میں قاعدہ یا تو تساقط قرار پائے گا اور دونوں دلیلوں کو ترک کیا جائے گا یا ایسی صورت میں قاعدہ تخییر جاری ہو گا اور اختیار ہو گا کہ دونوں میں سے جس کو اختیار کرنا چاہیں اختیار کر سکتے ہیں۔
- لیکن اگر دونوں دلیلوں میں تعادل نہ پایا جائے تو ایسی صورت میں مرجِّحات کی طرف رجوع کیا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ کونسی دلیل راجح ہے پس اس کو لے لیا جائے گا اور مرجوح کو ترک کر دیا جائے گا۔
[۶] جزائری، محمد جعفر، منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، ج۸، ص۸۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. اصفہانی، محمد حسین، الفصول الغرویۃ فی الاصول الفقہیۃ، ص۴۳۵۔    
۲. صدر، سید محمد باقر، دروس فی علم الاصول، ج۱، ص ۴۶۵-۴۵۵۔    
۳. نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۴، ص۷۰۰۔    
۴. نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۴، ص۷۰۳۔    
۵. نائینی، محمد حسین، فوائد الاصول، ج۴، ص۷۰۴۔    
۶. جزائری، محمد جعفر، منتہی الدرایۃ فی توضیح الکفایۃ، ج۸، ص۸۔


مأخذ

[ترمیم]

فرہنگ‌ نامہ اصول فقہ، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۱۰۵، مقالہِ احکام تعارض سے یہ تحریر لی گئی ہے۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : تعارض ادلہ | قواعد تعارض




جعبه ابزار