اشرف علی تھانوی
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
اشرف علی بن عبد الحق فاروقی تھانوی (۱۲۸۰-۱۳۶۲ متوفّی) کو حکیم الامت، محدث ، عارف بالله و فقیہ،
واعظ و
عارف، حنفی مؤلف اور
دیوبند مکتب کے ایک عالم تھے۔
[ترمیم]
اشرف علی بن عبد الحق فاروقی تھانوی سنہ ۱۲۸۰ میں مظفر نگر
ہندوستان کے نواحی تھانہ گاؤں میں پیدا ہوئے۔
[ترمیم]
اشرفعلی نے اپنی تعلیم کا تھانہ میں آغاز کیا اور پھر دار العلوم دیوبند میں محمود حسن دیوبندی، محمود نانوتوی اور یعقوب نانوتوی کے پاس تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
[ترمیم]
اشرفعلی نے سفر
حج کے دوران
حاجی امداداللّه تھانوی سے (مہاجر
مکی اور
انگلستان کے خلاف ہندی مزاحمت کے رہنما کہ جو مولوی کی
مثنوی سے بہت شغف رکھتے تھے اور
کعبہ کے جوار میں مثنوی کی شرح بیان کرتے تھے)
طریقت کا کسب فیض کیا اور کچھ مدت تک ان کے مصاحب رہے۔
پھر ہندوستان واپس آ گئے اور
کانپور میں تدریس کرنے لگے۔
کچھ مدت کے بعد باطنی احوال ان پر غلبہ کرنے لگے؛ پس تدریس کو ترک کر کے کچھ مدت تک ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر اختیار کیا۔
تھانوی ایک مرتبہ پھر
حجاز گئے اور کچھ مدت حاجی امداد اللہ کی صحبت میں رہے۔ وہ ۱۳۱۵ میں اپنے وطن واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک وہاں سے شاذ و نادر ہی کہیں نکلتے تھے اور مریدوں کی ہدایت، اصلاح
نفوس ، کتابت ، تالیف، تدریس، وعظ اور خطابت میں مصروف رہے۔
[ترمیم]
اشرف علی اپنے شیخ کی طرح مثنوی سے بہت زیادہ وابستہ تھے اور اپنی مجالس و مواعظ میں مثنوی کے اشعار سے بہت زیادہ استناد کرتے تھے۔
[ترمیم]
اشرفعلی کی وفات ۱۳۶۲ میں ہوئی اور انہیں ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔
[ترمیم]
تهانوی کی بہت زیادہ تألیفات ہیں۔
ان کی
فارسی ،
عربی اور
اردو زبانوں میں مختلف موضوعات منجملہ
فقہ ،
تفسیر ،
حدیث ،
منطق ،
کلام ،
عرفان اور قرائت میں تین سو کے لگ بھگ تالیفات ہیں۔
آپ کے آثار میں سے بہشتی زیور ہے جو اردو زبان میں بچیوں کیلئے تالیف کی گئی تھی اور یہ بہت زیادہ رائج ہوئی۔
هدایۃ الحکمۃ مؤلفہ
اثیر الدین ابهری کا خلاصہ جو
دہلی میں شائع ہوا۔
کرامات امدادیہ و کمالات امدادیہ جو دونوں امداد اللّه تهانوی کے حالات کے بارے میں ہیں۔
حافظ کے عارفانہ کلام کی شرح جو
عرفان کے نام سے شائع ہوئی۔
قرآن مجید کے اردو زبان میں مترجم تھے۔ اس ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ
فارسی زبان پر بھی مکمل تسلط رکھتے تھے اور احتمالا فارسی تراجم وتفاسیر سے اپنے اردو ترجمہ میں انہوں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔
تھانوی کے مثنوی سے متعلق آثار جیسے مسائل المثنوی، رونمای مثنوی، حل بعضی اشعار مثنوی (فارسی زبان میں) شائع ہوئے ہیں۔
کلید مثنوی کے نام سے ایک مفصل کتاب کے بھی حامل ہیں جو مثنوی کے اہم اشعار کا اردو زبان میں ترجمہ اور شرح ہے اور اس میں انہوں نے اپنے شیخ کے اقوال سے استفادہ کیا ہے۔
[ترمیم]
تھانوی کے احوال و تالیفات پر مستقل کتب لکھی گئی ہیں کہ منجملہ: اشرف السوانح چار جلدوں میں، مؤلفہ عزیزالحسن؛ حکیم الاُمّۃ از عبدالماجد دریابادی اور سیرت اشرف مؤلفہ عبد الرحمان خان قابل ذکر ہیں۔
[ترمیم]
(۱) اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)۔
(۲) اکبر ثبوت، «گوشههایی از جایگاه مثنوی در تاریخ و فرهنگ ما»، در ادبیات معاصر دری افغانستان، چاپ شریف حسین قاسمی، دهلی ۱۹۹۴۔
(۳) اکبر ثبوت، «هدایة الحکمة و شروح آن»، در خرد جاودان: جشن نامه استاد سیدجلال الدین آشتیانی، به کوشش علی اصغر محمدخانی و حسن سیدعرب، تهران ۱۳۷۷ شمسی۔
(۴) شمس الدین محمد حافظ، دیوان، با ترجمه اردو از قاضی سجاد حسین، لاهور ۱۳۶۳ ش، عبدالحی حسنی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر، ج ۸، حیدرآباد دکن ۱۴۰۲/ ۱۹۸۲۔
(۵) قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، کراچی ۱۹۷۵۔
(۶) حسنی۔
[ترمیم]
[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ «اشرفعلی بن عبدالحق فاروقیتهانوی»، شماره۴۱۰۱۔ مجله مطالعات راهبردی جهان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شماره ۷۲ (۲۸ صفحه - از ۱۴۹ تا ۱۷۶)، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیه در شبه قاره هند»، تاریخ بازیابی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔