آیت اللہ خوئیؒ کی سیاسی سرگرمیاں
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئیؒ
پہلوی حکومت کے علما، مراجع اور عوام مخالف اقدامات پر مذمتی بیان جاری کرتے تھے اور عوام اور مراجع تقلید کی حمایت کا اعلان کرتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی آپ اسی موقف پر قائم رہے؛ چنانچہ فروردین ۱۳۵۸شمسی میں
اسلامی جمہوریہ ایران کے حق میں ریفرنڈم کیلئے عوام کو اس میں بھرپور شرکت اور اسلامی جمہوریہ کے حق میں ووٹ دینے کی دعوت دی۔ عراق کی ایران کے خلاف جنگ کے دوران بھی
عراقی حکومت کے شدید دباؤ کے باوجود آپ ثابت قدم رہے اور ان کی تھوڑی سی حمایت بھی نہ کی اور ہمیشہ بعثی حکومت کے خلاف ڈٹے رہے۔
[ترمیم]
آیت اللہ خوئی جوانی اور ادھیڑ عمر میں سیاسی مسائل کے حوالے سے بہت سرگرم تھے اور بعض اوقات سخت موقف اختیار کرتے تھے،
مگر مرجعیت کے بعد سیاسی مسائل میں زیادہ دخل اندازی نہیں کرتے تھے اور سیاست سے دور ہو گئے تھے۔ نقطہ نظر میں اس نوعیت کے اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ خاص طور پر مرجعیت کی جانب سے سیاسی مسائل میں ضروری حد سے زائد مداخلت کو اس منصب کی مصلحت میں نہیں سمجھتے تھے،
یا اس وجہ سے تھا کہ ان کا نقطہ نظر دینی علما کی سیاسی مسائل میں مداخلت کے حوالے سے بدل چکا تھا۔ اس کے باوجود زندگی کے آخری مہینوں میں
عراق کے سیاسی و معاشرتی حالات میں حصہ لینے کا آپ کی علمی اور سماجی زندگی پر ناقابل تردید اثر پڑا۔ آپ مختلف مراحل میں
ایران کے سیاسی حالات کی نسبت حساس تھے۔ تاریخی ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد
اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں آپ کے نقطہ نظر کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
حکومت وقت کے اقدامات پر شدید رد عمل اور احتجاج: آپ کا پہلا اہم موقف، شاہ کو ٹیلی گرام کی صورت میں تھا کہ جس میں مہر ۱۳۴۱شمسی کو
ایالتی و ولایتی انجمنوں کی منظوری کی مخالفت کی گئی تھی اور اسے
شریعت اور
آئین کے منافی قرار دیا۔
آپ نے اسی طرح بہمن ۱۳۴۱شمسی کو
آیت اللہ سید محمد بہبہانی کے نام ایک ٹیلی گرام میں ریفرنڈم منعقد کرنے کی مخالفت کی اور اسے شرعی قانون اور آئین کی واضح شقوں کے منافی قرار دیا اور واضح کیا کہ قوم کی آواز کو جبر کے ساتھ زیادہ دیر تک دبایا نہیں جا سکے گا اور عوام فریبی کے پراپیگنڈے سے مشکلات حل نہیں ہوں گی اور اس سے تباہ حال معیشت اور لوگوں کی ناراضگی کا کوئی مداوا نہیں ہو گا۔
سنہ۱۳۴۲شمسی کی ابتدا میں پولیس کے
مدرسہ فیضیہ پر حملے کے بعد انہوں نے
امام خمینیؒ کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس سانحے پر سخت غم و غصے کا اظہار کیا
اور شاہ کے نام سخت لہجے میں ایک ٹیلیگرام ارسال کیا کہ جس میں اس وقت کی صورتحال، اسلامی ملک کے انحطاط اور اس کے زمامداروں کے طرز عمل پر شدید افسوس کا اظہار کیا۔
تقریبا ایک ماہ کے بعد بھی کچھ ایرانی علما کے خط کے جواب میں فاسد حکام کی نااہلی کا ذکر کیا،
علما کی ذمہ داری کو سنگین کہا اور خاموشی کو ناجائز قرار دیا۔
۱۵ خرداد سنہ ۱۳۴۲شمسی کے قیام اور عوام کے قتل عام کے بعد آیت اللہ خوئی نے ایک بیان جاری کر کے ایران کی حکومت کو ظالم کہا اور ان کے ساتھ تعاون کو حرام قرار دیا۔ پارلیمنٹ کے اکیسویں انتخابات میں شرکت کو بھی ممنوع کر دیا اور اس پارلیمنٹ کو ناقابل بھروسہ قرار دیا۔
اسی طرح جب امام خمینیؒ کی قید اور عدالتی ٹرائل کی خبر سنی تو اپنے کچھ شاگردوں کے ہمراہ آیت اللہ حکیم کے پاس کوفہ تشریف لے گئے اور مشاورت کے بعد دونوں مراجع نے جداگانہ سخت الفاظ میں امام خمینیؒ کی حمایت میں ٹیلی گرام ایران ارسال کیے۔
حسن علی منصور کی بطور وزیر اعظم تقرری کے بعد سنہ ۱۳۴۲شمسی کو ایک ٹیلی گرام بھیج کر ان سے مطالبہ کیا کہ گزشتہ حکومتوں والی غلطیاں مت دہرائیں،
اسلام مخالف قوانین کو معطل کر دیں اور امام خمینیؒ اور آیت اللہ قمی کو آزاد کریں۔
ہویدا کی وزارت عظمیٰ کے آغاز پر بھی اس کے نام ٹیلی گرام ارسال کر کے صیہونی اثر و نفوذ کو ختم کرنے ، شریعت مخالف قوانین کی معطلی، امام خمینیؒ کی
جلا وطنی کے خاتمے
اور مخالفین کی فوری آزادی کا مطالبہ کیا۔
آپ نے امام خمینیؒ کی مہر ۱۳۴۴شمسی میں عراق آمد سے مطلع ہونے پر فوری اپنے کچھ شاگردوں اور ساتھیوں کو ان کے استقبال کیلئے بھیجا اور بذات خود دو مرتبہ امامؒ سے ملاقات کیلئے تشریف لے گئے
( اس دور میں آپ کے ارسال کردہ مزید خطوط و پیغامات سے مطلع ہونے کیلئے حواشی میں مذکور منابع کی طرف رجوع کریں)
منقول ہے کہ اس دوران آپ کا حکومت کے خلاف موقف اس قدر تند و تیز تھا کہ امام خمینیؒ نے آیت اللہ خوئی سے درخواست کی کہ اس شدت و حدت کو کم کریں۔
یہ دورہ بارہ سے تیرہ سال پر محیط ہے اور امام خمینیؒ کے
نجف میں قیام سے اس کا آغاز ہوا۔ اس دور میں نہ صرف یہ کہ پہلے دور کی طرح کے سخت بیانات والی بات نہیں ہے بلکہ ایران کے مختلف حوادث حتی سنہ ۱۳۵۶ اور ۱۳۵۷ شمسی کے حوادث پر کھلم کھلا احتجاج کی کوئی خبر نہیں ملتی ہے۔ اس موقف پر تنقید بھی ہوئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سکوت کی ایک وجہ احتجاج کا غیر موثر ہونا تھا۔
جب ایران کا اسلامی انقلاب پورے جوبن پر تھا اور امام خمینیؒ کو عراق سے نکال دیا گیا تھا تو اس وقت
محمد رضا پہلوی کی اہلیہ
فرح دیبا نے
پہلوی حکومت کے مقابلے میں ایران کی دینی تحریک کو کمزور کرنے کی غرض سے ۲۸ آبان ۱۳۵۷شمسی (بمطابق
عید غدیر ۱۳۹۸شمسی) کو اچانک اور اجازت لینے کے مروجہ پروٹوکول کے بغیر آیت اللہ خوئی کے ساتھ ان کے گھر میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد آیت اللہ خوئی پر بعض محافل میں تنقید بھی ہوئی مگر انہوں نے بعض علما کے نام ایک یاد داشت میں اس ملاقات کے اچانک اور بادل ناخواستہ ہونے پر زور دیتے ہوئے لکھا کہ اس ملاقات میں فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہوں نے ایرانی ملت کے مطالبات کو اس کے سامنے پیش کیا اور ایران میں ہونے والے ناگوار سانحات اور ظلم و ستم پر شدید احتجاج اور غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
مذکورہ ملاقات کے چند دنوں کے بعد اور عوامی احتجاج میں شدت کے پیش نظر انہوں نے ایران کے حالات اور شاہ کی حکومت کے جرائم کی مذمت میں مراجع، علما اور ملت کے نام ایک بیان صادر کیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ شجاعت کے ساتھ اور شرعی معیارات کا خیال رکھتے ہوئے اپنے اقدامات جاری رکھیں اور تمام مراحل میں مراجع تقلید اور علما کی پیروی کریں۔
انہوں نے انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی اسی موقف کو برقرار رکھا جیسا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں ریفرنڈم کے موقع پر فروردین سنہ ۱۳۵۸ شمسی میں لوگوں کو ریفرنڈم میں شرکت اور جمہوری اسلامی کے حق میں رائے دینے کی دعوت دی
اور اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ انقلاب کے امور میں شرکت کریں۔
عراق ایران جنگ میں عراقی حکومت کے شدید دباؤ کے باوجود انہوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور بعثی حکومت کی ذرہ بھر حمایت نہیں کی۔
حتی شرعی اموال کو ایرانی مجاہدین کے ساز و سامان کی فراہمی کیلئے خرچ کرنے کے حق میں فتویٰ دیا، اس فتویٰ کی وجہ سے عراقی حکومت کے جبر کی وجہ سے جنگ میں شرکت کرنے والے آپ کے بہت سے مقلدین نے خود کو ایرانی فورسز کے حوالے کر دیا یا ایرانیوں پر فائرنگ نہیں کی۔
آیت اللہ خوئی دیگر اسلامی ممالک کے حالات پر بھی اپنا رد عمل دیتے تھے منجملہ
کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ الحاق کی ممنوعیت پر مبنی فتویٰ،
عراقی پٹرول کے قومیائے جانے کو سراہنا،
عربوں کی اسرائیل کے ساتھ (مهر ۱۳۵۲/ رمضان ۱۳۹۳) میں چوتھی جنگ کے موقع پر بیان اور اسلامی ممالک کی امداد،
اور ھویدا کے نام ٹیلی گرام کہ جس میں فلسطینیوں کی مکمل حمایت کا مطالبہ کیا گیا۔
اسفند ۱۳۶۹/
شعبان ۱۴۱۱ھ میں
کویت کی عراقی فوجوں کے قبضے سے آزادی کے ساتھ شروع ہونی والی عراقی شیعوں کی تحریک آزادی کے بعد آیت اللہ خوئی نے اہم ترین سیاسی فعالیت انجام دی۔ انہوں نے ۱۴ اسفند/ ۱۸ شعبان، کو ایک بیان جاری کیا کہ جس کے ذریعے مجاہدین کو
شرعی احکام کی رعایت اور میانہ روی کی دعوت دی اور اس عوامی تحریک کی رہنمائی کی۔ ۱۷ اسفند/ ۲۱ شعبان، کو آزاد شدہ علاقوں کا نظام چلانے کیلئے ایک نو رکنی کمیٹی مقرر کی۔
بعثی حکومت کے شیعہ شہروں پر حملے اور تحریک آزادی کی شکست کے بعد عراقی فورسز نے ۲۹ اسفند ۱۳۶۹/ ۳
رمضان ۱۴۱۱ ھ کو نجف پر حملہ کیا اور آیت اللہ خوئی کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ پھر دسیوں افراد کو آقا کے گھر کے اطراف میں قتل کرنے کے بعد سینکڑوں علما، طلبہ اور آپ کے اعزا و اقارب کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد آیت اللہ خوئی اور آپ کے چند ساتھیوں کو صدام کے ساتھ ملاقات کیلئے زبردستی
بغداد لے جایا گیا اور ان پر زور دیا گیا کہ ٹیلی وژن پر جا کر مجاہدین کو ہتھیار ڈالنے کا کہیں۔ اگرچہ آیت اللہ خوئی نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا پھر بھی صدام کی پراپیگنڈہ مشینری نے ان کے بیان میں تحریف کر کے اسے نشر کر دیا.
آخرکار آیت اللہ خوئی کو
کوفہ میں نظربند کر دیا گیا اور انہیں صدام حکومت کی طرف سے پابندیوں، دباؤ اور توہین کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کے ایک سو سے زائد شاگرد، رشتے دار اور خاندان کے افراد منجملہ آپ کے بیٹے سید ابراہیم اور داماد سید محمود میلانی کو گرفتار کر لیا گیا اور ان میں سے کچھ افراد کو سزائے موت دی گئی۔ مدرسہ دار العلم کو بھی منہدم کر دیا گیا۔
[ترمیم]
(۱) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعة، چاپ علینقی منزوی و احمد منزوی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔
(۲) آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعة: نقباء البشر فی القرن الرابععشر، مشهد، قسم ۱ـ۴، ۱۴۰۴۔
(۳) مرکز اسناد انقلاب اسلامی، اسناد انقلاب اسلامی، ج۱، تهران: ۱۳۷۴ش۔
(۴) امینی، محمدهادی، معجم رجال الفکر و الادب فیالنجف خلالالف عام، نجف ۱۳۸۴/۱۹۶۴۔
(۵) انصاری، مرتضی، زندگانی و شخصیت شیخانصاریقدسسره، قم۱۳۷۳ش۔
(۶) انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی (رضواناللّهعلیه)»، نور علم، دوره ۴، ش ۱۱ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۷) ایازی، محمدعلی، «چه کسانی مروج مکتب تفسیری آیتاللّه خوئی شدند؟»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۸) ایروانی، باقر، «مرجعیة الامام الخوئی (قدسسره) : السمات و المعالم»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۹) ایروانی، محمدتقی و محمدمهدی موسوی خلخالی، رسالة فی احکام الرضاع فی فقه الشیعة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۰) بحرالعلوم، محمد، «الامام الخوئی: و انجازاته العلمیة و مشاریعه العامة»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، (قم) : مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۱۱) بروجردی، محمدتقی، نهایة الافکار، تقریرات درس آیتاللّه عراقی، قم: مؤسسة النشر الاسلامی، (۱۳۶۴ش)۔
(۱۲) توحیدی، محمدعلی، مصباحالفقا هة فی المعاملات، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲۔
(۱۳) جعفری، محمدتقی، رسالة فی الامر بین الامرین، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۱۴) جعفری همدانی، غلامحسین، «مصاحبه با آیتاللّه میرزاغلامحسین جعفری همدانی»، حوزه، سال ۹، ش ۴ (مهر و آبان ۱۳۷۱)۔
(۱۵) حسینی میلانی، فاضل، «المرجعیة المتمیزة للامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۶) حسینی همدانی، محمد، «مصاحبه با استاد آیتاللّه حسینی همدانی (نجفی)»، حوزه، سال ۵، ش ۶ (بهمن و اسفند ۱۳۶۷)۔
(۱۷) حکمی، مرتضی، «الامام الخوئی و انطلاقةالعلامة الجعفری الفلسفیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۱۸) حکمی، مرتضی، «حضرت آیتاللّه العظمی حاج سیدابوالقاسم خوئی : پیشوای حوزه علمیه و مرجع عظیمالشأن»، مسجد، سال ۱، ش ۵ (شهریور ـ مهر ۱۳۷۱)۔
(۱۹) حباللّه، حیدر، «تأثیرات مکتب اجتهادی آیتاللّه خوئی»، ترجمه عبداللّه امینی، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۲۰) خانمحمدی، یوسف، اندیشه سیاسی شیخعبدالکریم زنجانی، قم ۱۳۸۸ش۔
(۲۱) خوئی ، سید ابوالقاسم، البیان فی تفسیرالقرآن، قم ۱۳۹۴/۱۹۷۴۔
(۲۲) خوئی ، سید ابوالقاسم، «(پاسخ به استفتائی درباره حزب کمونیست)»، الموسم، ش۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۲۳) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی اللباس المشکوک، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۴) خوئی ، سید ابوالقاسم، رسالة فی نفحات الاعجاز فی رد الکتاب المسمی حُسن الایجاز، موسوعة الامام الخوئی، ج۴۹، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰/۲۰۰۹۔
(۲۵) خوئی ، سید ابوالقاسم، کتاب اجود التقریرات، تقریرات درس آیتاللّه نائینی، قم: کتابفروشی مصطفوی، (بیتا)۔
(۲۶) خوئی ، سید ابوالقاسم، مبانی تکملة المنهاج، نجف (۱۹۷۵ـ ۱۹۷۶)۔
(۲۷) خوئی ، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، بیروت ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳، چاپ افست قم (بیتا)۔
(۲۸) خوئی ، سید ابوالقاسم، منهاج الصالحین، نجف ۱۳۹۷۔
(۲۹) خوئی ، سید ابوالقاسم و جواد تبریزی، صراةالنجاة: استفتاءات لآیتاللّه العظمی الخوئی مع تعلیقة و ملحق لآیتاللّه العظمی التبریزی، قم ۱۴۱۶ـ۱۴۱۸۔
(۳۰) داوری، مسلم، «الامام الخوئی زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۱) روحانی، حمید، نهضت امام خمینی، ج۲، تهران ۱۳۷۶ش۔
(۳۲) «الساعات الاخیرة فی حیاة الامام الراحل»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۳) ساعدی، محمدرضا، «خاطراتی از شیخ محمدرضا ساعدی از اعضای هیأت آیتاللّه خوئی در ماجرای انتفاضه ۱۹۹۱ عراق»، شهروند امروز، سال ۴، ش۳ (۲۵ تیر ۱۳۹۰)۔
(۳۴) سبحانی، جعفر، «مرجعیت در شیعه»، در یادنامه حضرت آیتاللّه العظمی آقای حاج سیدابوالقاسم خوئی، مؤسسه خیریه آیتاللّه العظمیٰ خوئی، ۱۳۷۲ش۔
(۳۵) شریف، سعید، «تلامذة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۶) شریف، سعید، «قبس من نور: تلامذة السید الخوئی دامظله»، الموسم، ش ۷ (۱۹۹۰)۔
(۳۷) سودانی، عبدالفلاح، «الامام الخوئی مدرسة فی التفسیر و الحدیث»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۸) شاکری، حسین، «الامام السید الخوئی: سیرة و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۳۹) شاکری، حسین، ذکریاتی، قم ۱۴۱۸ـ۱۴۲۴۔
(۴۰) شبیری زنجانی، سید موسی، جرعهای از دریا، قم ۱۳۸۹ش۔
(۴۱) شریف رازی، محمد، آثار الحجة، یا، تاریخ و دائرةالمعارف حوزه علمیه قم، قم ۱۳۳۲ـ (۱۳۳۳ش)۔
(۴۲) شریف رازی، محمد، گنجینه دانشمندان، تهران ۱۳۵۲ـ۱۳۵۴ش۔
(۴۳) شهابی، سعیدمحمد، «رحیل الامام الخوئی: فصل آخر من فصول معاناة العراق»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۴) شیرازی، رضی، «مصاحبه با آیتاللّه سیدرضی شیرازی»، حوزه، سال ۹، ش ۲ و ۳ (خرداد ـ شهریور ۱۳۷۱)۔
(۴۵) صدرایی خویی، علی، سیمای خوی، تهران ۱۳۷۳ش۔
(۴۶) صغیر، محمد، اساطین المرجعیّة العُلیا فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۲۴/ ۲۰۰۳۔
(۴۷) حماده، طراد، «فکر الامام الخوئی (قدسسره) فیالتراث الاسلامی الشیعی المعاصر»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۴۸) طریحی، محمد سعید، «الامام الخوئی: سیرة مشرقیة و آثار خالدة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴الف)۔
(۴۹) طریحی، محمد سعید، «السید جمالالدین الخوئی: ۱۳۳۷ـ۱۴۰۴ه»، الموسم (۱۴۱۴ب)۔
(۵۰) عارفی، محمداکرم، اندیشه سیاسی آیتاللّه خوئی، قم ۱۳۸۶ش۔
(۵۱) جاویدان، شذی، العراق بین الماضی و الحاضر و المستقبل، بیروت: مؤسسة الفکر الاسلامی، (بیتا)۔
(۵۲) علیدوست، ابوالقاسم، «گفتوگو با حجتالاسلام و المسلمین ابوالقاسم علیدوست»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۳) غروی، محمد، الحوزة العلمیة فی النجف الاشرف، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۴۔
(۵۴) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح العروة الوثقی: التقلید، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۱، قم: مؤسسة احیاء الآثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰الف۔
(۵۵) غروی تبریزی، علی، الطهارة، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، در موسوعة الامام الخوئی، ج۲، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ب۔
(۵۶) غروی تبریزی، علی، التنقیح فی شرح المکاسب: البیع، تقریرات درس آیتاللّه ابوالقاسم خوئی ، (ج ۲)، در موسوعة الامام الخوئی، ج۳۷، قم: مؤسسة احیاء آثار الامام الخوئی، ۱۴۳۰ج۔
(۵۷) فضلی، عبدالهادی، «معالم الشخصیة العلمیة عند الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۵۸) قائینی، محمد، «گفتوگو با حجتالاسلام و المسلمین محمد قائینی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۵۹) قطری، منصور عبدالجلیل، «ادب الاختلاف فی حیاة الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۰) کاظمی خراسانی، محمدعلی، فوائدالاصول، تقریرات درس آیتاللّه نائینی، قم ۱۴۰۴ـ۱۴۰۹۔
(۶۱) گرجی، ابوالقاسم، «نگاه کوتاهی به احوال و آثار آیتاللّه العظمی خوئی »، تحقیقات اسلامی، سال ۵، ش ۱ و ۲ (۱۳۶۹ش)۔
(۶۲) فیّاض، محمداسحاق، «ابداعات الامام الخوئی فی الابحاث الاصولیة و الفقهیة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۳) فیّاض، محمداسحاق، «نوآوریهای اصولی و فقهی آیتاللّه خوئی »، فقه، ش ۱۷ و ۱۸ (پاییز ـ زمستان ۱۳۷۷)۔
(۶۴) مغنیه، محمدجواد، «زعیم الحوزة العلمیة»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۶۵) مددی، احمد، «گفتوگو با آیتاللّه سیداحمد مددی»، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
(۶۶) مدرسی طباطبائی، حسین، مقدمهای بر فقه شیعه: کلیات و کتابشناسی، ترجمه محمد آصف فکرت، مشهد ۱۳۶۸ش۔
(۶۷) مرقاتی، جعفر، «الامام الخوئی»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۶۸) مشار، خانبابا، مؤلفین کتب چاپی فارسی و عربی، تهران ۱۳۴۰ـ ۱۳۴۴ش۔
(۶۹) خباز، منیر، «ملمح فی شخصیة الامام الخوئی (قدسسره) : ملکات فکریة لاتتوفر الا للعباقرة»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۰) «مؤسسة الامام الخوئی الخیریة: فکرتها و مشاریعها»، الموسم، ش ۶ (۱۴۱۰)۔
(۷۱) موسوی اصفهانی، حسن، «دروس من اجلال الامام الخوئی (قدسسره) لاساتذته»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۲) موسوی خلخالی، محمدمهدی، «السید ابوالقاسم الخوئی: الفقیه و الاصولی»، در الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۳) نصیراوی، ابراهیم، «الامام الراحل: مشاهدات و ذکریات»، الموسم، ش ۱۷ (۱۴۱۴)۔
(۷۴) واعظ حسینی، محمدسرور، مصباح الاصول، تقریرات درس آیتاللّه خوئی، (قم) ۱۳۸۰ش۔
(۷۵) یثربی، میرمحمد، «سرانجام مکتب دوگانه علامه وحید بهبهانی و شیخ مرتضی انصاری چه شد؟» (مصاحبه)، مهرنامه، ش ۱۲ (خرداد ۱۳۹۰)۔
[ترمیم]
[ترمیم]
•
دانشنامه جهان اسلام، ماخوذ از مقالہ «خوئی ابوالقاسم »، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔ •
«سائٹ اندیشه قم، ماخوذ از مقالہ»، تاریخ نظر ثانی ۱۴۰۰/۰۱/۶۔