آیت اللہ خوئیؒ کی تصنیفات

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی (۱۲۷۸-۱۳۷۱ش/ ۱۳۱۷-۱۴۱۳ق)، مایہ ناز شیعہ مرجع تقلید ، فقیہ، اصولی اور معروف رجالی تھے۔ آپ کی فقہ، اصول، رجال اور قرآنیات میں بہت سی تصنیفات ہیں۔ آپ کے بقول نمایاں ترین اساتذہ جنہوں نے ان کی علمی شخصیت سازی میں مؤثر کردار ادا کیا؛ یہ تھے: ملا فتح ‌اللّه شریعت اصفہانی، مہدی مازندرانی، آقاضیاءالدین عراقی، محمدحسین غروی اصفہانی کمپانی اور محمدحسین نائینی ۔ نجف کے بہت سے صف اول کے علما منجملہ مذکورہ علما نے خوئی کے اجتہاد کی تائید کی اور آیت اللہ بروجردی کی رحلت کے بعد آپ کی مرجعیت سنجیدگی سے سامنے آئی اور آیت اللہ حکیم کی رحلت کے بعد آپ کو اعلم مرجع قرار دیا گیا۔


آیت اللہ خوئی کے آثار

[ترمیم]

آیت اللہ خوئی کے مختلف علوم بالخصوص فقہ، اصول، رجال اور تفسیر و قرآنیات میں بہت سے آثار موجود ہیں کہ جن کی چار اقسام ہیں:
اپنے اساتذہ کی تقریرات؛
اپنے دروس کی تقریرات؛
علمی رسائل اور تالیفات؛
علمی رسائل اور فتوائی آثار؛

← آیت اللہ خوئی کے دروس کی تقریرات


منابع میں آپ کی فقہ و اصول میں اپنے دونوں اصلی اساتذہ نائینی اور محمد حسین اصفہانی کی تقریرات کا ذکر ملتا ہے۔
[۱] انصاری، مرتضی، زندگانی‌و شخصیت شیخ‌انصاری‌ قدس‌سره، ج۱، ص۴۵۴ـ۴۵۵، پانویس ۲، قم۱۳۷۳ش۔
[۲] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۷۴، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
آقا بزرگ تہرانی
[۳] آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، قسم ۱، ص۷۱ـ۷۲، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
نے آقا ضیاء عراقی کی تقریرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں سے مشہور ترین نائینی کے اصول کی تقریرات اجود التقریرات کے نام سے ہیں۔ یہ اثر جو نائینی کے اصول کی آخری تقریرات اور اصولی آرا کا اہم ترین ماخذ شمار ہوتا ہے، پہلی مرتبہ آغا نائینی کی زندگی میں دو جلدوں پر شائع ہوا تھا۔
[۵] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
آیت اللہ خوئی نے بعد میں اسے از سر نو تحریر کیا اور اس پر حواشی بھی تحریر کیے۔
[۶] خویی، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، ج۱، ص۲، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بی‌تا)۔
[۷] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خویی»، ج۱، ص۲۰۷، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
اس کی پہلی جلد سنہ ۱۳۶۸ کو تہران میں شائع ہوئی۔
[۸] سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۴۰، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔


← اپنے دروس کی تقریرات


شاگردوں کی تقریر نویسی پر تشویق اور آیت اللہ خوئی کے تدریسی سالوں کے طول اور متعدد شاگردوں کی تربیت اس امر کا سبب بنی کہ بہت سے افراد آپ کے دروس کی تدوین کریں۔ ان میں سے بہت سے آثار کا آیت اللہ خوئی نے مطالعہ کیا اور ان پر تقریظ لکھی جو آپ کی زندگی میں ہی شائع ہوئیں۔

←← اصول فقہ کی مطبوعہ تقریرات


آپ کی اصول فقہ میں زیور طبع سے آراستہ ہونے والی اہم ترین تقریرات کہ جن کا آپ نے خود تذکرہ کیا ہے۔ یہ ہیں:
دراسات فی الاصول تالیف سید علی هاشمی شاهرودی، (خان بابا نے اشتباہا اسے آیت اللہ خوئی کے فرزند کی کتاب قرار دیا ہے)
[۱۰] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
یہ آیت اللہ خوئی کے تیسرے دورہ اصول کی مکمل تقریرات ہیں کہ جن کی پہلی جلد سنہ ۱۳۷۱شمسی میں اور مکمل دورہ ۱۴۱۹ میں طبع ہوا؛ مصباح‌ الاصول از قلم سید محمد سرور واعظ حسینی بہسودی (طبع اول ۱۳۷۶ در نجف)؛
محاضرات فی اصول‌ الفقه از قلم محمد اسحاق فیاض کہ جسے آیت اللہ خوئی نے بہت پسند کیا
[۱۱] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۶۸، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
اور (۱۳۸۲) میں اپنی تقریظ کے ضمن میں اس کی تعریف کی؛
مبانی‌ الاستنباط بقلم سید ابو القاسم کوکبی تبریزی؛ مصابیح ‌الاصول تحریر سید علاء الدین بحر العلوم، جو کہ نصف مباحثِ الفاظ پر مشتمل ہے؛ جواهرالاصول بقلم فخر الدین زنجانی؛ الرأی السدید فی الاجتهاد و التقلید بقلم غلام رضا عرفانیان خراسانی؛ رسالة فی الامر بین‌ الامرین، موضوعِ جبر و اختیار تحریر محمد تقی جعفری جو سنہ ۱۳۷۱ میں نجف میں طبع ہوئی۔
[۱۲] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
آیت اللہ خوئی نے اس کلامی ـ فلسفی موضوع کو کفایۃ الاصول میں آخوند خراسانی کی پیروی کرتے ہوئے ’’طلب و ارادہ‘‘ کی اصولی بحث میں بیان کیا ہے اور بقول جعفری
[۱۳] جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، ج۱، ص۳، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خویی، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
انہوں نے آیت اللہ خوئی کے درس پر کچھ مطالب کا اضافہ کیا ہے۔

←← مکاسب پر مبتنی تقریرات


آپ کے درس فقہ کی مطبوعہ تقاریر یا شیخ انصاری کی مکاسب کی ترتیب پر ہے یا عروۃ الوثقیٰ کے محور پر ہے۔ نوع اول کی تقریرات میں سے درج ذیل ہیں:
مصباح‌ الفقاهة فی المعاملات بقلم محمدعلی توحیدی (متوفی ۱۳۹۵)، مکاسب کے مکمل دورے پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی جلد پہلے نجف میں سنہ ۱۳۷۴ میں طبع ہوئی۔ آیت اللہ خوئی نے سنہ ۱۳۷۳ میں اپنی تقریظ میں مؤلف کے تتبع، تحقیق و دقت اور روایات کے مصادر سے مؤلف کی وسیع پیمانے پر آگاہی کی تعریف کی ہے؛
التنقیح فی شرح المکاسب بقلم علی غروی تبریزی؛ محاضرات فی الفقه الجعفری بقلم سید علی ہاشمی شاہرودی، طبع ۱۳۷۳ نجف۔
[۱۵] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱ـ۲۴۲، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
[۱۶] مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ج۱، ص۳۴۶، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔


←← عروۃ الوثقیٰ پر مبنی تقریرات


عروۃ الوثقیٰ پر مبتنی تقریرات یہ ہیں:
التنقیح فی شرح العروة‌ الوثقی تالیف علی غروی تبریزی؛ جو طہارت و اجتہاد و تقلید کی مباحث میں ہے؛ آیت اللہ خوئی کی (۱۳۷۷)، میں تحریر کردہ تقریظ میں مؤلف کے مباحث کی دقتوں پر احاطے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
المستند فی شرح العروة‌ الوثقی از مرتضیٰ بروجردی جو کہ صلات ، صوم و اعتکاف، زکات، خمس اور اجارے کی مباحث میں ہے۔
المعتمد فی شرح العروة‌ الوثقیٰ از سید رضا خلخالی جو حج کی مباحث پر مشتمل ہے؛ عروۃ الوثقیٰ میں حج کی بحث کامل نہ ہونے کی وجہ سے آیت اللہ خوئی نے باقی مطالب کی تدریس مناسکِ حج کے اعتبار سے کی ہے اور تقریرات کے اس حصے کو خلخالی نے ’’المعتمد فی شرح المناسک‘‘ کا نام دیا ہے؛
مبانی العروة‌ الوثقی جو آپ کے فرزند آقائے محمد تقی خوئی نے تحریر کی؛ یہ مضاربہ، شرکت، مزارعہ، مساقات، ضمان، حوالہ، نکاح اور وصیت کی مباحث پر مشتمل ہیں؛
تحریر العروة‌ الوثقی تالیف قربان علی کابلی؛
دروس فی فقه الشیعة (مدارک العروة) از سید مہدی خلخالی، طبع ۱۳۷۸ نجف؛
[۱۸] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۲، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔

الدرر الغوالی فی فروع العلم الاجمالی تالیف رضا لطفی، طبع ۱۳۶۷ نجف؛
آپ کی دیگر فقہی تقریرات یہ ہیں: فقه العترة فی زکاة الفطرة از سید محمد تقی حسینی جلالی؛
رسالة فی احکام الرضاع از محمدتقی ایروانی و سید مہدی خلخالی؛ یہ آیت اللہ خوئی کے رمضان ۱۳۷۴ و ۱۳۷۵ کے دوران پیش کردہ دروس کا مجموعہ ہے، طبع ۱۴۱۲ نجف؛
[۲۰] موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۱۵، پانویس ۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
[۲۱] موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۱۶، پانویس ۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔

رسالة فی حکم أوانی الذّهب از سید مہدی حجازی شهرضایی اور رسالة فی الارث از محمد جواهری؛ یہ آیت اللہ خوئی کے کتاب ارث کے مسائل پر فتاویٰ کی شرح ہے، منہاج‌ الصالحین (دیگر فقہی و اصولی تقریرات سے آگاہی کیلئے حواشی میں مذکور کتب کی طرف رجوع کریں)

← علمی رسائل و تالیفات


آیت اللہ خوئی نے اپنے زندگی نامے میں ان آثار کا تذکرہ کیا ہے۔

←← دیگر آثار


آپ کے دیگر آثار یہ ہیں: البیان فی تفسیر القرآن جو قرآنیات کی بعض مباحث کے بارے میں اہم اور مفصل مباحث سے مربوط ہیں، اسی طرح اس میں سورہ حمد کی تفسیر بھی ہے؛ اشاعت (۱۳۷۵ در نجف
[۲۷] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
) اس کتاب کا حوزہ علمیہ اور دانشگاہ دونوں میں استقبال کیا گیا اور اسے درسی نصاب میں شامل کیا گیا۔
[۲۸] ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیت‌اللّه خوئی شدند؟»، ج۱، ص۲۳۱، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
محمد صادق نجمی اور ہاشم ‌زاده ہریسی نے اس کتاب کا فارسی ترجمہ ’’بیان در علوم و مسائل کلی قرآن‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اس کی اعجاز کے عنوان سے فصل کا آیت اللہ جعفر سبحانی نے ’’مرزھای اعجاز‘‘ کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا ہے اور یہ کتاب ۱۳۴۹ شمسی میں شائع ہوئی۔(دیگر تراجم کیلئے رجوع کیجئے: البیان فی تفسیر القرآن)؛
رسالة فی نفحات الاعجاز (نجف ۱۳۴۲) یہ کلامی تالیف ہے جو قرآن کی کرامت کے دفاع میں ۲۵ برس کے سن میں کتاب حسن الایجاز فی ابطال الاعجاز (بولاق ۱۹۱۲) کے جواب میں لکھی۔ مذکورہ کتاب نصیر الدین ظافر کے مستعار نام سے لکھی گئی تھی اور اس میں قرآن کو پیغمبر کا معجزہ ثابت کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ آپ کی انتہائی اہم رجالی تالیف معجم رجال‌ الحدیث ہے۔

←← فقہی آثار


استدلالی روش کے تحت فقہی آثار یہ ہیں:
مبانی تکملة منهاج‌الصالحین، تکملة منهاج الصالحین کے نام سے رسالہ عملیہ کی استدلالی شرح؛ کہ جس میں میں اپنے فتاویٰ کے مبانی اور دلائل کو بیان کیا ہے۔ یہ کتاب فقہ جزا کی ابحاث میں ہے اور امامیہ کے فقہی متون میں سے اہم ترین اور مضبوط ترین متن شمار ہوتی ہے۔
[۳۰] گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خویی»، ج۱، ص۲۰۸، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔

رسالة فی اللباس المشکوک، جس کے بارے میں اس کی ابتدا میں خود فرماتے ہیں
[۳۱] خویی، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، ج۱، ص۳، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
کہ اسے اس بحث کی تدریس کے موقع پر تحریر کیا تھا اور پہلی مرتبہ یہ سنہ ۱۳۶۲شمسی کو نجف میں شائع ہوئی۔
[۳۴] مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
[۳۵] مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ج۱، ص۳۴۶، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
(انصاری قمی نے اس کے شائع ہونے کی تاریخ ۱۳۶۱ ذکر کی ہے)
[۳۶] که تاریخ ۱۳۶۱ را ذکر کرده‌اند، انصاری قمی، ناصرالدین، ج۱، ص۷۲، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔

البتہ آیت اللہ خوئی کے بعض عمدہ فقہی اور غیر فقہی آثار شائع نہیں ہو سکے ہیں۔
[۴۱] آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، قسم ۱، ص۷۲، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
[۴۲] طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، ج۱، ص۷۴۵ـ۷۴۶، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔


← فتاویٰ اور توضیح المسائل


یہ آثار مختلف ناموں سے مستقل یا دوسرے آثار پر حواشی کی صورت میں عربی یا فارسی میں مختلف استفتائات کے جواب میں مرتب کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کا دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ ان میں سے بعض کی تلخیص مختلف عناوین سے تدوین کی گئی ہیں، آیت اللہ خوئی کے کچھ فتاویٰ کو دیگر مراجع کی کتب کے ہمراہ بھی شائع کیا گیا ہے۔
[۴۴] انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۷۲ـ۷۴، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔

ان میں سے ایک آپ کا عروۃ الوثقیٰ پر حاشیہ ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس کتاب پر ایک حاشیہ تحریر کیا کہ جسے ممتاز شاگردوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشستوں میں مرتب کیا گیا تھا مگر عروہ کے مکمل دورے کی تدریس کے بعد ایک مرتبہ پھر اس پر حاشیہ تحریر کیا جو بعض کے بقول کچھ متفاوت تھا۔
[۴۵] مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔

آیت اللہ خوئی کے فتاویٰ پر مشتمل سب سے اہم کتاب منهاج‌ الصالحین ہے۔ آیت اللہ خوئی نے اس کے مقدمے میں لکھا ہے کہ یہ کتاب بعض اہل علم اور مومنین کی درخواست پر لکھی گئی ہے۔ پہلے سید محسن حکیم کی منھاج الصالحین پر حواشی کی صورت میں اسے مرتب کیا گیا تھا، پھر اپنے حواشی کو آیت اللہ حکیم کے فتاویٰ کی جگہ پر متن میں شامل کیا اور بعض عبارتوں اور مسائل کی ترتیب کو بدل کر آیت اللہ حکیم کی کتاب کو اپنے فتاویٰ کے مطابق از سر نو مرتب کیا۔ یہ کتاب پہلے سنہ ۱۳۹۰ کو نجف میں طبع ہوئی اور پھر اس کے کئی ایڈیشن زیور طبع سے آراستہ ہوئے۔
[۴۶] صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۹۷، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
سید تقی طباطبائی‌ قمی نے آیت اللہ خوئی کی منهاج‌ الصالحین پر مبانی منهاج‌ الصالحین کے نام سے دس جلدوں پر شرح لکھی ہے۔ آیت اللہ خوئی کے بعد بعض فقہا بالخصوص ان کے شاگردوں نے ان کی روش کے تحت اپنے رسائل عملیہ بھی منہاج الصالحین کے عنوان سے تالیف کیے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ منهاج‌ الصالحین حکیم میں قضا، شهادات، حدود، قصاص اور دیات کے ابواب شامل نہیں تھے، آیت اللہ خوئی نے کتاب تکملہ کے مقدمے میں کہا ہے کہ بہت سے سوالات کی وجہ سے ان مباحث میں اپنے نظریات کو فتوائی روش کے تحت مرتب کیا ہے۔ اس بنا پر منھاج الصالحیں اور اس کا تکملہ (طہارت تا دیات) تمام فقہی ابواب کو شامل ہے۔
آیت اللہ خوئی نے امام علیؑ اور اہل بیتؑ کے فضائل میں ۱۶۳ اشعار پر مشتمل منظوم کلام کہا ہے۔
[۴۷] که این منظومه را دارای ۹۰۰ بیت معرفی کرده، صدرایی ‌خویی، علی، ج۱، ص۱۷۲، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
محمد مہدی موسوی خرسان نے اس شعری مجموعے کی ’’علیٌ امامُ البَرَرة‘‘ کے عنوان سے شرح لکھی ہے کہ جو سید علی حسینی بہشتی کے مقدمے کیساتھ شائع ہوئی ہے (بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳)۔ آیت اللہ خوئی نے ایک قصیدہ اپنے داماد سید نصر اللہ مستنبط کے غم میں کہا ہے۔
[۴۸] نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، ج۱، ص۲۳۲ـ۲۳۳، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔

بہت سے مذکورہ اشعار پچاس جلدوں پر مشتمل موسوعۃ الامام الخوئی نامی دائرۃ المعارف میں رقم ہیں۔ ان میں سے پہلی ۳۳ جلدیں عروۃ الوثقیٰ کی ترتیب پر آیت اللہ خوئی کے درس فقہ کی تقریرات پر مشتمل ہیں۔ ایک جلد ان کتب کی فہرست کے بارے میں ہے۔ اگلی چھ جلدیں مکاسب کی ترتیب پر فقہی دروس کے پہلے دورے کی ہیں جن کے نام یہ ہیں: مصباح الفقاهة فی المعاملات (حصہ مکاسب محرّمه، ج ۳۵) التنقیح فی شرح المکاسب (در بیع و خیارات، ج۳۶ تا ۴۰)۔ اس کتاب کی جلد ۴۱ اور ۴۲ آیت اللہ خوئی کی کتاب تکملة المنهاج کے مبانی میں ہے۔ ان ۴۲ جلدوں میں فقہ استدلالی کا ایک مکمل دورہ شامل ہے۔ جلد نمبر ۴۳ تا ۴۸، میں اصول فقہ کا ایک مکمل دورہ ہے، یعنی محاضرات فی اصول‌ الفقه (ج ۴۳ تا ۴۶) اور مصباح‌ الاصول (ج ۴۷ تا ۴۸)۔
جلد نمبر ۴۹ مجمع‌ الرسائل کے عنوان سے آیت اللہ خوئی کی تقریرات کے تین رسائل (رسالة فی‌ الارث، رسالة فی‌ الامر بین الامرین، و رسالة فی احکام الرضاع)، دو علمی رسائل (رسالة فی اللباس المشکوک و رسالة فی نفحات الاعجاز) اور رسالة فی کلیات علم الرجال کے عنوان سے معجم رجال الحدیث کے مبسوط مقدمے پر مشتمل ہے۔
البیان فی تفسیر القرآن اس دائرۃ المعارف کے آخری حصے میں ہے۔


فہرست منابع

[ترمیم]

(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فی‌النجف خلال‌الف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی ‌و شخصیت شیخ‌انصاری‌قدس‌سره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیت‌اللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیت‌اللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباح‌الفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیت‌اللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیت‌اللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقة‌العلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیم‌الشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حب‌اللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیت‌اللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خان‌محمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخ‌عبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
(۲۱) خوئی ، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیرالقرآن، قم ۱۳۹۴/۱۹۷۴۔
(۲۲) خوئی ، سید ابوالقاسم، «(پاسخ به استفتائی درباره حزب کمونیست)»، الموسم، ش۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۲۳) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۴) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی نفحات الاعجاز فی رد الکتاب المسمی حُسن الایجاز، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۵) خوئی ، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بی‌تا)۔
(۲۶) خوئی ، سید ابوالقاسم، مبانی تکملة المنهاج، نجف (۱۹۷۵ـ ۱۹۷۶)۔
(۲۷) خوئی ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، چاپ افست قم (بی‌تا)۔
(۲۸) خوئی ، سید ابوالقاسم، منهاج ‌الصالحین، نجف ۱۳۹۷۔
(۲۹) خوئی ، سید ابوالقاسم و جواد تبریزی، صراة‌النجاة: استفتاءات لآیت‌اللّه العظمی الخوئی مع تعلیقة و ملحق لآیت‌اللّه العظمی التبریزی، قم ۱۴۱۶ـ۱۴۱۸۔
(۳۰) داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۱) روحانی، حمید، نهضت امام خمینی، ج۲، تهران ۱۳۷۶ش۔
(۳۲) «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۳) ساعدی، محمدرضا، «خاطراتی از شیخ محمدرضا ساعدی از اعضای هیأت آیت‌اللّه خوئی در ماجرای انتفاضه ۱۹۹۱ عراق»، شهروند امروز، سال ۴، ش۳ (۲۵ تیر ۱۳۹۰)۔
(۳۴) سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۳۵) شریف، سعید، «تلامذة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۶) شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دام‌ظله»، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
(۳۷) سودانی، عبدالفلاح، «الامام الخوئی مدرسة فی التفسیر و الحدیث»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۸) شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۹) شاکری، حسین، ذکریاتی، قم ۱۴۱۸ـ۱۴۲۴۔
(۴۰) شبیری زنجانی، سید موسی، جرعه‌ای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
(۴۱) شریف رازی، محمد، آثار الحجة، یا، تاریخ و دائرة‌المعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
(۴۲) شریف رازی، محمد، گنجینه دانشمندان، تهران ۱۳۵۲ـ۱۳۵۴ش۔
(۴۳) شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۴) شیرازی، رضی، «مصاحبه با آیت‌اللّه سیدرضی شیرازی»، حوزه، سال ۹، ش ۲ و ۳ (خرداد ـ شهریور ۱۳۷۱)۔
(۴۵) صدرایی ‌خویی، علی، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
(۴۶) صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
(۴۷) حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدس‌سره) فی‌التراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۸) طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔
(۴۹) طریحی، محمد سعید، «السید جمال‌الدین الخوئی: ۱۳۳۷ـ۱۴۰۴ه»، الموسم (۱۴۱۴ب)۔
(۵۰) عارفی، محمداکرم، اندیشه سیاسی آیت‌اللّه خوئی، قم ۱۳۸۶ش۔
(۵۱) جاویدان، شذی، العراق بین الماضی و الحاضر و المستقبل، بیروت: مؤسسة الفکر الاسلامی، (بی‌تا)۔
(۵۲) علیدوست، ابوالقاسم، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۳) غروی، محمد، الحوزة العلمیة فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
(۵۴) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی: التقلید، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۱، قم: مؤسسة احیاء الآثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰الف۔
(۵۵) غروی تبریزی، علی، الطهارة، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
(۵۶) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح المکاسب: البیع، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خوئی ، (ج ۲)، در موسوعة الامام الخوئی، ج۳۷، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ج۔
(۵۷) فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۵۸) قائینی، محمد، «گفت‌وگو با حجت‌الاسلام و المسلمین محمد قائینی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۹) قطری، منصور عبدالجلیل، «ادب الاختلاف فی حیاة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۰) کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائدالاصول، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم ۱۴۰۴ـ۱۴۰۹۔
(۶۱) گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خوئی »، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
(۶۲) فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۳) فیّاض، محمداسحاق، «نوآوریهای اصولی و فقهی آیت‌اللّه خوئی »، فقه، ش ۱۷ و ۱۸ (پاییز ـ زمستان ۱۳۷۷)۔
(۶۴) مغنیه، محمدجواد، «زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۶۵) مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۶۶) مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
(۶۷) مرقاتی، جعفر، «الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۸) مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
(۶۹) خباز، منیر، «ملمح فی شخصیة الامام الخوئی (قدس‌سره) : ملکات فکریة لاتتوفر الا للعباقرة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۰) «مؤسسة الامام الخوئی الخیریة: فکرتها و مشاریعها»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۷۱) موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدس‌سره) لاساتذته»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۲) موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۳) نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۴) واعظ حسینی، محمدسرور، مصباح الاصول، تقریرات درس آیت‌اللّه خوئی، (قم) ۱۳۸۰ش۔
(۷۵) یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه ‌وحید بهبهانی و شیخ‌ مرتضی انصاری چه شد؟» (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. انصاری، مرتضی، زندگانی‌و شخصیت شیخ‌انصاری‌ قدس‌سره، ج۱، ص۴۵۴ـ۴۵۵، پانویس ۲، قم۱۳۷۳ش۔
۲. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۷۴، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۳. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، قسم ۱، ص۷۱ـ۷۲، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
۴. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۱، ص۲۷۸، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۵. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۶. خویی، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، ج۱، ص۲، تقریرات درس آیت‌اللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بی‌تا)۔
۷. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خویی»، ج۱، ص۲۰۷، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۸. سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، ج۱، ص۴۰، در یادنامه حضرت آیت‌اللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیت‌اللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
۹. خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۳۔    
۱۰. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۱۱. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۶۸، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۱۲. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۱۳. جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، ج۱، ص۳، تقریرات درس آیت‌اللّه ابوالقاسم خویی، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
۱۴. خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۲۔    
۱۵. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱ـ۲۴۲، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۱۶. مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ج۱، ص۳۴۶، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
۱۷. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲۰، ص۲۴۰، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۱۸. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۲، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۱۹. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۸، ص۱۲۹، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۲۰. موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۱۵، پانویس ۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۲۱. موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، ص۱۶، پانویس ۱، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
۲۲. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۶، ص۲۱۹، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۲۳. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۱۶، ص۱۶، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۲۴. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲۶، ص۳۱، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۲۵. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲۶، ص۲۲۶، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۲۶. خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۵۔    
۲۷. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۲۸. ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیت‌اللّه خوئی شدند؟»، ج۱، ص۲۳۱، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۲۹. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲۴، ص۲۴۶، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۳۰. گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیت‌اللّه العظمی خویی»، ج۱، ص۲۰۸، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
۳۱. خویی، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، ج۱، ص۳، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
۳۲. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۴، ص۴۳۷، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۳۳. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۱۸، ص۲۹۳، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۳۴. مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، ج۱، ستون ۲۴۱، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
۳۵. مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمه‌ای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ج۱، ص۳۴۶، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
۳۶. که تاریخ ۱۳۶۱ را ذکر کرده‌اند، انصاری قمی، ناصرالدین، ج۱، ص۷۲، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۳۷. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۱، ص۵۳۰، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۳۸. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲، ص۲۱۳، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۳۹. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۲، ص۳۵۴، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۴۰. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، ج۱۷، ص۱۳، چاپ علی‌نقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔    
۴۱. آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابع‌عشر، قسم ۱، ص۷۲، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
۴۲. طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، ج۱، ص۷۴۵ـ۷۴۶، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔
۴۳. خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، ج۲۳، ص۲۲۔    
۴۴. انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضوان‌اللّه‌علیه)»، ج۱، ص۷۲ـ۷۴، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
۴۵. مددی، احمد، «گفت‌وگو با آیت‌اللّه سیداحمد مددی»، ج۱، ص۲۲۷، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
۴۶. صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، ج۱، ص۲۹۷، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
۴۷. که این منظومه را دارای ۹۰۰ بیت معرفی کرده، صدرایی ‌خویی، علی، ج۱، ص۱۷۲، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
۴۸. نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، ج۱، ص۲۳۲ـ۲۳۳، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔


ماخذ

[ترمیم]

دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔    
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔    






جعبه ابزار