امامتِ علیؑ (قرآن)
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
یہ مقالہ
خدا کی جانب سے
حضرت علیؑ کو امامت عطا کیے جانے کے بارے میں ہے۔
[ترمیم]
پیغمبرؐ خدا کے حکم سے مامور ہوئے کہ
غدیر کے دن
حضرت علیؑ کو
امامت کے مقام پر
نصب کر دیں۔
... الیوم یـئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوهم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلـم دینا..آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔
یہ
آیتِ شریفہ ولایت علیؑ کے بارے میں ہے۔
غدیر خم کے دن
کفار کی مایوسی کا ایسا سبب ہونا چاہئے کہ جسے
عقل و تدبیر کفار کی ناامیدی کا تنہا عامل قرار دیں اور وہ یہ ہے کہ
خدائے سبحان دین کیلئے کسی کو نصب کرے جو دین کی حفاظت کے امر میں
رسول خدا کا قائمقام ہو،
دین کی حفاظت ، اس کی تدبیر اور
متدین امت کی ہدایت سے متعلق معاملات کو آنحضرتؐ کی طرح انجام دے؛ اس طور کہ
کفار کی نحس امیدیں دم توڑ جائیں اور کفار ہمیشہ کیلئے
اسلام کو نقصان پہنچانے سے مایوس ہو جائیں۔
جی ہاں، جب تک دین کسی ایک معین شخص کے واسطے سے قائم ہو تو
دشمن یہ آرزو رکھ سکتے ہیں کہ اس شخص کی وفات سے دین بھی ختم ہو جائے گا مگر جب اس کی ذمہ داری ایک فرد سے ایک نوع کی طرف منتقل ہو جائے تو یہ دین کا
کمال ہے، اس صورت میں دین
حدوث سے
بقا کی طرف متغیر ہو جاتا ہے اور اس دین کی
نعمت تمام ہو جاتی ہے۔
یہاں پر ایک اہم بحث یہ ہے کہ مذکورہ بالا دو جملوں میں ’’الیوم‘‘ کی تکرار سے کیا مقصود ہے؟! یعنی وہ کون سا دن ہے کہ جس میں یہ چار جہات جمع ہیں کہ:
کافر بھی اس میں مایوس ہو گئے ہیں؛ دین بھی کامل ہو گیا ہے؛ خدا کی نعمت کامل ہو گئی ہے اور خدا نے دین اسلام کو
دنیا بھر کے لوگوں کا حتمی دین قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے مفسرین میں طولانی بحثیں ہیں مگر اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسا دن ضروری ہے کہ پیغمبرؐ کی زندگی کا اہم دن ہو، نہ ایک سادہ اور عام دن کیونکہ ایک عام دن کی اتنی اہمیت بے معنی ہے، لہٰذا چند روایات میں منقول ہے کہ بعض
یہود و
نصاریٰ نے یہ آیت سنی تو کہا: اگر ایسی آیت
آسمانی کتب میں نقل ہوتی تو ہم اس دن کو
عید قرار دیتے۔
تمام شیعہ مفسرین نے اپنی کتب میں یہ مطلب بیان کیا ہے اور متعدد روایات اس کی تائید کرتی ہیں نیز یہ آیت کے مضمون سے مکمل طور پر سازگار بھی ہے کہ: غدیر خم سے مراد وہ دن ہے جب پیغمبرؐ نے امیر المومنین علیؑ کو باقاعدہ طور پر اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔
بہت سی
روایات اور شیعہ مفسرین کے عقیدے کی رو سے مذکورہ آیت امیر المومنینؑ کو غدیر کے دن امامت پر منصوب کیے جانے کے دن نازل ہوئی ہے۔
[ترمیم]
علیؑ کو
امامت پر منصوب کیے جانے کی وجہ سے
دین کے
دشمن اسلام کو شکست دینے سے مایوس ہو گئے:
... الیوم یـئس الذین کفروا من دینکم فلاتخشوهم واخشون الیوم اکملت لکم دینکمواتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلـم دینا..آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔
متعدد روایات کی بنا پر شیعہ مفسرین کے مطابق مذکورہ آیت غدیر کے دن امیر المومنینؑ کے امامت کیلئے منصوب ہونے کے موقع پر نازل ہوئی ہے۔
جس دن پیغمبرؐ نے امیر المومنین علیؑ کو باقاعدہ طور پر اپنی جانشینی کیلئے متعین کیا، اس دن کفار مایوس ہو گئے، کیونکہ انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ دین اسلام ایک فرد کی وجہ سے قائم ہے اور پیغمبرؐ کی وفات کے ساتھ ہی حالات ایک مرتبہ پھر پہلے کی طرح ہو جائیں گے اور بتدریج اسلام ختم ہو جائے گا۔ مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ مسلمانوں میں سے
علم ،
تقویٰ ،
شجاعت اور عدالت میں بے نظیر شخصیت کو پیغمبرؐ نے اپنا جانشین منتخب کر لیا ہے اور لوگوں سے ان کیلئے
بیعت لی ہے تو وہ اسلام کے روشن مستقبل کو دیکھ کر مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہو گئے اور سمجھ گئے کہ اس دین کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔
[ترمیم]
پیغمبرؐ خدا کی طرف سے علیؑ کی
امامت کے ابلاغ پر مامور ہوئے:
یـایها الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته..اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
وہ اہم اور عظیم امر جس کے ابلاغ کی ذمہ داری پیغمبرؐ کو دی گئی، وہ امیر المومنینؑ کی جانشینی اور
ولایت ہے۔ اس بات اور مذکورہ بالا مطالب سے بخوبی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت شریفہ
رسول اللہ کو کسی حکم کی تبلیغ پر مامور کر رہی ہے اور اس کا اجرا لوگوں کو اس شبہے سے دوچار کر سکتا ہے کہ کہیں رسول اللہ یہ بات اپنے فائدے کیلئے نہ کر رہے ہوں، کیونکہ اس قسم کے گمان کی گنجائش تھی اسی لیے رسول اللہ یہ حکم پہنچانے میں خطرہ محسوس کر رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ خدا نے تاکید فرمائی کہ بلا خوف و خطر اس کی تبلیغ کریں اور وعدہ کیا کہ اگر مخالفین، اس کی مخالفت کریں تو انہیں
ہدایت نہیں دے گا اور اس مطلب کی
عامہ و
امامیہ کے طرُق سے منقول روایات سے تائید ہوتی ہے، کیونکہ ان
روایات کا مضمون یہ ہے کہ آیت شریفہ علیؑ کی ولایت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور خدا نے رسول اللہ کو اس کی تبلیغ پر مامور کیا اور آنحضرتؐ اس عمل سے خوفزدہ تھے کہ مبادا لوگ یہ گمان کریں کہ یہ اپنی طرف سے اپنے چچا زاد کو جانشین بنا رہے ہیں اور اسی وجہ سے اس امر کو مناسب وقت کیلئے موخر کر دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی تو ناچار
غدیرِ خم کے مقام پر اسے عملی کر دیا اور اس موقع پر فرمایا: من كنت مولاه فهذا على مولاه يعنى جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں۔
امام باقرؑ اور
امام صادقؑ سے منقول روایت کے مطابق «ما انزل الیک من ربک» سے مقصود علیؑ کی
ولایت و
امامت ہے۔
[ترمیم]
امامت کا عدم ابلاغ رسالت کی تبلیغ نہ کرنے کے مترادف ہے۔
یـایها الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته..اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے
رسالت سے مراد یا دیگر قراءات کے مطابق ’’رسالات‘‘ وہ تمام ذمہ داریاں ہیں جو رسول اللہ کے کاندھوں پر تھیں۔ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ آیت کے
لحن سے اس حکم کی اہمیت و عظمیت کا استفادہ ہوتا ہے اور یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مذکورہ حکم ایسا ہے کہ اگر اس کی تبلیغ نہ ہو تو ایسے ہے کہ اپنی رسالت کے کسی امر کی تبلیغ نہ کی ہو۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کلام تہدید آمیز ہے لیکن درحقیقت یہ مطلب کی اہمیت کو بیان کر رہا ہے اور یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ مطلب اتنا اہم ہے کہ اگر اس کے حق میں کوتاہی ہو تو دین کے کسی جز کا حق ادا نہیں کیا گیا۔
[ترمیم]
خدا تعالیٰ پیغمبرؐ کو ولایت و امامت کے بارے میں خاص پیغام پہنچانے کی صورت میں درپیش خطرات سے بچائے گا:
یـایها الرسول بلغ مآ انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس..اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
رسول اللہ کو جس چیز کا اندیشہ تھا وہ اپنی جان جانے کا خطرہ نہیں تھا بلکہ دین کے نابود ہونے کا خطرہ تھا۔
رسول خداؐ اس حکم کی
تبلیغ کرنے کی صورت میں درپیش خطرات کا جائزہ لیتے ہیں لیکن یہ خطرہ آپ کی ذات کو اپنی جان سے متعلق نہیں تھا؛ کیونکہ آنحضرتؐ اپنی جان کو
رضائے خدا کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں رکھتے تھے، جی ہاں! آپ اس سے بالاتر تھے کہ حتی چھوٹے سے
امر الہی کیلئے اپنا خون دینے سے بخل کریں، جان کا خوف ایسی چیز ہے کہ حضرتؐ کی سیرت اس کی
تکذیب کرتی ہے، اس کے علاوہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کریمانہ کلام میں
انبیا کی طہارت اور ان کے کسی سے خوفزدہ نہ ہونے کی شہادت دی ہے اور فرمایا ہے:
ما کان علی النبی من حرج فیما فرض الله له سنة الله فی الذین خلوا من قبل و کان امر الله قدرا مقدورا الذین یبلغون رسالات الله و یخشونه و لا یخشون احدا الا الله وکفیٰ بالله حسیبا وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں اور اللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔
اس فریضے کے نظائر سے متعلق فرمایا:
فلا تخافوهم و خافون ان کنتم مؤمنین نیز اپنے کچھ بندوں کی اس
خصلت کو لائق تحسین جانا ہے کہ
دشمن کی دھمکی کے باوجود
خدا کے سوا کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔
پس یہ نہیں ہو سکتا کہ احتمالی خطرہ رسول اللہ کیلئے جان کا خطرہ ہو؛ لیکن ممکن ہے کہ وہ خطرہ دین کی نابودی سے متعلق ہو، اس بیان کے ساتھ کہ یہ خوف تھا اگر آنحضرتؐ نے مناسب موقع پر اس پیغام کی تبلیغ نہ کی تو لوگ ان پر تہمت لگا کر شور وغل مچانا شروع کر دیں اور اس کے نتیجے میں دینِ خدا اور اس کی
دعوت فاسد و بے نتیجہ ہو جائے؛ اس نوع کی مصلحت اندیشی آنحضرتؐ کیلئے
جائز ہے اور اس مصلحت اندیشی کو جان کے خوف کا نام نہیں دینا چاہئے۔
[ترمیم]
[ترمیم]
مرکز فرهنگ و معارف قرآن، فرهنگ قرآن، ج۴، ص۲۲۳، ماخوذ از مقالہ «امامت علی»۔