اشرف علی تھانوی

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



اشرف‌ علی بن عبد الحق فاروقی ‌تھانوی (۱۲۸۰-۱۳۶۲ متوفّی) کو حکیم الامت، محدث ، عارف‌ بالله‌ و فقیہ، واعظ و عارف، حنفی مؤلف اور دیوبند مکتب کے ایک عالم تھے۔


ولادت

[ترمیم]

اشرف‌ علی بن عبد الحق فاروقی ‌تھانوی سنہ ۱۲۸۰ میں مظفر نگر ہندوستان کے نواحی تھانہ گاؤں میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

[ترمیم]

اشرف‌علی نے اپنی تعلیم کا تھانہ میں آغاز کیا اور پھر دار العلوم دیوبند میں محمود حسن دیوبندی، محمود نانوتوی اور یعقوب نانوتوی کے پاس تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔
[۱] حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۶۔


طریقت کا آغاز

[ترمیم]

اشرف‌علی نے سفر حج کے دوران حاجی امداداللّه تھانوی سے (مہاجر مکی اور انگلستان کے خلاف ہندی مزاحمت کے رہنما کہ جو مولوی کی مثنوی سے بہت شغف رکھتے تھے اور کعبہ کے جوار میں مثنوی کی شرح بیان کرتے تھے)
[۲] حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۷۱ـ۷۲۔
طریقت کا کسب فیض کیا اور کچھ مدت تک ان کے مصاحب رہے۔
پھر ہندوستان واپس آ گئے اور کانپور میں تدریس کرنے لگے۔
کچھ مدت کے بعد باطنی احوال ان پر غلبہ کرنے لگے؛ پس تدریس کو ترک کر کے کچھ مدت تک ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر اختیار کیا۔
تھانوی ایک مرتبہ پھر حجاز گئے اور کچھ مدت حاجی امداد اللہ کی صحبت میں رہے۔ وہ ۱۳۱۵ میں اپنے وطن واپس آ گئے اور زندگی کے آخری ایام تک وہاں سے شاذ و نادر ہی کہیں نکلتے تھے اور مریدوں کی ہدایت، اصلاح نفوس ، کتابت ، تالیف، تدریس، وعظ اور خطابت میں مصروف رہے۔
[۳] حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۶ ـ۵۷۔
[۴] اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)۔


مثنوی سے وابستگی

[ترمیم]

اشرف علی اپنے شیخ کی طرح مثنوی سے بہت زیادہ وابستہ تھے اور اپنی مجالس و مواعظ میں مثنوی کے اشعار سے بہت زیادہ استناد کرتے تھے۔

وفات

[ترمیم]

اشرف‌علی کی وفات ۱۳۶۲ میں ہوئی اور انہیں ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔
[۵] حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۹۔


آثار

[ترمیم]

تهانوی کی بہت زیادہ تألیفات ہیں۔

← تالیفات کا جائزہ


ان کی فارسی ، عربی اور اردو زبانوں میں مختلف موضوعات منجملہ فقہ ، تفسیر ، حدیث ، منطق ، کلام ، عرفان اور قرائت میں تین سو کے لگ بھگ تالیفات ہیں۔

← تالیفات


آپ کے آثار میں سے بہشتی زیور ہے جو اردو زبان میں بچیوں کیلئے تالیف کی گئی تھی اور یہ بہت زیادہ رائج ہوئی۔
[۶] حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۲، ص۵۸۔
[۷] اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)۔

هدایۃ الحکمۃ مؤلفہ اثیر الدین ابهری کا خلاصہ جو دہلی میں شائع ہوا۔
[۸] اکبر ثبوت، «هدایة الحکمة و شروح آن»، ج۱، ص۱۴۹، در خرد جاودان: جشن نامه استاد سیدجلال الدین آشتیانی، به کوشش علی اصغر محمدخانی و حسن سیدعرب، تهران ۱۳۷۷ ش۔

کرامات امدادیہ و کمالات امدادیہ جو دونوں امداد اللّه تهانوی کے حالات کے بارے میں ہیں۔
[۹] قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۶۸، کراچی ۱۹۷۵۔

حافظ کے عارفانہ کلام کی شرح جو عرفان کے نام سے شائع ہوئی۔
[۱۰] شمس الدین محمد حافظ، دیوان، ج۱، صمج، با ترجمه اردو از قاضی سجاد حسین، لاهور ۱۳۶۳ ش، عبدالحی حسنی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر، ج ۸، حیدرآباد دکن ۱۴۰۲/ ۱۹۸۲۔

قرآن مجید کے اردو زبان میں مترجم تھے۔ اس ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فارسی زبان پر بھی مکمل تسلط رکھتے تھے اور احتمالا فارسی تراجم وتفاسیر سے اپنے اردو ترجمہ میں انہوں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔

← مثنوی سے مربوط آثار


تھانوی کے مثنوی سے متعلق آثار جیسے مسائل‌ المثنوی، رونمای مثنوی، حل بعضی اشعار مثنوی (فارسی زبان میں) شائع ہوئے ہیں۔
کلید مثنوی کے نام سے ایک مفصل کتاب کے بھی حامل ہیں جو مثنوی کے اہم اشعار کا اردو زبان میں ترجمہ اور شرح ہے اور اس میں انہوں نے اپنے شیخ کے اقوال سے استفادہ کیا ہے۔
[۱۱] اکبر ثبوت، «گوشه‌هایی از جایگاه مثنوی در تاریخ و فرهنگ ما»، ج۱، ص۱۸۸، در ادبیات معاصر دری افغانستان، چاپ شریف حسین قاسمی، دهلی ۱۹۹۴۔
[۱۲] قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۱۴، کراچی ۱۹۷۵۔
[۱۳] قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۵۱ـ۲۵۲، کراچی ۱۹۷۵۔
[۱۴] قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۸۰، کراچی ۱۹۷۵۔


سوانح حیات

[ترمیم]

تھانوی کے احوال و تالیفات پر مستقل کتب لکھی گئی ہیں کہ منجملہ: اشرف ‌السوانح چار جلدوں میں، مؤلفہ عزیزالحسن؛ حکیم ‌الاُمّۃ از عبدالماجد دریابادی اور سیرت اشرف مؤلفہ عبد الرحمان خان قابل ذکر ہیں۔
[۱۵] قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۶۷، کراچی ۱۹۷۵۔


مصادر

[ترمیم]
(۱) اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)۔
(۲) اکبر ثبوت، «گوشه‌هایی از جایگاه مثنوی در تاریخ و فرهنگ ما»، در ادبیات معاصر دری افغانستان، چاپ شریف حسین قاسمی، دهلی ۱۹۹۴۔
(۳) اکبر ثبوت، «هدایة الحکمة و شروح آن»، در خرد جاودان: جشن نامه استاد سیدجلال الدین آشتیانی، به کوشش علی اصغر محمدخانی و حسن سیدعرب، تهران ۱۳۷۷ شمسی۔
(۴) شمس الدین محمد حافظ، دیوان، با ترجمه اردو از قاضی سجاد حسین، لاهور ۱۳۶۳ ش، عبدالحی حسنی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر، ج ۸، حیدرآباد دکن ۱۴۰۲/ ۱۹۸۲۔
(۵) قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، کراچی ۱۹۷۵۔
(۶) حسنی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۶۔
۲. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۷۱ـ۷۲۔
۳. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۶ ـ۵۷۔
۴. اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)۔
۵. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۸، ص۵۹۔
۶. حسنی،عبدالحی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر ، ج۲، ص۵۸۔
۷. اردو دائرة معارف اسلامیّه، لاهور ۱۳۸۴ـ۱۴۱۰/۱۹۶۴ـ۱۹۸۹، ذیل «اشرف علی تهانوی» (از ابوسعید بزمی انصاری)۔
۸. اکبر ثبوت، «هدایة الحکمة و شروح آن»، ج۱، ص۱۴۹، در خرد جاودان: جشن نامه استاد سیدجلال الدین آشتیانی، به کوشش علی اصغر محمدخانی و حسن سیدعرب، تهران ۱۳۷۷ ش۔
۹. قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۶۸، کراچی ۱۹۷۵۔
۱۰. شمس الدین محمد حافظ، دیوان، ج۱، صمج، با ترجمه اردو از قاضی سجاد حسین، لاهور ۱۳۶۳ ش، عبدالحی حسنی، نزهة الخواطر و بهجة المسامع والنواظر، ج ۸، حیدرآباد دکن ۱۴۰۲/ ۱۹۸۲۔
۱۱. اکبر ثبوت، «گوشه‌هایی از جایگاه مثنوی در تاریخ و فرهنگ ما»، ج۱، ص۱۸۸، در ادبیات معاصر دری افغانستان، چاپ شریف حسین قاسمی، دهلی ۱۹۹۴۔
۱۲. قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۱۴، کراچی ۱۹۷۵۔
۱۳. قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۵۱ـ۲۵۲، کراچی ۱۹۷۵۔
۱۴. قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۸۰، کراچی ۱۹۷۵۔
۱۵. قاموس الکتب اردو، ج ۲: تاریخیات، ج۲، ص۲۶۷، کراچی ۱۹۷۵۔


ماخذ

[ترمیم]
دانشنامه جهان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ماخوذ از مقالہ «اشرف‌علی بن عبدالحق فاروقی‌تهانوی»، شماره۴۱۰۱۔    
مجله مطالعات راهبردی جهان اسلام، زمستان ۱۳۹۶ - شماره ۷۲ (‌۲۸ صفحه - از ۱۴۹ تا ۱۷۶)، ماخوذ از مقالہ «ساختار دیوبندیه در شبه قاره هند»، تاریخ بازیابی ۱۴۰۰/۰۹/۱۴۔    






جعبه ابزار