امام کاظم کی عزاداری

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



امام حسینؑ، شیعہ امامیہ کے تیسرے امام اور چہارده معصومؑ میں سے پانچویں معصوم ہیں۔ امام حسینؑ نے دس محرم‌ الحرام (روز عاشورا) سال ۶۱ ہجری قمری کربلا میں اپنے اقرباء و اصحاب کے ساتھ شہادت پائی. دنیا بھر میں امام حسینؑ کی یاد میں سال بھر مجالس عزاء کا اہتمام کیا جاتا ہے اور انکی یاد میں عزاداری برپا کی جاتی ہے۔ اس تحریر میں حوالہ کے ساتھ بیان کیا گیا کہ کس طرح سے امام کاظمؑ اپنے جد و مولا امام حسینؑ کے لیے عزاداری برپا کرتے تھے اور ان پر گریہ و زاری کرتے۔


آئمہؑ کا کربلا کو زندہ کرنا

[ترمیم]

مکتب تشیع شروع سے ہی اپنے دشمنان اور مخالفین کی زد میں رہا، مکتب تشیع کے رہبران و آئمہ سلاطینِ جور کے ظلم و ستم کا شکار رہے اور شہید ہوتے رہے. نا صرف رہبران تشیع مظلوم واقع ہوئے بلکہ خود عقائد و نظریات تشیع کو بھی تہمت و افتراء کے ذریعے دشمنان کی جانب سے مضحکہ خیز بنا کر پیش کیا جاتا رہا، انہیں نظریات و افکار میں سے ایک نظریہ عزاداری امام حسینؑ برپا کرنا ہے. مکتب تشیع کے آئمہ معصومینؑ نے واقعہ کربلا کے بعد اس سانحے کو فراموش نہ ہونے دیا اور اس تحریک حسینی کو عزاداری برپا کرکے مسلسل جاری رکھا، عزاداری دراصل ہر ظالم کے سامنے احتجاج کی شکل بن گئی اور ہر دور کا حاکم اس نوع احتجاج سے گھبراتا اور اس گریہ کے خلاف ہر ممکن اقدام اٹھاتا تاکہ اسکو موقوف کرسکے. اگرچہ ہر دور میں عزاداری پر حملہ کیا جاتا رہا ہے لیکن خصوصا ایام محرم میں یہ حملے شدید سے شدید تر ہو جاتے ہیں، مختلف شبہات و سوالات کے ذریعے جوانان مکتب تشیع کے اندر تشویش کو بڑھایا جاتا ہے تاکہ اہل‌بیتؑ سے نوجوان نسل دور بھاگے اور انکے نظریات سے متاثر نہ ہو۔

موجودہ عزاداری میں اضافہ جات کا اعتراض

[ترمیم]

ایک اعتراض جو ایام محرم‌ الحرام میں دشمنوں کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ خود آئمہؑ کے زمانے میں تو عزاداری نہیں ہوا کرتی تھی؟ یہ عزاداری کا رواج آخر کس نے ڈالا ہے جس طرح سے آجکل عزاداری مکتب تشیع کی ثقافت بن گئی ہے کیا عصر امامت میں بھی یہ ثقافت شیعیان میں رائج تھی؟ بالفاظ دیگر اگر عزاداری واقعی ایک مستحب امر ہے تو پھر رہبرانِ تشیع میں سے کسی ایک نے بھی عزاداری برپا کیوں نہیں کی؟ اور ایک بھی صحیح السند روایت عزاداری کے بارے میں وارد نہیں ہوئی!!

اس طرح کے سوالات و شبہات اٹھانا دراصل جہالت و نادانی کی علامت ہے یا پھر مکتب تشیع سے ذاتی عناد و دشمنی کی بنا پر ہے. کیونکہ عزاداری و امام حسینؑ پر گریہ و زاری کا رواج مکتب تشیع میں شروع سے ہی اس قدر رائج تھا کہ اس کا ذکر تواتر معنوی کی حد تک وارد ہوا ہے حتی تواتر سے بڑھ کر، یہ بات اہل علم جانتے ہیں کہ جو بات تواتر کی حد تک پہنچ جائے اسے کسی قسم کی سندی تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر پھر بھی کسی کی منفی سوچ تواتر کا انکار کردے تو ان کے لیے بعض تاریخی شواہد نمونے کے طور پر پیش کئے جا رہے ہیں۔ امام حسینؑ کے لیے گریہ و زاری کرنا و عزاداری کا برپا کرنا حتی ان کی شہادت سے قبل بھی ثابت ہے، اس مقدار میں روایات معصومینؑ کا وارد ہونا، نہ فقط تشیع کے اندر اس رسم کے رائج ہونے کا ثبوت ہے بلکہ اس کے جواز اور اہمیت کو بھی واضح و عیاں کردیتا ہے۔ ذیل میں امام موسی کاظمؑ کی جانب سے امام حسینؑ کے لئے گریہ و زاری اور ان کے لیے محزون ہونے کے شواہد پیش کئے جا رہے ہیں.

امام کاظمؑ کی عزاداری

[ترمیم]

جس طرح سے امام کاظمؑ کا امام حسینؑ کے لیے گریہ کرنا اور حزن و اندوہ روایات میں وارد ہوا ہے بہت قابل غور ہے اور یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ عزاداری کے موضوع پر دشمنوں کی جانب سے اٹھاۓ گئے سب الزام بے بنیاد اور جعلی ہیں، شیخ صدوق اپنی کتاب امالی میں امام رضاؑ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں: حدثنا جعفر بن محمد بن مسرور (رحمه الله)، قال: حدثنا الحسین بن محمد بن عامر، عن عمه عبدالله بن عامر، عن ابراهیم بن ابی محمود، قال: قال الرضا (علیه‌السّلام): ان المحرم شهر کان اهل الجاهلیة یحرمون فیه القتال، فاستحلت فیه دماؤنا، وهتکت فیه حرمتنا، وسبی فیه ذرارینا ونساؤنا، واضرمت النیران فی مضاربنا، وانتهب ما فیها من ثقلنا، ولم ترع لرسول الله (صلی‌الله‌علیه‌و‌آله‌وسلّم) حرمة فی امرنا. ان یوم الحسین اقرح جفوننا، واسبل دموعنا، واذل عزیزنا، بارض کرب وبلاء اورثتنا الکرب والبلاء، الی یوم الانقضاء، فعلی مثل الحسین فلیبک الباکون، فان البکاء یحط الذنوب العظام. ثم قال (علیه‌السّلام): کان ابی (صلوات الله علیه) اذا دخل شهر المحرم لا یری ضاحکا، وکانت الکآبة تغلب علیه حتی یمضی منه عشرة ایام، فاذا کان یوم العاشر کان ذلک الیوم یوم مصیبته وحزنه وبکائه، ویقول: هو الیوم الذی قتل فیه الحسین (صلوات الله علیه) امام رضاؑ نے فرمایا کہ محرم ایک ایسا مہینہ تھا کہ جس میں عرب جاہلیت کے زمانے میں بھی جنگ کرنا حرام سمجھتے تھے۔ لیکن اسی محرم کے حرام مہینے میں انہوں نے ہمارا خون حلال قرار دیا، ہماری ہتکِ حرمت کی گئی اور ہماری خواتین اور بچوں کو اسیر کیا گیا، ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی اور جو کچھ اس میں تھا اس کو لوٹ لیا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی خاطر ہماری حرمت و عزت کی رعایت نہیں کی گئی، امام حسینؑ کا اس روزِ شہادت نے ہماری پلکوں کو زخمی کر دیا ہے اور ہماری آنکھوں سے آنسو جاری کر دیئے اور ہمارے عزیزوں کو سختیوں میں مبتلا کر دیا ہے، تا قیامت تک ہم اس زمینِ کرب و بلا سے کرب اور بلاء و مصیبت کو پایا ہے، رونے والوں کو چاہیے کہ وہ حسینؑ جیسوں پر گریہ کریں، بے شک گریہ بڑے بڑے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ پھر امامؑ نے فرمایا: جب ماہِ محرم شروع ہوتا تو کوئی شخص میرے والد (امام موسی کاظمؑ) کو ہنستا ہوا نہیں دیکھتا تھا اور ان پر حزن و غم غالب رہتا تھا یہاں تک اس مہینے کے دس دن گزر جاتے تھے، جب دسواں دن (عاشوراء) آتا تو وہ دن ان کی مصیبت، ان کے حزن اور ان کے گریہ و آہ و زاری کا دن ہوتا اور وہ فرما رہے ہوتے تھے: یہ وہ دن ہے جس میں حسینؑ کو قتل کیا گیا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الشیخ الصدوق،محمد بن علی، الامالی، ج۱، ص۱۹۰۔    


مأخذ

[ترمیم]
موسسہ ولی‌عصر، یہ تحریر مقالہ جستاری پیرامون عزاداری معصومانؑ برای امام حسینؑ سے مأخوذ ہے۔    






جعبه ابزار