بعثت

پی۔ڈی۔ایف فارمیٹ میں مقالہ محفوظ کریں



پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین مرحلہ ہے اور اسے بشریت کی تاریخ کے انتہائی اہم اور مؤثر واقعے کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کی بعثت کے ذریعے تا قیام قیامت انسانوں پر اپنی حجت کو تمام کر دیا۔ نعمتوں کو وافر کر دیا اور ہدایت کے چراغ کو روشن کر دیا۔ بعثت کے بعد نزول قرآن کا آغاز ہو گیا جو تئیس برس کے عرصے پر محیط ہے۔ قرآن اللہ کی آخری کتاب ہے جس میں ہر خشک و تر کا ذکر ہے اور نبی کریمؐ نے اسی کتاب الہٰی کے ذریعے ایک ایسی امت کی تربیت کی کہ جنہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں سرزمین عرب سے شرک و بت پرستی کا قلع قمع کر دیا۔


بعثت کا معنی

[ترمیم]

’’بعثت‘‘ کا مادہ ’’بعث‘‘ ہے جس کا معنی ہے اٹھانا اور بھیجنا۔ شریعت میں اس کا معنی خدا کا کسی انسان کو جنوں اور انسانوں کی طرف یا ان میں سے کسی ایک کی طرف بھیجنا ہے تاکہ انہیں حق کی دعوت دے اور اس کی شرط پیغمبری کا دعویٰ اور معجزے کا اظہار ہے۔
[۳] دهخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامه دهخدا، ج۳، ص۴۲۲۷۔
[۴] دهخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامه دهخدا، ج۳، ص۴۲۲۸۔
اس کی مناسبت سے فقہ کے باب نکاح میں بحث کی گئی ہے۔
قرآنی آیات اور اہل بیتؑ کی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ خدائے متعال مناسب اوقات میں کچھ پیغمبروں کو لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجتا رہا ہے اور اس نے کسی قوم کو بھی الہٰی رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا ہے۔

بعثت کی اہمیت

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت انسانوں کی سرنوشت اور ہدایت کے حوالے سے ایک عظیم واقعہ ہے اور اس امر کی عظمت سبب بنی کہ خدائے متعال اس عظیم امر کے مقدمے کے عنوان سے آنحضرتؐ کو مستقبل میں پیش آنے والی سختیوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے بچپن سے ہی مرحلہ وار آمادہ اور تیار کرے۔

عظیم تاریخی واقعات کا آغاز

[ترمیم]

پیغمبرؐ کی بعثت انسانی معاشروں کی فکری اور عقائدی تبدیلیوں کا اہم ترین سرچشمہ شمار ہوتی ہے؛ اس کے باوجود سیرت نگاروں نے اس پہلو سے غفلت کی ہے۔ ان کی مجعول اور بے بنیاد روایات نہ صرف یہ کہ خدا کے آخری پیغمبرؐ کے شایان شان نہیں ہے بلکہ بشری ادراکات سے بھی ناسازگار ہیں۔
[۵] زینی دحلان، احمد، حاشیه الحلبی الشافعی، ج۱، ص۳۳ـ۴۲۔
تاہم اس مختصر مقالے میں ان کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ ہم یہاں پر صرف شیعہ روایات اور احادیث کے نقطہ نظر سے بعثت کے واقعات کا جائزہ لینے پر اکتفا کریں گے۔

بعثتِ پیغمبرؐ کی نوید

[ترمیم]

حضرتؑ کے ظہور کی بعض خصوصیات اور علامات ادیان کی سابقہ کتب و روایات میں مذکور ہیں اور بعض اہل کتاب اور مشرک عرب بھی ان سے آشنائی رکھتے تھے۔ قرآن کریم اس حوالے سے فرماتا ہے: الَّذِینَ ءَاتَیْنَهُمُ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ‌و کَمَا یَعْرِفُونَ اَبْنَآءَهُمْ وَ اِنَّ فَرِیقًا مِّنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَ هُمْ یعلمون
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ ان (پیغمبر آخرالزماں) کو اس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح اپنے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں، مگر ایک فریق ان میں سے سچی بات کو جان بوجھ کر چھپا رہا ہے۔
بعثت، جہالت ، گمراہی، فساد اور تباہی کے خلاف ایک عظیم انقلاب ہے اور خدا کے احسان اور علم و حکمت اور انسانوں کی تربیت کی ضامن ہے۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اِذْ بَعَثَ فِیهِمْ رَسُولًا مِّنْ اَنفُسِهِمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ ءَایَتِهِ‌ وَ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے۔ جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے
حضرت علیؑ پیغمبر خاتمؐ کی بعثت کے فلسفے کے بارے میں فرماتے ہیں: خدائے سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد(ص) کو مبعوث فرمایا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اور جن کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود و مبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔ کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتا رہا تھا۔ کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا۔ مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔اس کے بعد اس نے آپ کی ملاقات کو پسند کیا اور انعامات سے نوازنے کے لئے اس دار دنیا سے بلند کرلیا۔
[۸] امام علی (علیه‌السلام)، نهج‌البلاغه، ترجمه محمد دشتی، خطبه اول، ص۳۹۔


پیغمبرؐ کے قبل از بعثت روحانی حالات

[ترمیم]

اسی تربیت الہٰی کے نتیجے میں پیغمبرؐ بعثت سے سالہا سال قبل غیر معمولی معنوی حالات اور روحانی مشاہدات کے حامل تھے اور اس کے نتیجے میں آپؐ نے یہ تمام عرصہ پاکی، طہارت اور معنویت کے عالم میں بسر کیا۔ حضرت علیؑ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے اپنے سب سے بزرگ فرشتے کو پیغمبرؐ کے بچپن سے آپؐ کے ہمراہ کر رکھا تھا۔ یہ فرشتہ شب و روز کے تمام اوقات میں حضرتؐ کے ہمراہ رہتا اور آپؐ کو عظمت کی راہوں اور پسندیدہ و شائستہ اخلاق کی طرف رہنمائی کرتا تھا۔

بعثت پیغمبرؐ کے مقدمات

[ترمیم]
پیغمبرؐ انہی معنوی احوال اور روحانی طہارت کے باعث لوگوں کی ابتر صورتحال اور مکہ کے اس معاشرے پر حکمفرما جہالت و فساد سے رنجیدہ خاطر رہتے تھے۔
اسی طرح تفکر اور عبادت کی غرض سے ایک خلوت کے مقام پر ہر سال ایک محدود مدت کیلئے غار حرا میں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ یہ خلوت حنفا اور پیغمبرؐ سے قبل کے بعض یکتا پرستوں کیلئے بھی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے عبد المطلب پیغمبرؐ کے جد بزرگوار اس رسم کے بانی تھے۔ وہ ماہ رمضان کے دوران خلوت و عبادت کیلئے پہاڑ پر تشریف لے جاتے تھے اور وہاں پر آمد و رفت رکھنے والے محتاجوں اور فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ درحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خلوت پسندی رسول اکرمؐ کی روحانی حیات کی تقویت کی راہ ہموار کرتی تھی اور یہ بعثت اور نزول وحی کا ایک مقدمہ تھی۔
نبی کریمؐ کی خلوتوں کے اس زمانے میں بھی زندگی کے دیگر مراحل کی طرح حضرت علیؑ بھی رسول اللہؐ کے ہمراہ رہتے تھے اور بعض اوقات آنحضرتؐ کیلئے کھانا بھی لے جایا کرتے تھے۔

بعثت کا ہدف اور فلسفہ

[ترمیم]

پیغمبرؐ کی بعثت اور آپؐ کا ہمیشگی معجزہ قرآن بشر کو حقائق سے متعارف کرنے کیلئے تھا۔ سابقہ پیغمبروں نے بعض حقائق انسانی معاشروں کے عقلی ارتقا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بیان کیے تھے کہ جن سے انسان بالکل ہی جاہل تھا یا کسی نہ کسی حد تک ناواقف تھا۔ کائنات کی ابتدا اور تخلیق کی علت، دنیوی زندگی کے انجام اور بعد از مرگ کے حقائق ان امور میں شامل ہیں۔

پیغمبرؐ کا قبل از بعثت دین

[ترمیم]

خاتم انبیاء کے قبل از بعثت دین کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ جن کا جائزہ لینے کیلئے ایک مستقل تحقیق کی ضرورت ہے جبکہ اس مقالے میں علمائے شیعہ اور علمائے اہل سنت کے متفقہ اقوال پر اکتفا کیا جائے گا۔ رسول اکرمؐ اور آپؐ کے بزرگ حضرت عبد المطلب اور ابو طالب اہل توحید اور شریعت ابراہیم پر عمل پیرا تھے کہ جنہیں قرآن میں ’’حنفا‘‘ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ خدا کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز کیلئے خلوت کے عمل کو ’’تحنف‘‘ یا ’’تحنث‘‘ کہا جاتا ہے؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبرؐ بعثت سے قبل گزشتہ انبیاء کی شریعت پر عمل پیرا تھے؛ (جیسا کہ بعض علمائے اہل سنت جیسے غزالی، قاضی عبد الجبار ، سیف الدین آمدی ، تاج الدین عبد الوھاب سبکی اور بعض علمائے شیعہ جیسے سید مرتضیٰ کا یہی خیال ہے) بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضورؐ عقائد جیسے توحید ، معاد ، اخلاقیات، اور معاندین و مشرکین کے آزار و اذیت پر صبر میں دیگر انبیائے الہٰی کی مانند استوار اور ثابت قدم تھے۔

امام علیؑ کا کلام

[ترمیم]

امام علیؑ جو رسول خداؐ کے حالات کی نسبت سب سے زیادہ آگاہ ہیں؛ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے دودھ چھڑائی کے زمانے سے ہی اپنے عظیم ترین فرشتے کو آپؐ کے ہمراہ کر دیا تھا تاکہ وہ ہمیشہ آپ کو اعلیٰ ترین اخلاق و اطوار کی طرف رہنمائی کرے۔
[۱۲] مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۱، ص۸۹۔
جیسا کہ خود آنحضورؐ فرماتے ہیں: کنت نبیاً و آدم بین الروح و الجسد؛میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم کے پتلے میں روح نہیں پھونکی گئی تھی۔

پیغمبرؐ کی بعثت سے قبل شریعت

[ترمیم]
لہٰذا شیعہ و سنی علما کے نزدیک صحیح قول یہ ہے کہ پیغمبرؐ، اسلام سے پہلے کے کسی دین یا شریعت کے تابع نہیں تھے بلکہ اپنی شریعت پر ہی عمل کرتے تھے اور خدا تعالیٰ کی ہدایت خاصہ اور وحی و الہام کے دروازے آپ پر کھلے رہتے تھے۔

بعثت کے مراحل

[ترمیم]

مقام بعثت پر فائز ہونے کیلئے خدائے متعال نے پیغمبر اکرمؐ کیلئے تمام ضروری مقدمات فراہم کیے؛ جیسے سچے خواب دیکھنا، غیبی آوازیں سننا اور آخرکار حضرت جبرئیل کو دیکھنا۔

← سچے خوابوں کا دیکھنا


بعثت سے کچھ پہلے پیغمبر اکرمؐ ایسے خواب دیکھتے تھے جو بالکل درست ثابت ہوتے تھے
[۱۴] ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۰۴۔
اور بعض اوقات فرشتے کو دیکھا کرتے تھے جو آپؐ سے بات کرتا تھا۔
[۱۵] ابن ابی‌ الحدید، عبدالحمید، شر‌ح ‌نهج البلاغه، ج۳، ص۲۰۷۔


← ندائے غیبی کو سننا


آنحضرتؐ ۳۷ برس کے سن مبارک سے ایسے روحانی مراتب پر فائز تھے کہ آپ غیب کے دریچے کھل جانے کا احساس کرتے تھے؛ کیونکہ ایک مخصوص نور کو دیکھتے تھے اور کچھ اسرار آپؐ پر ظاہر ہو جاتے تھے۔ بارہا غیبی صدائیں سنا کرتے تھے مگر آواز دینے والا دکھائی نہیں دیتا تھا
[۱۷] حلبی شافعی، نورالدین، انسان العیون فی سیرة‌ الامین المامون، ج۱، ص۳۸۰۔
[۱۸] حلبی شافعی، نورالدین، انسان العیون فی سیرة‌ الامین المامون، ج۱، ص۳۸۱۔
اور بسا اوقات آپؑ کو درخت اور پہاڑ کے اوپر سے آواز دی جاتی تھی۔
[۱۹] جامی، عبدالرحمان، شواهد النبوه، ص۱۳۹۔


← جبرئیل کو دیکھنا


آنحضرتؐ نے بعثت سے قبل جبرئیل کو دیکھا جو آپؐ کو رسولؐ اللہ کہہ کر خطاب کر رہا تھا
جس قدر بعثت کا زمانہ نزدیک ہو رہا تھا تھا، غار حرا میں خلوت کی مدت اور تفکر و عبادت کی طرف رغبت میں اضافہ ہو رہا تھا۔

بعثت کا مقام

[ترمیم]

غار حرا، کوہ نور کی چوٹی پر واقع ہے۔ مکہ کے شمال مشرق میں واقع یہ پہاڑ شہر سے دو فرسخ کے فاصلے پر ہے اور ۲۰۰ میٹر اونچا ہے
[۲۱] ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۸۸۔
یہ مقام پرانے وقتوں سے ایک مقدس مقام
[۲۲] ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۸۰۔
[۲۳] ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۸۱۔
اور حقیقت کے متلاشی انسانوں کے اعتکاف کی جگہ ہے کہ جنہیں ’’حنفا‘‘ کہا جاتا تھا۔
[۲۴] طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۱، ص۲۱۶۔


← غار کا جغرافیہ


غار کی سطح ہموار اور ایک بلند قامت شخص کے بیٹھنے اور کھڑے ہونے کیلئے مناسب ہے؛ تاہم اس کے اوپر جانا؛ ناہمواریوں کے باعث دشوار ہے۔ غار کا دہانہ کعبہ اور محلہ بطحا کی جانب ہے اور پیغمبرؐ اس میں تشریف فرما ہو کر کئی کئی گھنٹے اپنی قوم کو بے ہودگیوں سے نجات دلانے کی فکر میں رہا کرتے تھے۔ کتابوں میں بعثت سے قبل کی زندگی اور پیغمبرؐ کی ذاتی خصوصیات کے حوالے سے مفصل بحث نہیں کی گئی ہے؛ تاہم غار حرا میں گوشہ نشینی اختیار کرنے سے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ آپؐ ہمیشہ اپنی قوم کی نجات کیلئے کسی تدبیر کی فکر میں رہا کرتے تھے۔

← غار میں ٹھہرنے کی مدت


عام طور پر یہ گوشہ نشینی، سال میں ایک مرتبہ ایک ماہ تک غار حراء میں جاری رہتی تھی۔ رسول اکرمؐ اس مدت کے دوران ان حاجت مندوں کو کھانا کھلاتے تھے جو آپؐ کے پاس آتے تھے۔ اس کے بعد سات مرتبہ کعبہ کا طواف کرتے تھے اور گھر واپس آ جاتے تھے۔ بعثت کے نزدیک کے سالوں میں کہ جب پیغمبرؐ کے عقلی اور روحانی قوا پورے اوج پر تھے، آپؐ کی لوگوں سے کنارہ کشی کی رغبت اور شوق اور تفکر و عبادت، کچھ اس طرح تھی کہ دن رات غار حرا میں بسر کرتے تھے؛ بالخصوص ماہ رمضان میں تحنث (گوشہ نشینی) کی مدت زیادہ طولانی ہوتی تھی۔ اس مدت میں علیؑ، آپؐ کی زوجہ خدیجہ یا گھر کا کوئی اور فرد آپؐ کیلئے پانی اور غذا لے کر جاتے تھے۔
[۲۷] امام علی (علیه‌السلام)، نهج البلاغه، خطبه ۱۹۲، ترجمه شهیدی، ص۲۲۲۔
یہ حالات اسی طرح جاری رہے یہاں تک آنحضرتؐ کا سن مبارک چالیس سال تک جا پہنچا اور خدا تعالیٰ نے آپؐ کی اطاعت اور کمال خضوع و خشوع کا امتحان لینے کے بعد آپؐ کو مبعوث فرمایا تاکہ روشن اور محکم قرآن کے وسیلہ سے اپنے بندوں کو بتوں کی پرستش سے نکال کر اپنی عبادت کی طرف ہدایت دے۔

← امین وحی کا نزول


ایام عبادت گزرنے کے بعد پیغمبرؐ مکہ واپس لوٹ آتے تھے اور اپنے گھر جانے سے قبل خانہ خدا کا طواف کرتے تھے۔ رسول خداؐ کئی کئی گھنٹے آسمانوں، پہاڑوں اور مکہ کے بیابانوں میں اپنے خالق کے ساتھ مناجات اور راز و نیاز میں مشغول رہتے تھے اور غور و فکر کرتے رہتے تھے؛ اپنی قوم کے لکڑی اور پتھر کے خداؤں سے بیزار تھے اور اس کا کوئی چارہ کرنے کی جستجو میں آسمانوں کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ جبرئیل امین اسی ایک تحنث (خلوت نشینی) کے دوران چالیس برس کے سن میں آپؐ پر ظاہر ہوئے اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کی وحی کی۔ اس کے بعد پیغمبرؐ غار سے گھر تشریف لے گئے اور اپنی زوجہ کو اس ماجرے سے آگاہ کیا۔ حضرت خدیجہؑ آپؐ کے بلند کردار اور صادقانہ گفتار کی معرفت رکھتی تھیں، سب سے پہلے آپؐ کی رسالت پر ایمان لائیں۔
[۳۲] زینی دحلان، سید احمد، حاشیه الحلبی الشافعی، ج۱، ص۲۴۹۔

اسی طرح تاریخی منابع کے علاوہ خود حضرت علیؑ نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۹۲ میں فرماتے ہیں: جب کسی گھر میں کوئی مسلمان نہیں تھا، میں ان میں سے تیسرا تھا۔

← امام علیؑ کی ہمراہی


حضرت علیؑ مختلف مقامات منجملہ پیغمبر اکرمؐ کی گوشہ نشینی کے دوران بھی آنحضورؐ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ نہج البلاغہ میں امام علیؑ کا کلام بھی خصوصیت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ آپؑ پہلی وحی کے نزول کے وقت پیغمبرؐ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ اسی طرح تاریخی مطالعات بھی اس امر کے حاکی ہیں کہ وہ تنہا شخصیت کہ جس نے ان لمحات میں پیغمبرؐ کا ساتھ دیا، امام علیؑ تھے اور آپؑ کے علاوہ کسی نے ان لمحوں میں رسول اکرمؐ کی ہمراہی کا دعویٰ نہیں کیا۔ جبرئیل اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد اور آیات الہٰی کے ابلاغ کے بعد واپس آسمان کی طرف چلے گئے۔

← پہلی وحی سے مقارن واقعات


پہلی وحی کے نزول کے وقت اور بعثت کے لمحات میں بڑے واقعات رونما ہوئے کہ جن میں سے شیطان کی چیخ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ حضرت علیؑ اس بارے میں فرماتے ہیں: میں نے نزول وحی کے وقت شیطان کی چیخ کی آواز سنی تھی اور عرض کی تھی یارسول اللہ ! یہ چیخ کیسی ہے؟! تو فرمایا کہ یہ شیطان ہے جو آج اپنی عبادت سے مایوس ہو گیا ہے۔ تم وہ سب دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں اور وہ سب سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔ صرف فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو؛ لیکن تم میرے وزیر بھی ہو اور منزل خیر پر بھی ہو۔

← رسالت کی سنگینی


کائنات کے حقائق کا ادراک ، امانت رسالت کے بار کی سنگینی اور خرافات اور اوہام میں ڈوبی ہوئی قوم کی جانب سے تکذیب کے خوف نے آپؐ کو بخار میں مبتلا کر دیا؛ اسلامی تاریخوں نے جبرئیل کو دیکھتے وقت پیغمبرؐ کے خوف کی علت اپنی رسالت میں تردید کو قرار دیا ہے اور افسوس ایسی غیر منطقی تفاسیر شیعہ منابع میں بھی داخل ہو گئی ہیں۔ پھر پیغمبر اکرمؐ نے ایک چادر اوڑھ لی اور کچھ دیر آرام کیا۔ اگلے دن جبرئیل پھر اترے اور آپؐ کو یہ پیغام پہنچایا کہ اپنی قوم کے انذار اور رسالت کے سخت امر کی ادائیگی کیلئے ہمہ وقت آمادہ رہیں۔ اللہ کی آیات نے آپؐ کی روح و جان کے عمق میں ایسا انقلاب برپا کر دیا تھا کہ کائنات کے باطنی حقائق کو بغیر کسی شبہے کے چشم دل سے دیکھتے تھے۔ ما کذب الفؤاد ما رأی

← پیغمبرؐ کے نزولِ وحی کے بعد حالات


بعثت سے قبل پیغمبرؐ کو الہام ہوا کرتے تھے اور آپؐ کے احوال غیر معمولی ہو جاتے تھے۔ مگر پیغمبرؐ پر پہلی وحی کے نزول کی کیفیت بطور کلی گزشتہ الہامات سے مختلف تھی۔ یہ امر سبب بنا کہ پیغمبرؐ کے روحانی احوال اور اس کے نتیجے میں جسمانی حالات منقلب ہو جائیں۔ چنانچہ پیغمبرؐ پہاڑ سے اترے اور مکہ کی سمت اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب گھر پہنچے تو بعثت کا ماجرا اپنی زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہؑ کے گوش گزار کیا۔ حضرت خدیجہؑ بھی پیغمبرؐ کی زوجیت میں رہ کر آپؐ کی بزرگی اور کرامات کو دیکھ چکی تھیں، کہنے لگیں: خدا کی قسم! میں بہت عرصے سے اس دن کے انتظار میں تھی اور مجھے یہ امید تھی کہ آپؐ ایک دن مخلوق کے امام اور رہبر بنیں گے۔

رسالت کا آغاز

[ترمیم]

آغاز رسالت کے ساتھ پیغمبرؐ نے اپنے سب سے نزدیکی رشتہ دار علیؑ کو حق کی دعوت دی؛ علیؑ کا جسم و جان رسول اکرمؐ کے زیر تربیت تھا؛ اور جاہلیت کے عقائد و افکار کے ساتھ آپؑ کا کوئی تعلق نہیں تھا، پس آپؑ نے پاکیزہ فطرت کے ساتھ خدا کی وحدانیت پر ایمان کا اظہار کیا۔
[۳۹] بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۔
[۴۰] ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، السیره النبویه، ص۶۷۔

معصومینؑ سے منقول روایات کے مطابق علمائے امامیہ کے نزدیک بعثت پیغمبرؐ کا واقعہ ۲۷ رجب بمطابق تعمیر کعبہ کے پانچویں سال کے بعد ہوا اور اس وقت پیغمبر اکرمؐ کا سن مبارک چالیس برس تھا
[۴۱] سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۳، ج۱، ص۲۳۳۔
اور ایک دوسرے قول جو قرآن کی تصریح کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا ہے، سے بھی ہم آہنگ ہے؛ کے مطابق بعثت کی تاریخ ۱۷ رمضان ہے۔ اہل سنت علما نے ماہ مبارک رمضان میں بعثت کے اثبات کیلئے سورہ بقرہ، سورہ دخان اور سورہ قدر سے استدلال کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں رجب میں بعثت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ قرآن جس امر پر دلالت کرتا ہے وہ ماہ رمضان اور شب قدر میں اس کا نزول ہے؛ چونکہ بعثت پیغمبرؐ نزول قرآن کے ہمراہ تھی، اس بنا پر یہ بعثت بھی ماہ رمضان میں واقع ہوئی اور بعض نے
۱۷، ۱۸ اور ۲۴ رمضان اور بعض نے ۱۲ ربیع الاول کو روز بعثت قرار دیا ہے۔ بعثت کی تاریخ کے بارے میں موجود اقوال اور تفاسیر تاریخِ بعثت اور ابتدائی آیات کے نزول کے بارے میں بہت مختلف ہیں؛ اس بنا پر قرآنی آیات کے مضمون پر اعتماد کرتے ہوئے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ پیغمبرؐ کی بعثت ۲۷ رجب کو ہوئی اور پھر سورہ علق کی ابتدائی آیات کے غار حرا میں خلوت کے دوران ماہ رمضان میں نزول کے بعد منصبِ رسالت پر فائز ہوئے اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد شب قدر میں پیغمبرؐ کے قلب پر قرآن دفعی طور پر نازل ہوا اور اس کے کچھ عرصہ بعد سورہ مزمل کی آیات
نے پیغمبرؐ کو شب بیداری اور مخلوق کو انذار و بشارت کرنے کی تلقین کی۔
کتاب التمھید کے مؤلف کہتے ہیں:
اہل بیتؑ کی روایات کے مطابق بعثت ماہ رجب میں واقع ہوئی ہے، تاہم قرآن ایک آسمانی کتاب کے عنوان سے اس کے تین سال بعد پیغمبرؐ پر نازل ہوا اور ان تین سالوں میں پیغمبرؐ نے مخفیانہ دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر علنی دعوت کا آغاز فرمایا جس کے ساتھ قرآن کے نزول کا بھی آغاز ہو گیا۔
[۵۰] معرفت، محمد‌هادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱، ص۸۱-۸۲۔


اہل کتاب سے ملحق مشرکین کے احکام

[ترمیم]

پیغمبر اکرمؐ کی بعثت سے قبل اہل کتاب سے ملحق ہونے والے مشرکین پر اہل کتاب کے احکام لاگو ہوں گے؛ ان مشرکین کے برخلاف جنہوں نے بعثت کے بعد ان کا دین اختیار کیا ہے۔

← بعثت کے بعد اہل کتاب کا رجحان


اگر اہل کتاب میں سے کوئی فرد بعثت کے بعد اسلام کے علاوہ کسی دوسرے آسمانی دین کو اختیار کرے؛ جیسے عیسائی یا یہودی ہو جائے، تو کیا یہ دین اس سے قبول کیا جائے گا یا اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے حتی اپنے پہلے دین کی طرف بھی نہیں پلٹ سکتا؟ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔

حضرت مسیحؑ کی بعثت کے بعد یہودی کا حکم

[ترمیم]

کیا حضرت عیسیٰؑ کی بعثت کے بعد یہودیت اختیار کرنے والوں پر اہل کتاب کے احکام جاری ہوں گے یا نہیں؟! بعض نے اس مسئلے پر اشکال کیا ہے۔ پیغمبرؐ کی بعثت آنحضرتؐ کے مقام رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد تاریخ اسلام کا نہایت اہم مرحلہ ہے جو ایک عظیم واقعے کے عنوان سے انتہائی عظیم اور سرنوشت ساز واقعہ ہے۔

حوالہ جات

[ترمیم]
 
۱. جوهری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، ج۱، ص۲۷۳۔    
۲. ابن زکریا، احمد بن فارس، معجم مقاییس اللغة، ج۱، ص۲۶۶۔    
۳. دهخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامه دهخدا، ج۳، ص۴۲۲۷۔
۴. دهخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامه دهخدا، ج۳، ص۴۲۲۸۔
۵. زینی دحلان، احمد، حاشیه الحلبی الشافعی، ج۱، ص۳۳ـ۴۲۔
۶. بقره/سوره۲، آیه۱۴۶۔    
۷. آل‌عمران/سوره۳، آیه۱۶۴۔    
۸. امام علی (علیه‌السلام)، نهج‌البلاغه، ترجمه محمد دشتی، خطبه اول، ص۳۹۔
۹. زمخشری، محمود بن عمر، تفسیر الکشاف، ج۱، ص۱۹۴۔    
۱۰. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۱، ص۴۰۳۔    
۱۱. بقره/سوره۲، آیه۱۳۵۔    
۱۲. مسعودی، علی بن حسین، مروج الذهب، ج۱، ص۸۹۔
۱۳. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، ج۱۸، ص۲۷۸۔    
۱۴. ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۰۴۔
۱۵. ابن ابی‌ الحدید، عبدالحمید، شر‌ح ‌نهج البلاغه، ج۳، ص۲۰۷۔
۱۶. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج۲، ص۷۱۳۔    
۱۷. حلبی شافعی، نورالدین، انسان العیون فی سیرة‌ الامین المامون، ج۱، ص۳۸۰۔
۱۸. حلبی شافعی، نورالدین، انسان العیون فی سیرة‌ الامین المامون، ج۱، ص۳۸۱۔
۱۹. جامی، عبدالرحمان، شواهد النبوه، ص۱۳۹۔
۲۰. ابن‌ شهر‌آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۴۱۔    
۲۱. ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۸۸۔
۲۲. ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۸۰۔
۲۳. ارزقی، محمد بن عبدالله، اخبار مکه، ج۲، ص۲۸۱۔
۲۴. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج۱، ص۲۱۶۔
۲۵. حمیری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج۱، ص۲۳۶۔    
۲۶. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج۲، ص۷۱۳۔    
۲۷. امام علی (علیه‌السلام)، نهج البلاغه، خطبه ۱۹۲، ترجمه شهیدی، ص۲۲۲۔
۲۸. حمیری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج۱، ص۲۳۳۔    
۲۹. علق/سوره۹۶، آیه۱ ۵۔    
۳۰. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۸، ص۱۹۴۔    
۳۱. ابن‌ شهر‌آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیر طالب، ج۱، ص۴۳۔    
۳۲. زینی دحلان، سید احمد، حاشیه الحلبی الشافعی، ج۱، ص۲۴۹۔
۳۳. امام علی (علیه‌السلام)، نهج البلاغه، خطبه ۱۹۲، ج۱، ص۴۷۴۔    
۳۴. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۸، ص۱۶۷۔    
۳۵. مزمل/سوره۷۳، آیه۱ ۵۔    
۳۶. نجم/سوره۵۳، آیه۱۱۔    
۳۷. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۸، ص۲۸۷۔    
۳۸. حمیری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج۲، ص۹۴۔    
۳۹. بغدادی، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۔
۴۰. ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، السیره النبویه، ص۶۷۔
۴۱. سبحانی، جعفر، فروغ ابدیت، قم، دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۷۳، ج۱، ص۲۳۳۔
۴۲. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۸، ص۱۹۰۔    
۴۳. بقره/سوره۲، آیه۱۸۵۔    
۴۴. قدر/سوره۹۷، آیه۱۔    
۴۵. مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۸، ص۱۹۰۔    
۴۶. میری، هشام بن عبدالملک، السیرة النبویه، ج۱، ص۲۳۹-۲۴۰۔    
۴۷. ابن منیع، محمد بن سعد، طبقات الکبری، ج۱، ص۱۵۲۔    
۴۸. ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج۳، ص۱۱۔    
۴۹. مزمل/سوره۷۳، آیه۵-۱۔    
۵۰. معرفت، محمد‌هادی، التمهید فی علوم القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ج۱، ص۸۱-۸۲۔
۵۱. حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام ج۱، ص۵۰۸-۵۰۹۔    
۵۲. نجفی جواهری، محمد حسن، جواهر الکلام، ج۳۰، ص۴۶۔    
۵۳. نجفی جواهری، محمد حسن، جواهر الکلام، ج۳۰، ص۴۶-۴۷۔    
۵۴. حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام، ج۳، ص۳۸۔    


منابع

[ترمیم]

فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج۲، ص۱۱۶۔    
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ بعثت، تاریخ لنک ۱۳۹۵/۱۰/۲۰۔    
سائٹ پژوھہ، ماخوذ از مقالہ بعثت حضرت محمد، تاریخ لنک ۱۳۹۵/۰۷/۲۵۔    


اس صفحے کے زمرہ جات : مقالات پژوھہ




جعبه ابزار