اضراب (فقہ)

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بل جیسے کلمات کے ساتھ اپنے سابق کلام سے صرف نظر کرنے کو اضراب کہتے ہیں۔ اس حوالے سے کتاب طلاق اور اقرار میں بحث کی گئی ہے۔


اقرار سے اضراب

[ترمیم]

پہلے اقرار سے اضراب کر کے دوسرے اقرار کی طرف منتقل ہونا، پہلے اقرار کو نظرانداز کرنے کا موجب نہیں ہوتا۔
اس بنا پر اگر کوئی یہ کہے کہ یہ قالین حسن کا ہے بلکہ حسین کا ہے تو قالین حسن کو دے دیا جائے گا اور اس کی قیمت حسین کو ادا کی جائے گی مگر یہ کہ قرینے سے علم ہو جائے کہ پہلے اقرار کے وقت خطا ہو گئی تھی۔ اس صورت میں دوسرے اقرار کو قبول کیا جائے گا۔

کم سے زیادہ کی طرف اضراب کا حکم

[ترمیم]

اگر بل کے ذریعے عطف کیا جائے اور معطوف و معطوف علیہ مختلف ہوں یا معین ہوں تو یہ اضراب قبول نہیں کیا جائے گا اور دونوں چیزیں اقرار کرنے والے کی گردن پر واجب الادا ہو جائیں گی کیونکہ قاعدہ اقرار العقلاء اور قاعدہ عدم سماع الانکار بعد الاقرار دونوں عام ہیں۔ پس اگر وہ کہے کہ میرے اوپر ایک من گندم واجب الادا ہے پھر کہے بلکہ ایک من جو تو اس پر دونوں چیزیں لازم ہو جائیں گی۔ اس مسئلے کی مزید فروعات ہیں جو فقہی کتب میں مذکور ہیں۔

طلاق میں اضراب

[ترمیم]

اگر طلاق دہندہ یہ کہے کہ زینب طالق ہے بلکہ رقیہ؛ تو آیا طلاق اس کی دونوں بیویوں کو ہو جائے گی یا صرف پہلی کو؟! تو اس مسئلے میں اختلاف ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جواهر الکلام ج۳۵، ص۲۱-۲۴۔    
۲. جواهر الکلام ج۳۲، ص۱۰۱۔    
۳. مسالک الافهام ج۹، ص۱۱۱۔    


ماخذ

[ترمیم]

فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۱، ص۵۷۲-۵۷۳۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : اقرار | طلاق | فقہ | قانونی اصطلاحات




جعبه ابزار