آٹھ محرم کی رات کے مصائب
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
محرم کی راتوں کے نام
تعینی طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ یہ کام
اہل بیتؑ کے ذاکرین نے مخصوص راتوں جیسے
عاشورا اور
تاسوعا کو مدنظر رکھتے ہوئے انجام دیا ہے۔ آٹھ محرم کی رات منسوب ہے امام حسینؑ کے بڑے فرزند
حضرت علی اکبرؑ سے، سید الشہداؑ کے بڑے فرزند خُلق و خُو میں پیغمبرؐ کے سب سے زیادہ مشابہہ تھے۔
[ترمیم]
حضرت علی اکبرؑ امام حسینؑ کے بڑے بیٹے تھے۔ آپ کی والدہ
لیلیٰ بنت ابی مرة بن عروة بن مسعود، قبیلہ
بنی ثقیف سے تھیں.
اکثر قدیم تاریخی منابع نے انہیں
علی اکبر کے لقب سے یاد کیا ہے۔
کتابوں میں بوقت
شہادت آپ کا سن ۱۸، ۲۳ یا ۲۵ سال ذکر کیا گیا ہے۔
[ترمیم]
حضرت علی اکبرؑ ظاہری اور خُلق و خو کے اعتبار سے پیغمبرؐ کے سب سے زیادہ مشابہہ تھے۔
حتی جب بھی اہل بیتؑ، نبی کریمؐ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو آپ کو دیکھتے تھے۔
پیغمبرؐ سے آپؑ کی شباہت اس قدر زیادہ تھی کہ امام حسینؑ نے وداع کے وقت فرمایا:
اَللّهُمَّ اشْهَدْ عَلی هؤُلاءِ الْقَوْمِ فَقَدْ بَرَزَ اِلَیْهِمْ غُلامٌ اَشْبَهُ النّاسِ خَلْقاً وَ خُلْقاً وَ مَنْطِقاً بِرَسُولِکَ کُنّا اِذَا اشْتَقْنا اِلی نَبِیِّکَ نَظَرْنا اِلی وَجْهِهِ. خدایا! اس قوم پر گواہ رہنا، اب وہ جوان ان کی طرف جا رہا ہے جو خلقت، خلق و خو اور بات کرنے میں سب سے زیادہ تیرے رسولؐ کے مشابہہ ہے، ہم جب بھی تیرے پیغمبرؐ کی زیارت کے مشتاق ہوتے تو اس جوان کے چہرے کو دیکھ لیتے تھے۔
[ترمیم]
اکثر تاریخی منابع کے مطابق حضرت علی اکبرؑ
بنی ہاشم کے پہلے فرزند تھے جو میدان
کربلا میں گئے اور
شہید ہوئے۔
جیسا کہ حضرت علی اکبرؑ کے زیارت نامے میں آیا ہے:
اَلسَّلامُ عَلَیْکَ یا اَوَّلَ قَتیلٍ مِنْ نَسْلِ خَیْرِ سَلیلٍ مِنْ سُلالَةِ اِبْراهیمَ الْخَلیلِ صَلَّ اللّه عَلَیْکَ وَ عَلی اَبیکَ سلام ہو آپ پر اے پہلے شہید، ابراہیم خلیل کے خاندان سے بہترین ہستی کے فرزند، اللہ آپ پر درود بھیجے اور آپ کے والد گرامی پر!
[ترمیم]
بنی ہاشم کے جوانوں میں سب سے پہلے حضرت علی اکبرؑ جنگ کیلئے آمادہ ہوئے؛ اپنے والد گرامی کے پاس تشریف لے گئے، جنگ کی اجازت مانگی۔ پدر نے اجازت دی اور ناامیدی کے ساتھ ان کی قامت پر ایک نگاہ کی۔ اس موقع پر آپؑ کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے۔ پھر آسمان کی طرف رخ کیا اور گریہ کیا؛
پھر فرمایا:
اللهم اشهد فقد برز الیهم غلام اشبه الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) و کنّا اذا اشتقنا الی نبیک نظرنا الیهسید بن طاؤس کہتے ہیں: خاندان کے افراد کے سوا کوئی باقی نہیں رہا تھا۔ علی اکبرؑ جو زیبا ترین جوان تھے، باہر آئے اور اپنے پدر سے میدان کی اجازت مانگی۔ حضرت نے بھی اجازت دے دی۔ پھر ان کی طرف اس طرح دیکھا کہ جیسے ایک ناامید انسان دیکھتا ہے۔ ثم نظر الیه نظر آئس؛ پھر بلند آواز سے اس آیت کی تلاوت کی:
اِنَّ اللَّهَ اصْطَفی آدَمَ وَ نُوحاً وَ آلَ اِبْراهِیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمِینَ •••
ذُرِّیَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ وَ اللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌخدا نے آدم، نوح، آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر برتری دی ہے۔ یہ ایک دوسرے کی ذریت ہیں (پاکی، تقویٰ، فضیلت کو ایک دوسرے سے وراثت پاتے ہیں) اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے (اور اپنی رسالت کی راہ میں ان کی کوششوں سے آگاہ ہے)
[ترمیم]
پھر علی بن الحسینؑ نے فوج پر حملہ کر دیا اور یہ رجز پڑھ رہے تھے:
انا علیّ بن الحسین بن علیّ•••
نحن و بیت اللّه اولی بالنّبیّ•••
من شبث و شمر ذاک الدّنیّ•••
اضربکم بالسّیف حتّی انثنی•••
ضرب غلام هاشمیّ علویّ•••
و لا ازال الیوم احمی عن ابی•••
تاللّه لا یحکم فینا ابن الدّعی.
میں علی بن حسین بن علی ہوں، خانہ خدا کی قسم! ہم نبی کے اصل حقدار ہیں، شبث ربعی اور پست فطرت شمر سے؛ اس قدر تم پر تلوار چلاؤں گا کہ وہ لپٹ جائے؛ ہاشمی اور علوی جوان والی ضربیں لگاؤں گا؛ میں آج اپنے پدر گرامی کی حمایت کروں گا؛ خدا کی قسم! مشکوک النسب اور غیر باپ کی طرف منسوب شخص ہمارے اوپر حکومت نہیں کر سکے گا۔
کافی دیر تک جنگ کرنے کے بعد پیاس کا سخت غلبہ ہوا تو خیمے کی طرف واپس آ گئے اور عرض کیا:
یا اَبَةُ! اَلْعَطَشُ قَدْ قَتَلَنی وَ ثِقْلُ الْحَدیدِ اَجْحَدَنی فَهَلْ اِلی شَرْبَةٍ مِن ماءِ سَبیلٍ اَتَقَوّی بِها عَلَی الْاَعْداءِ پدر جان! پیاس نے مجھے ہلاک کر دیا ہے اور لوہے(اسلحے) کی سنگینی نے مجھے مشقت میں ڈال دیا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ مجھے ایک گھونٹ پانی مل سکتا ہے تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں طاقت حاصل کر سکوں؟!
گرم موسم، گھوڑے کے میدان میں سرپٹ بھاگنے کی گرمی؛ یہ سب علی اکبر پر بہت سخت تھے؛ اسی لیے امام سے پورے ادب کے ساتھ یہ خواہش کی۔ مگر امام حسینؑ نے علیؑ کی یہ درخواست سن کر گریہ کیا اور فرمایا: میرے بیٹے! میرے لیے دشوار ہے کہ مجھ سے کچھ طلب کرو مگر میں اسے پورا نہ کر پاؤں۔ امامؑ نے اپنی انگوٹھی انہیں دی اور فرمایا: اسے دہن میں رکھ لو اور دشمن کی طرف لوٹ جاؤ، مجھے امید ہے کہ جلد ہی اپنے جد کے ہاتھوں سیراب ہو جاؤ گے۔
[ترمیم]
شدید پیاس کے باوجود بڑی دلیرانہ جنگ کی اور دشمنوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کیا۔.
علی اکبرؑ نے ایک مرتبہ پھر اپنی شمشیر کے ساتھ حملہ کیا یہاں تک کہ مرۃ بن منقذ عبدی نے ایک ایسی ضربت ماری کہ انہیں زمین پر گرا دیا اور ایک گروہ نے ان کا محاصرہ کر کے ان کے پاکیزہ بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
مرۃ بن منقذ کی ضربت کے بعد خوارزمی مزید لکھتا ہے کہ: اس وقت انہوں نے اپنا ہاتھ گھوڑے کی گردن پر ڈال دیا اور گھوڑا انہیں دشمن کی طرف لے گیا اور دشمنوں نے انہیں تلواروں سے قطعہ قطعہ کر دیا۔
مقاتل میں منقول ہے کہ جب ان کی شہادت کا وقت ہوا تو یہ ندا بلند کی:
یا اَبَتاه هذا جَدّی رَسُولُ اللّه ِ (صلیاللهعلیهوآلهوسلّم) قَدْ سَقانی بِکَاْسِهِ الْاَوْفی شَرْبَةً لا اَظْمَاُ بَعْدَها اَبَداً بابا! یہ میرے جد رسول اللہ ہیں جنہوں نے مجھے بہترین پانی سے سیراب کیا ہے کہ جس کے بعد مجھے ہرگز پیاس نہیں لگے گی۔ امامؑ جلدی سے علی اکبرؑ کے سرہانے پہنچے اور اشکبار آنکھوں سے فرمایا:
قَتَلَ اللّهُ قَوْماً قَتَلُوکبیٹا! خدا اس قوم کو قتل کرے جنہوں نے تجھے قتل کیا۔ پھر خم ہوئے اور علی کے خون آلود چہرے پر اپنا چہرہ رکھا:
فَوَضَعَ خَدَّهُ عَلی خَدِّهِ پھر مزید کہا:
علَیَ الدُّنیا بَعْدَکَ الْعَفا تیرے بعد اس دنیا کی زندگی پر خاک ہے!
علی اکبرؑ کی شہادت پر حضرت زینبؑ تیزی سے خیمہ گاہ سے باہر آئیں اور فریاد بلند کی: ہائے بھیا! ہائے میرے بھائی کے بیٹے! اور خود کو اس جوان کے پیکر پر گرا دیا۔ حسینؑ آپؑ کی جانب آئے اور انہیں خیمہ میں لے گئے۔ پھر بنی ہاشم کے جوانوں سے کہا:
احملوا اخاکم اپنے بھائی کو خیمہ گاہ لے آؤ۔ جوان، انہیں لے گئے اور اسی خیمے کے سامنے کہ جس کے سامنے جنگ کر رہے تھے، انہیں زمین پر لٹا دیا۔
بنی اسد کے ایک گروہ نے انہیں اپنے والد گرامی امام حسینؑ کے پاس سپرد خاک کر دیا۔
[ترمیم]
[ترمیم]
پایگاه اطلاعرسانی حوزه، ماخوذ از مقالہ «شبهای دهه محرم»، نظر ثانی واضافات:ویکی فقہ ریسرچ بورڈ۔