ایلاف
پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں
ایلاف قرآنی آیات میں وارد ہونے والا
لفظ ہے جس کو
آیت میں قریش کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قریش کا باہمی طور پر الفت و محبت کے ساتھ گرمیوں اور سردیوں میں تجارتی سفر کرنا ایلاف کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں
سورہ قریش میں ایلاف کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔
[ترمیم]
ایلاف
عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف ’’ا-ل-ف‘‘ ہیں۔
ایلاف کا مطلب الفت و محبت و ایجاد کرنا اور اس کو ظاہر کرنا،
دو یا چند اجزاء کو ایک دوسرے سے ملانا
اور ایک چیز کو اس کے اجزاء کے ساتھ پیوست کرنا اور جوڑنا ہے۔
اسی اعتبار سے ایلاف کا اطلاق
عہد و پیمان پر ہوتا ہے۔
[ترمیم]
سورہ قریش میں
اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:
لِإِيلافِ قُرَيْشٍ إِيلافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَ الصَّيْفِ۔
قرآن کریم کی اصطلاح میں ایلاف سے مراد قریش کا
مکہ سے مانوس ہونا اور انسیت کا احساس کرنا ہے
یا ایلاف سے مراد
قریش کے تجارتی سفر میں وسعت اور افزائش ہونے کی بناء پر قریش کے درمیان
وحدت اور الفت کا ایجاد کرنا ہے۔
[ترمیم]
مکہ خشک سنگلاخ پہاڑی ٹیلوں اور بے آب و گیاہ بنجر زمین سے پہچانا جاتا تھا۔ طبیعی وسائل کی انتہائی کمی کی وجہ سے
اہل مکہ سخت زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے یہاں تک کہ قریش نے مختلف علاقوں اور ممالک میں تجارتی سفر کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس طرح ان کی زندگی کی ضروریات بآسانی پورا ہونا شروع ہوئیں اور تجارت رفتہ رفتہ اہل مکہ میں رواج پانا شروع ہو گئی اور اہل مکہ کی زندگی مشکلات سے نکل کر بہتری کی طرف آتی چلی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ
ہاشم بن عبد مناف جوکہ عمرو العلی کے نام سے معروف تھے پہلے شخص ہیں جنہوں نے قریش میں تجارتی سفر کا آغاز کیا ۔
اس طرح سے قریش کا مکہ سے پراگندہ اور منتشر ہونے کی پیشن گوئی کی گئی۔
مکہ کی ریاست جب جناب
ہاشم کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے قریش کی تجارت میں مزید وسعت دی اور سفر کو گرمیوں اور سردیوں دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور تجارتی سفر کو پرامن بنانے اور کسی ناگوار واقعہ کی روک تھام کے لیے ہمسایہ قبائل اور مختلف سرداروں سے مختلف معاہدے کیے۔
قریش کے تجارتی سفر اس طرح سے ہوتے تھے کہ عبد مناف کے بیٹے ہاشم،
عبد الشمس،
مطلب اور نوفل
حجاز کے ہمسایہ ممالک کے بادشاہوں کے پاس گئے اور ان کے ساتھ تجارتی روابط برقرار کیے اور ان کے ساتھ اپنے تجارتی سفر کے پُر امن ہونے کا عہد و پیمان باندھا۔
جناب ہاشم
شام میں قیصر،
نوفل
عراق میں کسری ، عبد الشمس
حبشہ میں
نجاشی اور مطلب
یمن میں بادشاہ حمیر کے پاس گئے۔
چونکہ اہل مکہ اہل حرم کہلاتے تھے اور
بیت اللہ کی تولیت ان کے پاس تھی اس لیے بادشاہ حضرات اہل مکہ کے ساتھ خصوصی عزت و احترام کا سلوک روا رکھتے تھے۔ لہٰذا ان بادشاہوں نے عبد مناف کے فرزندوں کا بہترین استقبال کیا اور انہیں تجارتی سفر کے لیے پر امن زمینہ فراہم کیا اور خطرے سے خالی راستوں کی ضمانت دی۔
اس طرح سے قریش کے نزدیک
عبد مناف کے بیٹے اور اولاد اصحابِ ایلاف کے نام سے معروف ہو گئی۔
چنانچہ جناب ہاشم انہی تجارتی روابط اور مختلف تجارتی سفر کی بناء پر شام و
فلسطین سے غذائی مواد اور خوراک کے ذخیرہ کو فراہم کر کے مکہ میں پھیلے ہوئے قحط اور بھوک و افلاس کا خاتمہ کیا۔
قریش کے سفر دو حصوں پر مشتمل تھے: ۱۔ گرمیوں میں قریش
یمن کی طرف سفر کرتے ، ۲۔ سردیوں میں
شام کی طرف جاتے تھے۔
قریش شام سے خالص
آٹا، دالیں چنے اور اس طرح کی چیزیں خریدتے تھے اور
کھجور اور کپڑا و لباس مکہ سے یمن میں جا کر فروخت کرتے تھے اور اپںے ساحل سے مختلف قیمتی چیزوں کو حاصل کر کے اور اسی طرح مرچ مصالحہ جات لے کر شام جایا کرتے تھے اور وہاں ان کو فروخت کرتے تھے۔
[ترمیم]
سوره قریش میں
اللہ تعالی نے قریش پر نازل کردہ اپنی ان نعمات کا تذکر دیا ہے جس کی بناء پر قریش اس سرزمین پر باقی رہے۔ انہی نعمات میں سے ایک عظیم نعمت
اصحاب فیل کی نابودی تھی۔
اللہ تعالی کی انہی نعمات اور عنایات کے نتیجے میں قریش سے بعض بیماری جیسے
جذام یعنی کوڑھ کا دور ہونا،
گرمیوں اور سردیوں میں قریش کے درمیان الفت و محبت کا ایجاد ہونا،
مکہ میں ان کا ایک دوسرے کے آس پاس زندگی بسر کرنا
اور کعبہ و
مسجد الحرام کی تعمیر اور
حج کے مراسم کی وجہ سے
اہل عرب کو عزت و احترام کا ہونا فراہم ہو گیا جس کی بناء پر
عرب دشمنوں کی غارت گیری سے محفوظ ہو گئے۔
[ترمیم]
قریش کے مابین ایلاف تین طرح سے برپا ہوا: ۱۔ پے در پے تجارتی سفر میں قریش کے درمیان الفت و محبت کا ایجاد ہونا، ۲۔ سرزمین مکہ میں ان کے درمیان الفت کا وجود میں آنا، ۳۔ تجارتی سفر کا الفت سے انجام پانا۔
بعض نے تجارتی سفر کے آغاز کے سال کا نام ایلاف قرار دیا کیونکہ اس سال میں قریش کے درمیان سفر کو انجام دینے پر اتحاد اور توافق ہوا تھا جس کے بعد ان کے درمیان الفت اور محبت وجود میں آئی۔
اس طرح جناب ہاشم قریش کے بزرگ شمار ہونے لگے اور
ایام حج میں ہاشم کو بزرگانِ قریش میں شمار کیا جانے لگا اور اللہ تعالی نے انہیں یہ افتخار بخشا کہ خانہِ کعبہ کی تولیت و سرپرستی ان کو عنایت ہوئی اور اسی اہم وظیفہ کی بناء پر ان کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ قریش کے درمیان مہربانی اور ایلاف کو برقرار رکھیں۔
قبائل کے درمیان الفت کے فرقرار ہونے کی وحہ سے حج کے مراسم کے دوران قریش کے اندر اختلاف اور باہمی کشیدگی کم ہو گئی۔
اس وجہ سے اللہ تعالی نے
سورہ قریش کے سیاق میں امنیت اور خوف و ہراس کے دور ہونے کی نعمت کا خصوصی ذکر کیا ہے اور ایلاف سے تعارف کروایا ہے۔
اسی وجہ سے ایلاف باعث بنا کہ قریش کا اجتماعی اور سیاسی نفوذ مختلف قبائل میں برقرار ہوا اور ان میں اقتصادی تقویت کے حصول کی وجہ سے معیار زندگی بہتر ہو گئی اور قریش کے فصیح لہجہ کی بناء پر قبائل کے درمیان ان کو مزید شہرت حاصل ہو گئی۔
چنانچہ اللہ تعالی نے ان تمام نعمات کے مقابلے میں قریش سے چاہا کہ وہ اس کعبہ کے رب کی عبادت بجا لائیں جس نے انہیں بھوک سے نجات دی اور خوف و ہراس سے امن و امان میں رکھا، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَيْت الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْف.[ترمیم]
الاعلام:
الزرکلی(م. ۱۳۹۶ق.)، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۹۷م؛
امالی:
السید المرتضی (م. ۴۳۶ق.)، به کوشش حلبی، قم، مکتبۃ النجفی، ۱۴۰۳ق؛
انساب الاشراف:
البلاذری (م. ۲۷۹ق.)، بہ کوشش زکار و زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق؛
البدء و التاریخ:
المطہر المقدسی (م. ۳۵۵ق.)، بیروت، دار صادر، ۱۹۰۳م؛
تاج العروس:
الزبیدی (م. ۱۲۰۵ق.)، به کوشش علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق؛
تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک):
الطبری (م. ۳۱۰ق.)، به کوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۳ق؛
تاریخ الیعقوبی:
احمد بن یعقوب (م. ۲۹۲ق.)، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۵ق؛
التحقیق:
المصطفوی، تهران، وزارت ارشاد، ۱۳۷۴ش؛
تفسیر ابن کثیر (تفسیر القرآن العظیم):
ابن کثیر (م. ۷۷۴ق.)، بہ کوشش مرعشلی، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۰۹ق؛
تفسیر ابوالسعود (ارشاد العقل السلیم):
ابو السعود (م. ۹۸۲ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۱ق؛
التفسیر الکبیر:
الفخر الرازی (م. ۶۰۶ق.)، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۱ق؛
تفسیر ثعلبی (الکشف و البیان):
الثعلبی (م. ۴۲۷ق.)، به کوشش ابن عاشور، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق؛
تفسیر سمرقندی (بحر العلوم):
السمرقندی (م. ۳۷۵ق.)، به کوشش محمود مطرجی، بیروت، دار الفکر؛
تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن):
القرطبی (م. ۶۷۱ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق؛
تفسیر ماوردی (النکت و العیون):
الماوردی (م. ۴۵۰ق.)، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۲ق؛
جامع البیان:
الطبری (م. ۳۱۰ق.)، به کوشش صدقی جمیل، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق؛
جوامع الجامع:
الطبرسی (م. ۵۴۸ق.)، قم، النشر الاسلامی، ۱۴۱۸ق؛
روح المعانی:
الآلوسی (م. ۱۲۷۰ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی؛
الروض الانف:
السہیلی (م. ۵۸۱ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۳۴۸ش؛
روض الجنان:
ابوالفتوح رازی (م. ۵۵۴ق.)، به کوشش یاحقی و ناصح، مشہد،
آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش؛
سبل الهدی:
محمد بن یوسف الصالحی (م. ۹۴۲ق.)، به کوشش عادل احمد و علی محمد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ق؛
الصحاح:
الجوهری (م. ۳۹۳ق.)، به کوشش العطار، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۴۰۷ق؛
الطبقات الکبری:
ابن سعد (م. ۲۳۰ق.)، بیروت، دار صادر؛ العین: خلیل (م. ۱۷۵ق.)، به کوشش مخزومی و السامرائی، دار الهجره، ۱۴۰۹ق؛
غرائب القرآن:
نظام الدین النیشابوری (م. ۷۲۸ق.)، به کوشش زکریا عمیرات، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۶ق؛
فتح الباری:
ابن حجر العسقلانی (م. ۸۵۲ق.)، بیروت، دار المعرفۃ؛
فتح القدیر:
الشوکانی (م. ۱۲۵۰ق.)، بیروت، دار المعرفه؛
فضائل مکه:
الحسن بن یسار البصری (م. ۱۱۰ق.)، به کوشش سامی العانی، کویت، مکتبة الفلاح، ۱۴۰۰ق؛
القاموس المحیط:
الفیروزآبادی (م. ۸۱۷ق.)، بیروت، دار العلم؛
لسان العرب:
ابن منظور (م. ۷۱۱ق.)، قم، ادب الحوزه، ۱۴۰۵ق؛
مجمع البحرین:
الطریحی (م. ۱۰۸۵ق.)، به کوشش الحسینی، تهران، فرهنگ اسلامی، ۱۴۰۸ق؛
مجمع البیان:
الطبرسی (م. ۵۴۸ق.)، بہ کوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، ۱۴۱۵ق؛
المحبر:
ابن حبیب (م. ۲۴۵ق.)، به کوشش ایلزه لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیده؛
معجم مقاییس اللغۃ:
ابن فارس (م. ۳۹۵ق.)، به کوشش عبدالسلام، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۰۴ق؛
مفردات:
الراغب (م. ۴۲۵ق.)، نشر الکتاب، ۱۴۰۴ق؛ مقدمة فتح الباری: ابن حجر العسقلانی (م. ۸۵۲ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق؛
المنمق:
ابن حبیب (م. ۲۴۵ق.)، به کوشش احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ق؛
نہایۃ الارب فی فنون الادب:
احمد بن عبدالوہاب النویری (م. ۷۳۳ق.)، بہ کوشش مفید قمیحہ و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۴ق.
[ترمیم]
[ترمیم]
حوزه نمایندگی ولی فقہ در امور حج و زیارت، یہ تحریر مقالہ ایلاف سے مأخوذ ہے۔