ام وہب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امِّ وَهَبْ بنت عبد زوجہ عبد الله بن عمیر کلبی نمر بن قاسط قبیلے کی شاخ بنی عُلیم سے ہے۔ بعض نے ان کا نام قمر یا قمری کہا ہے۔
[۲] حسون، محمد، اعلام النساء المؤمنات، ص۵۹۹-۵۹۸۔
[۳] محلاتی، ذبیح الله، رياحين الشريعه، ج۳، ص۳۰۰۔



امِّ وَهَبْ کی کاروان حسینی سے آگاہی

[ترمیم]

امِّ وَهَبْ اپنے شوہر کے ساتھ کوفہ کے ایک گھر میں رہائش پذیر تھی۔ جب عبد اللہ کو لوگوں کی امام حسینؑ کے خلاف جنگ کیلئے کربلا روانگی کا پتہ چلا تو اس نے فیصلہ کیا کہ امام حسینؑ کی مدد کیلئے نکلے۔ اس کی زوجہ نے بھی اپنے قصد سے آگاہ کر دیا۔ وہ بھی خوش ہو گیا اور اسے ہمراہ لے لیا۔ وہ دونوں رات کے وقت کربلا پہنچ گئے اور حسینی کاروان کے ساتھ ملحق ہو گئے۔

← زوجہ کی جانب سے جنگ کی تشویق


عاشور کے دن عبد اللہ کی میدان جنگ میں روانگی کے وقت ام وھب نے اپنے ہاتھ میں ایک گرز تھاما اور اسے کہا: میرے ماں باپ تجھ پر قربان! پاک و پاکیزہ افراد اور محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وارثوں کا دفاع کرو!
عبد اللہ نے دشمن پر حملہ کیا اور وہ خاتون بھی ان کے پیچھے چل پڑیں۔ عبد اللہ نے چاہا کہ وہ خواتین میں واپس چلی جائیں؛ مگر ام وھب نے اس کا لباس پکڑ لیا اور کہا: میں تجھے نہیں چھوڑوں گی، مجھے بھی تمہارے ساتھ ہی مرنا ہے۔ اس وقت امام حسینؑ نے صدا دی: خدا تمہیں جزائے خیر دے۔ اے خاتون! خدا تم پر رحمت کرے، خواتین میں واپس آ جاؤ اور ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ کیونکہ زنان کیلئے جہاد نہیں ہے اور وہ واپس آ گئیں۔

← امِّ وَهَبْ، کربلا کی پہلی شہید خاتون


ایک روایت کی بنا پر ام وھب اپنے شوہر کی شہادت کے بعد ان کے پاس آئیں؛ ان کے چہرے سے خاک و خون صاف کیا اور کہا: تجھے بہشت مبارک ہو، اسی دوران شمر کے غلام رستم نے اس کے حکم پر لوہے کا گرز ان کی پیشانی پر دے مارا اور انہیں شہید کر دیا۔
[۱۲] حسون، محمد، اعلام النساء المؤمنات، ص۵۹۹۔

وہ پہلی خاتون تھیں جو کربلا میں شہید ہوئیں۔

← امِّ وَهَبْ کے بیٹے کی شہادت


ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ ام وھب اپنے شوہر نہیں بلکہ اپنے بیٹے وھب کے ساتھ کربلا آئیں اور وہاں پر وھب جو نصرانی تھے اور امام حسینؑ کے ہاتھ پر اسلام لائے اور حضرتؑ کے دفاع کیلئے کھڑے ہو گئے۔
وھب کی زوجہ کے منع کرنے پر ان کی ماں نے کہا کہ جب تک راہ حسینؑ میں شہادت نہ پائے، اس سے راضی نہیں ہوں گے۔
وھب نے جنگ کی اور شہادت پر فائز ہو گئے اور ان کی ماں نے بھی مذکورہ بالا کیفیت سے جام شہادت نوش کیا۔
[۱۷] ملا آقا دربندی، اسرار الشهاده، ج۴، ص۳۲۴۔
[۱۸] سپهرکاشانی، محمدتقی، ناسخ التواريخ، ج۲، ص۲۶۹۔
[۱۹] قمی، عباس، نفس المهموم، ص۱۴۶ ترجمه شعرانى۔


نوٹ

[ترمیم]

منتخب التواریخ کی مانند بعض مصادر نے انہیں اسیران کربلا میں سے قرار دیا ہے۔
[۲۰] منتخب التّواريخ، ص ۳۰۰۔


حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۶۔    
۲. حسون، محمد، اعلام النساء المؤمنات، ص۵۹۹-۵۹۸۔
۳. محلاتی، ذبیح الله، رياحين الشريعه، ج۳، ص۳۰۰۔
۴. طبری، ابن جریر، تاریخ طبری، ج۴، ص۳۲۷۔    
۵. ابن اثیر، ابوالحسن، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۵۔    
۶. امین، محسن، اعیان ‌الشیعه،ج۱، ص۵۹۹۔    
۷. جمعی از نویسندگان، ابصار العین فی انصار الحسین علیه‌السلام، ص۱۵۸۔    
۸. مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج۲، ص۱۰۱۔    
۹. ابن کثیر، البدایه والنهایه، ج۸، ص۱۹۷۔    
۱۰. موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین علیه‌السلام، ص۲۳۸۔    
۱۱. ابن اثیر، ابوالحسن، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۶۹۔    
۱۲. حسون، محمد، اعلام النساء المؤمنات، ص۵۹۹۔
۱۳. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۱، ص۵۹۹۔    
۱۴. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیه‌السلام، ج۲، ص۱۶۔    
۱۵. کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۰۴۔    
۱۶. خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین علیه‌السلام، ج۲، ص۱۶۔    
۱۷. ملا آقا دربندی، اسرار الشهاده، ج۴، ص۳۲۴۔
۱۸. سپهرکاشانی، محمدتقی، ناسخ التواريخ، ج۲، ص۲۶۹۔
۱۹. قمی، عباس، نفس المهموم، ص۱۴۶ ترجمه شعرانى۔
۲۰. منتخب التّواريخ، ص ۳۰۰۔


ماخذ

[ترمیم]

جمعی از نویسندگان، پژوهشی پیرامون شہدائے کربلا، ص۹۹-۱۰۰۔    
اسیران و جانبازان کربلا، مظفری سعید، محمد، ص۱۴۵۔    






جعبه ابزار