امام علی کا وصی نہ بنانے کا شبہ اور جواب

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بعض اہل سنت کتب میں ایک روایت وارد ہوئی ہے جس کے مطابق امام علی ؑ نے اپنے بعد کسی کو خلیفہ نہیں بنایا جیساکہ رسول اللہ ؐ نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا اور امت نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر کو چن لیا تھا۔ وہ اس شبہ کے ذریعے سے خلیفہ اول کی خلافت کو درست ثابت کرنا چاہتے ہیں اور امام علی ؑ کی خلافت پر رسول اللہ ؐ کی نص کے نہ ہونے کو ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ذیل میں شبہ کی وضاحت کے بعد اس کا مدلل جواب پیش خدمت ہے۔


شبہ کی وضاحت

[ترمیم]

اہل سنت کی بعض روائی، تاریخی اور عقائدی کتب میں وارد ہوا ہے کہ جب ابن ملجم لعنہ اللہ نے امیر المؤمنین ؑ کو ضربت لگائی تو آخری دنوں میں امامؑ سے دریافت کیا گیا کہ کیا آپؑ نے اپنے بعد کسی کے لیے وصیت فرمائی ہے؟ تو امامؑ نے فرمایا: میں وہی وصیت کرتا ہوں جو رسول اللہ ؐ نے وصیت فرمائی تھی اور وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی نے جو خیر امت کے لیے قرار دیا تھا وہ ان کے دلوں میں ڈال دیا اور اس طرح امت نے خلیفہ اول ابو بکر کا چناؤ کیا۔ اسی طرح میرے بعد امت کسی ایک کو اپنا امیر اور خلیفہ چن لے گی۔ اس بات کو دلیل بنا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے امام علی ؑ کے لیے کسی قسم کی وصیت نہیں کی تھی اور خلیفہ اول حضرت ابو بکر کا انتخاب اللہ کی طرف سے خیر و برکت تھا!!

یہ وہ شبہ ہے جو بعض اوقات پیش کیا جاتا ہے۔ ذیل میں ہم اس روایت کا سند اور متن کے اعتبار سے جائزہ لیں گے کیونکہ شبہ میں حاصل کردہ نتائج روایت کے صحیح یا غیر صحیح ہونے پر موقوف ہیں۔ اگر روایت قابل قبول نہیں اور ضعیف و مرسل و موضوع ہونے کی وجہ سے مردود ہے تو پھر مطلوب نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے اور اگر صحیح ہے تو کیا یہ مطلب نکلتا ہے؟ آئیے ان امور کا جائزہ لیتے ہیں:

روایت کے مصادر اور سندی حیثیت کا بیان

[ترمیم]

شبہ پر مشتمل یہ روایت اہل سنت کی متعدد کتب میں وارد ہوئی ہے لیکن اس کو خود اہل سنت اعتماد کی نظر سے نہیں دیکھا۔ اس روایت کو تیسری صدی ہجری کے اہل سنت محدثین نے اپنی کتب میں درج کیا اور وہیں سے یہ کلمات تاریخ و عقائدی کتب میں سرایت کر گئے۔

← اہل سنت کتب احادیث میں


اس روایت کو اہل سنت کے متعدد محدثین نے نقل کیا ہے۔ ذیل میں ان محدثین کی روایت کو نقل کیا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کی سندی حیثیت کو ملاحظہ کرتے ہیں:

←← احمد بن حنبل اور سندِ حدیث


احمد بن حنبل نے فضائل الصحابۃ میں انہی کلمات کو اپنی سند کے ساتھ اس طرح تحریر کیا ہے: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ، نَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الضَّبِّيُّ قثنا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، وَوَاصِلٍ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ: أَلَا تُوصِي؟ قَالَ: مَا أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُوصِي، وَلَكِنْ إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِالنَّاسِ خَيْرًا فَسَيَجْمَعُهُمْ عَلَى خَيْرِهِمْ، كَمَا جَمَعَهُمْ بَعْدَ نَبِيِّهِمْ عَلَى خَيْرِهِمْ؛ شفیق بن سلمہ نے بیان کیا ہے: علی (علیہ السلام) سے کہا گیا: کیا آپؑ نے وصیت نہیں کی؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے جو وصیت کی میں بھی وہی وصیت کرتا ہوں، کہ اگر اللہ لوگوں کے ساتھ خیر کا ارادہ کرے تو وہ ان کو ان کے لیے قرار دیئے خیر پر جمع کر دے گا جیسے ان کے نبی ؐ کے بعد ان کو ان کے لیے قرار دیئے گئے خیر پر جمع کیا تھا۔

حدیث کی سند میں درج ذیل راویوں پر جرح کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف کہلائے گی اور قابل قبول نہیں:
۱۔ یونس بن بکیر: ابو داؤد، نسائی نے اس کو حجت قرار نہیں دیا، ابن معین نے صراحت کی ہے کہ یہ سلاطین کا دلدادہ تھا، عجلی نے صراحت کے ساتھ ضعیف قرار دیا ہے، ابی ابی شیبۃ اس سے حدیث لینے کو درست قرار نہیں دیتے تھے۔ البتہ متعدد اہل سنت رجالیوں نے اس کو صدوق اور ثقہ قرار دیا ہے اور ذہبی نے آخری رائے یہی اختیار کی ہے کہ اس کی احادیث قابل قبول ہیں۔
۲۔ الحسن بن عمارۃ: تمام اہل سنت علماءِ رجال نے اس کی تضعیف بیان کی ہے اور کذب و جھوٹ سے یہ متہم ہے جس کی وجہ سے اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ ابن حجر عسقلانی نے تحریر کیا: الحسن بن عمارة الكوفي أبو محمد الفقيه المشهور ضعفه الجمهور وقال بن حبان وكان بليته التدليس؛ حسن بن عمارۃ کوفی، ابو محمد، فقیہ، مشہور، جمہور رجالیوں نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، ابن حبان نے کہا ہے کہ اس کی مصیبت یہ تھی کہ یہ تدلیس کیا کرتا تھا۔
۳۔

←← عبد اللہ بن احمد اور سندِ حدیث


عبد اللہ بن احمد بن حنبل (وفات ۲۹۰ ھ) نے اپنی کتب السنۃ میں دو جگہوں پر اس حدیث کو درج ذیل سند اور الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے:
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَلَا تُوصِي؟ قَالَ: «مَا أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ فَأُوصِي اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عِبَادُكَ فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتَهُمْ وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتَهُمْ؛ سالم نے بیان کیا ہے: علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: کیا آپ نے وصیت نہیں کی؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے جو وصیت کی میں بھی وہی وصیت کرتا ہوں، بارِ الہا! یہ تیرے بندے ہیں، اگر تو چاہے تو ان کی اصلاح فرما دے اور اگر چاہے تو ان کو فاسد کر دے۔


←← ابن ابی عاصم اور سندِ حدیث


ابن ابی عاصم (وفات ۲۸۷ ھ) نے اپنی کتاب السنۃ میں درج ذیل سند کے ساتھ ان کلمات کو نقل کیا ہے: حَدَّثَنَا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: قِيلَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اسْتَخْلِفْ عَلَيْنَا. فَقَالَ: مَا اسْتَخْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنْ إِنْ يُرِدِ اللَّهُ بِالنَّاسِ خَيْرًا سَيَجْمَعُهُمْ عَلَى خَيْرِهِمْ كَمَا جَمَعَهُمْ بَعْدَ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خَيْرِهِمْ؛ شفیق بن سلمہ نے بیان ہے: علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ ہمارے پر کس کو خلیفہ بن کر جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا، اگر اللہ لوگوں کے ساتھ خیر چاہے تو وہ ان کو ان کے لیے قرار دیئے گئے خیر پر جمع کر دے گا جیسے ان کے نبی صلی اللہ علیہ (وآلہ) وسلم کے بعد ان کو ان کے لیے جو خیر تھا اس پر جمع کر دیا تھا۔


←← مستدرک حاکم اور سندِ حدیث





←← ذہبی کا حدیث کو صحیح قرار دینا اور البانی کی تنقید




عن أمير المؤمنين عليه السلام- لما قيل له: ألا توصي؟ فقال: ما أوصى رسول الله صلى الله عليه و آله فأوصي، و لكن ان أراد الله بالناس خيرا استجمعهم على خيرهم كما جمعهم بعد نبيهم على خيرهم‌؛ امیر المؤمنین سے نقل کیا گیا ہے کہ ان سے کہا گیا: کیا آپؑ وصی مقرر نہیں کریں گے؟ آپؑ نے فرمایا: جو وصیت رسول اللہؐ نے کی تھی بھی وہی وصیت کرتا ہوں،انہوں نے فرمایا تھا: اللہ جب کسی خیر کا ارادہ کرتا ہے تو وہ انہیں اپنے نبی کے بعد ان کے لیے جو بہتر و خیر ہے پر جمع کر دیتا ہے۔
[۶] طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، ج۲، ص۳۳۷۔


روایت پر اعتراضات

[ترمیم]

اس روایت پر بنیاد تین اعتراضات سامنے آتے ہیں:

← نقل کرنے والے نے اصل کتا ب نہیں دیکھی


اس روایت کو کتبِ شیعہ سے نقل کرنے والے عمومًا کتاب الشافی سے نقل کرتے ہیں جوکہ سید مرتضی علم الہدی کی کتاب ہے۔ لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث کو نقل کرنے والے نے کبھی اصل کتاب نہیں دیکھی۔ کیونکہ سید مرتضی علم الہدی نے اس کتاب میں کثرت سے قاضی عبد الجبار کا قول نقل کیا ہے اور اس کے بعد ایک ایک کر تمام شبہات و اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ یہ روایت بھی قاضی عبد الجبار کے کلام میں نقل کی گئی ہے اور قاضی کی دلیل کو ذکر کرتے ہوئے سید مرتضی نے اس کو الشافی میں تحریر کیا ہے۔ قاضی عبد الجبار کی تمام گفتگو کو نقل کرنے کے بعد سید مرتضی نے ان شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔

← روایت کی سند نہیں ہے


یہ روایت مرسل و منقطع ہے اور اس کی ایک بھی سند کسی کتاب میں موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کی کوئی قیمت نہیں۔

← امام علی نے امام حسن کو اپنا جانشین بنایا


امام علی نے وصیت کی تھی کہ ان کا جانشین امام حسن ہوں گے اور خود امام علی نے یہ انتخاب فرمایا جوکہ تاریخ کے قطعی حقائق میں سے ہے اور تمام اہل سنت بھی اس کے معترف ہیں۔

←← ابن کثیر کی رائے


ابن‌کثیر دمشقی سلفی نے تحریر کیا ہے:
ثمّ بعدهم الحسن بن علی لانّ علیّاً اوصی الیه و بایعه اهل العراق؛ پھر ان کے بعد حسن بن علی آئے کیونکہ علیؑ نے اس کی وصیت کی تھی اور اہل عراق نے اس وجہ سے امام حسن کی بیعت کی۔

←← ابو الفرج اصفہانی


ابو الفرج اصفہانی نے ابو الاسود سے ایک روایت نقل کی ہے: و قد اوصی بالامامة بعده الی ابن رسول الله و ابنه و سلیله و شبیهه فی خلقه و هدیه؛ اور امام علی نے اپنے بعد امامت کی وصیت فرزندِ رسول، اپنے بیٹے اور ذریت، خلقت و سیرت میں اپنے سے شبیہ یعنی امام حسن کے بارے میں کی۔
پس معلوم ہوۃا کہ امام علیؑ نے اس فرزند کے لیے وصیت کی جو رسول اللہؐ کی ذریت سے ان کی کے فرزند اور اخلاق و رفتار میں آنحضرتؐ کی مانند تھے۔

←← عبد ربہ کی نظر ‌


ابن عبد ربہ اندلسی نے لکھا ہے: قال هیثم بن عدی ادرکت من المشایخ انّ علی ّ بن ابیطالب اصار الامر الی الحسن؛ ہیثم بن عدی کہتا ہے کہ میں بہت سی قد آور شخصیات و مشایخ سے سنا ہے کہ علی بن ابی طالبؑ نے امرِ حکومت و ولایت امام حسن کے سپرد کر دیا ۔

←← اعثم کوفی کی نظر


ابن اعثم کوفی نے روایت نقل کی ہے کہ امام حسن نے معاویہ کو خط میں اس طرح تحریر کیا : فان ّ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب لمّا نزل الموت ولّانی هذا الامر من بعده؛ پس امیر المؤمنین علی بن ابی طالب جب شہید ہو گئے اور میرے تو اپنے بعد یہ امرِ حکومت میرے سپرد کر گئے۔ .

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حنبل، احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، ج ۱، ص ۴۰۴، حدیث:۶۲۲۔    
۲. ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال، ج ۴، ص ۴۷۷، رقم راوی:۹۹۰۰۔    
۳. ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، طبقات المدلسین ( تعریف أهل التقدیس بمراتب الموصوفین بالتدلیس)، ص ۵۳، رقم راوی:۱۳۴۔    
۴. شیبانی بغدادی، عبد اللہ بن احمد بن حنبل، السنۃ، ج ۲، ص ۵۳۸، حدیث:۱۳۱۷-۱۲۴۹۔    
۵. ابن ابی عاصم، احمد بن عمرو، السنۃ، ج ۱، ص ۵۳۷، حدیث:۱۱۵۸۔    
۶. طوسی، محمد بن حسن، تلخیص الشافی، ج۲، ص۳۳۷۔
۷. علم‌الہدی المرتضی، علی بن حسین، الشافی، ج۳، ص۹۱۔    
۸. ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، ج۹، ص۲۸۶۔    
۹. ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الاغانی، ج۱۲، ص۳۸۰۔    
۱۰. ابن‌اعثم، احمد بن محمد، الفتوح، ج۴، ص۲۸۵۔    


مأخذ

[ترمیم]
بعض مطالب اور حوالہ جات ویکی فقہ اردو کے گروہِ محققین کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔






جعبه ابزار