بشیر بن عمر

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



بشیر بن عمرو حضرمی امام حسینؑ کے کربلا میں شہید ہونے والے صحابی ہیں۔


مختصر تعارف

[ترمیم]

ان کا نام بشر اور ان کے والد کا نام عمر، عمرو اور عبد الله بھی کہا گیا ہے۔ اور سید بن طاؤس نے لهوف میں ان کا نام محمّد بن بشیر ذکر کیا ہے مگر سابقہ مورخین میں سے کسی نے محمّد بن بشیر کا نام شہدائے کربلا کے زمرے میں ذکر نہیں کیا ہے۔
بشر بن عمرو قبیلہ کنده سے تھا اور کوفہ کے بہت سے لوگوں کی طرح وہ یمنی الاصل تھے۔ آپ امام علیؑ کے صحابی اور ممدوح تابعین میں سے شمار ہوتے تھے۔ آپ کے فرزند بھی شجاع اور دلاور تھے اور جنگوں میں ان کی شجاعت معروف تھی۔ بشر امامؑ کی عمر بن سعد کے لشکر سے بات چیت کے دوران موقع غنیمت سمجھتے ہوئے امامؑ کے ساتھیوں میں شامل ہو گئے ۔

← بشیر کے بیٹے کی اسارت


شب عاشور حضرتؑ کی جانب سے چھوڑ کر چلے جانے کی اجازت ملنے کے بعد بشر کو خبر ملی کہ ان کا بیٹا ری کی سرحد پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ خبر سن کر انہوں نے کہا: مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے اور اسے ان مشکلات کے بدلے اجر دے؛ میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا قید میں ہو اور میں زندہ رہوں!
امام حسینؑ نے یہ بات سننے کے بعد فرمایا: رحمک الله انت فی حلّ من بیعتی فاذهب واعمل فی فکاک ابنک؛ خدا تجھ پر رحم فرمائے۔ میں نے اپنی بیعت تم سے اٹھا لی ہے؛ جاؤ اور اپنے بیٹے کی آزادی کیلئے کام کرو!۔ بشیر نے کہا: درندے مجھے زندہ نگل جائیں؛ اگر میں آپؑ سے جدا ہوں اور اس بے کسی پر آپؑ کو تنہا چھوڑ دوں اور پھر کاروان والوں سے آپ کی خبر لوں؛ نہیں نہیں، ہرگز!
حضرتؑ نے فرمایا: پس آؤ اور یہ لباس اپنے بیٹے کو دے دو تاکہ اپنے بھائی کی آزادی کیلئے خرچ کرے۔ پھر ایک ہزار دینار قیمت کے پانچ لباس اسے عطا کیے۔

← بشیر کی شہادت


بلاذری کی روایت کے مطابق جون کے بعد ابو ذر کا غلام بشیر بن عمرو حضرمی میدان گیا اور وہ یہ رجز پڑھ رہا تھا:
الیوم یا نفس الاقی الرحمن•• • والیوم تجزین بکل احسان
لاتجزعی فکل شیء فان•• • والصبر احظی لک عند الدیان
اے نفس آج خدائے مہربان کا دیدار کروں گا اور تو ہر احسان و نعمت کی جزا پائے گا۔
جلدی نہ کرو، کیونکہ ہر چیز فانی ہے اور خدا کی بارگاہ میں صبر کی سب سے زیادہ جزا ہے۔
انہوں نے دشمنوں کے ساتھ اس قدر جنگ کی کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہو گئے۔ بعض نے ان کی شہادت پہلے حملے میں قرار دی ہے۔
طبری کی ابو مخنف سے نقل کے مطابق بشیر بن عمرو اس آخری گروہ میں سے ہیں جو امام حسینؑ کی رکاب میں شہید ہوئے۔

بشیر کی زیارت

[ترمیم]

زیارت ناحیہ مقدسہ میں آپ کو ان الفاظ کے ساتھ یاد کیا گیا ہے: السّلامُ عَلی بِشْرِ بْنِ عُمَر الْحَضْرَمی‌، شَکِّرَ اللَّهُ لَکَ قَوْلَکَ لِلْحُسَیْنِ علیه السلام وَقَدْ اذِنَ لَکَ فِی الانْصرافِ: اکَلَتْنِی‌ اذَنْ السِّباعُ حَیَّاً انْ فارَقْتُکَ وَاسْأَلُ عَنْکَ الرّکَبانَ وَاخْذُلُکَ مَعَ قِلَّةِ الَاعْوانِ لا یَکُونُ هذا ابَداً
سلام ہو بشر بن عمر حضرمی پر؛ خدا آپ کو جزا دے امام حسینؑ کی نسبت وفاداری کے اظہار پر؛ کہ جب انہوں نے آپ کو چلے جانے کی اجازت دی اور آپ نے جواب میں کہا: مجھے درندے زندہ زندہ نگل جائیں، اگر آپ سے جدا ہو جاؤں اور اس بے کسی کے عالم میں آپ کو تنہا چھوڑ دوں؛ پھر قافلوں سے آپ کے بارے میں پوچھتا رہوں؛ نہیں، نہیں! ہرگز ایسے نہیں ہو گا!

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. حسینی جلالی، محمدرضا، تسمیة من قتل مع الحسین علیه‌السلام، ص۳۰۔    
۲. ابن طاؤس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۷۔    
۳. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۶۔    
۴. امین، محسن، اعیان الشیعه، ج۱، ص۶۰۶۔    
۵. ابن طاؤس، علی بن موسی، اللهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۵۳۔    
۶. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین(ع)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۷۳، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۷. مامقانی، عبد الله، تنقیح المقال، ج۱۲، ص۲۹۳۔    
۸. ابن طاؤس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۷۔    
۹. ابن طاؤس، علی بن موسی، اللهوف علی قتلی الطفوف، ص۱۵۴۔    
۱۰. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین(ع)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۷۳، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۱۱. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۹۶۔    
۱۲. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین علیه‌السلام، ص۱۷۹۔    
۱۳. جمعی از نویسندگان، ذخیرة الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین علیه‌السلام، ص۳۳۵۔    
۱۴. سماوی، محمد، ابصار العین فی انصار الحسین(ع)، تحقیق محمد جعفر الطبسی، ص۱۷۴، مرکز الدرسات الاسلامیه لممثلی الولی الفقیه فی حرس الثورة الاسلامیه، چاپ اول۔    
۱۵. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم والملوک، ج۵، ص٤٤٤۔    
۱۶. ابن طاؤس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۷۔    


ماخذ

[ترمیم]

پژوهشی پیرامون شهدای کربلا، جمعی از نویسندگان. ص۱۱۱-۱۱۲۔    
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ «یاران امام حسین (علیه‌السلام)»، تاریخ بازیابی ۱۳۹۵/۴/۳۔    
پیشوایی، مهدی، مقتل جامع سیدالشهداء، ج۱، ص۷۹۹ - ۸۰۰۔






جعبه ابزار