اخباری

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اخباری، علمائے امامیہ کے اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو اجتہاد کی حرمت کے قائل ہیں اور منابعِ احکام کو معصومینؑ کی سنت میں منحصر سمجھتے ہیں۔


تعریف

[ترمیم]

اخباری، علمائے امامیہ کا وہ گروہ ہے جو اجتہاد کو حرام سمجھتا ہے اور شرعی احکام تک رسائی کا راستہ صرف پیغمبرؐ اور آئمہ معصومینؑ کی سنت کو سمجھتا ہے؛ اسی وجہ سے قرآن کی طرف براہ راست رجوع اور احکام کی شناخت کیلئے عقل و اجماع سے استفادہ جائز نہیں سمجھتا؛ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ قرآن کو اس کے مخاطَب (من خوطب بہ) سمجھتے ہیں اور قرآن کے اصلی مخاطبین معصومینؑ ہیں۔ اس لیے وہ براہ راست قرآن سے بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔ تاہم دوسرے لوگ چونکہ قرآن کے اصل مخاطب نہیں ہیں اور اس کی زبان سے آشنا نہیں ہیں، ان کیلئے قرآن حجت نہیں ہے۔

اخباریوں کے عقائد

[ترمیم]

اس گروہ کے نزدیک اجماع بھی اگر قول معصومؑ کے کاشف ہونے کے اصول کی بنیاد پر حجت ہو، تو اس کی حجیت سنت کی طرف پلٹتی ہے اور اگر قول معصومؑ کا کاشف نہ ہو تو حجت نہیں ہے۔ حکم عقل بھی حسی یا قریب الحس مبدأ نہ رکھنے کی صورت میں حجت نہیں ہے کیونکہ عقل فلسفہ احکام اور شرعی مسائل کے واقعی و حقیقی مفاسد و مصالح کو درک نہیں کر سکتی۔

اخباریوں کی تاریخ

[ترمیم]

اخباریت باقاعدہ طور پر گیارہویں صدی ہجری میں کتاب الفوائد المدنیۃ کے مؤلف مرزا محمد امین استرآبادی کی سربراہی میں وجود میں آئی؛ اگرچہ اس کی علامات گزشتہ صدیوں کے محدثین کے کلام میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ استرآبادی کے بعد اس فرقے کی سربراہی کو شیخ یوسف بحرانی نے اپنے ذمے لے لیا۔
استرآبادی نے اپنے نقطہ نظر اور مسلک کے اثبات اور تبلیغ کیلئے بہت کوشش کی اور اس کے نتیجے میں کچھ ہی عرصے میں ان کے افکار تیزی سے پھیل گئے۔
عراق کی بزرگ معاشرتی شخصیات ان کے افکار کی گرویدہ ہو گئیں اور کربلا کا مقدس شہر اس نظریے کے حامیوں اور اخباریت کی ترویج کا مرکز بن گیا۔ اس زمانے میں جو مجتہدین اور فقہا اخباریت کے افکار پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ لوگوں کی نگاہ میں معاشرتی مقام سے محروم رہتے تھے۔ اسی طرح اخباریوں کا مجتہدین کے ساتھ برتاؤ بہت سخت اور بدگمانی پر مبنی تھا اور وہ اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لا کر فقہا کے خلاف محاذ کھڑا کرتے تھے۔ یہ تحریک جاری رہی یہاں تک کہ مرحوم وحید بھبھانی جیسی شخصیت علمی مباحثوں میں ظاہر ہوئی اور ان کی آمد کے بعد اخباریت شکست اور تنہائی سے دوچار ہو گئی۔

کلمہ اخباری کا معنی

[ترمیم]

نکتہ:
کلمہ ’’اخباری‘‘ کا دو معنوں پر اطلاق ہوتا ہے:
۱۔ ایک معنی میں یہ ’’محدث‘‘ کے معنی میں ہے اور اس کا اطلاق صدوقؒ و کلینیؒ پر ہوتا ہے۔
۲۔ ایک اور معنی میں یہ اصولی کے مقابلے میں ہے اور اس کا اس معنی میں استعمال عصر حاضر میں رائج ہے اور تبادر کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔
[۲] ترمینولوژی حقوق، جعفری لنگرودی، محمد جعفر، ص۱۸۔
[۳] ترمینولوژی حقوق، جعفری لنگرودی، محمد جعفر، ص۶۱۶۔
[۴] ادوار اجتهاد، جناتی، محمد ابراهیم، ص(۳۵۰-۳۰۹)۔
[۵] مباحثی ازاصول فقه، محقق داماد، مصطفی، ج۲، ص۱۱۳۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. انوار الاصول، مکارم شیرازی، ناصر، ج۳، ص۶۰۸۔    
۲. ترمینولوژی حقوق، جعفری لنگرودی، محمد جعفر، ص۱۸۔
۳. ترمینولوژی حقوق، جعفری لنگرودی، محمد جعفر، ص۶۱۶۔
۴. ادوار اجتهاد، جناتی، محمد ابراهیم، ص(۳۵۰-۳۰۹)۔
۵. مباحثی ازاصول فقه، محقق داماد، مصطفی، ج۲، ص۱۱۳۔


ماخذ

[ترمیم]

فرهنگ‌نامه اصول فقه، تدوین توسط مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی، ص۱۲۹، ماخوذ از مقالہ اخباریون۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اخباری | شیعہ فرقے | فرق و مذاہب | مجتہد




جعبه ابزار