ایلاف

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



ایلاف قرآنی آیات میں وارد ہونے والا لفظ ہے جس کو آیت میں قریش کی طرف اضافت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قریش کا باہمی طور پر الفت و محبت کے ساتھ گرمیوں اور سردیوں میں تجارتی سفر کرنا ایلاف کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورہ قریش میں ایلاف کا تذکرہ وارد ہوا ہے۔


لغوی معنی

[ترمیم]

ایلاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کے اصلی حروف ’’ا-ل-ف‘‘ ہیں۔ ایلاف کا مطلب الفت و محبت و ایجاد کرنا اور اس کو ظاہر کرنا، دو یا چند اجزاء کو ایک دوسرے سے ملانا اور ایک چیز کو اس کے اجزاء کے ساتھ پیوست کرنا اور جوڑنا ہے۔اسی اعتبار سے ایلاف کا اطلاق عہد و پیمان پر ہوتا ہے۔

قرآن کی اصطلاح میں

[ترمیم]

سورہ قریش میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے: لِإِيلافِ‌ قُرَيْشٍ‌ إِيلافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتاءِ وَ الصَّيْفِ۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں ایلاف سے مراد قریش کا مکہ سے مانوس ہونا اور انسیت کا احساس کرنا ہے یا ایلاف سے مراد قریش کے تجارتی سفر میں وسعت اور افزائش ہونے کی بناء پر قریش کے درمیان وحدت اور الفت کا ایجاد کرنا ہے۔

قریش کے تجارتی سفر

[ترمیم]

مکہ خشک سنگلاخ پہاڑی ٹیلوں اور بے آب و گیاہ بنجر زمین سے پہچانا جاتا تھا۔ طبیعی وسائل کی انتہائی کمی کی وجہ سے اہل مکہ سخت زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے یہاں تک کہ قریش نے مختلف علاقوں اور ممالک میں تجارتی سفر کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس طرح ان کی زندگی کی ضروریات بآسانی پورا ہونا شروع ہوئیں اور تجارت رفتہ رفتہ اہل مکہ میں رواج پانا شروع ہو گئی اور اہل مکہ کی زندگی مشکلات سے نکل کر بہتری کی طرف آتی چلی گئی۔
[۱۸] فضائل مکۃ، بصری، حسن بن یسار، ص۱۶۔
[۱۹] المنمق، ابن حبیب، ص۲۷۔
کہا جاتا ہے کہ ہاشم بن عبد مناف جوکہ عمرو العلی کے نام سے معروف تھے پہلے شخص ہیں جنہوں نے قریش میں تجارتی سفر کا آغاز کیا ۔
[۲۳] مقدمۃ فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، ص۷۹۔
اس طرح سے قریش کا مکہ سے پراگندہ اور منتشر ہونے کی پیشن گوئی کی گئی۔ مکہ کی ریاست جب جناب ہاشم کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے قریش کی تجارت میں مزید وسعت دی اور سفر کو گرمیوں اور سردیوں دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور تجارتی سفر کو پرامن بنانے اور کسی ناگوار واقعہ کی روک تھام کے لیے ہمسایہ قبائل اور مختلف سرداروں سے مختلف معاہدے کیے۔
[۲۶] تاریخ یعقوبی، یعقوبی، احمد بن یعقوب، ج۱، ص۲۴۲۔
[۲۷] المنمق، ابن حبیب، ص۴۲۔


← مختلف ممالک میں تجارتی سفر


قریش کے تجارتی سفر اس طرح سے ہوتے تھے کہ عبد مناف کے بیٹے ہاشم، عبد الشمس، مطلب اور نوفل حجاز کے ہمسایہ ممالک کے بادشاہوں کے پاس گئے اور ان کے ساتھ تجارتی روابط برقرار کیے اور ان کے ساتھ اپنے تجارتی سفر کے پُر امن ہونے کا عہد و پیمان باندھا۔ جناب ہاشم شام میں قیصر،
[۳۰] تاریخ یعقوبی، احمد بن یعقوب، ج۱، ص۲۴۲.
نوفل عراق میں کسری ، عبد الشمس حبشہ میں نجاشی اور مطلب یمن میں بادشاہ حمیر کے پاس گئے۔
[۳۴] روح المعانی، آلوسی، محمود بن عبد اللہ، ج۳۰، ص۲۴۰۔
چونکہ اہل مکہ اہل حرم کہلاتے تھے اور بیت اللہ کی تولیت ان کے پاس تھی اس لیے بادشاہ حضرات اہل مکہ کے ساتھ خصوصی عزت و احترام کا سلوک روا رکھتے تھے۔ لہٰذا ان بادشاہوں نے عبد مناف کے فرزندوں کا بہترین استقبال کیا اور انہیں تجارتی سفر کے لیے پر امن زمینہ فراہم کیا اور خطرے سے خالی راستوں کی ضمانت دی۔
[۳۶] تفسیر ابو السعود، ابو سعود، محمد، ج۹، ص۲۰۲۔
[۳۷] فتح القدیر، شوکانی، احمد بن علی، ج۵، ص۴۹۸۔
اس طرح سے قریش کے نزدیک عبد مناف کے بیٹے اور اولاد اصحابِ ایلاف کے نام سے معروف ہو گئی۔چنانچہ جناب ہاشم انہی تجارتی روابط اور مختلف تجارتی سفر کی بناء پر شام و فلسطین سے غذائی مواد اور خوراک کے ذخیرہ کو فراہم کر کے مکہ میں پھیلے ہوئے قحط اور بھوک و افلاس کا خاتمہ کیا۔
[۴۱] تاریخ طبری، ابن جریر طبری، محمد، ج۲، ص۲۵۲۔


← گرمیوں اور سردیوں کی تقسیم


قریش کے سفر دو حصوں پر مشتمل تھے: ۱۔ گرمیوں میں قریش یمن کی طرف سفر کرتے ، ۲۔ سردیوں میں شام کی طرف جاتے تھے۔
[۴۴] نہایۃ الارب، نویری، احمد بن عبد الوہاب، ج۲، ص۳۶۹۔
قریش شام سے خالص آٹا، دالیں چنے اور اس طرح کی چیزیں خریدتے تھے اور کھجور اور کپڑا و لباس مکہ سے یمن میں جا کر فروخت کرتے تھے اور اپںے ساحل سے مختلف قیمتی چیزوں کو حاصل کر کے اور اسی طرح مرچ مصالحہ جات لے کر شام جایا کرتے تھے اور وہاں ان کو فروخت کرتے تھے۔
[۴۵] الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۷۵۔
[۴۶] الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۱۳۰۔


سوره قریش

[ترمیم]

سوره قریش میں اللہ تعالی نے قریش پر نازل کردہ اپنی ان نعمات کا تذکر دیا ہے جس کی بناء پر قریش اس سرزمین پر باقی رہے۔ انہی نعمات میں سے ایک عظیم نعمت اصحاب فیل کی نابودی تھی۔
[۴۷] جامع البیان، ابن جریر طبری، محمد، ج۳۰، ص۳۹۴۔
اللہ تعالی کی انہی نعمات اور عنایات کے نتیجے میں قریش سے بعض بیماری جیسے جذام یعنی کوڑھ کا دور ہونا،
[۵۰] جوامع الجامع، طبرسی، فضل بن حسن، ج۳، ص۸۴۸-۸۴۹۔
[۵۱] روض الجنان، ابو الفتوح رازی،حسین بن علی، ج۲۰، ص۴۲۱۔
گرمیوں اور سردیوں میں قریش کے درمیان الفت و محبت کا ایجاد ہونا، مکہ میں ان کا ایک دوسرے کے آس پاس زندگی بسر کرنا
[۵۴] جامع البیان، ابن جریر طبری، محمد، ج۳۰، ص۳۹۴۔
[۵۶] مقدمہ فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، ص۷۹۔
اور کعبہ و مسجد الحرام کی تعمیر اور حج کے مراسم کی وجہ سے اہل عرب کو عزت و احترام کا ہونا فراہم ہو گیا جس کی بناء پر عرب دشمنوں کی غارت گیری سے محفوظ ہو گئے۔
[۵۷] جامع البیان، ابن جریر طبری، محمد، ج۳۰، ص۳۹۴، ۳۹۸۔
[۵۸] تفسیر ماوردی، ماوردی، علی بن محمد، ج۶، ص۳۴۸۔
[۵۹] تفسیر سمرقندی، سمرقندی، نصر بن محمد، ج۳، ص۶۲۴۔


ایلاف کے تحقق کا انداز

[ترمیم]

قریش کے مابین ایلاف تین طرح سے برپا ہوا: ۱۔ پے در پے تجارتی سفر میں قریش کے درمیان الفت و محبت کا ایجاد ہونا، ۲۔ سرزمین مکہ میں ان کے درمیان الفت کا وجود میں آنا، ۳۔ تجارتی سفر کا الفت سے انجام پانا۔
[۶۱] انساب الاشراف، بلاذری، احمد بن یحیی، ج۱، ص۲۶۔
[۶۲] تفسیر ابو السعود، ابو سعود، محمد، ج۹، ص۲۰۲۔
بعض نے تجارتی سفر کے آغاز کے سال کا نام ایلاف قرار دیا کیونکہ اس سال میں قریش کے درمیان سفر کو انجام دینے پر اتحاد اور توافق ہوا تھا جس کے بعد ان کے درمیان الفت اور محبت وجود میں آئی۔
[۶۴] الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۱۳۰۔
[۶۵] الاعلام، الزرکلی، خیر الدین، ج۸، ص۵۵۔
اس طرح جناب ہاشم قریش کے بزرگ شمار ہونے لگے اور ایام حج میں ہاشم کو بزرگانِ قریش میں شمار کیا جانے لگا اور اللہ تعالی نے انہیں یہ افتخار بخشا کہ خانہِ کعبہ کی تولیت و سرپرستی ان کو عنایت ہوئی اور اسی اہم وظیفہ کی بناء پر ان کے لیے ضروری ہو گیا کہ وہ قریش کے درمیان مہربانی اور ایلاف کو برقرار رکھیں۔

← ایلاف کے فوائد


قبائل کے درمیان الفت کے فرقرار ہونے کی وحہ سے حج کے مراسم کے دوران قریش کے اندر اختلاف اور باہمی کشیدگی کم ہو گئی۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے سورہ قریش کے سیاق میں امنیت اور خوف و ہراس کے دور ہونے کی نعمت کا خصوصی ذکر کیا ہے اور ایلاف سے تعارف کروایا ہے۔
[۶۸] فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، ج۸، ص۵۶۱۔
اسی وجہ سے ایلاف باعث بنا کہ قریش کا اجتماعی اور سیاسی نفوذ مختلف قبائل میں برقرار ہوا اور ان میں اقتصادی تقویت کے حصول کی وجہ سے معیار زندگی بہتر ہو گئی اور قریش کے فصیح لہجہ کی بناء پر قبائل کے درمیان ان کو مزید شہرت حاصل ہو گئی۔چنانچہ اللہ تعالی نے ان تمام نعمات کے مقابلے میں قریش سے چاہا کہ وہ اس کعبہ کے رب کی عبادت بجا لائیں جس نے انہیں بھوک سے نجات دی اور خوف و ہراس سے امن و امان میں رکھا، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے: فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هذَا الْبَيْت‌ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَ آمَنَهُمْ مِنْ خَوْف‌.

مصادر و منابع

[ترمیم]

الاعلام: الزرکلی(م. ۱۳۹۶ق.)، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۹۷م؛ امالی: السید المرتضی (م. ۴۳۶ق.)، به کوشش حلبی، قم، مکتبۃ النجفی، ۱۴۰۳ق؛ انساب الاشراف: البلاذری (م. ۲۷۹ق.)، بہ کوشش زکار و زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق؛ البدء و التاریخ: المطہر المقدسی (م. ۳۵۵ق.)، بیروت، دار صادر، ۱۹۰۳م؛ تاج العروس: الزبیدی (م. ۱۲۰۵ق.)، به کوشش علی شیری، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق؛ تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک): الطبری (م. ۳۱۰ق.)، به کوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۳ق؛ تاریخ الیعقوبی: احمد بن یعقوب (م. ۲۹۲ق.)، بیروت، دار صادر، ۱۴۱۵ق؛ التحقیق: المصطفوی، تهران، وزارت ارشاد، ۱۳۷۴ش؛ تفسیر ابن کثیر (تفسیر القرآن العظیم): ابن کثیر (م. ۷۷۴ق.)، بہ کوشش مرعشلی، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۰۹ق؛ تفسیر ابوالسعود (ارشاد العقل السلیم): ابو السعود (م. ۹۸۲ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۱ق؛ التفسیر الکبیر: الفخر الرازی (م. ۶۰۶ق.)، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۱ق؛ تفسیر ثعلبی (الکشف و البیان): الثعلبی (م. ۴۲۷ق.)، به کوشش ابن عاشور، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۲ق؛ تفسیر سمرقندی (بحر العلوم): السمرقندی (م. ۳۷۵ق.)، به کوشش محمود مطرجی، بیروت، دار الفکر؛ تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن): القرطبی (م. ۶۷۱ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق؛ تفسیر ماوردی (النکت و العیون): الماوردی (م. ۴۵۰ق.)، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۲ق؛ جامع البیان: الطبری (م. ۳۱۰ق.)، به کوشش صدقی جمیل، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ق؛ جوامع الجامع: الطبرسی (م. ۵۴۸ق.)، قم، النشر الاسلامی، ۱۴۱۸ق؛ روح المعانی: الآلوسی (م. ۱۲۷۰ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی؛ الروض الانف: السہیلی (م. ۵۸۱ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۳۴۸ش؛ روض الجنان: ابوالفتوح رازی (م. ۵۵۴ق.)، به کوشش یاحقی و ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش؛ سبل الهدی: محمد بن یوسف الصالحی (م. ۹۴۲ق.)، به کوشش عادل احمد و علی محمد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۴ق؛ الصحاح: الجوهری (م. ۳۹۳ق.)، به کوشش العطار، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۴۰۷ق؛ الطبقات الکبری: ابن سعد (م. ۲۳۰ق.)، بیروت، دار صادر؛ العین: خلیل (م. ۱۷۵ق.)، به کوشش مخزومی و السامرائی، دار الهجره، ۱۴۰۹ق؛ غرائب القرآن: نظام الدین النیشابوری (م. ۷۲۸ق.)، به کوشش زکریا عمیرات، بیروت، دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۶ق؛ فتح الباری: ابن حجر العسقلانی (م. ۸۵۲ق.)، بیروت، دار المعرفۃ؛ فتح القدیر: الشوکانی (م. ۱۲۵۰ق.)، بیروت، دار المعرفه؛ فضائل مکه: الحسن بن یسار البصری (م. ۱۱۰ق.)، به کوشش سامی العانی، کویت، مکتبة الفلاح، ۱۴۰۰ق؛ القاموس المحیط: الفیروزآبادی (م. ۸۱۷ق.)، بیروت، دار العلم؛ لسان العرب: ابن منظور (م. ۷۱۱ق.)، قم، ادب الحوزه، ۱۴۰۵ق؛ مجمع البحرین: الطریحی (م. ۱۰۸۵ق.)، به کوشش الحسینی، تهران، فرهنگ اسلامی، ۱۴۰۸ق؛ مجمع البیان: الطبرسی (م. ۵۴۸ق.)، بہ کوشش گروہی از علما، بیروت، اعلمی، ۱۴۱۵ق؛ المحبر: ابن حبیب (م. ۲۴۵ق.)، به کوشش ایلزه لیختن شتیتر، بیروت، دار الآفاق الجدیده؛ معجم مقاییس اللغۃ: ابن فارس (م. ۳۹۵ق.)، به کوشش عبدالسلام، قم، دفتر تبلیغات، ۱۴۰۴ق؛ مفردات: الراغب (م. ۴۲۵ق.)، نشر الکتاب، ۱۴۰۴ق؛ مقدمة فتح الباری: ابن حجر العسقلانی (م. ۸۵۲ق.)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۸ق؛ المنمق: ابن حبیب (م. ۲۴۵ق.)، به کوشش احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ق؛ نہایۃ الارب فی فنون الادب: احمد بن عبدالوہاب النویری (م. ۷۳۳ق.)، بہ کوشش مفید قمیحہ و دیگران، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۴ق.

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. الصحاح، جوہری، اسماعیل بن حماد، ج۴، ص۱۳۳۲۔    
۲. المفردات فی غریب القرآن، راغب اصفہانی، حسین، ص۸۱۔    
۳. تاج العروس، زبیدی، مرتضی، ج۲۳، ص۳۱۔    
۴. لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مکرم، ج۹، ص۱۰۔    
۵. التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، مصطفوی، حسن، ج۱، ص۱۰۸۔    
۶. معجم مقاییس اللغۃ، ابن فارس، احمد، ج۱، ص۱۳۱۔    
۷. المفردات فی غریب القرآن، راغب اصفہانی، حسین، ص۸۱۔    
۸. کتاب العین، فراہیدی، خلیل بن احمد، ج۸، ص۳۳۶۔    
۹. لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مکرم، ج۹، ص۹۔    
۱۰. تاج العروس، زبیدی، مرتضی، ج۲۳، ص۳۱۔    
۱۱. القاموس المحیط، فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، ج۱، ص۷۹۲۔    
۱۲. لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مکرم، ج۹، ص۱۱۔    
۱۳. قریش/سوره۱۰۶، آیت ۱۔    
۱۴. مجمع البحرین، طریحی، فخر الدین، ج۱، ص۸۸۔    
۱۵. الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۲۸۰۔    
۱۶. التفسیر الکبیر، فخر الرازی، محمد بن عمر، ج۳۲، ص۲۹۶۔    
۱۷. لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مکرم، ج۹، ص۱۰۔    
۱۸. فضائل مکۃ، بصری، حسن بن یسار، ص۱۶۔
۱۹. المنمق، ابن حبیب، ص۲۷۔
۲۰. فتح القدیر، شوکانی، محمد بن علی، ج۵، ص۶۰۹۔    
۲۱. الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۷۵-۷۶۔    
۲۲. امالی، علم الہدی، سید مرتضی، ج۴، ص۱۷۹۔    
۲۳. مقدمۃ فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، ص۷۹۔
۲۴. تاریخ طبری، ابن جریر طبری، محمد، ج۲، ص۱۲.    
۲۵. الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۷۵۔    
۲۶. تاریخ یعقوبی، یعقوبی، احمد بن یعقوب، ج۱، ص۲۴۲۔
۲۷. المنمق، ابن حبیب، ص۴۲۔
۲۸. تاریخ طبری، ابن جریر طبری، محمد، ج۲، ص۱۲۔    
۲۹. الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۷۵۔    
۳۰. تاریخ یعقوبی، احمد بن یعقوب، ج۱، ص۲۴۲.
۳۱. سبل الہدی، صالحی، محمد بن یوسف، ج۱، ص۲۶۸۔    
۳۲. الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۷۵۔    
۳۳. تاریخ طبری، ابن جریر طبری، محمد، ج۲، ص۱۲۔    
۳۴. روح المعانی، آلوسی، محمود بن عبد اللہ، ج۳۰، ص۲۴۰۔
۳۵. تفسیر ثعلبی، ثعلبی، احمد بن محمد، ج۱۰، ص۳۰۳۔    
۳۶. تفسیر ابو السعود، ابو سعود، محمد، ج۹، ص۲۰۲۔
۳۷. فتح القدیر، شوکانی، احمد بن علی، ج۵، ص۴۹۸۔
۳۸. المحبر، ابن حبیب، محمد، ص۱۶۲-۱۶۳۔    
۳۹. تفسیر قرطبی، قرطبی، محمد بن احمد، ج۲۰، ص۲۰۴۔    
۴۰. الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۶۲۔    
۴۱. تاریخ طبری، ابن جریر طبری، محمد، ج۲، ص۲۵۲۔
۴۲. البدء و التاریخ، مطہر مقدسی، احمد بن سہل، ج۴، ص۱۱۱۔    
۴۳. الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۲۸۰۔    
۴۴. نہایۃ الارب، نویری، احمد بن عبد الوہاب، ج۲، ص۳۶۹۔
۴۵. الطبقات، ابن سعد، محمد، ج۱، ص۷۵۔
۴۶. الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۱۳۰۔
۴۷. جامع البیان، ابن جریر طبری، محمد، ج۳۰، ص۳۹۴۔
۴۸. مجمع البیان، طبرسی، فضل بن حسن، ج۱۰، ص۴۵۱۔    
۴۹. التفسیر الکبیر، فخر رازی، محمد بن عمر، ج۳۲، ص۲۹۵۔    
۵۰. جوامع الجامع، طبرسی، فضل بن حسن، ج۳، ص۸۴۸-۸۴۹۔
۵۱. روض الجنان، ابو الفتوح رازی،حسین بن علی، ج۲۰، ص۴۲۱۔
۵۲. فتح القدیر، الشوکانی، محمد بن علی، ج۵، ص۶۱۰۔    
۵۳. مجمع البیان، طبرسی، فضل بن حسن، ج۱۰، ص۴۵۰۔    
۵۴. جامع البیان، ابن جریر طبری، محمد، ج۳۰، ص۳۹۴۔
۵۵. تفسیر ابن کثیر، ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، ج۴، ص۵۹۲۔    
۵۶. مقدمہ فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، ص۷۹۔
۵۷. جامع البیان، ابن جریر طبری، محمد، ج۳۰، ص۳۹۴، ۳۹۸۔
۵۸. تفسیر ماوردی، ماوردی، علی بن محمد، ج۶، ص۳۴۸۔
۵۹. تفسیر سمرقندی، سمرقندی، نصر بن محمد، ج۳، ص۶۲۴۔
۶۰. الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۲۸۱۔    
۶۱. انساب الاشراف، بلاذری، احمد بن یحیی، ج۱، ص۲۶۔
۶۲. تفسیر ابو السعود، ابو سعود، محمد، ج۹، ص۲۰۲۔
۶۳. المحبر، ابن حبیب، محمد، ص۱۶۲۔    
۶۴. الروض الانف، سہیلی، عبد الرحمن، ج۱، ص۱۳۰۔
۶۵. الاعلام، الزرکلی، خیر الدین، ج۸، ص۵۵۔
۶۶. سبل الہدی، صالحی، محمد بن یوسف، ج۱، ص۲۷۰۔    
۶۷. التفسیر الکبیر، فخر الرازی، محمد بن عمر، ج۳۲، ص۲۹۶۔    
۶۸. فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، احمد بن علی، ج۸، ص۵۶۱۔
۶۹. غرائب القرآن، نیشاپوری، نظام الدین، ج۶، ص۵۷۰۔    


مأخذ

[ترمیم]

حوزه نمایندگی ولی فقہ در امور حج و زیارت، یہ تحریر مقالہ ایلاف سے مأخوذ ہے۔    






جعبه ابزار