ولادت امام ہادیؑ

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



حضرت امام ابو الحسن علی نقی ہادیؑ اہل تشیع کے دسویں پیشوا پندرہ ذی الحج سنہ ۲۱۲ھ کو مدینہ کے اطراف میں صریا نامی ایک علاقے میں پیدا ہوئے۔


زندگی‌ نامہ

[ترمیم]
آسمان امامت و ولایت کے روشن ستارے حضرت امام ابو الحسن علی نقی ہادیؑ پندرہ ذی الحج سنہ ۲۱۲ھ کو مدینہ کے نواحی مقام صریا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار امام جوادؑ ہیں اور آپ کی والدہ گرامی سمانہ ہیں جو ایک اہل فضل اور متقی کنیز تھیں۔۔ حضرتؑ کے مشہور ترین القاب ’’نقی‘‘ اور ’’ہادی‘‘ ہیں۔ حضرتؑ کو ابوالحسن الثالث بھی کہتے ہیں۔ حضرتؑ آٹھ سال کے سن میں مسند امامت پر فائز ہوئے اور ۳۴ سال تک اہل ایمان کو اپنے فیوض و برکات سے مستفید فرماتے رہے۔ آپؑ کو سنہ ۲۵۴ھ میں اکتالیس برس کے سن میں شہید کر دیا گیا۔

زمانہ امامؑ کے خلفا

[ترمیم]

حضرتؑ کے زمانہ حیات میں یکے بعد دیگرے چھ عباسی خلفا اقتدار میں رہے اور انہوں نے شیعوں کے خلاف ظلم اور جبر کی انتہا کر دی۔ ان کے نام یہ ہیں: معتصم (۲۱۷-۲۲۷ھ)، واثق (۲۲۷-۲۳۲ھ)، متوکل (۲۳۲-۲۴۸ھ)، منتصر (۶ ماہ)، مستعین (۲۴۸-۲۵۲ھ)، معتز(۲۵۲-۲۵۵ھ)۔
البتہ ترکوں اور موالیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے عباسی خلفا اس زمانے میں بہت ضعیف اور خلافت عملی طور پر ایک برائے نام عہدہ بن چکا تھا۔ دوسری جانب خلفا خرابیوں، شہوت پرستی اور گناہ میں غرق ہو چکے تھے۔ اس طرح کے مسائل کی وجہ سے معاشرے میں ظلم و ستم کا دور دورہ تھا۔
اس دوران کچھ علوی کوئی نہ کوئی تحریک چلاتے تھے لیکن اکثر کو شکست اٹھانا پڑی؛ کیونکہ اصل رہبری آئمہؑ کے دوش پر تھی مگر انہیں فوجی چھاؤنیوں میں کڑی نگرانی کیساتھ نظر بند رکھا جاتا تھا۔

متوکل کے جرائم

[ترمیم]

امامؑ نے خلفا میں سے زیادہ عرصہ متوکل کے دور میں گزارا۔ متوکل آپؑ کی نسبت شدید ترین بغض و کینہ رکھتا تھا۔ متوکل شیعوں اور بنی ہاشم پر انتہائی سختی کرتا تھا اور ان کے بارے میں بدگمان رہتا تھا۔ اس کا وزیر ’’عبید اللہ بنی یحییٰ بن خاقان‘‘ بھی اس کام میں اس کی بھرپور معاونت کرتا اور اس کے سامنے ہمیشہ بنو ہاشم کی برائیاں کرتا رہتا۔ یہاں تک کہ متوکل جبر و تشدد میں تمام خلفائے بنی عباس پر سبقت لے گیا۔ اس نے سنہ ۲۳۶ھ میں امام حسینؑ کا مزار منہدم کر کے پانی چھوڑ دیا اور زیارت پر بھی پابندی عائد کر دی۔ اس کے جرائم میں ابن سکیت جیسے شیعوں کا ناجائز قتل اور بہت سے دوسرے شیعوں پر ظلم و تشدد شامل ہیں۔ وہ امیر المومنینؑ اور آپؑ کے خاندان سے تعجب انگیز کینہ رکھتا تھا اور کسی بھی شخص کی حضرتؑ سے عقیدت کی اطلاع پاتے ہی اس کا مال ضبط کر لیتا اور اسے تہ تیغ کر دیتا تھا۔۔
حضرت امام ہادیؑ کیلئے حالات اس قدر سخت و دشوار تھے کہ محمد بن اشراف نقل کرتے ہیں:
میں حضرتؑ کے ہمراہ مدینہ سے گزر رہا تھا۔ حضرتؑ نے مجھے فرمایا: تو اشرف کا بیٹا نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں!۔ پھر میں نے ایک سوال پوچھنا چاہا مگر حضرتؑ نے پہلے ہی فرما دیا: ہم راستے سے گزر رہے ہیں اور سوال پوچھنے کے حوالے سے یہ جگہ مناسب نہیں ہے۔

امامؑ کا تقیہ

[ترمیم]

حضرت اپنے زمانے میں ہمیشہ تقیہ فرماتے تھے۔ حضرتؑ کی ایک سیاسی تدبیر یہ تھی کہ آپؑ سارے اسلامی ممالک میں ایک منظم نیٹ ورک سے استفادہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قم میں بھی محمد بن داود قمی اور محمد طلحی جیسے لوگ آپ کے وکلا کی حیثیت سے موجود تھے۔ البتہ سابق آئمہؑ بھی اسی طرح کے نیٹ ورک سے استفادہ فرماتے تھے۔ اس حوالے سے محمد بن داود نقل کرتے ہیں:
امامؑ کی خدمت میں قم سے کچھ اموال لے کر جا رہے تھے کہ راستے میں ہی امامؑ کا قاصد آن پہنچا اور کہنے لگا: فی الحال یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ ہم مال و اسباب واپس لے آئے اور کچھ مدت کے بعد حضرتؑ کے حکم کے مطابق ہم نے انہیں اونٹوں پر لاد کر ساربانوں کے بغیر ہی روانہ کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو سب اموال کو جوں کا توں وہاں پایا۔

امامؑ کی محبوبیت

[ترمیم]

امامؑ لوگوں اور حتی حکومتی اہلکاروں میں بھی خاص محبوبیت رکھتے تھے۔ یوں کہ امامؑ کو سامرا منتقل کرنے پر مامور شخص یحییٰ بن ہرثمہ جب مدینہ میں حضرتؑ کے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اسے شہر بھر کے لوگوں میں تشویش کی لہر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ راستے میں بغداد سے گزرتے ہوئے وہاں کے گورنر اسحاق بن ابراہیم طاہری سے کہتا ہے:
یحییٰ! یہ شخصیت فرزند رسولؐ ہیں۔ اگر تو نے متوکل کو ان کے قتل پر اکسایا تو رسول خداؐ تجھ سے خون خواہی کریں گے۔
[۸] سبط ابن الجوزی، یوسف بن فرغلی، تذکرة الخواص، ص۳۵۹۔

ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرتؑ حتی اپنے دشمنوں کے درمیان بھی خاص محبوبیت کے حامل تھے۔ حضرتؑ کے کلام کا اثر و رسوخ اس قدر زیادہ تھا کہ متوکل کی بزم شراب میں اس کے اصرار پر ایسے حکمت بھرے اشعار کہے کہ اس کی حالت متغیر ہو گئی اور نہ صرف وہ خود رونے لگا بلکہ حاضرین کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں۔ پھر اس نے شراب کی محفل ختم کر دی اور حضرتؑ کی خدمت میں چار ہزار درہم ہدیہ کیے اور آپؑ کو عزت و احترام کیساتھ گھر روانہ کر دیا۔
[۹] مسعودی، ابی الحسن علی بن الحسین، مروج الذهب، ج۴، ص۱۱۔

متوکل نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یہ حکم جاری کیا کہ امامؑ کو قتل کر دیا جائے لیکن حضرتؑ نے فرمایا:
دو دن سے زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ متوکل مارا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔

انحرافی مکاتب فکر کی پیدائش

[ترمیم]

حضرتؑ کے زمانے کا ایک اہم مسئلہ منحرف اور شدت پسند مکاتب کی پیدائش کا تھا۔ حضرتؑ نے پورے ملک میں خطوط لکھ کر اہل ایمان کو ان خطروں سے خبردار کیا۔ مثال کے طور پر فارس بن حاتم اور علی بن جعفر کے مابین ہونے والے اختلاف کے حوالے سے ایک خط میں فارس پر لعنت کی اور اس کے قتل کا حکم جاری کیا اور اس کے قاتل کیلئے بہشت کی ضمانت دی۔ چنانچہ جنید نامی شخص نے اسے قتل کر دیا۔
[۱۱] شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال، ص۵۱۹، حدیث ۹۹۷۔
اور یوں امامؑ کے حکم کا اجرا ہوا۔
امامؑ کی اس طرح کی جدوجہد اور اہل ایمان کے دلوں پر غلبے کو وقت کے طاغوتوں نے گوارا نہیں کیا اور آخر کار اس عظیم امامؑ کو متوکل کے بیٹے معتز کے قید خانے میں زہر دے دیا گیا اور آپؑ شہید ہو گئے اور آپؑ کو رجب سنہ ۲۵۴ھ کو سامرا میں اپنے گھر میں ہی سپرد خاک کیا گیا۔
[۱۲] شلبجی، مؤمن بن حسن، نورالابصار، ص۱۶۶۔


فہرستِ منابع

[ترمیم]

۱- شیخ مفید، محمد بن محمد بن النعان، الارشاد، چاپ مکتبه بصیرتی بی تا۔
۲- ابو الفرج اصفهانی، علی بن حسین؛ مقاتل الطالبین، نجف، منشورات مکتبة الحیدریه، ۱۳۸۵ھ۔
۳-مجلسی، محمدباقر؛ بحارالانوار، چاپ دوم، تهران، مکتبه اسلامیه، ۱۳۹۵ھ۔
۴- اربلی، علی بن عیسی؛ کشف الغمه، تبریز، مکتبه بنی هاشمی، ۱۳۸۱ھ۔
۵- ابن اثیر، عزالدین ابی الحسن علی بن الکرم؛ الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، بی تا۔
۶- شیخ طوسی، محمد بن حسن؛ اختیار معرفة الرجال، مشهد، دانشگاه مشهد، ۱۳۴۸شمسی۔
۷- سبط ابن الجوزی، یوسف بن فرغلی؛ تذکرة الخواص، نجف، مطبه حیدریه، ۱۳۸۳ھ۔
۸- مسعودی، ابی الحسن علی بن الحسین؛ مروج الذهب، بیروت، دارالاندلس، بی تا۔
۹- طبرسی، حسن بن فضل؛ اعلام الوری، چاپ سوم، دارالکتب الاسلامیه، بن تا۔
۱۰- شلبجی، مؤمن بن حسن؛ نورالابصار، قاهره، مکتبه المشهد الحسینی، بی تا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. طبرسی، حسن بن فضل، اعلام الوری، ج۲، ص ۱۰۹۔    
۲. شیخ مفید، محمد بن محمد بن النعان، الارشاد، ۳۲۷۔    
۳. ابو الفرج اصفهانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبین، ۳۹۵۔    
۴. ابن اثیر، عزالدین ابی الحسن علی بن الکرم، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۵۵۔    
۵. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۷۶۔    
۶. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه، ج۳، ص۱۷۸۔    
۷. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۵۰، ص۱۸۵۔    
۸. سبط ابن الجوزی، یوسف بن فرغلی، تذکرة الخواص، ص۳۵۹۔
۹. مسعودی، ابی الحسن علی بن الحسین، مروج الذهب، ج۴، ص۱۱۔
۱۰. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمه، ج۳، ۱۸۸۔    
۱۱. شیخ طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال، ص۵۱۹، حدیث ۹۹۷۔
۱۲. شلبجی، مؤمن بن حسن، نورالابصار، ص۱۶۶۔


ماخذ

[ترمیم]
سایت پژوهه، ماخوذ از مقالہ ولادت امام هادی، تاریخِ لنک ۱۷/۸/۲۰۱۹۔    






جعبه ابزار