امام مہدیؑ ماہ رمضان کی دعاؤں میں
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ماه رمضان، بہار قرآن اور مومنین کی جانوں کے دل نواز آیات الہی سے معطر ہونے کا مہینہ ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے اپنی
عترت کو
قرآن کا ہمراہ اور قرین قرار دیا۔ پس رمضان جس طرح
قرآن کی
بہار ہے،
ولایت کی بہار بھی ہونا چاہئے۔ اسی لیے اس
ماہ میں جس طرح دینی پیشواؤں کی طرف سے قرآن کی طرف دعوت ہے، اسی طرح حقیقت کے متلاشیوں کو ولایت و
امامت کی طرف بھی بلایا گیا ہے۔ اس حقیقت کو
امام مہدیؑ سے مربوط ماہ رمضان کی دعاؤں میں بعینہٖ مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
[ترمیم]
ہم یہاں پر بعض دعاؤں کو
کتاب شریف مکیال المکارم سے نقل کریں گے۔ اس کتاب میں اس حوالے سے یہ منقول ہے: حضرت (عجلاللهتعالیفرجهالشریف) کیلئے پورا ماہ رمضان دعا کرنے کی خصوصی سفارش کی گئی ہے۔ بالخصوص اس مہینے کی راتوں میں کیونکہ یہ مہینہ
دعا کیلئے بہار ہے۔ بہترین دعا یہ ہے کہ
خدا آپؑ کے ظہور میں تعجیل فرمائے۔ اسی لیے
دعائے افتتاح کی اس مہینے میں بہت اہمیت منقول ہوئی ہے۔ اس بنا پر اس کو پڑھنے سے غفلت نہ کریں کیونکہ واقعا ایک بہت ہی نفیس دعا ہے اور
دنیا و آخرت کے مطالب پر مشتمل ہے۔
اسی مطلب کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ رئیس
محدثین شیخ صدوقؒ نے کتاب فضائل شھر رمضان میں اپنی سند کے ساتھ
امام رضاؑ سے نقل کیا ہے کہ حضرتؑ نے ماہ رمضان کی خوبیوں کے بارے میں فرمایا: نیک کام ماہ رمضان میں قبول کیے جاتے ہیں اور برائیوں کو معاف کیا جاتا ہے۔ جو ماہ رمضان میں ایک
آیت کی تلاوت کرے۔ تو اس کے نیک اعمال قبول کیے جاتے ہیں اور برائیاں معاف کر دی جاتی ہیں۔ جو شخص ماہ رمضان میں کتاب اللہ کی ایک
آیت کی تلاوت کرے، وہ دیگر مہینوں میں
ختم قرآن کی مانند ہے، جو شخص اس ماہ میں اپنے برادر مومن کیلئے تبسم کرے، وہ قیامت کے دن اس سے ملاقات نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہو گی اور اسے
بہشت کی بشارت دی جائے گی اور جو شخص اس مہینے میں کسی مومن کی مدد کرے گا، خدا تعالیٰ صراط مستقیم عبور کرنے میں اس کی مدد کرے گا کہ جس دن اس پر قدم ڈگمگا رہے ہوں گے اور جو اس مہینے میں اپنا
غصہ پی لے گا، خدا قیامت کے دن اس سے اپنا غصہ دور رکھے گا اور جو اس مہینے میں کسی پریشان حال کی داد رسی کرے گا، خدا اسے قیامت کے عظیم خوف سے امان دے گا او رجو اس ماہ میں کسی مظلوم کی مدد کرے گا، خدا اس کی دنیا میں اس کے ساتھ دشمنی کرنے والوں کے مقابلے میں مدد کرے گا اور قیامت کے دن اعمال کے میزان اور
حساب کے وقت مدد فرمائے گا۔
ماہ رمضان، ماہ
برکت، ماہ
رحمت ، ماہ
مغفرت ، ماہ
توبہ اور خدا کی بارگاہ میں بازگشت کا مہینہ ہے۔ جو شخص ماہ رمضان میں نہ بخشا گیا تو کس مہینے میں بخشا جائے گا؟! پس خدا سے دعا کرو کہ تمہارا
روزہ قبول کر لے اور اس رمضان کو تمہارا آخری رمضان قرار نہ دے اور یہ کہ اس ماہ میں تمہیں فرمانبرداری کی توفیق بخشے اور اپنی نافرمانی سے محفوظ رکھے کہ وہ ان میں سے بہترین ہے جن سے سوال کیا جاتا ہے۔
[ترمیم]
پانچویں باب میں ہم نے ذکر کیا کہ
ظہور کیلئے دعا نصرت کی اقسام میں سے ہے اور اس حوالے سے نصرت کی تاکید کی گئی ہے کہ مومن ماہ رمضان میں اس پر عمل کرے۔ بلا شک و تردید
امامؑ کی نصرت ہر قسم کی نصرت سے بالاتر ہے۔
ماہ رمضان میں حضرتؑ کیلئے دعا کو اہمیت دینے پر گواہ وہ دعا ہے جو
کتاب اقبال اور
زاد المعاد میں
امام زین العابدینؑ اور آپؑ کے فرزند
امام باقرؑ سے مروی ہے کہ جس کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے: اللهم هذا شهر رمضان... اور اس میں نقل ہے: اسالک ان تنصر خلیفة محمد و وصیّ محمد و القائم بالقسط من اوصیاء محمد صلواتک علیه و علیهم اعطف علیهم نصرک...؛
خدایا! یہ ماہ رمضان ہے ۔۔۔ تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ
حضرت محمدؐ کے
جانشین اور
وصی اور اوصیائے محمد میں سے
عدالت کے ساتھ قیام کرنے والے کی نصرت فرما، اپنی مدد کو ان پر معطوف فرما!
اسی طرح ایک اور شاہد وہ روایت ہے جسے
شیخ کلینیؒ نے
فروع کافی کی کتاب الصوم میں محمد بن عیسی کی زبانی اپنی سند کے ساتھ
آئمہؑ سے نقل کیا ہے کہ فرمایا: اس دعا کو تئیس رمضان کو
سجدے، قیام، قعود ہر حالت میں تکرار کرو، نیز جس قدر توان ہو اور جس قدر تمہیں یاد ہو اپنی زندگی کے دوران خدائے تبارک و تعالیٰ کی حمد اور
پیغمبر پر
درود کے بعد یہ کہو:
الهم کن لولیک فلان بن فلان فی هذه الساعة و فی کل ساعة ولیا و حافظا و ناصرا و دلیلا و قائدا و عینا حتی تسکنه ارضک طوعا و تمتّعه فیها طویلا؛
خدایا اپنے ولی فلاں بن فلاں (ہر زمانے میں
شیعہ امام عصر اور آپؑ کے والد کا نام ذکر کرتے تھے اور ہمارے زمانے میں کہنا چاہئے: حجت بن الحسن علیه و علی آبائه السلام ـ مترجم) کا اس گھڑی اور ہر لمحے سرپرست، نگہبان، ناصر، رہنما، پیشوا اور مددگار ہو یہاں تک کہ اسے اپنی
زمین میں اس حال میں سکونت دے کہ اس کی اطاعت ہو اور اسے طولانی زمانے تک بہرہ مند فرما!
یہ حدیث شریف اس پر دلالت کرتی ہے کہ تئیس ماہ رمضان میں اس عظیم امر (تعجیل ظہور ) کیلئے دعا سب سے زیادہ اہم اور مؤکد ہے باقی اوقات کی نسبت۔ اسی طرح
ماہ رمضان میں دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ تاکید ہے کیونکہ
استجابت ، خدا کی طرف توجہ اور
جزا کی جہات اس مہینے میں جمع ہیں، نیز
فرشتے اور
روح اس رات میں نازل ہوتے ہیں اور رحمت کے دروازے اس قدر کھولے جاتے ہیں کہ دیگر راتوں میں نہیں کھولے جاتے بلکہ بعض روایات میں صراحت کے ساتھ ذکر ہوا ہے کہ یہ رات وہی
شب قدر ہے کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے؛ جیسا کہ
ثقۃ الاسلام محمد بن یعقوب کلینی، کتاب
اصول کافی کے باب النوادر کتاب فضل القرآن میں اپنی سند کے ساتھ
حضرت امام صادقؑ پھر پیغمبرؐ سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا: قرآن تئیس رمضان کو نازل ہوا۔
یہ حدیث اس ضمیمہ کے ساتھ کہ خدائے عزوجل نے فرمایا: انا انزلناه فی لیلة القدر؛ ہم نے (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا؛
اس امر پر
دلالت کرتی ہے کہ شب قدر وہی ماہ رمضان کی تئیسویں شب ہے اور یہ اہل دانش پر واضح ہے۔
[ترمیم]
محقق نوریؒ نے کتاب
النجم الثاقب میں مذکورہ دعا کو مفصل انداز میں کتاب
المضمار تالیف سید العلما
سید علی بن طاؤسؒ کہ جن کی عوام کو
اقتدا کرنی چاہئے؛ سے نقل کیا ہے: اللهمّ کن لولیک القائم بامرک الحجة بن الحسن المهدی علیه و علی آبائه افضل الصلاة و السلام فی هذه الساعة و فی کل ساعة ولیاً و حافظاً و قائداً و ناصراً و دلیلاً و مؤیّداً (مریداً ـ خ ل) حتی تسکنه ارضک طوعاً و تمتّعه فیها طولاّ و عرضاً و تجعله من الائمة الوارثین اللهم انصره و انتصر به و اجعل النصر منک له و علی یده و اجعل النصر له و الفتح علی وجهه و لا توجه الامر الی غیره اللَّهُمَّ كُنْ لِوَلِيِّكَ القائم بامرک الحُجَّةِ بْنِ الحَسَنِ المهدی علیه و علی آبائه افضل الصلاة و السلام فِي هذِهِ السّاعَةِ وَفِي كُلِّ ساعةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقائِداً وَناصِراً وَدَلِيلاً وَ مؤیّداً حَتّى تُسْكِنَهُ أَرْضَكَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فِيْها طولاّ و عرضاً و تجعله من الائمة الوارثین اللهم انصره و انتصر به و اجعل النصر منک له و علی یده و اجعل النصر له و الفتح علی وجهه و لا توجه الامر الی غیره. اللّهُمَّ أَظْهِرْ بِهِ دِينَكَ وَسُنَّةَ نَبِيِّكَ حَتَّى لا يَسْتَخْفِي بِشَيٍْ مِنَ الحَقِّ مَخافَةَ أَحَدٍ مِنَ الخَلْقِ اللّهُمَّ إِنا نَرْغَبُ إِلَيْكَ فِي دَوْلَةٍ كَرِيمَةٍ تُعِزُّ بِها الاِسْلامَ وَأَهْلَهُ وَتُذِلُّ بِها النِّفاقَ وَأَهْلَهُ، وَتَجْعَلُنا فِيها مِنَ الدُّعاةِ إِلى طاعَتِكَ وَالقادَةِ إِلى سَبِيلِكَ و آتنا فی الدنیا حسنة و فی الآخرة حسنة و قنا عذاب النار و اجمع لنا خیر الدارین و اقض عنا جمیع ما تحبّ فیهما و اجعل لنا فی ذلک الخیرة برحمتک و منّک فی عافیة آمین ربّ العالمین و زدنا من فضلک و یدک الملاء فانّ کلّ معط ینقص من ملکه و عطاؤک یزید فی ملکک؛
اے معبود محافظ بن جا اپنے ولی حجت القائم بن حسنؑ کا تیری رحمت نازل ہو ان پر اور ان کے باپ داداؤں پر اس لمحہ میں اور ہر آنے والے لمحہ میں بن جا اس کا مددگار نگہبان پیشوا حامی رہنما اور نگہدار یہاں تک کہ تو لوگوں کی چاہت سے انہیں زمین کی حکومت دے اور مدتوں اس پر برقرار رکھ! اے معبود اس کے ذریعے اپنے دین اور اپنے نبی کی سنت کو ظاہر فرما یہاں تک کہ حق میں سے کوئی چیز مخلوق کے خوف سے مخفی و پوشیدہ نہ رہ جائے اے معبود ہم ایسی برکت والی حکومت کی خاطر تیری طرف رغبت رکھتے ہیں جس سے تو اسلام و اہل اسلام کو قوت دے اور نفاق و اہل نفاق کو ذلیل کرے اور اس حکومت میں ہمیں اپنی اطاعت کی طرف بلانے والے اور اپنے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے قرار دے!
اور ہمیں دنیا میں نیکی اور
آخرت میں نیکی عنایت فرما اور ہمیں آگ کے
عذاب سے محفوظ فرما اور
دنیا و آخرت کی خیر کو ہمارے لیے فراہم کر دے اور جو دنیا و آخرت میں تجھے پسند ہے، وہ ہمارے لیے قرار دے اور ہمارے لیے اس کا اختیار محفوظ فرما اور اپنی رحمت و احسان اور عافیت کے ساتھ ہماری دعا قبول فرما اے عالمین کے رب! اور اپنے
فضل و نعمت سے ہمارا پیمانہ پر فرما کہ ہر عطا کرنے والے کا پیمانہ کم ہو جاتا ہے مگر تیری عطا سے تیرے ملک میں اضافہ ہوتا ہے۔
[ترمیم]
کتاب
محمد بن ابی قره سے اقبال میں منقول دعا یہ ہے: اللهم لک الحمد و الیک المشتکی اللهم انت الواحد القدیم و الآخر الدائم و الرّبّ الخالق و الدیان یوم الدین تفعل ما تشاء بلا مغالبة و تعطی من تشاء بلا منّ و تمنع ما تشاء بلا ظلم و تداول الایام بین الناس و یرکبون طبقاً عن طبق اسالک یا ذاالجلال و الاکرام و العزة التی لا ترام و اسئلک یا الله و اسئلک یا رحمن اسئلک ان تصلی علی محمد و آل محمد و ان تعجل فرج آل محمد و فرجنا بفرجهم و تقبل صومیو اسئلک خیر ما ارجو منک و اعوذ بک من شرّ ما احذر ان انت خذلت فبعد الحجة و ان انت عصمت فبتمام النّعمة یا صاحب محمد یوم حنین و صاحبه و مؤیده یوم بدر و خیبر و الموطن التی نصرت فیها نبیّک علیه و آله السلام یا مبیر الجبارین و یا عاصم النبیین اسئلک اقسم علیک بحق یس و القرآن الحکیم و بحق طه و سایر القرآن العظیم ان تصلی علی محمد و آل محمد و ان تحصرنی عن الذنوب و الخطایا و ان تزیدنی فی هذا الشهر العظیم تاییداً تربط به علی جاشی و تسدّ به علی خلّتی اللّهمّ انی ادرء بک فی نحور اعدائی لا اجدلی غیرکها انا بین یدیک فاصنع بیما شئت لا یصیبنی الاّ ما کتبت لی انت حسبی و نعم الوکیل؛
[ترمیم]
اس دعا کو اہمیت دینے کی روایت اقبال میں منقول ہے اور دعا یہ ہے: اللهم انی لا اجد من اعمالی عملاً اعتمد علیه و اتقرب به الیک افضل من ولایتک و ولایة رسولک و آل رسولک الطیبین صلواتک علیه و علیهم اجمعین اللهم انّی اتقرّب الیک بمحمد و آل محمد و اتوجه بهم الیک فاجعلنی عندک یا الهی بک و بهم وجیهاً فی الدنیا و الآخرة و من المقربین فانّی قد رضیت بذلک منک تحفة و کرامة فانة لا تحفة و لا کرامة افضل من رضوانک و التّنعّم فی دارک مع اولیائک و اهل طاعتک اللهم اکرمنی بولایتک و احشرنی فی زمرة اهل ولایتک اللهم اجعلنی فی ودایعک التی لا تضیع و لا تردّنی خائبا بحقّک و حقّ من اوجبت حقّه علیک و اسئلک ان تصلی علی محمد و آل محمد و تعجّل فرج آل محمد و فرجی معهم و فرج کل مؤمن و مؤمنة برحمتک یا ارحم الراحمین
[ترمیم]
اس دعا کو اہمیت دینے کا شاہد وہ دعا ہے جو مذکورہ کتاب میں نقل ہوئی ہے کہ: اللهم انی اسئلک بمعاقد العزّ من عرشک و منتهی الرحمة من کتابک و باسمک الاعظم و کلماتک التّامّة الّتی لا یجاوز هنّ برّ ولا فاجر فانّک لا تبید و لا تنفد ان تصلی علی محمد و آل محمد و تقبّل منّی و من جمیع المؤمنین و المؤمنات صیام شهر رمضان و قیامه و تفکّ رقابنا من النار، اللهم صل علی محمد و آل محمد و اجعل قلبی بارّا و عملی سارّا و رزقی دارّاً و حوض نبیک علیه و آله السلام لی قرارا و مستقرا و تعجّل فرج آل محمد فی عافیة یا ارحم الراحمین؛
[ترمیم]
یہ دعا اس طرح ہے: اللهم انّی ادینک بطاعتک و ولایتک و ولایة محمد نبیک (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) و سلم و ولایة امیرالمؤمنین (علیهالسّلام) حبیب نبیّک و ولایة الحسن و الحسین سبطی نبیک و سیّدی شباب اهل جنّتک و ادینک یا رب بولایة علی بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علی بن موسی و محمد بن علی و علی بن محمد و الحسن بن علی و سیدی و مولای صاحب الزمان ادینک یا رب بطاعتهم و ولایتهم و بالتسلیم بما فضّلتهم راضیاً غیر منکر و لا مستکبر (متکبّر) علی (معنی) ما انزلت فی کتابک اللهم صل علی محمد و آل محمد و ادفع عن ولیک و خلیفتک و لسانک و القائم بقسطک و المعظم لحرمتک و المعبّر عنک و الناطق بحکمک و عینک الناظرة و اذنک السامعة و شاهد عبادک و حجّتک علی خلقک و المجاهد فی سبیلک و المجتهد فی طاعتک و اجعله فی ودیعتک التی لا تضیع و ایّده بجندک الغالب و اعنه و اعن عنه و اجعلنی و والدیّ و ما ولدا و ولدی من الذین ینصرونه و ینتصرون به فی الدنیا و الآخرة اشعب به صدعنا و ارتق به فتقنا اللهم امت به الجور و دمدم بمن نصب له و اقصم رئوس الضلالة حتی لا تدع علی الارض منهم دیّاراً؛
[ترمیم]
اقبال میں منقول دعاؤں کا ملاحظہ کرنے سے اس دعا کو اہمیت دینے کا پتہ چلتا ہے اور
خدا ہر حال میں مددگار ہے۔
[ترمیم]
نماز فجر کی ادائیگی کے بعد پڑھی جائے اور اس پر سید اجل علی بن طاؤس نے جو کچھ کتاب اقبال میں اپنی سند کے ساتھ
حمّاد بن عثمان سے نقل کیا ہے؛ کی دلالت ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: اکیسویں رمضان کی رات میں امام صادقؑ کی خدمت میں پہنچا، حضرتؑ نے مجھ سے فرمایا: اے حمّاد!
غسل کر چکے ہو؟! میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ پر قربان جاؤں، پس ایک چٹائی منگوائی اور فرمایا: میرے نزدیک آؤ اور نماز پڑھو، مسلسل
نماز پڑھ رہے تھے اور میں ان کے پاس نماز ادا کر رہا تھا یہاں تک کہ اپنی تمام نمازوں سے فارغ ہو گئے، پھر دعا میں مشغول ہو گئے اور میں آپؑ کی دعا پر
آمین کہہ رہا تھا، یہاں تک کہ فجر کا وقت داخل ہو گیا۔ پھر حضرتؑ نے
آذان و
اقامت کہی اور اپنے بعض غلاموں کو بلوایا، ہم حضرتؑ کے پیچھے کھڑے ہو گئے، آپ نے آگے کھڑے ہو کر نماز صبح ادا کی، پہلی رکعت میں سورہ
فاتحة اور
انا انزلناه فی لیلة القدر، اور دوسری
رکعت میں فاتحة الکتاب اور
قل هو الله احد کی
قرائت کی۔
جب
تسبیح ،
تحمید ،
تقدیس اور ثنائے خدا تعالیٰ سے فارغ ہوئے اور رسول خداؐ پر درود بھیجا اور اولین و آخرین میں سے تمام مومنین و مومنات و مسلمین و مسلمات کیلئے دعا کی، پھر حضرتؑ
سجدے میں چلے گئے، کافی دیر تک سوائے سانس لینے کی آواز کے ہمیں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر میں نے یہ کہتے ہوئے سنا: لا اله الا انت مقلّب القلوب و الابصار لا اله الا انت خالق الخلق بلا حاجة فیک الیهم لا اله الا انت مبدیء الخلق لا ینقص من ملکک شیء لا اله الا انت باعث من فی القبور لا اله الا انت مدبّر الامور لا اله الا انت دیّان الدّین و جبّار الجبابرة لا اله الاّ انت مجری الماء فی الصخرة الصّمّاء لا اله الاّ انت مجری الماء فی النّبات لا اله الا انت مکوّن طعم الثّمار لا اله الا انت محصی عدد القطر و ما تحمله السّحاب لا اله الا انت محصی عدد ما تجری به الرّیاح فی الهواء لا اله الا انت محصی ما فی البحار من رطب و یابس لا اله الا انت محصی ما یدبّ فی ظلمات البحار و فی اطباق الثّری اسالک باسمک الذی سمّیت به نفسک، او استاثرت به فی علم الغیب عندک و اسالک بکل اسم سمّاک به احد من خلقک من نبیّ او صدًیق او شهید او احد من ملائکتک و اسئلک باسمک الذی اذا دعیت به اجبت و اذا سئلت به اعطیت و اسئلک بحقک علی محمد و اهل بیته صلواتک علیهم و برکاتک و بحقهم الذی اوجبته علی نفسک و انلتهم به فضلک ان تصلی علی محمد عبدک و رسولک الداعی الیک باذنک و سراجک الساطع بین عبادک فی ارضک و سمائک و جعلته رحمة للعالمین و نورا استضاء به المؤمنین فبشّرنا بجزیل ثوابک و انذرنا الالیم من عذابک اشهد انّه قد جاء بالحق من عند الحقّ و صدّق المرسلین و اشهد انّ الذین کذّبوه ذائقوا العذاب الالیم اسئلک یا الله یا الله یا الله یا ربّاه یا ربّاه یا ربّاه یا سیّدی یا سیّدی یا سیّدی یا مولای یا مولای یا مولای اسئلک فی هذه الغداة ان تصلّی علی محمد و آله و آل محمد و ان تجعلنی من اوفر عبادک و سائلیک نصیباً و ان تمنّ علیّ بفکاک رقبتی من النار یا ارحم الراحمین و اسئلک بجمیع ما سالتک و مالم اسئلک من عظیم جلالک ما لو علمته لسئلتک به ان تصلی علی محمد و اهل بیته و ان تاذن لفرج من بفرجه فرج اولیائک و اصفیائک من خلقک و به تبید الظالمین و تهلکمهم عجل ذلک یا ربّ العالمین و اعطنی سؤلی یا ذا الجلال و الاکرام فی جمیع ما سئلتک لعاجل الدّنیا واجل الآخرة یا من هو اقرب الیّ من حبل الورید اقلنی عثرتی و اقلبنی بقضاء حوائجی یا خالقی و یا رازقی و یا باعثی و یا محیی عظامیو هی رمیم صل علی محمد و آل محمد و استجب لی دعائی یا ارحم الراحمین؛
جب
دعا سے فارغ ہوئے تو سر اٹھایا، عرض کیا: میں آپ پر قربان، آپ اس ہستی کے ظہور کی دعا کر رہے ہیں کہ جس کے ظہور سے اللہ کے اولیا اور منتخب بندے راحتی پائیں گے، کیا آپ خود وہ ہستی نہیں ہیں؟! فرمایا: نہیں۔ وہ شخصیت
قائم آل محمدؑ کی ہے۔ میں نے عرض کیا: کیا ان کے خروج کی کوئی نشانی ہے؟! فرمایا: ہاں؛ اہل مصر پر ایک فتنہ نازل ہو گا، دریائے نیل منقطع ہو جائے گا، جو تمہارے لیے بیان کیا ہے، اس پر اکتفا کرو اور دن رات اپنے مولیٰ کے انتظار میں رہو، خدا عالمین کا پروردگار ہے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
سایت اندیشه قم، برگرفته از مقاله «امام مهدی در ادعیه ماه رمضان»، تاریخ بازیابی ۹۵/۳/۳۱۔